حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ
فرماتے ہیں کہ انصار ؓ نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ (ہمارے) کھجور کے
باغات ہمارے اور ہمارے (مہاجر) بھائیوں کے درمیان تقسیم فرما دیں۔ آپ نے
فرمایا نہیں بلکہ (ان باغات میں ) محنت تو ساری تم کرو۔ ہم (مہاجرین) پھل
میں تمھارے شریک ہو جائیں گے۔ انصارؓ نے کہا :ترجمہ یعنی ہم نے آپ کی بات
دل سے سنی اور اسے ہم نے مان لیا جیسے آپ کہیں گے ویسے کریں گے۔ حضرت
عبدالرحمن بن زید بن اسلمؒ فرماتے ہیں کہ حضور نے انصار ؓ سے فرمایا تمھارے
(مہاجر) بھائی اپنے مال اور اولاد چھوڑ کر تمھارے پاس آئے ہیں۔ انصار ؓ نے
کہا ہم اپنے مال زمین و باغات اپنے اور مہاجر بھائیوں میں تقسیم کر لیتے
ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا اس کے علاوہ کچھ اور بھی تو ہو سکتا ہے۔ انصار ؓ نے
کہا یا رسول اللہ وہ کیا؟ حضور نے فرمایا یہ مہاجرین کھیتی باڑی کا کام
نہیں جانتے ہیں اس لیے کھیتی کا کام تو سارا تم کرو اور پھل میں تم ان کو
شریک کر لو۔ انصار ؓ نے کہا ٹھیک ہے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ مہاجرین ؓ نے عر ض کیا یا رسول اللہ جس قوم کے پاس
ہم لوگ آئے ہیں ہم نے ان جیسی اچھی قوم نہیں دیکھی کہ ان کے پاس تھوڑا سا
مال بھی ہو تو بہت عمدہ طریقہ سے ہمدردی اور غم خواری کرتے ہیں اور اگر
زیادہ مال ہو تو خوب زیادہ خرچ کرتے ہیں اور (کھیتی باڑی اور باغات کو
سنبھالنے کی) محنت تو ساری خود کرتے ہیں ہمیں محنت کرنے نہیں دیتے ہیں اور
پھل میں ہمیں وہ اپنا شریک کر لیتے ہیں ہمیں تو یہ خطرہ ہو رہا ہے کہ وہ
سارا ثواب لے جائیں گے۔ آپ نے فرمایا نہیں (وہ سارا ثواب نہیں لے جا سکتے)
جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور ان کے لیے اللہ سے دعا کرتے رہو گے۔
قارئین آج کے کالم میں ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہو کر منہ میں انگلی ڈالے
کبھی اس طرف دیکھتے ہیں اور کبھی اس طرف بالکل ایسے جیسے ایک کہانی کے اندر
ایلس نام کی ایک کمسن لڑکی کا ذکر مصنف کچھ اس انداز میں کرتا ہے کہ وہ کسی
عجائب کدے کے اندر کس طرح کھو جاتی ہے۔ 1947میں قیام پاکستان کا واقعہ پیش
آیا کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
قیام پاکستان ہمارے نزدیک نہ تو کوئی حادثہ ہے اور نہ ہی کوئی سازش بلکہ ہم
اپنے ایمان کی روشنی میں یہ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کا قیام بیسیویں صدی
کی کرامت سے کم نہیں ہے ۔ قیام پاکستان کے لیے لاکھوں انسانوں نے کلمے کی
بنیاد پر اپنا خون دیا اور برصغیر میں مسلم اقلیتی علاقوں میں ہندوﺅں اور
سکھوں نے مسلمانوں کے خون کے ساتھ وہ ہو لی کھیلی کہ زبان اور نو کِ قلم
بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔ ہم موجودہ پاکستان کے ان صوبوں اور علاقوں سے تو
آگاہ ہیں کہ جہاں مسلمان اکثریت میں آباد تھے اور جو ظلم و ستم برصغیر کے
مسلم اقلیتی علاقوں میں ہندوﺅں اور سکھوں نے مقام انسانیت سے گر کر
مسلمانوں پر ڈھائے اس کا رد عمل موجودہ پاکستان کے ان مسلم اکثریتی علاقوں
میں دیکھنے میں آیا اور کئی قلم کاروں جن میں سعادت حسن منٹو، قدرت اللہ
شہاب، عصمت چغتائی، ممتاز مفتی ، اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی اور دیگر
شامل ہیں نے خون کی اس تمام داستان کو اپنے قلم کے ذریعے تحریر کیا ۔کیا ہم
نے کبھی سوچا ہے کہ پاکستان کی بنیادوں میں اپنے خون کے ذریعے خشت ِ اول کس
نے رکھی تھی؟ کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ وہ لاکھوں شہید جو اس
وطن کی خاطر کٹ گئے ان کی وہ نسلیں جو ہندوستان میں رہ گئیں ان کے ساتھ کیا
بیتی؟ اور کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ وہ لوگ جو اپنا گھر بار ، کاروبار،
کھیت کھلیان، عزیز رشتہ دار الغرض ہر دنیاوی مال و متاع قربان کر کے کلمے
کے نام پر بننے والی اس پہلی اسلامی نظریاتی سلطنت کی طرف ہجرت کر کے آگئے
ہم” انصار“ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ یہ تمام سوالات انتہائی تلخ ہیں
لیکن رب کعب کی قسم ہمارے ناقص علم کے مطابق انتہائی سچے ہیں۔
قارئین یہ ہمارے آج کے کالم کا ابتدائیہ ہے ہم نے اپنے استاد محترم آزاد
کشمیر کی صحافت کے چمکتے ہوئے ستارے اور ایف ایم 93ریڈیو آزاد کشمیر کے
مقبول ترین پروگرام ”لائیوٹاک ود جنید انصاری“میں ایکسپرٹ جرنلسٹ سینئر
صحافی راجہ حبیب اللہ خان کے ہمراہ 700سے زائد سائنسدانوں ، سیاستدانوں،
ماہرین تعلیم ، ماہرین معیشت و معاشرت سے لے کر ہر طبقہ زندگی سے تعلق
رکھنے والے انتہائی قابل قدر لوگوں کے انٹرویوز کیے اور خیال و آواز کے اس
سفر میں سوال ہی سوال میں ان کئی رازوں سے پردے ہٹانے کی کوشش کی کہ جن کا
تعلق پاکستان، قیام پاکستان، استحکام پاکستان اور عروج پاکستان کے ساتھ ہے۔
ہم نے پاکستان مسلم لیگ ن کے چیئرمین راجہ ظفرا لحق ، ترجمان صدیق الفاروق،
سینئر رہنما احسن اقبال، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار سکندر حیات خان،
راجہ فاروق حیدر خان، سابق سپیکر شاہ غلام قادر، ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چودھری
طارق فاروق سے لے کر درجنوں مسلم لیگی رہنماﺅں کو اپنے پروگرام میں مدعو کر
کے ان سے جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان کیا ہے؟ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی
آزاد کشمیر کے صدر اور موجودہ وزیراعظم چودھری عبدالمجید، صدر آزاد کشمیر
سردار محمد یعقوب خان، سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چودھری، پاکستان
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اعتراز احسن ، پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے
صدر سابق وزیر اعلیٰ میاں منظور وٹو سے لیکر دیگر درجنوں رہنماﺅں ،وفاقی
وزراءاور آزادکشمیر کابینہ کے ارکان سے بھی بات چیت کی اور ان سے بھی جاننے
کی کوشش کی کہ ان کے تصورات اور نظریات کے مطابق پاکستان کیا ہے ؟ اسی طرح
پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان ،معروف ایٹمی سائنسدان محسن پاکستان
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ،پاکستان میں تعلیمی انقلاب کے بانی ڈاکٹر عطا الرحمن
سے لیکر ہم ہر اس رہبر کے پاس گئے کہ جس کے پاس ہمارے خیال میں ہمارے مختلف
مضطرب سوالوں کے جوابات موجود تھے اور ان سے بھی پوچھا کہ جناب یہ پاکستان
کیا ہے ؟
قارئین پاکستان اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ بہت بڑی نعمت ہے یہ ایک زندہ معجزہ
ہے لیکن چونکہ معجزات صرف پیغمبر وں کو اللہ تعالیٰ عطافرماتاہے اسے ہم
زندہ کرامت کہیں گے پاکستان کے قیام میں سب سے زیادہ حصہ ان مہاجرین کا ہے
کہ جنہوںنے کلمے کیلئے اپنی جانیں قربان کردیں اور اس وطن کو عملی شکل دے
دی لیکن جواباً ہم نے انصار کی جگہ پر بیٹھ کر ان مہاجرین کے ساتھ جو سلوک
کیا وہ ہر گز ہر گز مناسب نہ تھا سقوط ڈھاکہ جو 1971ءمیں پیش آیا اس کے
پیچھے بھی بنگالیوں کی تضحیک پر مبنی وہ شرمناک داستان ہے کہ جسے دہراتے
ہوئے دل کانپتاہے موجودہ پاکستان کے سیاست دانوں اور ہماری آرمی کے چند
افسران نے بنگالیوں کو جس طریقے سے ذلیل کیا اور ان کی بے عزتی 24سال جاری
رکھی تنگ آکر ان بنگالیوں نے بنگلادیش قائم کرلیا کہ جنہوںنے سب سے پہلے
قرارداد پاکستان پاس کی تھی ہم نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہ سیکھا اور
فوجی آمروں اور جمہوریت کے نام پرآنے والے شخصی ڈکٹیٹر شپ کے حامیوں نے وہی
کھیل ان مہاجرین کے ساتھ کراچی اور سندھ میں کھیلا اور ان پر مذہب اور مسلک
کے نام پر اتنے ظلم ڈھائے کہ تنگ آکر ان لوگوں نے بھی پاکستانیت کے دھارے
کے اندر رہتے ہوئے ایک علیحدہ شناخت ”مہاجر قومی موومنٹ “کے نام سے قائم
کرلی یہ تنظیم ان مہاجروں نے قائم نہیں کی تھی بلکہ اس کے پیچھے بھی ”دیدہ
ونادیدہ طاقتیں “اور بعض تجزیہ کاروں کے مطابق امیر المومنین جنرل ضیاءالحق
کے اشاروں پر کام کرنے والے ”فرشتے “موجود تھے یہ مہاجر جب پاکستان آئے تو
تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجئے کہ پاکستان کی تمام بیوروکریسی کا 90فیصد حصہ
انہی مہاجروں کا تھا کیونکہ سرسید احمد خان کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے سب
سے زیادہ تعلیم انہی نے حاصل کر رکھی تھی لیکن عملا ً یہ لوگ انتہائی شریف
النفس اور اردو بولنے والے ”بھیے “تھے ان کو”بھائی لوگ “ کس نے بنایا ؟ اُن
تمام گھٹیا اور سازشی ذہن رکھنے والی فوجی اور جمہوری حکومتوں نے جو تقسیم
در تقسیم کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے پاکستانیت کی جڑیں کاٹ رہی تھیں آج ایم
کیوایم ”مہاجر قومی موومنٹ “سے اپنا راستہ ایک مرتبہ پھر بدل کر ”متحدہ
قومی موومنٹ “بن چکی ہے اس کے باوجود اس جماعت کو ایک خاص ذہنیت رکھنے والی
فوجی اور سیاسی قوت تسلیم کرنے سے انکاری ہے -
قارئین درج بالا تمام باتیں تحریر کرنے کے بعد اب موضوع کے اہم ترین حصے کی
طرف چلتے ہیں متحدہ قومی موومنٹ کے دوارکان قانون ساز اسمبلی آزادکشمیر
وزیر بھی ہیں محمد طاہر کھوکھر کے پاس وزارت ٹرانسپورٹ کا قلم دان ہے اور
محمد سلیم بٹ کے پاس سپورٹس یوتھ اینڈ کلچر کی وزارت ہے محمد سلیم بٹ نے
اپنی وزارت کے تحت مظفرآباد میں چند ماہ قبل ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا
انہوںنے مظفرآباد سٹیڈیم میں پچاس ہزار سے زائد اور بعض زرائع کے مطابق ستر
ہزار کے قریب کشمیری اکٹھے کیے جنہوں نے بیک وقت یک زبان ہوکر کشمیری اور
پاکستانی ترانے پڑھے اور پوری دنیا کو بتادیا کہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ
کیا رشتہ ہے اور یہ ایک ورلڈ ریکارڈ بھی تھا محمد سلیم بٹ نے اسی پر اکتفا
نہ کیا وہ میرپور پہنچے اور چھ اپریل 2013ءکو قائد اعظم سٹیڈیم میرپور میں
”ورلڈ کشمیر فلاور ڈے “کے نام پر ایک لاکھ سے زائد کشمیری اکٹھے کرنے کیلئے
کوششیں شروع کردیں پورے شہر میں جہاں اس ایونٹ کی حمایت میں کام شروع ہوا
وہیں پر چند لوگوں نے اس کی مخالفت شروع کردی ہم مخالفت کرنے والے ان
دوستوں کی نہ تو کوئی حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی تنقید کرتے ہیں
ہم ان دوستوں سے علامہ اقبالؒ کی زبان میں چند باتیں کہیں گے
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی
اس قدر ہوگی ترنم آفریں باد ِبہار
نکہت ِ خوابیدہ غنچے کی نواہوجائے گی
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نفس باد ِ صبا ہوجائے گی
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوزوساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہوجائے گی
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغام ِسجود
پھر جبیں خاک ِ حرم سے آشنا ہوجائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتانہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
قارئین ہم اپنے تمام معترض دوستوں سے گزارش کرتے ہیں کہ قومی نوعیت کے
کاموں کو ”مذہبی سیاست یا سیاسی مذہب “نذر کرنے سے گریز کیاجائے کیونکہ
پہلے بھی ان تمام غلطیوں کا خمیازہ پوری پاکستانی قوم نے بھگتا ہے خدارا
پرانے رنجشوں کو دورحاضر میں ترک کرکے کلمے کی بنیاد پر”انصار اور مہاجرین
“جیسی مواخاة قائم کی جائے اسی میں ہماری بقاءہے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک راہگیر نے دوسرے سے پوچھا یار یہ جو آسمان پر دکھائی دے رہاہے یہ چاند
ہے یا سورج ؟
دوسرے نے انتہائی معصومیت سے جواب دیا یا ر میں بھی یہ سوچ رہاہے کہ چاند
ہے یا سورج میں خود اس شہر میں نیا ہوں -
قارئین کبھی کبھی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہم بھی ان مہاجروں کی
طرح اس شہر میں نئے ہیں ۔ |