ایک زمانہ تھا کہ جسے دیکھیے وہ
بچے کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے پر تُلا رہتا تھا۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ
ڈاکٹرز کی تعداد کِسی خطرناک بیماری کی طرح بڑھتی چلی گئی اور انجینئرز
اِتنے ہوگئے کہ زندگی کا ہر معاملہ ”انجینئرڈ“ دِکھائی دینے لگا! اور جب
آئی ٹی کا رجحان عام ہوا تو سب اپنے بچوں کو سوفٹ ویئر انجینئر بنانے کی
ٹھان بیٹھے۔ اور اب حالت یہ ہے کہ سوفٹ ویئر انجینئرز پیروں میں آ رہے ہیں!
یہی حال وکلا کا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں وکلا کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ
اِتنا سارا قانون یا اِنہیں کنٹرول کرنے والے قوانین کہاں سے لائیں!
سیاسی جلسوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ انتخابی موسم کے آغاز نے جلسوں
کے رجحان کو توانائی بخشی ہے اور اب اِس قدر جلسے ہو رہے ہیں کہ پیروں میں
آ رہے ہیں۔ لوگ ذرا سا چلتے ہیں اور کوئی جلسہ راہ روک کر کھڑا ہو جاتا ہے!
پورے ملک میں ایک رونق میلہ لگا ہوا ہے۔ ہر طرف مجمع بازی اور مجمع سازی ہے۔
موسم کی گرمی اور سیاست کی گرم بازاری مل کر ماحول کو دو آتشہ کئے دیتی ہیں!
بہار کی آمد پر پُھول تو کِھلے مگر اُس سے پہلے سیاست نے گل کِھلانا شروع
کردیا! اور گل بھی ایسے کہ جن کی ”خوشبو“ سے دِل و دِماغ ماؤف ہوکر رہ
جائیں! اور سیاست کے کِھلائے ہوئے گلوں نے رنگ بھی ایسے بکھیرے ہیں کہ
آنکھوں میں چُبھ رہے ہیں!
جلسے تو ہماری سیاسی تاریخ کا ہمیشہ سے حصہ رہے ہیں مگر اب معاملہ بہت آگے
بڑھ گیا ہے۔ جلسوں کو ہر مرض کی دوا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہر
پارٹی یہ دعوے کرتی پھر رہی ہے کہ ”اصلی تے وڈّے جلسے“ تو اُسی کے ہیں،
باقی سب تو بُھٹّے بُھون رہے ہیں! سیاسی قوت کو جلسوں کے گز سے ناپا جارہا
ہے۔
قوم نے کسی نہ کسی طور دل کو بہلاتے رہنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ قوم جلسوں
میں شرکت کرتے کرتے اب ”شوکن میلے دی“ ہوکر رہ گئی ہے! گھر کاٹنے کو دوڑتا
ہے۔ جس طرح کچھ لوگ جسمانی صحت کے لیے روزانہ دو ڈھائی سو بیٹھکیں لگاتے
ہیں بالکل اُسی طرح اب بہت سے لوگ ہفتے میں دو تین سیاسی جلسوں میں شریک
ہوکر دو تین درجن بڑھکیں نہ سُن لیں تو ادھورے پن کا احساس ستاتا رہتا ہے!
غور سے دیکھیے تو ہزاروں چہرے ہیں جو تمام جماعتوں کے جلسوں میں انٹری دیتے
ہوئے ملیں گے۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ روزی روٹی کا معاملہ ہے۔ جو
دیہاڑی دے گا اُس کے جلسے کو رونق بخشی جائے گی۔ لوگوں کو اب ہوش آیا ہے کہ
مشغلے سے کچھ کمایا بھی جاسکتا ہے! پاکستان کے ہنستے گاتے لوگ جلسوں کے
شوقین کب نہیں رہے؟ عوام نے ہر دور میں جلسوں سے دل بہلایا ہے۔ جلسوں میں
حاضرین کی تعداد کے حوالے سے اہل سیاست کچھ بھی کہتے پھریں، عوام کا اپنا
”ایجنڈا“ ہے۔ یعنی اُنہیں کچھ رونق میلہ چاہیے۔ سیاسی جلسوں میں شرکت کو
عوام کے شعور کی سطح سے تعبیر کرنے والے احمق ہی کہلائیں گے۔ جلسوں کے
معاملے میں عوام کا معاملہ یہ ہے کہ
مَے سے غرض نشاط ہے کِس رُو سیاہ کو
اِک گونہ بے خودی مجھے دِن رات چاہیے!
خواہ کوئی پارٹی جلسہ کرے، لوگ اُس کے لیے ہر گھڑی تیار، کامران ہیں۔ یعنی
جو آئے، آئے کہ ہم دِل کشادہ رکھتے ہیں!
شوق کی انتہا یہ ہے کہ جلسے کا اعلان ہی کافی ہے۔ لوگ خود بخود جلسہ گاہ کا
حصہ بن جاتے ہیں۔ پارٹی خواہ کوئی ہو، جلسے کا میدان سجتے ہی لوگ ”آوے ای
آوے“ کے نعرے لگاتے ہوئے چل پڑتے ہیں۔
سیاسی جلسوں کی رنگینی مثالی ہوا کرتی ہے۔ یہ ایک رنگ میں سو رنگ دِکھاتے
ہیں۔ معاشرے کا کون سا انداز ہے جو جلسوں سے نہیں جھلکتا؟ جس طرح پرچون کی
دُکان پر سب کو اپنے مطلب کی چیز مل جاتی ہے بالکل اُسی طرح جلسوں اور
بالخصوص سیاسی جلسوں میں ہر قبیل کے شکر خورے کو اپنے مطلب کی شکر مِل ہی
جاتی ہے!
وہ زمانے گئے جب ڈیڑھ دو سو کا ٹکٹ لیکر سنیما کا سرکس دیکھا جاتا تھا۔
سلور اسکرین پر یا سرکس میں جو کچھ نظر آتا ہے وہی سب کچھ دیکھنا ہو تو
جلسے حاضر ہیں! جلسوں میں کائنات کے تمام رنگ اور سرکس کے تمام آئٹمز پوری
آب و تاب کے ساتھ جلوہ فرما ہوتے ہیں۔ تقاریر سُننا اور ہضم کرنا خاصے
ڈھیلے رَسّے پر چلنے کے مترادف ہے، یعنی ہچکولے کھاتے رہیے! بعض مقررین تو
حاضرین کے صبر کا امتحان آخری حد تک لیتے ہیں اور اُنہیں بانس کے سِرے پر
اُلٹا لٹکا دیتے ہیں!
آج کے جلسوں میں کامیڈی کے تمام رنگ اِس خوبی سے جمع ہوتے ہیں کہ رنگیلا
اور منور ظریف جیسے استاد کامیڈین بھی ہوتے تو تھوڑی بہت اِضافی فنکاری
سیکھ لیتے! اور ایک کامیڈی پر کیا موقوف ہے، مظہر شاہ ہوتے تو چند نئی
بڑھکوں سے آشنا ہوتے اور بڑھک مارنے کے نئے انداز سیکھتے! اسٹیج پر جو
اداکاری چل رہی ہوتی ہے اُس میں ہیرو، ولن، کامیڈین سبھی کے لیے تھوڑی بہت
”ٹپس“ ضرور ہوتی ہیں۔ اب یہ تو بندے پر منحصر ہے کہ وہ دریا سے پیاس
بُجھاتا ہے یا صرف لہروں کی روانی دیکھنے پر اکتفا کرتا ہے! فلم اور ڈراما
رائٹرز جلسے اٹینڈ کریں تو منظرنامہ، مکالمے اور کہانی سبھی کچھ لیکر خوشی
خوشی گھر جائیں گے!
ویسے تو خیر سیاسی فنکار ہی کیا کم ہیں مگر اب اداکارہ مسرت شاہین کے ساتھ
ساتھ لیلیٰ اور میرا نے بھی الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ اور کیوں نہ
کرتیں؟ جب عورت کے وجود سے کائنات کی تصویر میں رنگ ہے تو جلسوں کی تصویر
بھلا کیوں پھیکی رہے!
خواتین ملاقاتوں کے لیے بچت بازاروں کو عمدگی سے استعمال کرتی ہیں۔ اور
ہفتے کے ساتھ دنوں کے بچت بازاروں کی مناسبت سے معاملات یاد رکھتی ہیں۔
اُدھار وصول کرنا ہو تو یاد دلایا جاتا ہے کہ پیسے اتوار بازار میں دیئے
تھے اور بدھ بازار میں یاد دہانی بھی کرائی تھی! اب مردوں نے جلسہ گاہوں کو
ملاقات کے مقامات اور جلسوں کو یاد دہانی کے ذرائع میں تبدیل کرلیا ہے! سب
کچھ اِسی مناسبت سے یاد رکھا جاتا ہے۔ مثلاً ”ابے کیا یاد نہیں؟ جس دن
عمران خان کا جلسہ تھا، میں نے تجھے 500 روپے دیئے تھے۔“ یا یہ کہ ”یار! یہ
چوٹ اُسی دن لگی تھی جس دن مینار پاکستان پر فضل الرحمٰن کا جلسہ تھا۔“ کل
کو خواتین بھی جلسوں کو اپنی گفتگو کا حصہ اِس طرح بنایا کریں گی۔ ”بہن!
میرا چھوٹا والا اُس دن پیدا تھا جس دن عمران کے جلسے سے لوگ کرسیاں لے
بھاگے تھے!“
جلسے یادگار بھی ثابت ہو رہے ہیں اور یاد دہانی کا ذریعہ بھی بنتے جارہے
ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اِن جلسوں کے بطن سے کچھ کام کی سیاست بھی ہویدا
ہو! بڑھک کے مقابلوں سے کوئی کام کی بات برآمد ہوتی ہوئی دیکھنے کو آنکھیں
ترس گئی ہیں۔ |