آخر کب تک !!!مسلمانوں کا خون
بہتا رہے گاکبھی فلسطین،بوسنیا،چیچنیا،میں خون کی ندیاں بہا کر اور کبھی
افغانستان،عراق میں امن کی آڑ میں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرکے ۔ہماری
حکومت نے افغانستان کے لیے نیٹوکو ہوائی اڈے فراہم کیے ۔ان کو قتل کرنے میں
برابر کے مرتکب ہوئے پاکستانی عوام خاموش رہے تو اﷲ رب العزت نے ہم پر عذاب
مسلط کر دیا آج کوئی گلی کوچا ایسا نہیں جو دہشت گردی سے محفوظ ہو۔برما میں
ایک بار پھرخون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔امت مسلمہ خاموش آخر کب تک!!!
برما کی آبادی 6کر وڑ کے لگ بھگ ہے ، 24لاکھ مسلمان بستے ہیں۔ دنیا گلوبل
ویلج بن چکی لیکن برما کے مسلمانوں کے لیے زمین ہمیشہ تنگ رکھی گئی ۔وہاں
ظلم و جبر کی وہ داستان رقم کی جا رہی ہیں کی حیوانیت بھی دیکھ کر شرما
جائے ایسے قانون بنائے گئے جن کو پڑھتے ہوئے آزادی کی نعمت کا احساس ہوتا
ہے۔برمی شادی کرنے سے پہلے حکومت سے اجازت کے پابند ہیں اور اس کے لیے
سالہا سال لگ جاتے ہیں،دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر پابندی ہے ،اگر کوئی
برمی کاروبار کرنا چاہے تو اسے کسی بدھشکو کو پارٹنربنانالازم ہے اگر
بدھشکو سرمایہ کاری نہ بھی کرے تو اسے منافع کا ایک بڑا حصہ دینا پڑتا ہے ۔مذہبی
آزادی نہیں ہے حتیٰ کے مسلم نام نہیں رکھ سکتے ،اس کے علاوہ اﷲ کا ذکر کرنا
کتنااذیت کا باعث بنتا ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگا سکتے ہیں۔سینئر
صحافی امیر حمزہ لکھتے ہیں جب میں برما گیا تو وہاں موجود ایک نوجوان محمد
یونس جس کی عمر تقریباً19برس تھی مجھے بتلانے لگا ۔میرے والد کا نام محمد
امین ہے بڑے نیک انسان ہیں وہ علاقے میں تبلیغ کیا کرتے تھے تمبر ولاو میں
رہتے تھے ۔وہاں ایک روز میں اپنے والد کے ہمراہ بازار جا رہا تھا ۔اس وقت
میری عمر کوئی تیرہ برس کے لگ بھگ تھی اچانک برمی فوجی آئے اور میرے والد
کو پکڑ لیااور باریش والد کو تھپڑ مارنا شروع ہو گئے پھر تلاشی لینا شروع
کی تو میر ے والد کی جیب سے دوسوا کیات (برمی سکہ) نکلے۔انہوں نے وہ بھی
رکھ لیے اور پھر میرے والد کو کہنے لگے اذان دو انہوں نے ڈرتے ہوئے اذان
کہی، اﷲ اکبر کہا ہی تھا کہ ابا جی کے منہ پر بدھ فوجی نے ٹھڈا مارا۔ وہ گر
پڑے جب اٹھے تو فوجی کہنے لگے چلے جاؤ،چلے جاؤ،یہاں سے اور یوں ہم باپ بیٹا
روتے ہوئے اپنے مولا سے فریادیں کرتے ہوئے گھر چلے آئے حقیقت یہی ہے سڑکوں
،گلیوں اور بازاروں میں ہمارے ساتھ یوں ہی ہوتا ہے بدھ مت کے ماننے والوں
کی یہ کوشش ہے کہ ہم( برمی مسلمان) یہاں سے چلے جائیں۔
خواتین کی نیلسن مینڈیلا ،آنگ سان سوچی کے دیس میں مسلمانوں پر ہونے والے
حملے اور ہجرت کوئی نئی بات نہیں۔ 1978میں بھی مسلمان آبادی پر ہونے والے
حملوں کے بعد تین لاکھ مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہو
گئے تھے۔ 1982ء میں برمی حکومت نے مسلمانوں پر ایک اور بم اس وقت گرایا جب
اس نے ملک میں موجود تمام مسلمانوں کو اپنے شہری تسلیم کرنے سے انکار کر
دیا اور کہا کہ برما میں موجود تمام مسلمان تارکین وطن ہیں انہیں یہاں کی
شہریت نہیں دی جا سکتی ۔1992ء میں برما حکومت کی حکم پرپولیس نے بنگلہ دیش
میں سے واپس آنے والے تین لاکھ شہریوں کو دوبارہ بنگلہ دیش میں دھکیل دیا۔
کچھ عرصہ قبل بھی ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گئے جن کے بارے میں سن کر رونگٹے
کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے والے بھی کسم پرسی
کی زند گی گزار رہے ہیں خیمہ بستیوں میں صفائی کے فقدان کے باعث ملیریا اور
دست جیسے وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ بہرکیف برما میں گذشتہ کئی
ہفتوں سے مسلمانوں کیخلاف دہشت گردوں کی کاروائیوں کے باوجود عالم اسلام کی
جانب سے کوئی ٹھوس ردعمل سامنے نہیں آ یا تاہم بعض ممالک اور مذہبی تنظیموں
کی جانب سے سخت ردعمل آیا ہے۔اس سلسلے میں میری بزرگان دین اور صحافیوں سے
بات ہوئی جو قارئین کے پیش نظر ہے۔
مذہبی سکالر قاضی مفتی شبیر احمد عثمانی کاشمیری کہتے ہیں کہ برمی مسلمانوں
کی حالت زار پر امت مسلمہ کی خاموشی انتہائی افسوس ناک ہے حالاں کہ مسلمان
کی شان یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا پوری دنیا کے مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں
اگر آنکھ میں درد ہو تو سارا بدن یہ تکلیف محسوس کرے ،اگر سر میں درد ہو تو
سارا بدن تکلیف محسوس کرے یعنی اگر برما کے مسلمان کو تکلیف ہو تو پاکستان
کا مسلمان اس کو اپنی تکلیف محسوس کرے اور آرام سے نہ سوئے۔یہ اس وقت ہو گا
جب پوری دنیا کے مسلمانوں میں اخوت کا پہلو جاگ جائے اپنے ذاتی مفادات کو
بلائے طاق رکھ دیں ۔آج امت مسلمہ کی اکثریت دنیاکی محبت اور موت سے نفرت کے
مرض میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے آج ہمیں یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں ۔بنگلہ
دیش کو بھی برمی مسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار زیب نہیں دیتا پاکستان نے
تو افغانیوں کو پناہ دی تھی بنگلہ دیش کو بھی چاہیے کہ وہ ان مظلوموں کو
پناہ دے۔ اس لیے کہ جس طرح الکفر ملۃ واحدۃ ہے اسی طرح اسلام بھی ملۃ واحدۃ
ہونا چاہیے ۔ اسلام کی تایخ میں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں مسلمانوں
نے کفا ر کو پناہ دی اور اسی طرح احادیث کی کتابوں میں مستقل ابواب اس پر
قائم ہیں کہ کسی کافر کوامان دی جا سکتی ہے یہاں تو مسلمانوں کو امان نہ
دینا بہت شرمندگی کی بات ہے۔ برما کے مسلمان عرصہ دراز سے اسلام کی سربلندی
اور اپنی آزادی جو کہ ان کا حق ہے اس کے حصول میں مصروف عمل ہیں اور چونکہ
تعداد میں کم اور کمزور ہے اس لیے طاقتور انہیں پیس رہا ہے۔ پوری دنیامیں
مسلمان ہی ظلم کا شکار اس لیے ہے کہ مسلمان نے اپنی شان کو خود ختم کر دیا۔
جب تک یہ حقیقی مسلمان تھا اس وقت افرادی قوت کے نہ ہوتے ہوئے باوجود کفر
اس سے کا نپتا تھا اور یہ مسلمان پھٹے پرانے لباس میں ملبوس ہو کر بھی وقت
کی سپر طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا اس کا شیوہ تھا۔ حضرت
ربعی بن عامرؓ جب رستم کے دربار میں گئے لباس پھٹا ہوا ہے لیکن جب رستم
پوچھتا ہے کیوں آئے توجو اب میں فرماتے ہیں ا اعثنا اﷲ نخرج العباد بن عباد
ۃ العباد الی عباد ۃ ارب العبادمجھے بھیجا گیا ہے کہ میں اﷲ کے بندوں کو
تجھ جیسے ظالم کی بندگی سے نکال کر ایک اﷲ کی بندگی میں لے آؤں۔ حقیقی
مسلمان قبروں میں چلے گئے ۔او آئی سی یہود و نصاری کے تسلط میں ہے اس نے تو
خاموش ہی ہونا ہے۔ وقت قریب ہے انشااﷲ مسلمان اس ظلم کی چکی سے نجات پالیں
گے ۔اب ایسے لوگ پید ا ہو رہے ہیں جو موت سے محبت کرتے ہیں اور دنیا کی
نفرت ان کی دلوں میں رچ بس چکی ہے وہ انشاء اﷲ ظالم کا بازو کاٹ کر مظلوم
کو اس کے چنگل سے آزاد کروائیں گے ۔ آج امت مسلمہ کی زبانیں گونگی رہی تو
قیامت کے دن ان مظلوم مسلمانوں کے ہاتھ ہونگے اور ہمارے گریبان ، لہذا ہمیں
من حیث لقوام ان مظلوموں کی حمایت کے لیے آوازاٹھانی چاہیے اور تمام مسلمان
حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایک موثر لائحہ عمل تیار کریں۔ برما کے مظلوم
مسلمانوں نے قربانیوں کی تاریخ رقم کر دی ہے قربانیاں منزل مقصود کو قریب
کر دیتی ہیں انشاء اﷲ وہ منزل و مقصود حاصل کر کے رہیں گے میں برمی
مسلمانوں کی شہادت کو سلام عقیدت پیش کرتا ہوں۔
کالم نگار ڈاکٹر طیب خان سنگھانوی سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کے اﷲ رب
العزت کے امت مسلمہ سے ناراضی جو ہمارے سامنے برما کے مسلمانوں کے اوپر قہر
کی صورت میں ہے پوری دنیا میں مسلمان پس رہاہے۔ ہم نے اﷲ کے کلام سے منہ
پھیر لیا ہم نے جہاد کو چھوڑ دیا اﷲ نے قرآن میں مسلمانوں کوکہا کہ جب جہاد
چھوڑ دو گے تو تمہیں رسوا کر دوں گا۔ وہی ہوا مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی
مسلم ملک برما کے مسلمانوں کے لیے کوئی عملی اقدام کرے گاصرف بلند بانگ
دعوے ہوں گے ۔ صحافی الحمد ﷲ قلمی جہاد سے لوگوں کوجگاتے رہیں گے اور اس کا
اﷲ ہمیں اجر دے گا۔ برما کے مسلمان کس اذیت سے گزررہے ہیں وہ اسلامی نام
نہیں رکھ سکتے شادی سے پہلے اجازت لینی پڑتی ہے۔ امن کے دعویدار آنگ سان
سوچی کے ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور مجا ل ہے کہ اس کے زبان سے ان کے
خلاف مذمت کا ایک لفظ بھی نکلا ہو۔ افسوس ہے ہمارے مسلم ممالک پر وہ اسی
طرح ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹے رہے تو یہ یہود و نصاری ہم پر بھی جلد چرھائی
شروع کر دیں گے اس موقع پر برما کے مسلمانوں کو خود علم جہا د کو بلند کرنا
ہو گا اپنے حق کے لیے لڑنا ہو گا۔
رقم الحروف کو خبر ملی ہے او آئی سی کے سیکٹریری جنرل اکمل احسان الدین
اوگلو نے میانمار کی صورت حال پر 14اپریل کو جدہ میں اجلاس طلب کر لیا ہے ۔یہ
ایک اچھی کاوش ہے کہ مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے والے پلیٹ فارم کو بھی
خیال آیا کہ مسلم کا خون کتنا سستا ہے اور اس کی ارزانی کیوں ہے ۔ضرورت اس
امر کی ہے کہ مسلم ممالک کو اب اغیار کی دوستیوں سے باہر نکلے کر ایک ایسا
پلٹ فارم ترتیب دیناچاہیے جو دنیا کہ مسلمانوں کی حقیقی طور پر نمائندگی کر
سکے۔جان کی امان پاتے ہوئے لکھنا چاہوں گا کہ وہ ایساپلیٹ فارم نہ ہو کہ
مسلمان کا خون گرتا رہے اور وہ امریکہ کی طرف سے اشارے کا منتظر ہو ۔یہ
یہود و نصاری کا ہمیشہ سے وطیرہ رہاہے مسلمانوں کو ختم کرنے پر بات آئے تو
وہ یکجا ہو کر اس پر کام کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ردعمل پر صرف مذمتی بیان
جاری ہو جاتے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیے جاتے۔ |