ملک بھر میں انتخابات کا سیشن
عروج پر ہے ۔جہاں امیدوار وں نے اپنی اپنی میٹنگ عوام سے فکس کر لی ہیں
وہیں پہلا مرحلہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا تھا جو کہ بخیر و خوبی مکمل
کر لیا گیا ہے۔دوسرے مرحلے میں باری آتی ہے امیدواروں کی اسکروٹنی کا جو کہ
بے رحمانہ انداز میں جاری ہے۔ بڑے بڑے بُرج اس اسکروٹنی میں اُلٹ رہے ہیں
جیسا کہ آپ سب میڈیا اور اخبارات کی شہ سرخیوں میں دیکھ اور پڑھ رہے ہونگے۔
کاش کہ یہ سلسلہ صحیح معنوں میں جاری رہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ اس بار
وجود میں آنے والی اسمبلی گندے انڈوں سے پاک ہوگی۔ اور اگر ایسا ہوگیا تو
یہ بھی امید ہو جائے گا کہ عوامی مسائل کا سدِّباب بھی ہونے کو ہے۔ صاف
ستھری اسمبلی وجود میں آنے سے ملک بھی ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہو سکے گا۔
سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری کیس میں 189 جعلی ڈگری کیس جو کہ سابق ارکانِ
پارلیمنٹ اور موجودہ امیدواروں کی ہے اس کو تین دنوں میں تصدیق کرانے کا
حکم دے دیا ہے۔ چیف جسٹس صاحب کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی
منصفانہ اور شفاف اسکوٹنی کرے ۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ
الیکشن کمیشن جعلی ڈگری والوں کو نوٹیفیکیشن کے ذریعے نا اہل قرار دے سکتا
ہے۔ اس وقت تک فیصل صالح حیات ، جمشید دستی ، سابق وفاقی وزیر تعلیم وقاص
اکرم ، عاقل شاہ اور کئی دیگرافراد جعلی ڈگری اور پانی کی چوری کے زد میں
آچکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہیئے کہ قرضے معاف کرانے والوں کو بھی نا اہل
کرے، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ایسے افراد دوبارہ اقتدار میں آکر ملکی
خزانے کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں رکھیں گے۔ چھان بین
ایسا شفاف ہونا چاہیئے کہ جب کوئی شخص امیدوار کے طور پر آناچاہے تو اس کے
تمام کاغذات بالکل کلیئر ہوں ۔ البتہ اگر اسی بے رحمانہ طریقے سے تحقیق
امیدوار جاری رہا تو آئندہ الیکشن میں ضرورت امیدوار برائے الیکشن کا
اشتہار بھی دینا پڑ سکتا ہے کیونکہ جس تیزی سے آج کے امیدواروں پر تمام
معاملات ثابت ہو رہے ہیں اس سے تو یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس
صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ حقیقی جمہوریت کے لئے ملک کو آلودہ قیادت سے
بچانا ہوگا۔ بالکل بجا فرمایا موصوف نے اور الیکشن کمیشن کو ان کی تقلید
کرتے ہوئے شفاف، منصفانہ انتخابات کرانا ضروری ہے۔ الیکشن ملک کے نئی
مستقبل کا تعین کرے گا۔ الیکشن کمیشن کسی دباﺅ میں آئے بغیر ضابطے کی تمام
کاروائی عمل میں لائے جبھی تو حقیقی جمہوریت ملک میں قائم ہو سکتی
ہے۔الیکشن کمیشن اپنی چھلنی سے چھان پھٹک کر شفاف امیدوار لانے کی جستجو کر
رہی ہے اسی لئے تو یہ جملہ آج کل زبان زدِ عام ہے کہ ” کیا واقعی تبدیلی
آنے والی ہے“
صرف ڈگری کا چرچا ہی کیوں یہاں تو حال یہ ہے کہ امیدواروں کو عام معلومات
کے سوالات کا جواب بھی نہیں آتا ۔ ریٹرننگ افسران کے پوچھے گئے نسبتاً آسان
سوالات کے جوابات بھی ان امیدواروں نے غلط ہی دیا اور سب کو حیران بھی کر
دیاجس پر وہاں ایک دلگداز قہقہے کی بہار آگئی۔یہ تو حال ہے ہمارے پارلیمان
میں جانے والے امیدواروں کا ، جعلی ڈگری ہو یا کوئی اور معاملہ ان
امیدواروں کے سر تو شرم سے نہیں جھکے مگر یہ ضرور ہوا کہ ہم بین الاقوامی
سطح پر اپنے ملک کی بدنامی سمیٹ رہے ہیں۔
گذشتہ کئی عشروں سے عوام پر حکمرانی کرنے والے حکمرانوں نے اقربا پروری،
کرپشن، بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ کیا ہے جو کہ اب رُکنے میں ہی نہیں
آرہا۔ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت اور اس کے
ادارے قرضوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں۔قرضے لے کر ہڑپ کر جانے والے زیادہ لوگ
نہیں ہیں لیکن جتنے لوگ ہیں ان کے کئے کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے۔جعلی
ڈگری کے ساتھ قرض لے کر ملکی خزانہ کو چاٹنے والوں کو بھی اس الیکشن میں
حصہ لینے کی اجازت نہیں ملنی چاہیئے۔ عوامی خدمت کا نعرہ لگانے والے اقتدار
میں آکر عوامی خدمت کے بجائے اپنی جیبیں بھرتے رہے ہیں۔ آج وہ مقام آگیا ہے
کہ پاکستانی قوم مقروض ہے اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور انصاف
اور امن و امان کے طلب کے لئے در بدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
اب تو جنرل کیانی صاحب نے بھی آج کے اخباروں میں یہ بیان دے دیا ہے کہ
الیکشن کمیشن سے ہر ممکن تعاون کریں گے، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فوج
ایسے انتخابات کا دل سے خیر مقدم کرے گی جن میں سب جماعتیں شامل ہوں۔
جماعتیں ضرور شامل ہوں مگر کرپٹ عناصر سے پاک لوگ ہی شامل ہوں تو بہتر ہے۔
کئی بار میڈیا پر اسمبلی ممبران سے انگریزی میں سوالات دکھائے گئے مگر وہ
انگریزی سے بھی نابلد ہی دکھائی پڑے اور آج تو حد ہوگئی کہ انہیں عام
معلومات کے سوالات پر بھی عبور نہیں ۔ ایسے لوگ اگر اسمبلیوں میں آئیں گے
تو بھلا ملک کا کیا بھلا ہوگا۔ فخرو بھائی سے بس یہی گزارش ہے کہ وہ اپنے
کام میں لگے رہیں ویسے بھی چیف جسٹس صاحب اورجنرل صاحب ان کے ساتھ ہیں تو
پھر انہیں کس بات کا خوف ! یہ مثال ان پر ہی فٹ آتی ہے کہ ” سیّاں بھئے
کوتوال اب ڈر کاہے کا “
الیکشن کمیشن نے ووٹ پیپر میں ایک خالی خانہ بھی رکھ دیا ہے کہ کوئی ووٹر
کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینا چاہے تو خالی خانے پر مہر لگا دے ۔ اس پر
بھی کچھ مخالفین نے باتیں کی ہیں۔ بھائی مخالفت در مخالفت کے باب کو اب بند
کریں اگر کچھ اچھا ہونے جا رہا ہے اس ملک کے لئے تو ہونے دیں۔ اس خالی خانے
سے کم از کم یہ تو پتہ چل جائے گا کہ عوام کیا چاہتی ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ
کسی حلقے میں خالی خانے پر مہر لگانے والوں کی تعداد پولنگ میں ڈالے جانے
والے کل ووٹوں کی اکیاون فیصد یعنی نصف سے زائد ہوگئی تو اس حلقے میں
انتخاب کو کالعدم قرار دے کر نئے سرے سے انتخاب کرائے جائیں گے۔ کیا برائی
ہے اگر ایسا ہو۔ جب اس حلقے کی عوام ایسا سمجھتی ہے تو اسے اس کا مکمل حق
حاصل ہے کہ وہ ایسا کرے اور الیکشن کمیشن حق رائے دہی کے تناسب کے تناظر
میں یہ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوگی کہ دوبارہ ووٹنگ کرائے۔
جہاں تک جعلی ڈگری کی ڈھٹائی ہے وہ تو سب ہی دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ڈگری
حاصل کرکے ایوانوں میں پہنچا جاتا ہے اور اب الیکشن کمیشن نے یہ قدم
اُٹھایاہے تو اس پر بھرپور طریقے سے عمل در آمد ہونا چاہیئے۔ اگر کوئی پھر
بھی کہتا ہے کہ میری ڈگری جعلی نہیں تو سزا سے پہلے راہِ فرار اختیار کیوں
کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سرگودھا کہ ایک امیدوار نے کیا کہ سزا آنے سے پہلے ہی
کمرہ عدالت سے فرار ہو گئے۔ اس پر تین سال کی سزا اور پانچ ہزار روپئے
جرمانہ کی سزا ہے۔
خوشحالی وطن میں ہے ہر اک کا ساتھ شرط
اُمید کی کرن تو ہے عوام کی بات میں
درست اور ٹھیک قیادت کا انتخاب عوام کا حق ہے اور گیارہ مئی کو عوام سے
امید ہے کہ وہ درست فیصلہ ہی کریں گے ۔ اور عوام درست فیصلہ کیوں نہ کریں۔
اپنے معیشت کی بحالی کے لئے، امن و امان کے لئے، مہنگائی، بیروزگاری کے
خاتمے کے لئے ، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے عوام کا درست فیصلہ ضروری ہے۔ اب
بھی غفلت کی نیند سوئے رہے تو پھر آئندہ پانچ سال کسی کو احتجاج کرنے کا
استحقاق نہیں رہے گا۔ زندہ رہنا ہے تو اب جاگ جایئے کہ اسی میں آپ کی
بھلائی پنہاں ہے۔ |