خواجہ زندہ پیر سرکار رحمۃ اﷲ علیہ آف گھمکول شریف کوہاٹ

غوث زماں،شمس المشائخ حضور قبلہ عالم حضرت شاہ المعروف خواجہ زندہ پیر سرکار رحمۃ اﷲ علیہ آف گھمکول شریف کوہاٹ

آپؒ کا35واں سالانہ عرس مبارک 5تا7اپریل 2013کوسیالکوٹ میں نہائیت شان و شوکت کے ساتھ منا یا جا ئے گا۔

اسلام کی تاریخ علم و حکمت اور طریقت و معرفت کے درخشندہ چہروں سے بھری پڑی ہے ۔روحانیت اور علم و عرفان کے نور سے اولیا کرام رحمۃ اﷲ علیہم نے ایک دنیا کو منور کیا ۔یہ سلسلہ اولیاء کرام سے نہیں بلکہ انبیاء کرام علیہم السلام سے شروع ہوا ۔انسان کی ہدایت کے لئے اﷲ کریم نے قرآن مجید نازل فرمایا اور اس کی روشنی میں عمل کے طریقوں کی آگاہی کے لئے حضور نبی کریم ﷺ کو بھیجا ۔نبی آخر الزماںﷺ کے بعد اولیاء اﷲ اپنے اپنے وقت میں لوگوں کو ضرورت کے مطابق اس انقلاب و اصلاح پرورکتاب سے لوگوں کو روشناس کرتے رہے ۔حضور نبی کریمﷺ کے بعد صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اپنی فہم و فراصت سے دینِ اسلام پھیلایا اور اس طرح جب اُن کے ادوار بھی پورے ہوئے تو اولیاء اﷲ نے تصوف و کرامات اور اﷲ کریم کے دیگر احکامات سے امت کی فلاح و بہبود کے کام سنبھالے اور اولیاء کرام نے مخصوص علاقوں میں تبلیغ دین نہیں کی بلکہ دشت و صحرا ، میدان و جنگل ہر جگہ دین حق کی پابندی کا پیغام پہنچایا ۔لوگوں کو باطنی تربیت اور کمالِ معرفت اولیاء کرام کی روشن صحبتوں اور زندگیوں کی بدولت حاصل ہوئی۔اولیاء کرام اس انسانیت کا نمونہ ہوتے ہیں جو خاص منشائے خدا وندی ہے اور جس کے سامنے ملائکہ نے سر نیاز خم کیا ہے ۔

انہیں نیک ہستیوں میں سے ایک ہستی بانی گھمکول شریف پیر حضرت شاہ المعروف خواجہ زندہ پیر سرکار رحمۃ اﷲ علیہ ہیں ۔

آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی سوانح حیات کنز العرفان فی شانِ خواجہ زندہ پیر رحمۃ اﷲ علیہ کے مطابق آپ رحمۃ اﷲ علیہ 1912ء میں حضرت پیر غلام رسول رحمۃ اﷲ علیہ کے ہاں کوہاٹ میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والدِ ماجد پیر غلام رسول شاہ سلسلہ قادریہ کے مقتدر اولیاء اﷲ میں سے ہیں ۔ آپ کا سلسلہ طریقت حضرت اخوند صاحب سوات اڈے شریف سے ملتا ہے ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کا مزار مبارک اجمیر شریف انڈیا میں ہے ۔

حضور قبلہ عالم خواجہ زندہ پیر سرکار رحمۃ اﷲ علیہ اوائل ہی سے دن کو روزہ اور رات کو قیام و عبادت و ریاضت کے پابند تھے ۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کو طاقت دی، اطاعت کی عادت دی اور کیفیت عبادت عطا کی ۔اﷲ تعالیٰ نے رشد و ہدایت آپ کو عطا فرمایا تو آغاز شعو ر ہی سے آپکو تمام محاسن و مکارم بھی بدرجہ اتم و دیعت کر دئیے تھے ۔
ازل ہی سے ولایت جن کے ہوتی ہے مقدر میں
کیا کرتے ہیں وہ بچپن سے مشقِ اتقاء گھر میں

بلا شک حضور قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کمسنی ہی سے کامل انسان تھے ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کا طرز زندگی تمام انسانوں سے ہٹ کر رہا ہے ۔

ذکر الہٰی کی نعمت سے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کا دامن کمسنی ہی سے مزین و آراستہ رہا ہے ۔
ابھی ملبوسِ گویائی نہ تھا پوری طرح پہنا
کہ سیکھا تھا زباں نے قل ھو اﷲ احد کہنا

ظاہری تعلیم :حضور قبلہ عالم کسی درس گاہ سے فارغ التحصیل نہ تھے ۔مگر جو لوگ آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے ملفوظات سے ذوقِ سماعت حاصل کرتے ان سے معلوم کیجئے کہ آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے ہم نشین آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی وسعتِ معلومات کو لاجواب محسوس کرتے تھے ۔مشکل سے مشکل مسائل آپ رحمۃ اﷲ علیہ اس طرح حل فرماتے تھے ۔جیسے کسی پہاڑ کو پانی کر دیا ۔اصل بات یہ ہے کہ خاصانِ خدا اور اولیاء کرام کو اﷲ تعالیٰ کے خزانے علمِ لدنی کی دولت نصیب ہوتی ہے ۔جس کی وجہ سے مسائل کی دشوار ترین اور ناہموار شاہر اہوں سے بھی ایسے گذر جاتے ہیں کہ گویا وہ اَن دیکھی بھالی تھیں ۔وہی علم لدنی جو اسرارِ الہٰی کا سر چشمہ ہوتا ہے ۔اولیاء کرام اور انبیاء عظام کو بھی عطا ہوتا ہے ۔اسی علم لدنی سے حضور قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ بھی فیض یاب ہوئے ۔عالم کی نظر حروف اور سطور پر ہوتی ہے ۔جبکہ فقیر کی روشنی سے وحدانیت کا سبق سیکھاجاتا ہے ۔مگر فقیر وحد انیت کی معرفت سکھاتا ہے ۔جس چیز کو عالم ظاہری آنکھ سے دیکھتا ہے ۔ فقیر اُسی چیز کو دل کی آنکھ سے بہت پہلے دیکھ چکا ہوتا ہے ۔حضور قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کو جتنا علم حاصل تھا وہ ایک دنیا کو منور و سیراب کرنے کیلئے کافی تھا ۔ حضور قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کمسنی ہی سے شب بیداری اور کثرتِ ذکر کے سرمایہ سے سرفراز تھے ۔اسی وجہ سے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کا سینہ مبارک خیالات فاسدہ کی کدورتوں اور دنیا کی ظلمتوں سے پاک و منزہ تھا۔ آپ رحمۃ اﷲ علیہ نسبت روحانی کے لئے بے قرار رہتے اور اسی ارادہ پر اُس عہد کے فقراء و صالحین سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ۔

حضور قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کی ریاضتیں ،مجاہدے ،تقویٰ، توکل ،صبر و شکر سب بدرجہ اتم تکمیل کو پہنچ چکے تھے ۔تزکیہ نفس میں بلندمرتبہ حاصل ہو چکا تھا ۔اب ضرورت تھی تو ایک معلم روحانی کی جو آپ رحمۃ اﷲ علیہ کو رشد و ہدایت کا باضابطہ اور مستند معدن بنا دیتا۔
جذبہ کامل ہو تو آگ لگا دیتا ہے
شمع کی لو سے ہے پروانہ محفل کی کشش

چنانچہ حافظ پیر سید جماعت علی شاہ رحمۃ اﷲ علیہ علی پور سیداں شریف ،حضرت پیر حافظ محمد عبد الکریم رحمۃ اﷲ علیہ آستانہ عالیہ عید گاہ شریف راولپنڈی اور دیگر مشہور ہستیوں سے ملاقات کا شرف ضرور حاصل ہوا مگر آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی طبیعت مقدسہ سیراب نہ ہو سکی ۔جبکہ ان ہستیوں کا اپنے وقت میں روحانی عروج زبان خلق پر عام تھا ۔تاہم آپ رحمۃ اﷲ علیہ دربارعالیہ حضرت امام علی الحق شہید المعروف امام صاحب رحمۃ اﷲ علیہ (سیالکوٹ) پر جا کر اس مقصدِ اعلیٰ کی تکمیل کے لئے مراقب ہوئے تو ادھر سے فرمان ہوا کہ دربار عالیہ موہڑہ شریف (مری) میں سو(100)سال سے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کا انتظار ہو رہا ہے ۔اگر آپ رحمۃ اﷲ علیہ آب حیات کے لئے تشنہ لب ہیں تو آب حیات بھی آپ جیسے ہنسنے والے تشنہ لب کا منتظر ہے ۔ آپ کا گوہر نایاب موہڑہ شریف میں موجود ہے۔ تو جب حضور قبلہ عالم اپنے دل میں مقام الفت لئے اپنے ہمدل کے قرب کے لئے سفر کر رہے تھے تو آگے سے بھی یہی صدائیں فضا ء میں گونج رہی تھیں ۔کہ آپ رحمۃ اﷲ علیہ اپنے دل میں مقام الفت لے کر آرہے ہیں ۔ہم بھی اپنا دل ہتھیلی پر رکھے ہوے ہیں اور ہمدل کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ میرے سب سے آخری خلیفہ ہیں آپ کا فیض سب سے بڑنا ہے۔ آپ کی چکور میں رزو (لنگر) کافی ہو گا ۔حضور با واجی قاسم سرکار رحمۃ اﷲ علیہ اپنی نگاہ کشف سے دیکھ رہے تھے کے میرے لوائے قاسمی کے حامل جناب زندہ پیر رحمۃ اﷲ علیہ ہی بندوں کے ہادی و راہنما اور پیشوا ہوں گے اور تمام غوثیت کے پاسباں ہو ں گے۔ اسی لئے حضور باواجی سرکار رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی صد سالہ کمائی کا نچوڑ جناب زندہ پیر رحمۃ اﷲ علیہ کو عطاء فرمایا ۔یہ واقع 1938ء کا ہے ۔

کہ جب حضور قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ شرفِ بیعت سے مشرف ہوئے ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کو موذوں پا کر اور مقام قطبیت پر فائز فرمانے کے بعد حضور باواجی سرکار رحمۃ اﷲ علیہ خلوت نشین ہوگئے ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا جن کے لئے سو(100)سال بیٹھا تھا سب کچھ اُن کے سپرد کر دیا ہے ۔ باواجی سرکار نے حضرت زندہ پیر رحمۃ اﷲ علیہ کو اپنی نگاہ انتخاب اور دعاؤں کے علاوہ ملبوس مبارک بشمول خرقہ خلافت سے نوازتے ہوئے رخصت فرمایا ۔ وقتِ رخصت باواجی سرکار نے حضور قبلہ عالم کو فوج کے ساتھ سول ملازمت اختیار کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ 1938ء سے 1949ء تک بارہ سال کا عرصہ حضور قبلہ عالم نے فوج کے ساتھ منسلک رہ کر مقام قطبیت پر فائز ہونے کے باوجود اپنے آپ کو پوشیدہ رکھا ۔ بالآخر آپ رحمۃ اﷲ علیہ امر ربی کے مطابق 1949ء میں گیارہ بلوچ رجمنٹ ایبٹ آباد چھاؤنی میں پردۂ حالتِ راز سے بے نقاب ہوئے اور دین اسلام کی خدمت مخلوق خدا کی ہدایت و رہنمائی اور فیض عالم کیلئے آپ رحمۃ اﷲ علیہ یونٹ سے سبک دوش ہو گئے۔1949ء سے1952ء تک یونٹ کے کوارٹر میں مقیم رہ کر رشد و ہدایت اور زائرین سے ملاقات کرتے رہے ۔

ایبٹ آباد کے نزدیک گاؤں لساں نواب کے نام سے مشہور تھا۔ وہاں آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے پیر بھائی محمد شاہ المعروف طوری بابا رحمۃ اﷲ علیہ کے نام سے مشہور تھے ۔حضور قبلہ عالم کا ان کے ساتھ الفت اور محبت کا رشتہ تھا ۔

طوری بابا بھی موہڑہ شریف کے خلیفہ مجاز تھے آپ رحمۃ اﷲ علیہ اپنے گاؤں میں ایک ہزار کنال رقبہ کے مالک تھے ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے حضور قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کے مراتب اور فقیری کمال دیکھتے ہوئے کہا کہ میں آپ رحمۃ اﷲ علیہ کو پانچ سو کنال زمین آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے نام کرتا ہوں آپ میرے پاس مخلوق خدا کی رشد و ہدایت اور فیض یابی کے لئے مسند نشین ہو جائیں ۔

حضور قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ میں مدینہ شریف جا رہا ہوں ۔وہاں جو فرمان ہو گا اُس پر عمل کیا جائے گا۔ 1952ء میں آپ رحمۃ اﷲ علیہ بذریعہ بحری جہاز پہلی بارحج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے تشریف لے گئے ۔فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے گنبد خضریٰ کے سامنے کھڑے ہو کر جناب سید عالم ﷺ کی بارگاہ معلیٰ میں درخواست پیش کی کہ میرے لئے کیا فرمان ہے ۔تو گنبدی خضریٰ سے جناب رسالت مآب ﷺ کے دستِ مبارک کا اشارہ اُن پہاڑوں کی طرف ہوتا ہے اور ساتھ فرمان ہوتا ہے آپ پہاڑ پر دیکھیں آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے پہاڑوں کی طرف دیکھا اﷲ تعالیٰ نے درمیان سے تمام حجابات کو ہٹا دیا تھا ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے ایک حجرہ پر زندہ پیر رحمۃ اﷲ علیہ اور دربار عالیہ گھمکول شریف لکھا ہوا دیکھا ۔ریاض دہر میں لاکھوں آستانے موجود ہیں جو کہ آستانہ کی موجودگی سے اور ظہور سے پہلے محض آبادی کے نام سے موسوم تھے ۔جب ان آبادیوں میں اﷲ والوں کے قدم مبارک اور نگاہ فیض کے چھینٹے پڑے وہی جگہیں و آبادیاں آستانوں میں بدل گئیں اور شریف کے لقب سے زبان خلق پر مشہور ہو گئیں۔ مثلاً گولڑہ سے گولڑہ شریف ،علی پور سے علی پور شریف ،جلال پور سے جلال پور شریف، شرق پور سے شرق پور شریف ، بڈیانہ سے بڈیانہ شریف ،علی پور چٹھہ سے علی پور چٹھہ شریف ۔ان آبادیوں کی عزت و تکریم کا موجب صرف اور صرف ان اولیاء عظام کا ان میں قیام و ظہور ہے ۔ جتنے بھی صاحب آستانہ گزرے ہیں ہر کسی کو اپنے شیخ نے جگہ متعین کر کے بٹھا یا ہے ۔

ساڑھے نو سو سال قبل جناب رسالت مآب ﷺ کا گنبد خضریٰ سے ملک ہند ی طرف دست مبارک اُٹھا تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اﷲ علیہ نے اجمیر شریف کو آباد کیا اور ساڑھے نو سو سال بعد دوسری باراشارہ ہوتا ہے ۔تو گھمکول شریف کے قیام کیلئے دربار عالیہ گھمکول شریف کو یہ خاص امتیازی حیثیت ہے کہ اس دربار عالیہ کا ظہور اور بنیاد جناب رسالت مآب ﷺ کے اشارہ پاک کی نسبت سے ہے ۔ اس بے آب و گیاہ جنگل جہاں کسی جانور اور پرندے کی آواز تک نہ تھی کسی انسان کی گزرگاہ کا گمان بھی نہ تھا صرف اور صرف زندہ پیر رحمۃ اﷲ علیہ نے جناب رسالت مآب ﷺ کے فرمان کی تکمیل کی اور تن و تنہا رات کو غار مبارک کو اپنی خلوت گاہ کا شرف بخشا ۔فرمان رسول ﷺ پر ہر واسطہ توڑنے اور اﷲ کریم سے واسطہ جوڑنے کاثمر ہے کہ اس بارگاہ مقدسہ گھمکول شریف سے ہر وقت افضل الذکر لاالہ الا اﷲ کی صدائیں فضا ء کو محیط کئے رکھتی ہیں ۔حضور قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ نے جناب رسالت مآب ﷺ کی محبت کا کما حقہ حق ادا کر دیکھا یا ہے ۔آج آپ رحمۃ اﷲ علیہ بفضلہ تعالیٰ دیداور کے لئے آئینہ مصطفائی ہیں اور گھمکول شریف کی بارگاہ رب تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔حضور قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ نے پہلا حج مبارک بذریعہ بحری جہاز 1952ء میں ،دوسرا بذریعہ ہوائی جہاز 1968ء ، تیسراحج مبارک 1971ء میں اور اس کے بعد 26حج بلا ناغہ ادا کرنے کا شرف حاصل کیا ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے روحانی فیض سے لاکھوں لوگ فیض یاب ہوئے۔ مردہ دلوں کو حیات ایمان نصیب ہوئی اور بے شمار مخلوق کو صحت جسمانی او ر قوت روحانی عطا ہوئی۔ ہزاروں پریشان حال انسانوں کو راحتِ قلبی اور حیات ابدی نصیب ہوئی حضور قبلہ عالم رحمۃ اﷲ علیہ کو جناب رسالت مآب ﷺ کی بارگاہ معلی سے عرفان و ایقان کی ایسی لازوال دولت عطا ہوئی کہ حضور کا دریائے بخشش بحر کرم ہمیشہ موجزن ہے اور تا ابد جاری و ساری رہے گااور تشنگان معرفت کو رشد و ہدایت کے آب حیات سے سیراب کرتا رہے گا۔

کشف:قارئین کرام میں یہاں مختصر کشف و کرامت کا ذکر کرنا چاپتا ہوں کشف خاصان خدا کی ایک حالت کا نام ہے جو صدیقین اور مقربین بارگاہ حق تعالیٰ کا حصہ ہے ،ایک نور ہے جو نفس کے تمام صفات زمیمہ سے پاک وصاف ہو جانے پر قلب مومن میں پیدا و ہو ید ا ہوتا ہے ۔قوت مکاشفہ اکثر و بیشتر اولیاء اﷲ میں پائی جاتی ہیں چونکہ ان کے قلوب ریاضات شاقہ اور عبادات کثیرہ اور تزکیہ نفس کی وجہ سے آئینہ دار صاف شفاف ہوجاتے ہیں ۔

انبیاء علیہ السلام کو جو باتیں بذریعہ وحی معلوم ہوتی تھیں اولیاء کرام کو وہی باتیں بذریعہ کشف ظاہر ہوتی ہیں فرق اتنا ہے کہ وحی تقد یر الہٰی کا آئینہ دار ہوتی ہے اور کشف و ارد ات و واقعات کا عکس ہوتا ہے ۔اہل اﷲ لوگوں نے ہی فرمایا کہ رب کریم اپنے بندے کے سامنے سو مرتبے پھیلاتے ہیں جن میں سے کشف ستاراہواں مقام ہے کئی طالب یہاں آکر ناکام ہوجاتے ہیں کشف کے مرتبہ پر فائز ہونے سے سمجھتے ہیں سب کچھ پا لیا لیکن وہ اگلے تراسی مقامات سے محروم ہوجاتے ہیں ۔اسی وجہ سے اکثر و بیشتر اولیا ء اﷲ نے کشف و کرامات سے گریز کیا ہے تاکہ سو مرتبے حاصل کر سکیں ۔

کرامت:انسان کی روحانی ترقی کوئی راز نہیں ہے ہر قسم کی صلاحیت اس کی فطرت میں موجود ہے ان صلاحیتوں سے کام لینے کانام ترقی ہے اسی مقصد سے دنیا میں انبیاء علیہ اسلام مبعوث ہوئے اسی مقصد سے صحیفے اور آسمانی کتابیں نازل کئے گئے ہیں لوگوں کو صدائے عام دیا گیا ہے تاکہ وہ حقیقت سے آگاہ ہوں اپنی ہستی کا اصل مدعا معلوم کریں اسی لحاظ سے ہر وہ زی روح جوانسان کے نام سے پکارا جاتا ہے ہر قسم کی کثافت سے پاک ہوکر اور فقروزہد کے مدارج طے کرکے روحانیت میں پہنچ سکتا ہے یہ خاک کا انسان جب ایمان کی روشنی سے دل ودماغ کو منور کرتا ہے صوم وصلوٰۃ کی پابندیوں سے نفس پر قابو لاتا ہے ۔زکوٰۃ وصدقات کے ذریعے سے حب مال کو دل سے دور کرتا ہے ۔فقر وقناعت ،تسلیم ورضا کو اپنا شعار بناتا ہے ۔زہد وتقویٰ کی دولت روح کو تمام قسم کی آلو دگیوں سے پاک کرتا ہے اور اُسے حلیم وصبر ،رحم وشفقت ،اُنس ومحبت اور تمام اخلاق حسنہ کے بیش بہازیوروں سے آراستہ کر دیتا ہے تو دل میں عرفان کی تجلیات محسوس ہونے لگتی ہیں اور رفتہ رفتہ جسمانی و بہیمی کثافتیں دور ہوکر روحانی اور ملکوتی طاقتیں پیدا ہوجاتی ہیں جب بندہ ناچیز کو اپنے مولا سے یہ قرب حاصل ہوجائے تو کرامات کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔
قارئین کرام ! حضور قبلہ عالم نے کشف وکرامات سے بہت گریز فرمایا ہے ۔آپ کو ودیعت ہی سے دین حق کی خدمت ،مصلی پاک کی حفاظت اور جناب رسول اﷲﷺ کی محبت و تباع تھا تاہم بعض مواقع پر ایسے واقع رونما ہوئے جن سے حضور قبلہ عالم کے کشف کا اظہار بھی ہوا اور کرامات بھی رونما ہوئیں ۔

آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے عقیدت مند دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں ۔جن میں دبئی ،قطر ،مسقط،سعودی عرب،امریکہ ، انڈیا،اٹلی،کویت، برمنگم، لندن،ساؤتھ افریقہ،یونان،فرانس ان تمام جگہوں پر آپ رحمۃ اﷲ علیہ کے عرس مبارک منائے جاتے ہیں اور گھمکول شریف میں ہی تادم واپس حضرت زندہ پیر صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا درس شریف جاری رہا ۔جس سے اطراف و اکناف کے لاتعداد تشنگان علوم معرفت سیراب ہو کر نکلے اور ایسے نکلے کہ خود انہوں نے اپنے سر چشمہ باطنی سے لاکھوں کو فیضیاب کیا ۔طریقت معرفت کا یہ نئیر تابان لاکھوں افراد کو روشنی دے کر 3ذوالحج 1419ھ بمطابق 22مارچ 1999ء بروز سوموار 87سال کی عمر مبارکہ میں غروب ہوا۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنْ

آپ کے وصال کے بعد آپ کے فرزند ارجمند پیر منور حسین شاہ المعروف پیر بادشاہ سرکار کی دستار بندی کی گئی اور انہیں گھمکول شریف کا سجادہ نشین مقرر کیا گیا ۔

آپ کا سالانہ بین الاقوامی عرس مبارک ہر سال ماہ اکتوبرمیں دربار عالیہ نقشبندیہ گھمکول شریف کوہاٹ میں نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں پوری دنیا میں جہاں جہاں آپؒ کے خلفاء عظام موجود ہیں عرس کی بابرکت تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں ،ہر سال کی طرح امسال بھی5,6,7اپریل2013 بروزجمعتہ المبارک،ہفتہ،اتوار کوآستانہ عالیہ نقشبندیہ توحید آباد شریف نواں پنڈ آرائیاں سیالکوٹ میں آپؒ کا 35واں سالانہ عرس مبارک زیر صدارت خلیفہ مجاز گھمکول شریف الحاج پیر سید توحید شاہ کوہاٹی نہائیت شان و شوکت سے منایا جا رہا ہے۔ تین روزہ عرس تقریبات میں ملک بھر سے علماء و مشائخ عظام ،قراء و نعت خواں حضرت کے علاوہ مریدین و زائرین کی کثیر تعداد شرکت کرئے گی۔
Malik Mazhar Awan
About the Author: Malik Mazhar Awan Read More Articles by Malik Mazhar Awan: 13 Articles with 19192 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.