تحریر :محمد علی اگروال
انسانی ذہن اپنے تخیل اور تمام تر وسعتوں کی بنا کہیں ستاروں پے کمند ڈالتا
ہے اور کہیں باریکیوں میں جا کر بقاء اور فنا کے دقیق مسائل کو بھی سمجھتا
ہے۔ لیکن اس ساتھ ساتھ اس کے دل و دماغ کی کچھ کمزوریاں اورحدود بھی
ہیں۔یقیناًاس کی تکوین کے وقت قدرت نے اس کے اندراحساسِ ندامت بھی ڈال دیا
ہوگا جس کی بنا پر ا نسان ا پنے ماضی کی کوتاہیوں کو ذہن سے کھرچنے کی کوشش
کرتا رہتا ہے ۔ لیکن اس کے ہاتھ سے اگر گناہ تواتر کے ساتھ سر زرد ہوتے
رہیں تو یہ پرزہ ایک سطح پر آکر تعطل کا شکار ہو جاتا ہے اور اس احساس گناہ
کو بھی دبا تا چلا جاتا ہے جو اسے گھناؤنے جرائم سے روک سکے۔ اگرچہ یہ پرزہ
ایک سطح پر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے لیکن انسانی نفسیات کا دلچسپ نکتہ یہ ہے
کہ اس کے ہاتھ سے اگر اپنے جیسے انسانوں کا قتل ہوتا رہے تو اسکا اپنا ا
عصابی نظام خود ہی اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ماحصل، یہ ہے کہ انسان
جب انسانیت چھوڑ کر حیوانیت کے میدان میں قدم رکھ لیتا ہے تو اس کے ثمرات
وہ اپنی نفسیاتی ٹو ٹ پھوٹ اداسیوں، عائلی اور سماجی مسائل کوصورت میں وصول
کرتا ہے۔
ایسی ہی کچھ کیفیات کا سامنا کشمیر میں اپنی مرضی و منشا ء کے خلاف
کارروائیاں کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں کو ہے۔ یہ فوجی کشمیر میں اپنے ہاتھوں
نہتے کشمیروں کے قتل و غارت کے دوران ذہنی و جذباتی انتشارکا شکار ہوجاتے
ہیں ۔ کشمیر میں آنے کے فوری بعد تو یہ فوجی اپنے ساتھیوں کی قتل و غارت کے
نفسیاتی اثرات اور احساس جرم سے چھٹکارہ پانے کی خاطر" اکھنڈ بھارت "کا راگ
الاپتے اور" اٹوٹ انگ" کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں ۔ لیکن کچھ عرصے کے بعدہی
نظریاتی کمزوری، ٹوٹتی کمرکو تقویت نہ دے پانے کے بعداپنے آپ کو اخلاقی
اعتبار سے ایک پست ترین مہم میں مشغول پاتے ہیں۔ جسکانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
کشمیر کے ساتھ ساتھ بھارت کے طول و عرض میں کے اندر کارروائیوں میں مشغول
بھارتی فوجیوں میں سے بہت کم حقیقی معنوں میں عسکری جوش وجذبے کی حالت
اختیار کر پاتے ہیں۔چنانچہ ان بد قسمت بھارتی فوجیوں کو اپنے نیتاؤں کی
نیتوں اور غلط اقدام کی انفرادی قیمت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ کبھی اپنی ذمہ
داری کی دہشت ناکی ان کی برداشت سے باہر ہوجاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کو قتل
کرنے پر اترا ٓتے ہیں اور کبھی دریاؤں میں خود کشیاں کر کے اپنے احسا س
گناہ کو اجلے پانیوں سے دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن سے کچھ نہیں بن پڑتا وہ
واپس جا کر اپنی دبی نفرتوں اور غصے کا اظہار واپس جا کرجنتا پر تشددکی
صورت میں نکالتے ہیں۔ جس طرح آج بھارتی سماج میں تشدد کی ایک لہر پروان چڑھ
رہی لگتا ہے اس طوفان کے آگے ان کے نیتا کوئی بند نہیں بنا پائیں گے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کے نام نہاد سیکولر چہرے سے نقاب پلٹا جائے
اور بھارتی مسلمانوں کویکجان کیا جائے تاکہ وہ "ہندواتا" کے اصلی روپ کو
جان کر اپنے حق کے لئے کوئی لائحہ عمل تشکیل دے سکیں ۔علاوہ ازیں، پوری
دنیا کو بتایا جائے کہ بھارتی پراپیگنڈہ مشینر ی کس کس نفسیاتی ہتھکنڈے سے
طرح سب کوبیوقوف بناتی رہی ہے ۔ ہاں ا گر یہاں ہندو ؤں کو مسلمانوں سے
متعلق کچھ خدشات ہیں یا ان کے فلسفہء حیات سے خوف آتا ہے تو انکا یہ ڈر بھی
کسی حد تک جائز ہے کیونکہ جب ہندوستانی مسلمانکہتے ہیں کہ " سارا ہندوستان
ہمار ا"ہے تو انکی رگوں میں ایک عظیم الشان قوت جلوہ گر ہوجاتی ہے۔ جسکے
وجہ سے چند کٹر و متعصب ہندو لالوں کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ہندوستانی
مسلمان جانتا ہے انگریز ہندوستان پر اپنی کثرت آبادی کی وجہ سے حکومت نہیں
کر تا رہا ہے بلکہ دانائی اور حکمت سے اس کا تخت جما رہا ہے۔ مسلمان ابھی"
فاتح عالم" کے فکر کو نہیں بھولا۔ ہندوستانی مسلمان کے پاس جو فلسفہ عمل ہے
اور جس کے زور پر وہ دنیا میں امامت اقوام حاصل کر سکتا ہے ، وہ فلسفۂ عمل
ہندو کے پاس نہیں ہے۔ آج جس طرح کے حالات بھارت میں پیدا ہورہے ہیں ان میں
پسے طبقوں، عام جنتا اور مسلمانوں کے غیظ و غصب سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے
کہ لوگوں کے حقوق ان کو دیئے جائیں۔ کشمیری مسلمانوں کابرابری کی سطح پر اس
کا احترام اور ان کو چھینا ہوا وہ حق ِرائے دہی دیا جائے جس کی خاطر وہ
دھائیوں سے جانیں قربان کرتے چلے آئے ہیں۔ لیکن بھارت کے خواص نے اپنی ریڑھ
کی ہڈی کالرزہ چھپانے اور اپنی حرکتوں پر پردہ ڈ النے کے لئے ایسی
پراپیگنڈہ مہم اختیار رکھی ہے جو انتہائی خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی
ہے ۔اگر اس پراپیگنڈہ کا تدراک نہ کیا گیا تو کشمیر کے اندر لگی آ گ پورے
بھارت کو اپنی لپٹ میں لے لے گی جس سے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان
جیسے دوسرے ممالک بھی متاثر ہونگے ۔ کشمیر یوں کے خلاف بھارتی ظلم حد ہو
چکی ہے۔ اسکا اندازہ ان حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ اول بھارت کا مقبوضہ
کشمیر میں مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور متعصبانہ عدالتی نظام نے
وہاں کے عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے ۔دوسراحال ہی میں افضل گورو کے عدالتی
قتل نے کشمیر ی عوام کے اس تاثر کو اور بھی مضبوط کردیا ہے ، سید علی
گیلانی کا یہ بیان بہت اہم ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کشمیری بھارت سے
کبھی بھی انصاف کی توقع نہیں رکھ سکتے اور یہ بات افضل گورو کی پھانسی سے
ثابت ہوگئی ہے ۔ تیسرا یہ کہ جموں وکشمیر حکومت نے مسودہ قانون کا تیار کیا
ہے ۔ جموں و کشمیر پولیس بل 2013 ء جو انتہائی ظالمانہ قانون ہے ۔ بلکہ
پہلے سے نافذ بدنام آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ سے بھی برا ہے ۔ اس کا مقصد
کشمیر کو ایک پولیس سٹیٹ بنانا ہے ۔ اس طرح 23 فروری 1991 ء کو بھارتی فوج
کی یونٹ بوکناں پو شپور ا ضلع کیواڑہ میں ایک رات میں 100 خواتین کی عصمت
دری کی گئی ۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا
نوٹستو لے رہی ہیں، لیکن اسکے ساتھ دنیا کو یہ بھی بتائیں کہ کس طرح بھارت
میں مسلمانوں اور دلیت اقلیتوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے ۔اگر بھارت میں جا
بجا آزادی اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی تحریکیں جنم لے رہی ہیں تو یہ اس نا
انصافی اور ظلم کا نتیجہ ہے جو ارباب اقتدار ،سینا اور "سیانے" عرصہ دراز
سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر نیچی ذات کی ہندو بھی
ان اونچی ذات کے ہندوؤں کے مظالم سہ سہ کر تنگ آ چکے ہیں۔ کشمیر کے اندر
مسلمانوں کے قتل عام، جلاؤ گھیراؤ اور مار دھاڑ کبھی نہیں رکی ۔ ہمیشہ کی
طرح آج بھی بھارت کے طول و عرض میں مسلمانوں پر آئے روزظلم ہورہا ہے۔
مساجدکو شہید کرنا، نہتے کشمیروں کوقتل کرنا، مذہبی تہواروں مسلمانوں کی
خوشیوں کو غموں میں تبدیل کرنا اس سیکولر ریاست کا اصلی چہرہ ہے ۔کشمیر میں
بھارتی فوج کی دہشت گردی وہ کھیل بن چکی ہے جو ہلاکو خان شوق سے کھیلا کرتا
تھا۔بھارتی فوج کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پر وہاں کے میڈیا اورارباب
اقتدار کی خاموشی اس بات کی غمازی ہے کہ "ہندو گردی" یہاں کشمیری مسلمانوں
کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے کی جارہی ہے۔اس ہیجان اور طوفان سے نپٹنے کی
بجائے ایک طرف بھارت مقبوضہ جموں کشمیر میں دریاؤں پر 100 سے زائد ڈیم بنا
رہا ہے اور آس پڑوس کے ممالک کا پانی روک رہا ہے تو دوسری جانب اس نے اپنی
پراپیگنڈہ مہم کو تیز تر کر دیا ہے جس کی مرکزی فکر پاکستان کو عالمی دہشت
گرد ثابت کرنا، دنیا میں اسے الگ تھلگ کرنا اور اس کا وجود ختم کرنا دکھائی
دیتا ہے ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ،بھارت کے منظم پراپیگنڈہ کے راستے میں
رکاوٹ کھڑی کی جائیں اور اس کی "میڈیا گردی" کو دنیا بھر میں نمایاں کیا
جائے۔
ساری دنیا محسوس کرتی ہے کہ کشمیریوں کی ہمدردیاں پاکستا ن کے ساتھ ہیں
کیونکہ دونوں کی بقا ء اور سلامتی ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ، لیکن
بھارتی پراپیگنڈہ بازوں کے ہاتھ کی صفائی اور ڈ ھٹائی دیکھیں کہ جانتے
بوجھتے کہ کشمیر میں اب بھارت کی دال نہیں گلنے والی، وہ سوچے سمجھے
پراپیگنڈہ کی مہم جاری کرکے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے سے باز نہیں
آتے۔ اگر بھارت کا وطیرہ یہی رہا تو عین ممکن ہے کہ بھارت پھر سے اندرونی
ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے اور اس جہنم بھری کوکھ سے کئی اور ملک آزاد
ہوجائیں گے۔ |