آزادی کا سرُاب

کیا ہمیں حقیقتاً آزادی ملی ہے؟ جب میں انگریز کے مقررکردہ بیوروکریٹس اور فوجی جنرلز کو ملکی مفاد کے خلاف اور بیرونی آقاﺅں کے حق میں مسلسل کام کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہمیں بظاہر آزادی ملی لیکن انگریز اپنے مہرے چھوڑ گیا۔اور عوام کبھی بھی حقیقتاً آزاد نہ ہوسکے۔سوچا کیوں نہ دوسرے مسلم ممالک سے تقابل کرکے دیکھا جائے اندازہ ہوجائے گا کہ کیامسلمان ممالک پرقابض قوتیں حقیقتاً چلی گئی ہیں یا اپنے مہروں کی شکل میں موجود ہیں۔شام کے متعلق تحقیق کی تو معلوم ہو ا کہ فرانس کے قبضے سے قبل علوی ایک حقیر اقلیت تھے۔نہایت غریب اور وسائل سے محروم۔ فرانس نے انہیںشام کی حکمران جماعت بنادیا۔ اور وہ غالب مسلم آبادی پر حکومت کرنے لگے۔پہلے حافظ الاسد طویل عرصے تک فوجی ڈکٹیٹر بنا رہا اور جب وہ مرنے لگا تواس نے ملک کا نظام آمریت سے بدل کر بادشاہت کردیااور اپنے بیٹے بشار کواپنی جگہ شام کا حکمران بنادیا۔ حافظ الاسد کے دور میں اخوان المسلمین نے ملک کی غالب مسلمان اکثریت کے حق میں انقلاب برپاکرنا چاہا تو اُسے سختی سے کچل دیا گیا۔ لیکن جب اسرائیل نے 1968 میں جولان کی پہاڑیوں پر حملہ کیاتو بلندی پر ہونے کے باوجود شامی فوج شکست کھاکر پیچھے ہٹ گئی اوراسرائیل باآسانی اس اسٹراٹیجک ہدف پر قابض ہوگیا۔ وہ د ن ہے اور آج کا دن نہ شامی فوج نے کبھی اُسے واپس لینے کی کوشش کی اور نہ عوام کو اپنے شکنجے سے آزاد کیا۔ یاد رہے کہ علو ی حضرت علی ؓ کہ پرستش کرتے ہیں اور مسلمان نہیں ہیں۔ کیا پاکستان کی آزاد ی بھی سُراب ثابت نہیں ہوئی؟کیا پاکستان بعینہ ایسی ہی صورتِحال سے دوچار نہیں ہوا؟ کیا ایسی ہی سچویشن کو دیکھ کر فیض نے نہیں کہاتھا:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحرتو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

کہیںتوہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ ئِ غمِ دل

پاکستان کانظریہ کبھی بروئے کارلایا جاسکا۔خواہ وہ آزادی کشمیر ہو ‘ خواہ حریت فلسطین ہو خواہ جہادِ افغانستان ہو۔لاکھوں مسلمانوں نے جان و مال کی قربانی دے کر اور ترک وطن کرکے اپنے لیے ایک آزاد وطن حاصل کیاتھا کہ یہاں اپنے نظریہئِ حیات کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ لیکن سامراج کے ان مہروں نے یہ آرزو کبھی پوری ہی نہ ہونے دی۔بلوچستان میں سردار ‘ پنجاب میں جاگیردار ‘ خیبر میں خوانین اور سندھ میںوڈیرے دروبست کے مالک بنے رہے اور نوکرشاہی ان کی باندی بنی رہی۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے دیہی علاقوں میںاتنی غربت اور محرومی ہے کہ شہری اس کا تصور تک نہیں کرسکتے۔آصف علی زرداری کے ایک مزارعے نے بتایا کہ اس کے خاندان کو صرف تین ہزار روپیہ ماہانہ ملتا ہے۔ تین ہزار میں پانچ افراد کیوں کر زندگی بسر کرسکتے ہیں جبکہ شہر میں کم سے کم اجرت آٹھ ہزار روپیہ ماہانہ ہے۔ غریب ہاری محض پیازکی چٹنی سے روٹی کھاکر گذارا کرتے ہیں۔ دودھ اور گھی کھانے کا وہ سوچ بھی نہیںسکتے۔ اس لیے کراچی سے دس پندرہ میل نکل جائیں ‘ خواہ بلوچستان کی طرف خواہ سندھ کی جانب ‘ تو اتنی غربت نظر آتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے پاکستان ابھی آزاد ہی نہیں ہوا ہے۔مفلس اور مفلوک الحال بچوں ‘ عورتوں اور مردوں کے غول کے غول جمع ہوجاتے ہیں۔اور آدمی سوچنے لگتا ہے کہ کس کو دے اور کسے نظر انداز کردے۔اسی غربت کو دیکھ کر اقبال ؒ نے کہاتھا:
از جفائے دہ خدایان کشت دہقان خراب
انقلاب ! ا ے انقلاب اے انقلاب
Muhammad Javed Iqbal
About the Author: Muhammad Javed Iqbal Read More Articles by Muhammad Javed Iqbal: 8 Articles with 8577 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.