بازاروں میں آٹا 22روپے اور چاول
24-25روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ باقی چیزوں کو چھوڑ دیجئے ۔ نہانے کا ایک
معمولی صابن 28-30روپے میں آتا ہے۔سرسوں اور دیگر کھانے کا تیل 100روپے کلو
سے زیادہ مہنگا ہوچکا ہے، تو آپ جانتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ملک کے سب
سے بڑے سرکاری بینک ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر دی سبارا ئوکی بات مانے
تو گائوں میں رہنے والے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگیا ہے اور وہ اچھا
کھانا کھانے لگے ہیں۔ اس وجہ سے ہی ملک کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سبارائو مانتے ہیں کہ غریب طبقے کی آمدنی بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے اب وہ
اچھا کھانا کھانے لگے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزیں مہنگی
ہوگئی ہیں۔
سبارائو کی باتوں پر کتنے لوگ یقین کریں گے۔ یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن
ہندوستان کا عام غریب آدمی اچھی طرح جانتا ہے کہ اسے دو وقت کی روٹی حاصل
کرنے کیلئے کتنی سخت مشقت کرنی پڑتی ہے۔ پانچ ہزار روپے مہینہ کمانے والا
آدمی بھی دونوں وقت بھرپیٹ روٹی کھانے سے محروم ہے ، تو اندازہ لگانا دشوار
نہیں ہے کہ مہنگائی نے کس طرح لوگوں کا جینا دشوار کررکھا ہے۔ سبارائو کی
یہ بات مان بھی لی جائے کہ غریبوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے،تب بھی یہ
ماننا مشکل ہے کہ انہیں اچھا کھانا بھی نصیب ہونے لگاہے۔ جب کھانے کیلئے
بنیادی آٹا ،چاول ،دال ، تیل ، مسالے اس قدر مہنگے ہوں تو کوئی غریب آدمی
اچھے کھانے کا تصور کہاں سے کرسکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ غریبوں کی آمدنی بڑھی
ہے، شہروں میں ایک رکشے والا بھی ڈیڑ ھ دو کیلو میٹر کیلئے 25روپے کرایہ
وصول کرتا ہے۔ مکان ، عمارت بنانے کے کام میں مصروف مزدوروں ، کاریگروں نے
بھی اپنی فیس بڑھا دی ہے، اب ایک کاریگر 8گھنٹے کے 400روپے وصول کرتا ہے،
جبکہ ایک مزدور ڈھائی سو روپے حاصل کرتا ہے۔ یقیناً رکشے والوں اور مزدوروں
کو پہلے اتنی اجرت نہیں ملتی تھی ۔ لیکن بازاروں میں کھانے پینے کے سامان
جس قدر مہنگے ہیں ، اس حساب سے ان کی بڑھی ہوئی اجرت ناکافی ہے اور وہ پہلے
ہی کی طرح تنگ حالی ، دشواری اور پریشانی کا شکار ہیں ۔ بال بچوں سمیت ان
کا پیٹ بھرنا مشکل ہے، اس لئے یہ ماننا کہ گائوں ،دیہات کےلوگوں کے اچھا
کھانے کی وجہ سے بازاروں میں مہنگائی بڑھی ہے،درست نہیں ہوسکتا ۔
مہنگائی کی اصل وجہ وہ دولت مند لوگ ہیں ، جو دن رات دونوں ہاتھوں سے دولت
بٹورنے میں مصروف ہیں اور حکومت ان پر کسی طرح بھی قابو پانے میں ناکام ہے۔
حکومت نے آج تک یہ بتانے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ بازار میں چاول 25روپے
کیلو کیوں فروخت ہورہا ہے، آٹے کی قیمت 22روپے کیلو کیوں ہے ؟مان لیجئے کہ
حکومت کسانوں سے غلہ خریدنے کیلئے اپنے خزانے سے کافی پیسہ خرچ کرتی ہے۔
کسانوں کو اپنے سامانوں کی قیمت بھی ٹھیک ٹھاک مل رہی ہے۔ لیکن اس کا یہ
مطلب نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے کسان خوشحال ہوگئے ہیں اور وہ خوب اچھے اچھے
کھانے کھاکر دن گزار رہے ہیں۔ کسانوں کو اناج پیدا کرنے کیلئے جو بیج ،
کھاد اور دوسری ضروری چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے،ان کی قیمتیں بھی آسمان چھو
رہی ہیں۔ کسانوں کی کمائی کا بڑا حصہ مہنگے کھاد ، بیج اور دیگر سامانوں کی
خریداری پر ہی صرف ہوجاتا ہے۔ تب وہ اچھا کھانا کہاں سے کھاسکتے ہیں،
خوشحال زندگی کیسے گزار سکتے ہیں ؟
آج ہمارے ملک کے جو وزیر اعظم ہیں ، وہ بھی ایک زمانے میں ریزرو بینک کے
گورنر رہ چکے ہیں، ہمارے ملک کے موجودہ وزیر خزانہ پی چدامبر بھی ریزرو
بینک کا سب سے بڑا عہدہ سنبھال چکے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو لگتا ہی نہیں ہے کہ
مہنگائی کوئی مسئلہ ہے۔ دراصل ان کا بچپن اور نوجوانی غیر ملکوں میں گزرا
ہے،وہیں انہوں نے تعلیم بھی پائی ہے۔ یا پھر دولت مندوں کی تعلیم گاہ کیلئے
مشہور دہلی کے سینٹ اسٹیفین کالج سے پڑھائی پوری کی ہے۔ انہیں ملک کے دیہات
کی حقیقت پتہ ہی نہیں ہے۔ وہ جانتے ہی نہیں ہے کہ شہروں اور قصبوں کیلئے
سبزیاں اپجانے والے کسان خود ہفتوں سبزی کھانے سے محروم رہتے ہیں۔ لیکن
انہیں چونکہ بازار بھائو صرف کاغذوں میں نظر آتاہے۔ اس لئے انہیں اندازہ
نہیں ہوپاتا کہ ان کے گھر میں مہینے بھر میں رسوئی کے سامان لانے پر کتنے
پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ ابھی بہت دن نہیں گزرے جب منصوبہ بندی کے وائس چیرمین
مونٹیک سنگھ اہلو والیہ نے کہا تھا کہ شہروں میں روزانہ 32روپے اور گائوں
میں روزانہ 26روپے کمانے والاشخص غریب نہیں ہوسکتا ۔دہلی کی وزیراعلیٰ
محترمہ شیلا دکشت نے بھی کہاتھا کہ ایک خاندان کیلئے مہینے بھر کے راشن
کیلئے 600روپے کافی ہیں۔ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہئے کہ ان کے کتوں کیلئے
مہینے میں بسکٹ منگانے پر کتنے روپے خرچ ہوتے ہیں۔ لیکن شاید وہ اس کا جواب
نہیں دیں گے۔ کیونکہ وہ غریب نہیں ہیں ، ان کے پاس پیسے ہیں۔ وہ ہزاروں
روپے اپنے کتوں کے بسکٹ پر خرچ کرسکتے ہیں۔
یہ سچ کہ عام آدمی کی زندگی پہلے مقابلے تھوڑی آسان ضرورہوئی ہے۔ عام لوگوں
کے رہن سہن میں بھی فرق آیا ہے اور آمدنی بھی بڑھی ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں
بھولنا چاہئے کہ موٹرسائیکل ، اسکوٹر اور کار بنانے والی کمپنیاں بہت تھوڑی
سی رقم کے عوض ماہانہ قسط پر گاڑیاں لوگوں کو دیدیتی ہیں۔ لو گ تمام مشکلات
اٹھاکر بھی گاڑیاں حاصل کررہے ہیں۔ گائوں ، قصبوں کے لوگ بھی اس میں پیچھے
نہیں ہیں۔ چھوٹے کسان بھی خاص طور پرسبزی اگانے والے کسان ابتدائی دنوں میں
جب سبزیوں کی قیمت آسمان چھورہی ہوتی ہے ، تب اچھی کمائی کرلیتے ہیں اور اس
کمائی سے وہ اپنے لئے گاڑی بھی خرید لیتے ہیں۔ لیکن پھر سال بھر انہیں کن
پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ وہی جانتے ہیں۔ ہمارے ملک کی 40فیصد
کے قریب آبادی آج بھی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے، تو یہ ماننے
میں کسی کو بھی پریشانی نہیں ہوسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں کروڑوں لوگ آج بھی
بے گھر باراور بے زمین ہیں۔ کروڑوں لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں
ہے۔ ان کے گھروں میں بیت الخلا نہیں ہے۔ وہ بجلی کی سہولت سے محروم ہیں،جب
ہم اپنے کروڑوں شہریوں کو مکان ،پانی اور بجلی جیسی سہولت بھی مہیا کرانے
میں ناکام ہیں ، تو ہمیں یہ کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ گائوں دیہاتوں
میں لوگ اچھا کھانا کھانے لگے ہیں ، اس لئے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ |