اس وقت دیکھا جائے تو ملک کا
حقیقی حکمران الیکشن کمیشن ہے یا عدالت عظمیٰ،اب تو بے رحمانہ احتساب کے
بعد کوہسار کے نمائندے ہیں اوررائے دہندگان، جنازوں اور ولیموں میں شرکت کے
علاوہ دس دس سال پرانی فوتیدگیوں پر تعزیت کے لئے بھی جا رہے ہیں۔سرکل
بکوٹ،گلیات، لورہ مری، کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ میں خوب گہما گہمی ہے،
امیدواروں کے کیمپ آباد ہیں، چائے، روٹی کے دور بھی چل رہے ہیں اور بعض
امیدوار تو 24گھنٹوں میں صرف 4گھنٹے آرام کرتے ہیں جبکہ ان کے20گھنٹے ڈور
ٹو ڈور عوامی خدمت میں گزر رہے ہیں، یہ خدمت 9مئی کی نصف شب تک جاری رہے گی۔
کوہسار کے حلقوں این اے 17،18اور50میں صورتحال مکمل طور پر اپ سیٹ نظر آ
رہی ہے،اب روایتی سیاست،ماضی کے انتخابات میں آزمائے ہوئے ہتھکنڈوں،فرشتوں
کے ووٹوں اور برادری ازم کے نظریات بھی دم توڑتے نظر آرہے ہیں مگر اہلیان
کوہسار کیلئے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ یہاں کے سیاستکاروں سمیت رائے
دہندگان نہ صرف اصل ڈگریوں کے مالک ہیں بلکہ کوہسارمیں صرف ایک یونین کونسل
بیروٹ میں 100فیصدخواندگی تناسب (Litracy Rate)سمیت لاتعداد بی اے اور
ماسٹر ڈگری ہولڈرز کے علاوہ اندرون و بیرون ملک یونیورسٹیوں سے دو درجن پی
ایچ ڈی ڈاکٹر موجود ہیں اور اس سے زیادہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کر رہے
ہیں۔الحمدللہ…کوہسار کے تمام امیدوار دفعہ 62اور63کے علاوہ بے رحمانہ جانچ
پڑتال میں سرخرو ہو گئے ہیں جس پر انہیں ہم پیشگی مبارکباد پیش کرتے ہیں،اب
یہ ووٹروں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ 8300پر اپنا شناختی کارڈ نمبر ایس ایم
ایس کر کے اپنے ووٹ کی تصدیق کر لیں۔ہمارے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ قیام
پاکستان سے لیکر اب تک یہ تینوں حلقے مسلم لیگ کا گڑھ رہے ہیں۔این اے
50بھٹو مرحوم کے دور میں پیپلز پارٹی کے بابو حنیف مرحوم اور محرم علی
عباسی مرحوم کا حلقہ تھا مگر بعد میں یہ پھر مسلم لیگ کے پاس آ گیا، اسی
طرح پی کے 47,46,45اور48کے علاوہ پی پی ون، ٹو اور تھری میں بھی مسلم لیگ
چھائی رہی ہے،اب ووٹرزاقتدار میں رہنے والے اپنے نمائندوں سے اپنی تقدیر کا
مالک بنانے سے پہلے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ :۔
٭…جب وہ اسمبلی میں گئے تو ان کے اثاثے کیاتھے ،اب کیا ہیں؟
٭…2008ء میں جب ان کو متعلقہ حلقہ ہائے نیابت سے بھاری مینڈیٹ ملا تو ان
حلقوں میں تعلیم، صحت، ذرائع آمدورفت و رسل و رسائل اورآبنوشی کی سہولیات
کیا تھیں، ان میں اضافہ ہوا یا انہیں ان سے بھی محروم کر دیا گیا؟
٭…زلزلہ زدہ علاقوں میں تعمیر و ترقی کا عمل کیا ہوایا اندھا بانٹے ریوڑیوں
جیسا سلسلہ جاری رہا؟
٭…آیا ان حلقوں میں غربت کم ہوئی یا ان میں خط غربت سے بھی گراف نیچے چلا
گیا؟
٭…سوشل سیکٹر میں ان نمائندوں کا کیا کردار رہا،عام غریب آدمی کو اس
مہنگائی،بد امنی،جرائم، پولیس گردی اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کوئی
ریلیف بھی ملا یا انہیں اپنی زندگی سے ہی بیزار کر دیا گیا؟
٭…اور اب ان آزمائے ہوئے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے پاس عوام علاقہ
کیلئے کیا سوشل اور تعمیر و ترقی کا پروگرام ہے؟
اس سیاسی دوڑ میں ماضی کے صاحبان اقتدار دیگر سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈروں
کے ساتھ ساتھ آزاد امیدواروں جن کی بھاری تعداد مد مقابل کو انتخابات میں
شکست دینے کیلئے کورنگ امیدواروں کی ہے ان میں سے آدھے وہ ہیں جو الیکشن
مہم کے آخری دنوں یعنی 5سے 10مئی کو رات 12بجے اپنے اپنے ووٹ بنک سمیت لین
دین کے اصول تجارت کے تحت زیادہ بولی لگانے والے ہارٹ فیورٹ امیدوار کے حق
میں دستبردار ہوجائیں گے،ان تینوں قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں جس کی
ڈفلی اس کا راگ الاپا جا رہا ہے،آنے والا وقت مزید پر آزمائش ہے،بڑھتی دیہی
آبادی،لوڈشیڈنگ،روزگار کے محدود مواقع،بچوں اور بچیوں کیلئے ناکافی تعلیمی
سہولیات اور گوناں گوں مسائل کے شکار عام آدمی کیلئے مقامی
ہسپتالوں،ڈسپنسریوں،بنیادی مراکز صحت(BHUs)اوردیہی مراکز صحت (RHCs)میں
ڈاکٹروں کی جگہ قصابوں اور جلّادوں کی تعیناتی اور ادویات کے بجائے صحت
عامہ کیلئے مختص فنڈز میں خورد بردایسے مسائل ہیں جن کو عوام کے ساتھ ساتھ
آنے والے نئے نمائندوں کو بھی سامنا ہو گا،اب یہ عوام کا فرض ہے کہ وہ چاچے
مامے کی سیاست کے بجائے نظریات،وعدوں اور قابل عمل پروگرامز کے حامل با وفا
و با کردار نمائندوں کے سامنے یہ چارٹر آف ڈیمانڈ رکھیں اور اس کے بدلے ووٹ
دینے کی کمٹمنٹ کریں…عوام کا چارٹر آف ڈیمانڈ یہ ہے:۔
اوّل…ہر حلقے میں دستکاری سینٹر،ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹراور کم از کم ایک انٹر
کالج کا قیام۔
دوئم…ہر حلقے میں 100بستروں کا ایک ہسپتال اور ہر یونین کونسل میں ایک زچہ
بچہ سینٹر۔
سوئم…لنک روڈز کی پختگی اور بلیک ٹاپنگ،تمام ندی نالوں پر آر سی سی پلوں کی
تعمیر۔
چہارم…ہزارہ کے عوام کیلئے صوبے اور اہلیان سرکل بکوٹ کیلئے تحصیل کا
قیام،کیونکہ یہ ان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے،اگر ہزارہ اور پوٹھوہار کو
ملا کر صوبہ بنانے کی کوئی تجویز ہو تو اس صوبے کا دارالحکومت راولپنڈی ہو۔
پنجم…سرکل بکوٹ کے طلباء و طالبات کیلئے راولپنڈی، اسلام آباد،کراچی اور
مظفرآبادکے تعلیمی اداروں میں کوٹہ کی منظوری۔
ششم…حکومت خیبر پختونخوا سے سرکل بکوٹ کو پسماندہ علاقہ قرار دلوا کر
صوبائی پبلک سروس کمیشن یعنی صوبائی سول سروس میں کوٹہ کی منظوری (اس وقت
شہری ایبٹ آباد اور پسماندہ ترین سرکل بکوٹ کا کوٹہ ایک ہی ہے)۔
ہفتم…کنیر کس کی طرح تمام ندی نالوں اور معدنیات کی کانوں کے ذخائر کی اوپن
لیز کی منظوری،تاکہ ان وسائل سے صرف مراعات یافتہ مخصوص خانوادے ہی نہیں
عام آدمی بھی استفادہ کر سکے۔
ہشتم…تعلیمی اور ٹمبر مافیاآزاد کشمیر، ہزارہ اور پنجاب کے بارڈر پر مقامی
وسائل، قیمتی لکڑی اور جڑی بوٹیوں کی سمگلنگ کی روک تھام اور راولپنڈی سے
متعلقہ حلقے تک ٹرانسپورٹ کی اصلاح۔
نہم…سب سے بڑھ کر یہ کہ متعلقہ حلقے کا ایم این اے اور ایم پی اے اپنے
علاقے کے رائے دہندگان کیلئے ضلعی،صوبائی اور مرکزی حکومتوں میں ملازمتوں
کے سسلسلے میں کیا کردار ادا کرے گا یا انہیں آئندہ 60ماہ تک وعدہ فردا پر
ھی ٹرخاتا رہے گا؟
کوہسار کے عوام بڑے باشعور ہیں اور یقیناً جو امیدوار ان کے ان اجتماعی
مطالبات کو پورا کرنے کیلئے خود اور اپنی مرکزی قیادت سے یقین دہانی کرائے
گا وہ اسے ہی اپنے دلوں میں جگہ دیں گے،1947ء سے لیکر 2008ء تک اپنے اپنے
علاقوں کے نمائندوں کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے،اب کی بار بھی اگر ووٹر نہ
جاگاتو پھر آپ کی تقدیر بدلنے کوئی نہیں آئے گا،افلاس کی تاریکیاں مزید
بڑھتی رہیں گی،آپ اور آپ کی اولادیں یونہی ان تاریک راہوں میں ماری جائیں
گی…اب اٹھئے اوراپنے مفادات اور مسائل کے حل کی قیمت پر ووٹ مانگنے والوں
کی جھولی بھر دیجئے…کیونکہ یہی آخری راہ نجات ہے۔ |