۔"کیا آپ اِن صاحب کو جانتے ہیں؟
"۔میں نے اپنی آنکھوں کے اشارے سے باغ کے کونے میں لگی بینچ پر بیٹھے
انتہائی عمر رسیدہ شخص، جس کے سر کا ایک ایک بال سفید اور وہ بس یونہی
خلاوں میں گھورے چلا جارہا تھا، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے باسط احمد سے
دریافت کیا۔
۔"نہیں نذیر بھائی، بس میں بھی آپ ہی طرح سے اِنہیں گذشتہ چند ہفتوں سے
یہاں پارک اور مسجد میں دیکھ رہا ہوں۔ ممکن ہے کہ وہ اِس علاقے میں نئے نئے
رہائش پزیر ہوئے ہوں۔ لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟"۔ باسط صاحب نے اپنی بات
پوری ہوتے ہی ایک عدد سوال بھی داغ دیا لیکن پھر فوری طور پر اُس کا جواب
بھی خود ہی دینے لگے: "ہاں بھئی کیوں نہیں، آپ ٹہرے صحافی اور وہ جو کہتے
ہیں نا کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے، رئیٹائیرڈ ہونے کے بعد
بھی آپ کا صحافیانہ تجسس اب بھی برقرار ہے"۔
۔"باسط صاحب، بات دراصل یہ کہ اِن چار پانچ ہفتوں کے دوران اِنہیں ہمیشہ لگ
تھلگ ہی دیکھا ہے، حتیٰ کہ وہ مسجد میں بھی کسی سے گھلتے ملتے نہیں۔ بس
ہمیشہ خاموش ہی رہتے ہیں"۔ میں نے باسط احمد سے کہا۔ "کم و بیش روزانہ ہی
نماز فجر کے بعد سجدے میں چپکے چپکے گھٹی گھٹی آواز میں روتے اور اِن کی
آنکھوں کو لال سرخ متورم بھی دیکھا ہے"۔
میری بات سن کر باسط احمد دھیرے سے مسکرا دئیے اور بولے: "نذیر صاحب، اِسں
عمر میں ہی تو انسان کو سفرِآخرت کا خیال آتا ہے اور اپنی مغفرت کی فکر آن
گھیرتی ہے۔ میں نے تو بڑے بڑے دنیا داروں کو اِس عمر میں دنیاداری سے کنارہ
کش ہو کر یاد اللہ میں مشغول ہوتے اور دن رات فکرِآخرت میں گریہ و زاری
کرتے دیکھا ہے۔ میری ذاتی رائے میں جتنے عمر رسیدہ یہ نظر آتے ہیں تو اب یہ
ان کی عمر کا تقاضہ بھی تو ہے "۔
۔"لیکن باسط صاحب، مجھے یہ کچھ اور ہی بات لگتی ہے"۔ میں نے انتہائی
پُریقین لہجے میں کہا۔ "وہی تو میں کہہ رہا تھا ابھی کچھ ہی دیر پہلے کہ
کوتوالِ شہر کو تو بس ہر کسی کی داڑھی میں تنکا ہی نظر آتا ہے۔ کیا ہوا جو
اب آپ عملی صحافت نہیں کرتے لیکن کیا کیجیئے کہ ہر اچھے صحافی کا مزاج بچپن
ہی سے صحافیانہ ہوا کرتا ہے اور پھر مرتے دم تک رہتا ہے"۔ باسط صاحب حسب
معمول اپنی مخصوص بزلہ سنجی پر اتر آئے۔ "چلیں صاحب آپ کے اِس تجسس کا بھی
کچھ علاج کرتے ہیں۔ آپ نے تو مجھے بھی تجسس میں مبتلا کردیا۔ ویسے بھی آپ
کے پاس تو بس نرا تجسس ہی برآمد ہوا کرتا ہے اور محلے بھر کی ساری خبریں
اپنے زوار حسین صاحب لیئے پھرتے ہیں۔ اُن کے پاس آپ کے تجسس کا درمان ضرور
ہوگا۔ بقول ازخود بلکے بقلم خود ہمارے":۔ ریٹائیرڈ صحافی ہوا کرے کوئی
میرے تجسس کی دوا کرے کوئی
حسبِ سابق باسط صاحب کی خوش گفتاری کا چرخہ چل پڑا
ہم دونوں پارک کے ایک کونے میں اپنے ہاتھوں کو ہوا میں بلند کرتے پھر سینے
کے سامنے لا کر انہیں تیز تیز اِدھر اُدھر گھما کر ورزش کرتے زوار صاحب کی
طرف چل پڑے۔ زوار صاحب کو ہمارے محلے کی بی بی سی نیوز سروس کہا جاتا ہے۔
اُن کے پاس محلے کے ہر گھر کی مفصل رپورٹ موجود رہتی اور عندالطب مہیا بھی
ہو جایا کرتی ہے۔
۔"السلام علیکم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، یا اہلِ چمن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!" باسط
صاحب نے اُنہیں دیکھ کر دور ہی سے ہانک لگائی۔ "وعلیکم السلام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ !، یا مرغانِ چمن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!". زوار صاحب بھی بھلا کوئی باسط
صاحب سے کچھ کم تھے کیا۔ مسکراتے ہوئے بولے۔ "آج یہ طیورِآوارہ کی ٹولی کس
سمت کو نکلی ہے؟"۔ "جی بس آپ ہی جیسے کسی بلبلِ خُوش نوا کی تلاش میں ہیں
جو نالہِ چمن کہنے کو مُضطر ہو"۔ دونوں میں ترکی بہ ترکی نشانہ بازی جاری
تھی۔
اِس سے قبل کے یہ چاند ماری شدت اختیار کرلیتی، میں نے اُن دوںوں کو ایک
خالی بینچ دکھاتے ہوئے اُس جانب چلنے کا اشارہ کیا اور پھر ہم تینوں اُس پر
براجمان ہو گئے۔ زوار صاحب کو ہم نے اپنے بیچوں بیچ بیٹھا لیا۔ ۔"جی اب
کہئیے، یہ غلام بے دام، آپ کے کس کام آسکتا ہے؟" زوار حسین نے اپنا ہاتھ
سینے پر رکھ کر سر خم کرتے ہوئے پوچھا۔ "ارے بھئی یہ جو اپنے نذیر صاحب ہیں
نا، ریٹائیرڈ صحافی نذیر احمد صاحب" باسط صاحب نے ریٹائیرڈ صحافی پر کچھ
ذیادہ ہی زور دیتے ہوئے کہا: "انہیں کسی کے بارے میں کچھ جاننا ہے" یہ سن
کر زوار صاحب میری طرف سوالیہ نگاہوں سے بغور دیکھنے لگے۔ میں نے اُن سے
جلدی حلدی وہی کچھ کہہ دیا جو میں پہلے باسط صاحب سے کہہ چکا تھا۔ میری بات
سن کر زوار صاحب کے چہرے پر ایک ہلکا سا تبسم آیا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے
بولے: "ویسے میں بھی اِن حضرت کو کچھ خاص تو نہیں حانتا لیکن اتنا ضرور
معلوم ہے کہ یہ معین احمد کے مہمان ہیں، وہی مکان نمبر5 والے اور کچھ ہی
ہفتے ہوئے حیدرآباد سے آئے ہیں"۔
مسجد سے ملحقہ اِس پارک جہاں میں روز نمازِفجر کے بعد باسط احمد جو کہ میری
ہی طرح سے ریٹائیرڈ ذندگی گزار رہے ہیں کے ہمراہ صبح کی سیر کو آیا کرتا
ہوں۔ وہاں سے واپس گھر جاتے ہوئے مسلسل اُس رنجیدہ شخض کے بارے میں ہی
سوچتا رہا۔ گھر آ کر ناشتے کے بعد میں جب اپنے کمرے میں آیا تو حسب ِمعمول
میز پر اپنا مخصوص رجسٹر کھول کر بیٹھ گیا جس میں اِن دنوں اپنی گذشتہ
پینتیس سالہ صحافتی ذندگی اور اُس کے دوران مختلیف موضوعات پر ایک درجن بھر
کتابوں کی تصینف کے تجربات محفوظ کرنے اور مقامی روزنامے میں ہفتہ میں دو
بار شائع ہونے والا کالم لکھنے کی غرص سے روزانہ کوِئی تین چار گھنٹے کام
کرتا ہوں۔ لیکن اُس روز میرا جی لکھنے کو قعطاً نہ چاھ رہا تھا۔ زہن مسلسل
اُس شخص ہی کی جانب متوجہ رہا۔
چند روز اِسی طرح سے گزر گئے۔ میں یونہی اُس رنجیدہ شخص کو مسجد میں سجدے
میں پڑے چپکے چپکے گھٹی گھٹی آواز میں روتے اور اُس کی لال متورم آنکھیں
دیکھتا رہا۔
اُس روز کسی وجہ سے باسط صاحب نمازِفجر سے غیر حاضر تھے۔ میں اکیلا ہی پارک
میں چہل قدمی کرتا پھر رہا تھا کہ میری نظر اُس پر پڑی۔ وہ اُسی طرح پارک
کے ایک ویران گوشے میں نصب بینچ پر گم سم سا بیٹھا خلاوں میں گھور رہا تھا۔
اُس کے چہرے پر ایک عجب سی ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ میں آگے بڑھا اور پاس
پہنچ کر مخاطب ہوا: "آپ کی اجازت ہو تو کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟"۔ لیکن
وہ تو یونہی خلاوں میں گھورے ہی چلا جارہا تھا اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ
جیسے اُس نے میری بات سنی ہی نہ ہو۔ میں اِس بار باآواز بلند مخاطب ہوا:
"سنیئے گا صاحب، برا نہ مانے تو کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟" اِس بار میں
نے اُس کے چہرے پر ایک ہلکی سی تبدیلی محسوس کی۔ جیسے وہ کسی اور ہی دنیا
میں گم تھا اور اب میرے باآوازِبلند مخاطب ہونے کے سبب واپس آ گیا ہو۔ اُس
کے سر کی جنبش کے ساتھ ہی میں اُس کے برابر بیٹھ چکا تھا۔ "میرا نام نذیر
احمد خان ہے اور میں ایک ریٹائیرڈ صحافی ہوں۔ غالباً آپ نے میرا کالم جو کہ
روزنامہ "آواز" میں شائع ہوتا ہے پڑھا ہوگا۔ ویسے آپ کا اسمِ شریف؟" میں نے
فوراً ہی یہ سوچ کر اپنا تعارف خود ہی کروا کر اُس کا نام بھی پوچھ لیا کہ
شاید اِسی بہانے سے آغازِ کلام ہو سکے۔ اُس کے چہرے پر کسی قسم کے کوئی بھی
تاثرات تو نہ ابھرے لیکن وہ دھیرے سے بولا: "٘مختار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !"۔ "آپ شاید
یہاں نئے آئے ہیں؟۔ ابھی کچھ ہی دنوں سے میں آپ کو مسجد اور پارک میں دیکھ
رہا ہوں"۔ "جی ہاں میں چند بفتوں قبل ہی حیدرآباد سے آیا ہوں اور معین احمد
کے گھر ٹہرا ہوا ہوں"۔ وہ بہت ہی دھیمے لہجے میں ٹہر ٹہر کر بولا۔ میں نے
دل ہی دل میں سوچا کہ "یااللہ تیرا شکر، آخر کچھ تو سلسلہ شروع ہوا"۔
۔"جی جی معین احمد، جانتا ہوں، وہی نہ جو مکان نمبر 5 میں رہتے ہیں اور جن
کے پاس لال رنگ کی موٹر سائیکل ہے"۔ میں فوراً ہی یہ سوچ کر بولا پڑا کہ
کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اچانک یہاں سے اٹھکر چل دے۔ "جی ہاں وہی معین احمد"
اُس کی آواز بدستور دھیمی اور بوجھل سی تھی۔ "حیدرآباد میں آپ کیا کرتے
ہیں؟'۔ میرے اِس سوال پر اس کی بجھی بجھی سی آنکھوں میں ہلکی سی چمک کا ایک
سایہ سا لہرایا اور پھر معدوم ہوگیا۔ "وہاں صدر بازار میں میرا آئل ڈپو ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !" اتنا کہہ کر کچھ دیر کے توقف کے بعد وہ ایک گہری
سی سانس لیتا ہوا پھر سے بولا: "ہے کیا بس کبھی ہوا کرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ !!!"۔ "اوہ اچھا اچھا، آپ نے فروخت کردیا ہوگا؟"۔ میں نے اپنا سر ہلاتے
ہوئے پوچھا۔ "نہیں فروخت تو نہیں کیا البتہ اب اُسے میرے دو بیٹے چلاتے
ہیں"۔ "واہ بہت خوب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، تب تو آپ بھی میری ہی طرح سے ریٹائیرڈ
ہیں"۔ میں نے اپنے لہجے میں مسرت کا عنصر نمایاں کرتے ہوئے کہا لیکن میری
اِس بات کے جواب میں وہ کچھ بولا تو نہیں لیکن ایک پھیکی سی مسکراہٹ اُس کے
ہونٹوں پر ضرور نظر آئی۔
اب میں نے اپنا جی کڑا کرکے وہ سوال پوچھنے کا فیصلہ کر ہی لیا جس کے سبب
میں پچھلے کئی ہفتوں سے تجسس میں مبتلا تھا۔ "اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا
میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟" میرے لہجے میں ہچکچاہٹ تھی۔ "جی ضرور"
مختار صرف اتنا ہی بولا۔ "دیکھیں میں پہلے ہی آپ سے معذرت کر رہا ہوں کہ
اگر آپ کو میری بات ناگوار گزرے یا میرے سوال کا جواب نہ دینا چاہیں تو آپ
انکار بھی کر سکتے ہیں"۔ میں نے ایک طویل تمہید باندھتے ہوئے کہنا شروع
کیا: "میں نے اکثر دیکھا ہے کہ آپ مسجد میں سجدے میں پڑے دبی دبی آواز میں
رو رہے ہوتے ہیں۔ ایسا کون سا دکھ ہے آپ کو کہ جس کے سبب آپ اِس قدر افسردہ
رہتے ہیں؟"۔
میرے سوال کے اختتام کے ساتھ ہی ایک گہرا سناٹا سا چھا گیا۔ مجھے اُس کی
سانسوں اور پارک میں بولتے پرندوں کے علاوہ کوئی اور آواز سنائی نہ دے رہی
تھی۔ وہ ایک بار پھر دور خلاوں میں گھورنے لگا۔ کچھ دیر بعد میری جانب اپنا
چہرہ کرکے دھیمی آواز میں گویا ہوا:۔ ۔"یہ ایک بہت پرانی کہانی ہے۔ یہ اُس
وقت کی بات ہے جب میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور اپنے والد کا اکلوتا بیٹا
جو کہ دو بیٹیوں کے بعد بہت منتّوں سے پیدا ہوا تھا۔ میرے والد کی خواہش
تھی کہ اُس کے کم ازکم دو بیٹے تو ضرور ہوں لیکن اُس کی قسمت میں صرف ایک
ہی بیٹا تھا۔ میرے بعد بھی دو اور بچے پیدا ہوئے لیکن وہ دو بھی بیٹیاں ہی
تھیں، جس کا میرے والد کو بہت قلق تھا اور اٹھتے بیٹھے یہ ہی کہا کرتے تھے:
"ہاَئے نہ ہوئے میرے دو بیٹے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔ اگر جو ہوتے تو جوان ہو کر میرے
دو بازو بنتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔ چار بہنوں کا ایک اکلوتا بھائی ہونے کے سبب
میں سب اور بطورِخاص اپنے والد کا بہت ہی لاڈلا تھا۔ اُن کی باتیں سن سن کر
میرے دماغ میں بھی یہ بات سما گئی کہ میرے بھی اگر دو بیٹے ہوں تو وہ آگے
چل کر میرے بازو بنیں گے۔ جب میری شادی ہوئی تو میں نے سہون شریف جا کے منت
مانی کہ اگر جو میرے یہاں نرینہ اولاد ہو تو میں پوری چالیس دیگیں بریانی
کی درگار شریف پر چڑھاوں گا۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میرے گھر
بیٹی ہوئی۔ میرا دل بجھ سا گیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں تو اپنے باپ
کا اکلوتا بیٹا تھا لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ میری نسل مجھ پر ہی ختم
ہوجائے۔ لیکن پھر میرے اندیشے غلط ثابت ہوئے اور اللہ تعالی نے مجھے ایک
چھوڑ دو بیٹوں سے نوازا۔ دو بیٹے پا کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اللہ
نے مجھے دو اور بازو دے دیئے ہوں اور میں اور اٹھتے بیٹھتے ہر کسی سے یہ ہی
کہتا: "میرے بیٹے میرے بازو"۔
۔"میں نے اپنی جوانی میں ایک چھوٹی سی دکان میں مختلیف اقسام کے بیجوں سے
تیل نکلنے کے کام کا آغاز کیا اور اِس قدر محنت کی کہ وہ چھوٹی سی دکان ایک
بڑے آئل ڈپو میں تبدیل ہوگئی. جب میرے دونوں بیٹے کچھ بڑے ہوئے تو چونکہ
اُن کا دل پڑھائی میں بالکل بھی نہ لگتا تھا، اس خوف سے کہ کہیں بُری سنگت
میں نہ پڑھ جائیں اپنے ساتھ دکان میں بٹھانا شروع کردیا۔ اپنی بیٹی زلیخاء
کو میں نے میٹرک کے بعد ہی پڑھائی سے اٹھا لیا۔ میرا ارادہ تو آٹھویں کے
بعد ہی اُسے اسکول سے اٹھا لینے کا تھا لیکن وہ تو اُسے پڑھنے کا بہت شوق
تھا اور دوسرا اُس کی ماں میرے سر ہوگئی اور مجھے اُن دوںوں کی ضد کے آگے
ہتھیار ڈالنے پڑے۔ مجبوراً میں نے اُسے میٹرک کرنے کی اجازت دے دی۔ اُس کی
تو پرائیویٹ ایف اے کرنے کی فرمائش بھی تھی لیکن میڑک کے نتیجے سے قبل ہی
میں نے اس کے ہاتھ پیلے کردیئے"۔
اتنا کہ کر وہ سانس لینے کے لیئے رکا۔ کچھ دیر خلاوں میں گھورتا رہا اور
پھر سے گویا ہوا: "وقت گزرتا رہا۔ کچھ عرصے بعد میں نے اپنے دونوں بیٹوں کی
شادیاں بھی کردی۔ اللہ کا کرم جاری و ساری تھا۔ کاروبار بھی خُوب چل رہا
تھا۔ ایک روز میں نے ایک فیصلہ کیا اور سب سے پہلے اپنی بیوی ہاجرہ کو اُس
سے آگاہ کیا۔ میں نے کہا: "اب میری عمر 65 سال ہو چلی ہے اور میں نے یہ
فیصلہ کیا ہے کہ انشاءاللہ اگلے برس میں اور تم حج کرنے چلیں گے"۔ یہ سن کر
وہ بھاگوان بہت خوش ہوئی۔ وقت کے تو جیسے پر لگے ہوں اور وہ وقت بھی آن
پہچا کہ میں اور ہاجرا حج کو جانے کی ساری تیاریاں مکمل کر چکے تھے اور بس
اگلے ماہ ہمیں کراچی کے حاجی کیمپ میں کچھ روز حج کے اراکین کی ضروری تربیت
حاصل کر کے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ روانہ ہونا تھا۔ نکلنے سے کچھ پندرہ
روز پہلے میں نے ہاجرا پر ایک ایسا انکشاف کیا جس نے اُسے بیچین کر دیا۔
میں نے اُس سے کہا: "دیکھ ری ہاجرہ، اب میں ہو گیا ہوں بڈھا اور میری ہڈیاں
جواب دے گئیں ہیں لہٰذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اب اپنا کاروبار افتخار
اور بختیار کے حوالے کر دوں اور پھر انشاءاللہ حج کی یہ عظیم سعارت حاصل
کرکے جب ہم واپس آئیں گے تو صرف آرام کروں گا اور بس اللہ کے گھر ہی کا ہو
رھوں گا" میری بات سن کر جیسے ہاجرہ کو چنداں مسرت نہ ہوئی ہو، جٹ سے بولی:
"زلیخاء کے ابا، میری مانو تو ابھی جائیداد بیٹوں کے حوالے کرنے کا سوچو
بھی مت"۔ "اوہ بھاگوان، تحھے کتنی باری سمجھایا ہے کہ مجھے زلیخاء کا ابا
کہہ کر نہ بلایا کر، مگر تیری عقل میں یہ بات سماتی ہی نہیں"۔ میں نے
ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "میں دو جوان جہان بیٹوں کا باپ ہوں۔ تو
مجھے ان میں سے کسی بھی کا ابا کہہ کر پکار لیا کر، جب کبھی تو مجھے افتخار
یا بختیار کا ابا کہہ کر پکارتی ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میری
جوانی واپس آ گئی ہو۔ آخر کو افتخار اور بختیار میری جوانی کی تصویر اور
نشانی ہی تو ہیں"۔ میں اپنی مونچھوں کا تاو دیتے ہوئے بولا: "اور ہاں یہ
کیا تو اول فول بک رہی ہے۔ بھلا اگر میں جائیداد، کاروبار اور مال و متاں
اپنے شیر جیسے گھبرو جوان بیٹوں کے حوالے نہ کروں تو کیا خیرات میں بانٹ
دوں"۔ "ارے بھئی میں کب کہہ رہی ہوں کہ تم یہ سب کچھ خیرات میں دے دو۔ میرا
کہنے کا مقصد تو صرف اتنا ہے کہ جب تک تم ذندہ ہو، یہ سب کچھ اپنے ہاتھوں
میں ہی رکھو"۔ ہاجرا نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا: "سن ہاجرا یہ فیصلہ تو اُسی
دن ہو گیا تھا جب میں نے حج پر جانے کا پروگرام بنایا تھا اور مجھے خوب
معلوم تھا کہ سب سے پہلے تم ہی اس پر اعتراض کرو گی۔ میں خوب جانتا ہوں تم
عورتوں کا مزاج اور ویسے بھی بڑے بڑھوں نے درست ہی کہا ہے کہ عورتوں سے صلا
مشورہ کرنے کی بجائے صرف فیصلہ ہی سنانا چاہیئے۔ بس اِسی لیئے میں نے بھی
فضول بک بک جھک جھک سے بچنے کے لیئے تم سے اُس وقت کوئی زکر تک نہیں کیا
اور سارے کاغذات تک مکمل کروا کر اپنے اور گواہان کے دستخط تک کروا رکھے
ہیں"۔ میں نے بڑے ہی فخر و انسباط کے ساتھ ہاجرہ کو بتایا: "اب انشاءاللہ
حج پر روانہ ہونے سے ایک روز قبل یہ تحفہ اپنے دونوں راج دلاروں کو جب دوں
گا تو ان کی خُوشی دیدنی ہوگی"۔
۔"لیکن اپنی زلیخاء کا حصّہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟"۔ جیسے ہی ہاجرہ کے منہ سے یہ
الفاظ نکلے میرے تو جیسے تن بدن میں آگ ہی لگ گئی۔ پارہ اسقدر چڑھا کہ مارے
غصے کے سارا چہرہ لال بھبھوکا ہوگیا اور کانوں کی لویں تک چلنے لگیں۔ میں
طیش میں آ گیا اور زور سے چلا کر بولا: "کیا بک رہی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، کیسا
حصہ اور کہاں کا حصہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، بھلا لڑکیوں کا بھی جائیدادوں میں
کوئی حصہ ہوا کرتا ہے۔ اُن کے لیئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ انہیں پال پوس کر
بڑا کردیا جائے، تھوری بہت تعلیم دلوائی۔ ایک اچھا سا بر ڈھونڈ اُن کی شادی
کروا دی اور اللہ اللہ خیر صلا"۔ میرے کڑے تیور دیکھ کر بھی ہاجرہ زرا نہ
گھبرائی اور بولی: "دیکھو زلیخاء کے ابا یہ ظلم میں نہ ہونے دوں گی۔ ویسے
بھی مذہبی، شرعی، قانونی اور اخلاقی طور پر باپ کی جائیداد میں بیٹی کا حصہ
تو ضرور بنتا ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ تم مردوں نے معاشرے میں یہ ریت بنالی
ہے کہ بیٹی کو کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اِس حق سے محروم ہی رکھا جائے"۔
۔"کیا باتیں کرتی ہو تم۔ میں نے اُسے پالنے پوسنے، اُس کی تعلیم، دوا دارو،
کپڑے لتے، شادی بیاہ اور دان دہیح میں کیا کچھ کم خرچہ کیا تھا جو اب تم آ
گئی ہو اُسے میری جائیداد میں سے حصہ دلوانے"۔ میں نے اُس کی باتوں سے مذید
غصہ کھاتے ہوئے کہا: "ارے کچھ تو خدا کا خوف کرو، جیسے افتخار اور بختیار
تمھارے بیٹے ہیں ویسے ہی وہ بھی تھمارا ہی خون ہے میں اُسے اپنے ساتھ جہیز
میں نہ لائی تھی اور جو خرچے تم نے ابھی گنوائے ہیں کیا وہ تم نے اپنے
بیٹوں پر نہیں کیئے؟ ہاجرا کی آواز میں شکایت تھی۔ "ارے میں تو خدا لگتی
کہوں گی چاہیے تمھیں برا ہی کیوں نہ لگے۔ اپنے بیٹوں کو تو تم نے خوب خوب
راج کروائے اور اُن پر دونوں ہاتھوں سے اپنا روپیہ لٹایا ہے۔ راج دلارے جو
ٹہرے تھمارے۔ قسم کھا کے کہو کہ میری معصوم زلیخاء نے جو تم سے کبھی کوئی
فرمائش بھی کی ہو۔ جو ملا کھا لیا، حو دیا پہن لیا اور جہاں جگہ ملی چادر
بچھائی اور سو گئی۔ دن رات اس نے چولہا چوکی، ہانڈی روٹی اور صفائی ستھرائی
میں میرا ہاتھ یوں بٹایا کہ اب مجھے اُس کی خدمت اور چاکری کی قدر ہوتی ہے۔
دونوں بھائی اُس سے عمر میں چھوٹے تھے لیکن وہ بیچاری ان کو بھیاء بھیاء
کہہ کر اپنا پیار دلار لٹاتی۔ کبھی ایک کی صدا پر یہاں بھاگتی تو کبھی دوجے
کی لکار پر وہاں دوڑتی۔ پانی پلارہی ہے، کھانا لارہی ہے، جوتے پالش کررہی
ہے، کپڑے استری کررہی ہے، جیسے وہ ان کی بڑی بہن نہ ہو کوئی نوکرانی ہو۔
اللہ اُسے عمر بھر خوش خرم اور پھلتا پھولتا رکھے، ماں صدقے، ماں واری، اُس
غریب کے منہ میں تو جیسے زبان ہی نہ تھی کہ وہ کبھی اُسے کھولے اور اپنے
بھائیوں کی طرح ہر روز نت نئ فرمائشیں کرے اور جو وہ کر بھی لیتی تو باپ کو
اپنے لاڈلے بیٹوں سے فرصت ہی کہاں تھی کہ وہ اُس بے زبان کی بھی کچھ سن ہی
لیتا۔ بے چاری نہ جانے کیا کیا ارمان لیئے بابل کے گھر سے بس سر جھکائے
پیاء کے گھر سدھار گئی"۔
۔"ہاجرہ کی یہ کھری کھری باتیں سن کر میں تو بس لاجواب ہی سا ہوا جارہا تھا
اور کچھ نہ سوجی تو بس دبی آواز میں اتنا ہی کہہ سکا: "اب یہ سارے کام تو
سب بہن بیٹیاں کیا ہی کرتی ہیں" میری یہ بات سن کر ہاجرہ نے کہا: "نہیں
مختار صاحب، اب ایسا بھی نہیں ہوتا کہیں۔ میں تو کہتی ہوں کہ اب بھی کچھ
نہیں بگڑا۔ دیکھو زلیخاء کا میاں ایک بہت ہی اچھا، شریف و بھلا مانس انسان
ہے۔ آج شادی کو کوئی پانچ سال کا عرصہ بیت گیا ہے اُس نے کبھی کوئی فرمائش
یا تقاضہ تک نہیں کیا ورنہ یہ آج کل کے لونڈے جہاں دیکھتے ہیں کہ بیوی کے
والدین کے پاس نقد ناوا ہے تو بس بیوی کو ہر دوسرے تیسرے دن میکے اپنی نت
نئی فرمائشوں کے ساتھ روانہ کردیتے ہیں۔ میری مانو تو تم اپنی جائیداد میں
سے زلیخاء کے شرعی و قانونی حصے کی رقم سے زلیخاء کے نام ایک مکان خرید کر
اُسے اُس کا جائز حق ادا کردو۔ ویسے تو اسکا خاوند ماشاءاللہ سے بہت اچھی
ملازمت پر ہے۔ تنخواہ بھی اچھی ہے۔ بس گھر کرائے کا ہے سو اِس بہانے اُن کا
یہ دَلِدَّر بھی دور ہوجائے گا۔
ہاجرہ کی یہ بات سن کر تو میں بس جیسے اپنے آپے ہی سے باہر ہوگیا اور پھر
کچھ جواب نہ ہونے کے سبب آخر کار میں نے بھی وہی حربہ آزمایا جو عموماً مرد
آزمایا کرتے ہیں: "دیکھ ہاجرہ میں نے اب اُس بارے میں تیری ایک نہیں سننی
اور اگر جو تو نے اب اپنی زبان کھولی تو یاد رکھ میں نے تیری زرا بھی پروا
کیئے بغیر تجھے فوراً طلاق دے دینی ہے" میں نے دو ٹوک لہجے میں ہاجرہ سے
کہا اور طلاق کا سن کر وہ میری طرف یوں دیکھ کر بس چپ سی ہو گئی جیسے اُسے
میری کہی بات پر یقین نہ آ رہا ہو۔
اگلے روز مجھے اپنے دونوں بیٹوں کی زبانی معلوم ہوا کہ ہاجرہ نے اُن دونوں
کو بھی زلیخاء کی دھائیاں دیتے ہوئے اُس کے شرعی و قانونی حق کو پائمال نہ
کرنے کی فریاد کی۔ دونوں نے ہی اپنی ماں کی بات سنی ان سنی کردی۔ جس پر میں
نے اُن کی خوب پیٹھ ٹھونکی۔
قصہ المختصر ہم دونوں میاں بیوی حج کے لیئے روانہ ہوگئے۔ اُس فریضے سے فارغ
ہو کر جب ہم واپس آئے تو بڑے عرصے تک تو ہم محلے والوں اور رشتہ داروں کی
مبارکبادیں ہی وصول کرتے رہے۔ سال دو سال کا عرصہ تو یونہی پلک جھپکتے ہی
گزر گیا۔ لیکن اب میں اپنے بیٹوں کے رویوں میں ایک بڑی تبدیلی محسوس کرنے
لگا تھا۔ وہ مجھ سے کٹے کٹے رہنے لگے۔ ہم دوںوں میاں بیوی سارا سارا دن
اپنے کمرے میں یونہی گم سم سے پڑے رہتے۔ وہ دونوں اپنی بیوی، بچوں اور
کاروبار میں مست ہو کر ہم دونوں کو کچھ یوں بھول بھال سے گئے کہ جیسے ہمارا
تو کوئی وجود ہی نا ہو۔ کچھ عرصے بعد ان کے لب و لہجے میں بھی اکتاہٹ، بے
اعتنائی اور روکھا پن سا آ گیا اور پھر ان کا سلوک بھی کچھ ایسا ہو گیا کہ
جیسے ان کو اُس گھر ہی میں جسے میں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے کھڑا
کرکے ان کے نام کیا تھا۔ ہمارا وجود تک کھٹکتا ہو۔
پھر اچانک پچھلے سال میری بیوی ہاجرہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔ چالیسویں تک تو
دنیا دکھاوے کے لیئے اُن سب نے میرا بہت خیال رکھا لیکن چالیسوں ک آخری رسم
پوری ہونے کے بعد جب آخری مہمان بھی اپنے گھر کو روانہ ہوگیا تو پھر بس میں
تھا اور میرا کمرہ۔ بات چیت تو دور کی بات رہی کوئی مجھے چائے پانی اور
کھانا کو پوچھنے کا بھی روادار نہ تھا۔ اگر میں خود ہی اٹھ کر گھسیٹتا ہوا
باورچی خانے جا کر کچھ زہر مار کرلوں تو ٹھیک ورنہ اپنے ہاتھوں سے تو مجھے
کوئی ایک گلاس پانی بھی پلانے کو تیار نہ تھا۔
چند ہفتوں قبل جب میرے صبر اور برداشت کی انتہا ہوگئی تو میں اپنے دونوں
بیٹوں سے یہ سوال کر بیٹھا: "کیا میری عمر بھر کی محبتوں، محنتوں اور
عنایتوں کا بس یہ ہی صلا ہے جو تم نا شکرے مجھے دے رہے ہو۔ اب مجھے احساس
ہو رہا ہے کہ تمھاری مرحومہ ماں نے مجھے کتنا درست مشورہ دیا تھا کہ میں
اپنے جیتے جی جائیداد، کاروبار اور مال و دولت تم جیسے لالچی اور خود غرضوں
کے حوالے نہ کروں۔ وہ ماں تھی نہ تھماری۔ تم دونوں نے اُس کی کوکھ ہی سے تو
جنم لیا تھا۔ خوب اچھی طرح تم اور تمھارے لچھنوں سے آگاہ تھی۔ افسوس تو
مجھے اپنے آپ پر ہے کہ نہ میں تمھیں پہچان سکا اور نہ ہی میں نے اُس بہشتن
ہی کی کوئی بات سنی"۔
میرے منہ سے یہ سب جلی کٹی سن کر ان بے غیرتوں نے مجھے سرد رات کے اندھیرے
میں میرے اپنے گھر سے جو اب میری اپنی ہی عاقبت نااندیشی کے سبب میرا نہ
رہا تھا سے نکال باہر کیا اور میں نے وہ رات پڑوس کے ایک گھر میں گزاری۔
اتنا کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ میں نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا: "مختار
صاحب، صبر کریں۔ اللہ ایسی ناخلف اولاد تو کسی دشمن کو بھی نہ دے"۔ میری
بات سن کر اُس کے چہرے پر ایک بڑی ہی غمناک سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ کچھ توقف
کے بعد بولا: "نذیر صاحب، یہ تو میرے غرور، ہٹ دھرمی، اللہ کی حکم عدولی
اور اپنی کرموں والی بیوی کی بات نہ ماننے کی وہ سزا ہے جو مجھے جیتے جی ہی
اس دنیا میں مل گئی ہے۔ میں بڑے ہی غرور سے کہا کرتا تھا کہ "میرے بیٹے
میرے بازو"، تو ان ہی بازوں نے مجھے خود سے کاٹ کر دور پھینک دیا"۔ اس کی
آواز میں زمانے بھر کا درد، حسرت اور افسوس نمایاں تھا۔
۔"کاش میں نے اپنے تینوں بچوں کو اپنی آنکھیوں کی طرح سمجھا ہوتا تو شاید
میرے ساتھ ایسا نہ ہوتا۔ کیونکہ ہر کسی کے لیئے اُس کی آنکھیں ایک جیسی ہی
حیثیت رکھتی ہے کوئی بھی اُنہیں ایک دوسرے پر فوقیت نہیں دے سکتا کیونکہ
جتنی پیاری ایک آنکھ ہوتی ہے اتنی ہی پیاری دوسری بھی ہوتی ہے۔ اکثر یہ
آنکھیں دکھ بھی آیا کرتی ہیں اور اُن کے دکھنے سے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ
جو آنکھیں ایک وقت میں نعمت ہوسکتیں ہیں وہ زحمت کا سبب بھی بن سکیتں ہیں۔
لیکن میں نے اپنے بچوں میں امتیاز کیا۔ اپنی بیٹی کا شرعی و قانونی حق غصِب
کر کے اپنے بیٹوں کے حوالے کردیا"۔
ایک لمحہ توقف کے بعد وہ میری طرف دیکھتا ہوا بولا: "نذیر صاحب، میں نے آپ
کو اپنی کہانی اس لیئے سنائی ہے کہ آپ ایک کالم نویس ہیں، میری آپ سے
التجاء ہے کہ آپ میری کہانی کو اپنے کالم کے زریعہ سے اور لوگوں تک بھی
پہنچائیں تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور میرے جیسے ناانصاف بن کر خود اپنے حق
میں ناانصافی نہ کریں"۔
ابھی میں اُس کی کہی ہوئی باتوں کی فُسُوں کاری میں ہی گم تھا کہ اچانک ایک
پانچ چھے سال کا بچہ دوڑتا ہوا آ کر اُس سے بولا: "نانا ابو، نانا ابو۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، وہ نا، وہ امی آپ تو بلا لی ایں، کے لئی ایں کہ داو نانا ابو
کو بولو کہ ناتتہ تیال اے، دلدی سے آ تل ناتتہ ترلیں" [امی آپ کو بلا رہی
ہیں، کہہ رہی ہیں کہ جاو نانا ابو کو بولو کہ ناشتہ تیار ہے، جلدی سے آ کر
ناشتہ کرلیں]۔
بچے کو دیکھ کر اُس کے چہرے پر ایک بڑی ہی وارَفْتَگانہ سی مسکراہٹ آ گئی۔
بینچ سے اٹھ کر اُس نے بچے کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور میری طرف دیکھتے
ہوا بولا: "یہ میرا نواسہ خرم ہے، میری زلیخاء کا بیٹا اور معین میرا داماد
ہے۔ اچھا اب اجازت دیں پھر ملاقات ہوگئی"۔ اتنا کہہ کر وہ پلٹ کر چل پڑا۔
میری سوچوں کے سارے سوتے خشک ہو چکے تھے اور صرف اُس کے کہے یہ جملے زہن
میں بازگشت کرتے پھر رہے تھے: "بھلا لڑکیوں کا بھی جائیدادوں میں کوئی حصہ
ہوا کرتا ہے۔ اُن کے لیئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ انہیں پال پوس کر بڑا
کردیا جائے، تھوری بہت تعلیم دلوائی۔ ایک اچھا سا بر ڈھونڈ اُن کی شادی
کروا دی اور اللہ اللہ خیر صلا"۔ |