اگر سب بخیریت رہا تو پاکستان
میں آئندہ ۱۱ مئی کوعام انتخاب ہونگے۔ نامزدگیاں۲۴ سے ۳۱ مارچ تک داخل
ہوچکی ہیں ۔ جانچ پڑتال یکم اپریل سے شروع ہوگئی جو ۷ اپریل تک مکمل ہوگی۔
پاکستان میں یہ عمل ہمارے ملک سے قدرے مختلف ہے۔وہاں صرف نامزدگی کاغذات کی
ہی جانچ نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے ضابطوں کے مطابق امیدوار چناؤ
لڑنے کے اہل ہے یا نہیں۔ نااہل قراردئے گئے امیدواروں کو۸ اپریل سے ۱۰
اپریل تک عذرداریاں داخل کرنے کا موقع رہیگا ،جن پر فیصلہ ۱۱ تا۱۶ اپریل
ہوگا۔ اگرچہ ۱۱ مئی کو ملک بھر میں قومی اسمبلی(ایوان زیریں) اور چار
ریاستی اسمبلیوں ، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواکے لئے ایک ساتھ
ووٹ ڈالے جائیں گے مگر زیادہ اہمیت قومی اسمبلی کی ہے ۔
اگرچہ قومی اسمبلی کے یہ ۱۴ویں چناؤ ہیں مگر اس اعتبار سے تاریخی ہیں کہ
بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کسی حکومت نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ
مدّت پوری کی ہے اور وقت مقررہ پر اگلی مدّت کے لئے چناؤ کا عمل شروع ہوگیا
ہے۔ ۳۱ مارچ ،اتوار کو نامزدگی داخل کرنے کے آخری دن سے انتخابی ریلیوں کا
سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دن جماعت اسلامی پاکستان، جمعیت علمائے اسلام، ایم
ایل(این)،اے این پی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف پارٹی نے مختلف مقامات پر
ریلیاں کیں۔ مگر برسراقتدار پی پی پی نے اپنی انتخابی مہم۴ اپریل کو سندھ
کی دوردراز بستی گڑھی خدابخش سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں پارٹی کے
بانی صدر ذوالفقار علی بھٹو دفن ہیں۔اسی دن ان کی ۳۵ ویں برسی ہے۔ظاہر ہے
یہ انتخابی مہم کو ایک جذباتی اثر دینے کے کوشش ہے۔چنانچہ پہلے ان کی قبر
پر فاتحہ خوانی ہوگی، اس کے بعد پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری
سوگواروں انتخابی ریلی سے خطاب کریں گے۔
میں نے ’’سب بخیریت رہا‘‘ سے اس کالم کا آغاز اس لئے کیا ہے کہ انتخابی مہم
کے پہلے ہی دن ’’تحریک طالبان پاکستان‘‘ سے وابستہ تاریک ذہن شدت پسندوں نے
شمال مغربی سرحدی قصبہ بنُّوں میں عوامی نیشنل پارٹی کی ایک انتخابی ریلی
کے پاس بم دھماکہ کیا، جس میں دو افراد جان بحق ہوئے اور چھ زخمی ہوگئے۔اس
تحریک نے تشدد اور خونریزی کواپنا ہتھیار بنا لیا ہے ۔ ناحق لوگوں کا خون
کرتی ہے اور اسلام پسندی کا دعوا کرتی ہے حالانکہ اسلام میں خون ناحق کی
سخت ممانعت ہے ۔دراصل یہ تحریک مختلف طریقوں سے اسلام دشمن عالمی طاقتوں کو
غذا فراہم کررہی ہے جس سے پوری دنیا میں دینِ رحمت کے خلاف فضا سازی کی
جاری ر ہے۔
ہرچند کہ مذکورہ تحریک نے انتخابی مہم کو تاراج کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے
مگر خوش آئند خبر یہ ہے اسی علاقے کے منگورا قصبے میں عمران خان کی ریلی
ہوئی اور دہشت گرد حملے کے خطرے کے باجود خاصی بڑی تعداد میں لوگوں نے اس
میں شرکت کی۔یہ وہی قصبہ ہے جہاں ملالہ یوسف زئی کو انہی عناصر نے گولی
کانشانہ بنایا تھا۔ سرکردہ اپوزیشن رہنما جناب نواز شریف نے شورش زدہ سرحدی
صوبہ خیبر پختونخوا میں مانسہرہ شہر سے اپنی انتخابی مہم شروع کی، جس میں
ایک رپورٹ کے مطابق لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ ایک حوصلہ افزاخبر یہ ہے کہ
اسی قبائلی علاقہ ’فاٹا‘ کے قصبہ باجور سے ایک خاتون بادام زری نے جنرل سیٹ
سے نامزدگی کا فارم داخل کیا ہے۔ یہ بات اس لئے اہم ہے کہ پاکستان میں
خواتین کے لئے سیٹیں محفوظ ہیں۔عام سیٹ سے امیدواری کا توشاید کسی خاتون کو
خیال بھی نہ آتاہوگا، کجا کہ قبائلی خاتون کو جہاں خواتین کوچناؤ لرنا تو
دور، ووٹ تک ڈالنے کی آزادی نہیں ۔ موت کے خطرے کے باوجود بادام زری کی یہ
حوصلہ مندی یقینا لائق ستائش ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ان خود ساختہ
’’اسلامی ٹھیکیداروں‘‘ کوپرامن طریقے سے بے اثر کرنے کا حوصلہ اب خواتین
میں پیدا ہورہا ہے۔ شادی شدہ چالیس سالہ محترمہ بادام زری کا یہ کارنامہ
ملالہ یوسف زئی کے طلب علم کے ذوق کے مقابلے کہیں زیادہ حوصلہ مندانہ
ہے۔فارم نامزدگی داخل کرنے کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں زری نے کہا، ’’میں
اس لئے چناؤ میں حصہ لے رہی ہوں کہ ہمارا علاقہ بہت پسماندہ ہے۔ مجھے معلوم
ہے بہت لوگ میری مخالفت کریں گے مگر ہم بھرپور کوشش کریں گے۔ عوامی ریلیاں
کریں گے۔ مجھے اپنی جان کو لاحق خطرے کا احساس ہے مگر اﷲ پر بھروسہ ہے۔‘‘
ہر چند کہ زری کا بیان ہے کہ بڑی تعداد میں ان کو حمایت کے فون مل رہے ہیں
مگر چناؤ جیت جانے کی امید شاید خود ان کو بھی نہیں ہوگی۔ مگر انہوں نے جو
پیغام دیا ہے اس کی اہمیت چناؤ جیت جانے سے زیادہ ہے۔
|
قبائلی خاتون : بادام زری |
اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ چناؤ مسلکی تعصبات، پرتشدد اور غیر اسلامی نظریات
سے گھرے پاکستانی معاشرے میں کسی مثبت تبدیلی کا آغاز ثابت ہوگایا
نہیں؟جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منور حسین نے کراچی میں منعقدہ ایک
تقریب میں کہا ہے کہ اگر جنرل الیکشن صاف شفاف ہوگئے تو دہشت گردعناصر اور
ان کی آڑ میں لوٹ کھسوٹ میں سرگرم مافیاؤں کے تابوت میں آخری کیل ثابت
ہونگے۔بادام زری کی امیدواری سے اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے۔
ادھر لاہور میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک
پرہجوم ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو برداشت نہ کرنے اورقومی
زندگی میں شدت پسندی کی سخت مذمت کی ہے۔ ہر چند کہ یہ سمجھا جاتا ہے ان کی
جماعت طالبان کے لئے ہمدرد ی کا گوشہ رکھتی ہے، اس کے باوجود ان کے جلسہ پر
دہشت گرد حملوں کا سایہ رہا، چنانچہ حکام نے پورے دن موبائل سروس کو معطل
رکھا۔سابق صدر پرویز مشرف بھی اس انتخابی موسم میں اپنے لئے جگہ کی تلاش
میں نکل پڑے ہیں۔ عدلیہ ان سے خار کھائے بیٹھی ہے ،جس کی گرفت سے دور رہنے
کے لئے وہ خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اب وہ عدالت سے چناؤ
قبل عدم گرفتاری کی ضمانت پر وہ پاکستان واپس آئے ہیں۔ لیکن جب وہ ہائی
کورٹ میں ضمانت کی مدت میں توسیع کے لئے گئے تو عدالت نے توسیع کی منظوری
تو دیدی مگر ان کے وطن چھوڑنے پر پابندی بھی لگادی۔ اطلاع یہ ہے کہ ان کو
سیاسی حلقوں میں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ مگر وہ بڑی تندہی سے اپنے ماضی کے
ملبے سے نیا گھر بنانے کی جستجو میں لگے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی
نہیں ہوگا کہ چناؤ میں شریک ہونے کا ان کا یہ شوق ان کے لئے مصیبت نہ بن
جائے۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ چناؤ کے بعد ان کو کس طرح کے مسائل سے سابقہ
پڑے؟ عدلیہ کیا رویہ اختیار کرتی ہے اور فوج اپنے سابق سربراہ کے لئے آڑ بن
جائیگی یا ان کو کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانے دیگی؟
عام رائے یہ ہے پاکستان میں جمہوریت کا یہ موسم بہاربہت کچھ فوج کے رحم و
کرم پر ہی جاری ہے۔ فوج نے کئی موقع ہاتھ آنے کے باوجود جمہوری طور پرمنتخب
حکومت کو کام کرنے دیا۔ مگر اس کی بھی کئی وجوہات ہیں جن کے تجزیہ کا یہ
موقع نہیں۔ قابل ذکر بات البتہ یہ ہے کہ جولائی سنہ۲۰۱۰ء میں فوج کے سربراہ
جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ٹرم ختم ہونے سے عین قبل وزیر اعظم آصف رضا
گیلانی نے صدر آصف زرداری کی ایماء پر ان کی مدت کار میں پورے تین سال کی
ایک مدّت کا اضافہ اور کردیا تھا۔شاید یہ توسیع کسی مفاہمت کی بنیاد پر تھی۔
ان کا یہ ٹرم اس سال ختم ہورہا ہے۔آئندہ کیا ہوگا ، یہ اس بات پر منحصر ہے
چناؤ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
اگرچہ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ انتخاب کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، مگر
یہ تو صاف ہے کہ گزشتہ پارلیمانی چناؤ کے موقع پر عین انتخابی مہم کے
درمیان محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے نتیجہ میں ایسی سیاسی فضا بن گئی تھی
جس میں پی پی پی کو غیر معمولی کامیابی مل گئی، مگر اس مرتبہ عوام کے سامنے
زرداری حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی ہے، جس سے لوگ بظاہر مطمئن نہیں ہیں۔
9/11 کے بعد امریکا کی دھونس میں آکر پاکستان ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا
حصہ بن گیا تھا ۔ مسلم ممالک کے خلاف اس امریکی ’’صلیبی جنگ ‘‘ کا منحوس
سایہ زرداری حکومت کی پوری مدّت کار پاکستان پر چھایا رہا۔ اس دوران اس مہم
کے چلتے کم از کم ۳۵ہزار پاکستانی ناحق مارے گئے۔اسی کے چلتے تحریک طالبان
پاکستان کو پھلنے پھولنے اور امریکا کو ڈرون حملوں کا بہانہ ملا۔ جولائی
سنہ۲۰۰۸ء میں ایک پاکستان نزاد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی افغانستان سے گرفتاری
اور ان پر امریکی ایجنسیوں کے مظالم اور پھر ۸۶ سال کے قید کی سزا پر
زرداری حکومت کی خاموشی کو بھی پاکستانی عوام بھولے نہیں ہونگے۔ امریکا کا
الزام ہے کہ افغانستان میں غزنی سے گرفتاری کے وقت عافیہ صدیقی کے پاس سے
دو بیگ برآمد ہوئے تھے جن میں حساس دستاویزات تھے۔ پین ڈراؤ اور سی ڈی کے
دور میں کوئی احمق ہی ایسی کہانیوں پر یقین کرسکتا ہے۔درمیان میں جس طرح
زرداری نے وزیر اعظم آصف رضا گیلانی کو بلی کا بکرا بنایا ،اس سے بھی کچھ
اچھا پیغام نہیں گیا ہے۔ان کے دور حکومت میں آزاد آواز کو دبانے کے لئے
درجنوں صحافیوں کا قتل ہوا، جس میں سلیم شہزاد کا سنسی خیز قتل بھی شامل ہے
اور یہ شک کیاجاتا ہے کہ قتل کی کئی وارداتوں میں سرکاری ایجنسیوں کا ہاتھ
رہا ہے۔چندروز قبل ایک خبر یہ آئی تھی پی پی پی کے چیرمین بلاول بھٹو
زرداری پارٹی معاملات سے نالاں ہوکر دبئی چلے گئے۔ ان کومنانے کے لئے خود
زرداری کو دبئی جانا پڑا۔ اب وہ اپنے والد کے ساتھ واپس تو لوٹ آئے ہیں مگر
اب وہ انتخابی مہم کے سرخیل نہیں رہیں گے، حالانکہ بے نظیر مرحومہ کے بعد
وہی پارٹی کا اصل انتخابی چہرہ ہوسکتے تھے۔ ایسے بہت سے دیگر عوامل بھی ہیں،
جن کی بناء پر کہا جاسکتا ہے پی پی پی کی واپسی سخت مشکل ہے۔ خاص سوال
حکمرانی میں سخت ناکامی کا ہے۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی چیرمین زہرا یوسف کے ایک حالیہ انٹرویو سے بھی
یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ماحول زرداری کے لئے سازگار نہیں۔ لیکن ان
تمام تخمینوں کے باوجود ایک غیر ملکی ایجنسی ہنرچ فاؤنڈیشن نے ایک سروے کے
بعد کہا ہے کہ کیونکہ پاکستان میں الیکشن نسلی اور مسلکی بنیادوں پر ہوتے
ہیں اس لئے سردست پی پی پی کا پلڑا بھاری ہے۔ان کے پاس پیسے کی بھی کمی
نہیں۔ العربیہ کی ایک رپورٹ جو British aid to Pakistan funds Zardari’s
re-election campaign: expertعنوان سے ۲ اپریل کو شائع ہوئی برطانیہ ’’بے
نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کو تیس کروڑ پونڈ کا فنڈ فراہم کررہا ہے جس کا
استعمال پی پی پی انتخاب میں حمایت خریدنے پر کررہی ہے۔
مگر’ پل ڈاٹ‘ کے سروے اور’ گالپ پاکستان ‘کے تخمینوں کے مطابق فی الحال
نواز شریف کا پلڑا بھاری ہے۔ اگرچہ ان کے مراسم عرصہ سے فوج کے اعلا افسران
سے کشیدہ تھے، لیکن اطلاع یہ ہے حال ہی میں انہوں نے ان کے ساتھ مفاہمت
کرلی ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کہہ چکے ہیں کہ فوج جمہوری عمل میں دخل
نہیں دے گی اور چناؤ میں غیر جانبدار رہے گی۔ اب اگر فوج واقعی غیر جانبدار
رہتی ہے اور فوجیوں کے ووٹ نواز شریف کی پی ایم ایل کی جھولی میں بھی جاتے
ہیں تو اس بات امکان زیادہ ہے نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بن
جائیں گے۔ معروف صحافی امتیاز احمد کا تجزیہ سے بھی یہی تاثر ملتا ہے جو
۳۱؍ مارچ کو شائع ہوا ہے۔ بہر حال سرکار کسی کی بھی بنے امید ہے کہ ہے شدت
پسند عناصر اس کے نتیجہ میں کمزور پڑیں گے، شرط وہی ہے جس کا ذکر جناب منور
حسین نے کیا ہے۔ چناؤ غیر جانبدار اور شفاف ہوں اور عوام مسلکی انتہاپسندی
کی راہ کو ترک کرکے بحیثیت مجموعی پوری قوم، ملک اور اس خطے کے مفاد میں
سوچیں۔ اگر ایسا ہوا تو یقینا پاکستان کا موجودہ اقتصادی بحران بھی امریکا
کی بھیک کے بغیر ختم ہوجائیگا اور پاکستان علاقے میں ، عالمی برادری میں
اور مسلم ممالک میں ایک ممتاز حیثیت حاصل کرسکے گا۔ |