نسل نو کے جمہوریت کو مسترد کرنے سے سیاستدان فکر مند

کیا کبھی کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ ایک ایسا ملک جہاں ایک عرصے سے لوگوں کا ذہن بنایا جارہا ہے کہ اگر پاکستانی قوم نے ترقی کر نی ہے، امن لانا ہے، عوام کو سکون کی زندگی مہیا کرنی ہے اور ہر ایک کو اس کا پورا پورا حق دینا ہے توپاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہوگا۔اس کے بغیر پاکستان برباد ہوجائے گا۔اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کبھی امریکا کی مثالیں دی جاتیں ہیں اور کبھی کسی اور ترقی پذیر ملک کو آئیڈل کے طور پر پیش کیا جاتاہے ۔اگر کوئی پاکستان میں اسلامی نظام کی بات کرتا تو کہا جاتا کہ اسلامی نظام کا مطالبہ کرنا تو پتھر کے دور کی بات ہے۔ میڈیا سمیت تمام وسائل کے ذریعے نوجوانوں اور اس ملک کے ہر فرد کے ذہن میں یہ بات ڈالی جاتی رہی کہ اگر اس ملک میں اسلامی نظام نافذ ہوگیا تو سب بھوکے مرجائیں گے، ہر طرح انہیںاسلامی نظام سے ڈرایا جاتا رہا۔ لیکن اسی ملک کے نوجوان جن کو ہر طرح سے اسلامی نظام کی خامیاں بتائی جاتی رہیں،جب ان نوجوانوں نے ایک عرصے سے ملک میں چلنے والے جمہوری نظام کو اچھی طرح آزما لیا تو انہوں نے جمہوری نظام کو بری طرح مسترد کر کے اسلامی نظام میں ہر قسم کی کامیابی کو پوشیدہ قرار دے دیا ۔جس سے سیکولر اور جمہوری نظام کے رکھوالے یقینا ناخوش اور حیرت زدہ ہیں۔

گزشتہ دنوں برٹش کونسل کی جانب سے سروے کیا گیا، اس جائزے کے دوران اٹھارہ سے انتیس سال کی عمر کے پانچ ہزار نوجوانوں سے معلومات حاصل کی گئیں۔بی بی سی کی نامہ نگار لاگیورین کے مطابق یہ جائزہ ایک قنوطی نسل کی تصویر کشی کرتا ہے جو پانچ سالہ جمہوری دور سے ذرا بھی خوش نہیں۔ اس سروے کے مطابق پچاس فیصد سے زائد نوجوانوں نے کہا کہ جمہوریت ان کے لیے اور ملک پاکستان کے لیے کبھی بھی اچھی نہیں رہی ہے۔ چورانوے فیصد نوجوانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان غلط سمت میں جارہا ہے۔2007ءمیں کیے گئے سروے میں یہ شرح 50 فیصد تھی جو کہ اب بڑھ کر نوے فیصد سے زائد ہو چکی ہے۔ بہترین سیاسی نظام کے بارے میں پوچھے جانے پر سب سے زیادہ افراد نے شرعی نظام کے حق میں ووٹ دیا جبکہ فوجی نظام کو دوسرے اور جمہوریت کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا۔ جمہوری حکومت کے حق میں بولنے والوں کی تعداد صرف 13 فیصد رہی۔پچیس فیصد نوجوانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ملک میں جاری تشدد سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں یا وہ کسی نہ کسی پرتشدد واقعے کے عینی شاہد و گواہ ہیں اورقبائلی علاقوں میں یہ شرح ساٹھ فیصد رہی۔ایک اور قابل فکر اور پریشان کن با ت یہ بھی ہے کہ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی قیمتیں دہشت گردی کے خوف کو بھی مات کرکے آسمان کو چھونے لگی ہیں اور ستر فیصد کے قریب یہ صورت حال پانچ برس قبل سے بھی بدتر ہے۔ نوجوان نسل جمہوریت سے نالاں اور شاکی دکھائی دیتی ہے ۔ سروے یہ بتاتا ہے کہ نسل نو اور نو جوان نسل ملک میں اسلام کا نفاد چاہتے ہیں شرعی نظام کے حامی ہیں کیونکہ وہ جمہوریت اور جمہوری نظام کی تلخیاں سہہ سہہ کر قوت برداشت کھو بیٹھے ہیں اور جمہوریت کے مزید متحمل نہیں ہوسکتے۔

متعددمذہبی رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ نوے فیصد نوجوان ملک میں 65 سال سے چلتے ہوئے فر سودہ نظام سے بیزار جبکہ اکثریت قرآن و شریعت کے نفاذ کے خواہشمند ہے، تمام مسائل کاحل اور دنیا میں قیام امن کے لیے قرآن و سنت کے نفاذ میں مضمر ہے۔ نوجوان اپنا بھرپور کردار ادا کرکے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں کیوں کہ پاکستان میں 60 سے 65 فیصد نوجوان طبقہ ہے جو کہ امید پاکستان ہیں۔ نوجوان طبقہ کا دین و قرآن سے تعلق میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔نوجوان جمہوریت کو مسترد کر کے اسلامی نظام کو ملک کے لیے سب سے بہتر قرار دے رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی اثر پذیری اور شریعت کومقتدیٰ بنانے کے حوالے سے جس حقیقت کا اظہار نوجوان نسل کی جانب سے سامنے آیا، یہ اس امر کی کھلی دلیل ہے کہ قوم کے نوجوان دشمن کی سازشوں کا مکمل ادراک رکھتے ہیں۔اسی لیے نسل نو طاغوتی نظام حکومت کو مسترد کررہی ہے۔ یہ امر حوصلہ افزا اور خوش آئند ہے کہ جمہوریت کی حقیقت سے نئی نسل مکمل طور پر آگاہ ہے۔

یہاں یہ بات بھی وضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بیلٹ پیپر میں ایک خالی خانہ چھوڑا گیا تھا جس کے ذریعے کوئی بھی ووٹر تمام امیدواروں کو رد کرسکتا تھا۔جس بارے میں عوامی رائے معلوم کرنے کے لیے ایک سروے کیا گیا جس میں لوگوں نے کہا کہ یہ بہت اچھا اقدام ہے کیونکہ اس سے زبردستی یا نہ چاہتے ہوئے ووٹ کاسٹ نہیں کیا جاسکے گا۔ لوگ خالی خانے پر اپنا ووٹ کاسٹ کر کے اس نظام کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکیں گے۔ لیکن برٹش سروے میں نوجوانوں کی اکثریت کی جانب سے جمہوریت کی مخالفت سامنے آنے کے بعد تمام سیاست دان پریشان ہوگئے اور انہوں نے سوچا کہ اگر خالی خانہ برقرار رہتا ہے تو ملک کی اکثریت اس نظام کو مسترد کردے گی جس سے جمہوری نظام کو نقصان ہوسکتا ہے۔اس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بیلٹ پیپرز میں خالی خانہ چھوڑنے کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کا بیلٹ پیپر میں خالی خانہ چھوڑنا غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام ہے۔

سیاستدانوں کا کہنا تھا کہ خالی خانہ چھوڑنے سے جمہوریت کو نقصان ہوگا۔پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل اور سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر زور دیا کہ بیلٹ پر خالی خانہ شامل نہ کیا جائے کیونکہ اس سے جمہوری عمل کو فائدہ ہونے کی بجائے نقصان کا بڑا اندیشہ ہے۔ اس سے سیاستدانوں اور جمہوری عمل کی بے توقیری کا بھی خطرہ ہے۔ خالی خانے کی وجہ سے انتخابات میں ٹرن آوٹ کی شرح خطرناک حد تک کم ہو سکتی ہے۔متعدد سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں نے کہا کہ بیلٹ پیپر میں ایسے آپشنز رکھنے چاہییں جس کی وجہ سے جمہوریت قائم رہے ۔ اس طرح کے اقدامات غیر جمہوری طاقتوں کے لیے راہ ہموار کریں گے جو کسی طور پر بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔سیاستدانوں کے انتہائی زیادہ اصرار کے بعد الیکشن کمیشن کو بیلٹ پیپر میں خالی خانہ چھوڑنے کا اپنا فیصلہ واپس لینا پڑااور انہوں نے خالی خانہ چھوڑنے کا فیصلہ موخر کردیا۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ خالی خانہ چھوڑنے جانے پر سیاستدانوں کو حیرت انگیز نتائج کا سامنا کرنا پڑتا، لوگوں کی اکثریت خالی خانے پر مہر لگا کر جمہوری نظام کو مسترد کردیتی، اس کی واضح مثال سروے میں نوجوانوں کی اکثریت کی جانب سے جمہوریت کی مخالفت کی صورت میں سامنے آچکی ہے۔ سیاست دانوں کی طرف سے خالی خانے کی مخالفت سے عوام میں ان کے اور اس نظام کی مقبولیت کے دعوے کے پول کھل گئے ہیں۔ان سیاست دانوں کو اس بات کا پتا ہے کہ عوام ان سے اور اس نظام سے کس قدر نفرت کرتے ہیں،اس لیے تو خالی خانے کے خلاف شور مچایا گیا ہے۔انہیں ڈر تھا کہ کہیں عوام اکثر حلقوں سے تمام امیدواروں کو مسترد کر کے اس نظام کے خلاف اپنا احتجاج نہ ریکارڈ کرایں۔

امیدوار کامیاب ہونے کے لیے بے بہا پیسا اور کئی دوسرے حربے استعمال کرتے ہیں، اگر ہر صرف حقیقت پر مبنی انتخابات ہوں تو پتا چل جائے گا کہ کتنے فیصد لو گ ووٹ ڈالتے ہیں۔سیاستدان لوگوں کو برادری، قبیلے اور رشتہ داری، نوکریوںکے حربے استعمال کرتے ہیں۔کئی حیلوں بہانوں سے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن تک لایا جاتا ہے۔ جس کے پاس جتنا پیسا اس کی کامیابی کے آثار اتنے ہی زیادہ ہیں۔پاکستان کے عوام ایک عرصے سے پاکستان میں جمہوریت میں عوام کے ساتھ کھیلا جانے والا کھیل کھیل دیکھ رہے ہیں، بالآخر تنگ آکر نوجوانوں کی اکثریت نے جمہوریت کو مسترد کر کے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کردیا ہے۔ لیکن جمہوری نظام والے اسلامی نظام کو یہاں کیسے نافذ ہونے دیں گے؟ جمہوریت ہو یا آمریت سب کی روزی اسی فرسودہ نظام سے لگی ہوئی ہے۔ بندر کا تماشہ دکھانے والا جب تماشہ ختم کرتا ہے تو بندر سے پوچھتا ہے کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کررہے ہیں تو بندر پیٹ پر ہاتھ مارتا ہے اور تماشا دکھانے والا کہتا ہے پاپی پیٹ کے لیے کررہے ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 640022 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.