اس وقت اگر نظر دوڑائی جائے تو
تقریبا پوری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف اہل کفر نے جنگ چھیڑ رکھی ہے.اور یہ
جنگ کسی ایک محاذ پر نہیں بلکہ ہر محاذ پر گذشستہ ایک عرصے سے نہ صرف جاری
و ساری ہے بلکہ اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی آتی جارہی ہے . عسکری
میدان ہو یا ثقافتی ، معاشی میدان ہو یا پھر تعلیمی یہود و نصاری اور انکے
ایجنٹ مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں .کہیں اقلیتوں کی حقوق کی پامالی
کا پروپیگنڈہ کرکے مسلمانوں سے انکی سرزمین چھین لی گئی ،تو کہیں دہشت گردی
اور انتہا پسندی کا لیبل لگاکر مسلمانوں کا پیچھا کیا گیا.لیکن جہاں دیکھا
کہ کوئی الزام کا نہیں دیگا تو وہی نسلی فسادات کا نام دیکر مسلمانوں کو ان
کے مال و متاع سمیت نیست و نابود کیا .اور اسکی مثال میانمار ''برما،، کے
مسلمانوں پر برپا کئیں گئے مظالم کے شکل میں ہمارے سامنے ہیں . جہاں مسلمان
اس بے دردی سے کاٹے جارہے ہیں کہ انسان کو خود کو انسان کہتے ہوئے بھی شرم
آنے لگتی ہے .لیکن آفسوس کہ ''مہذب دنیا ،، کے رہنے والے مسلمانوں کی اس
کھلی نسل کشی کو نسلی فسادات کا نام دے کر حقائق کو چھپانے کی ناکام کوشش
کر رہے ہیں .
''مہذب دنیا،، یعنی اہل مغرب سے تو اتنا شکوہ اس لیئے بھی نہیں کہ انکا تو
ایجنڈہ ہی یہی ہے کہ دنیاسے باعمل مسلمانوں کا صفایا کردیا جائے اور بچ
جانے والے نام کے ،مسلمانوں کو غلام بنایا جائے.اس لیئے ان سے تو امید یہی
ہے کہ وہ اپنے اس ایجنڈے کو پایا تکمیل تک پہنچانے کی ہر کوشش کرینگے.یہ
اور بات ہے کہ انکے یہ خطرناک عزائم انشاءاللہ کبھی بھی پورے نہیں
ہونگے-لیکن اس موقع پر اگر شکوہ ہے تو وہ اپنے ہی مسلمان حکمرانوں سے ہیں
ِ. جو تمام وسائل اور ہر قسم کی نعمت خداوندی موجود ہونے کی باوجود بھی ٹس
سے مس نہیں ہورہے ہیں . ان مسلم حکمرانوں میں اکثر نے تو چھپ سادھ لی ہیں .
اور جنکو لب کشائی کی توفیق ہوئی تو انہوں نے نہایت ہی مریل سی انداز میں
ان انسانیت کش واقعات کی صرف مذمت کرنے میں عافیت جانی . حالانکہ اگر دیکھا
جائے تو یہ وقت مذمت کرنے یا مذمتی قرار دادیں منظور کرانے کا نہیں ،بلکہ
ان ہاتھوں کو روکنے کا ہے جو مسلمانان میانمار کو بے دردی سے دن ،رات ذبح
کر رہے ہیں.اور یہ کا مسلمان حکمران باآسانی بنا کسی جنگ کے لڑے بغیر
کرسکتے ہیں .بس تھوڑی سی ہمت اور دل میں ان مظلومین لے لیئے تھوڑی سی
ہمدردی ہونی چاہیے.
مجھے یاد ہے کہ جب پچھلے سال بھی بدھ مت کے پیروکاروں نے ہزاروں مسلمانوں
کو شہیداور لاکھوں کو بے گھر کرکے ان کے گھر اور دیگر املاک وغیرہ لوٹ مار
کے بعد جلارہے تھے تو اس وقت ترکی کے وزیر اعظم نے اپنی اہلیہ اور وزیر
خارجہ کو برمی مسلمانوں کی آشک شوئی کے لیئے میانمار بھیجا اور اس کے بعد
سعودی حکومت نے مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا تو اس کے بعد مسلمانوں کی
قتل و غارت گری رک گئی تھی . گویا صرف دو مسلمان مملکتوں کی جانب سے برمی
مسلمانوں سے ہمدردی کرنے کے بعد میانمار حکومت سجھ گئی تھی کہ اگر انہوں نے
مسلمانوں کے خلاف ظلم بند نا کیا .اور اس پر مسلمان حکمرانوں نے کوئی ایکشن
لیا تو لینے کی دینے پڑجائیں گے.میرے خیال میں پچھلے سال ترکی اور سعودی
عربیہ کے میدان میں آنا میانمار حکومت نے اپنے لیئے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر
لیا تھا. اوروہ دیکھ رہے تھے کہ آیا ترکی اور سعودیہ کوئی ٹھوس لائحہ عمل
لیکر برمی مسلمانوں کی مدد کے لیئے میدان میں آئے ہیں یا پھر یہ کوئی
جذباتی عمل ہے. اس وقت اگر مسلمان مملکتیں کوئی ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ
میدان میں آتی تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے نہ صرف مسلمانوں کی حقوق کی
حفاظت ہوجاتی بلکہ آئندہ کے لیئے بھی وہ بدھوؤں کی مظالم سے بچ جاتے.لیکن
جب میانما ر حکومت نے دیکھا کہ مسلمانوں کا ردعمل جذباتی اور وقتی ہے. تو
وہ اس بار مزید شیردل ہوکر مسلمانوں کے خلاف میدان میں اتر آئے .اور یہی
وجہ ہے کہ اس بار مسلمانون کے قتل عام کے بعد انکی لاشیں تک جلائی جارہی
ہیں تاکہ کسی قسم کا کوئی ثبوت نا رہے . اس کے علاوہ حسب سابق نہ صرف
مسلمانوں کی املاک جلائی جارہی ہے بلکہ اس بار چن چن کر مساجد اور مدارس کو
بھی شہید کرنے کا سلسلہ جارہی ہے .ایک تازہ واقعہ جو آج 3 اپریل کو میڈیا
میں رپورٹ ہوا ،وہ یہ میانمار کے ایک مدرسے میں ''پر اسرار ،، آتشزدگی کے
نتیجے میں 13 معصوم طالب علم شہید جبکہ دو درجن کے قریب شدید زخمی ہوئے ہیں
.گوکہ وہاں کی انتظامیہ واقعے کو شارٹ سرکٹ قرار دے رہی ہیں ،لیکن آزاد
ذرائع ،متاثرین اور عینی شاہدین گواہی دے رہے ہیں کہ یہ واقعہ شارٹ سرکٹ کا
نتیجہ نہیں بلکہ بدھؤں کا کیا ہوا کارنامہ ہے جن میں انہوں نے مدرسے میں
پٹرول چھڑک آگ لگائی .یہ تو صرف ایک ہی واقعہ ہے ورنہ ظلم کی ایسی کتنی
داستانیں اور بھی ہیں جو بدھ مظلوم مسلمانوں کے خلاف کرچکے . گوکہ ان مظالم
کے بعد سعودی حکومت نے اپنے ہاں تقریبا دو ہزار برمی مسلمانوں کو مفت اور
مستقل رہائش دینے کا اعلان کیا ہے . لیکن میرے خیال میں اس اقدام سے برمی
مسلمانوں کی دکھوں کا مداوا ممکن نہیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہی کوشش تو
میانمار حکومت بھی کر رہی ہے کہ کسی طریقے سے مسلمان وہاں یعنی برما سے نکل
جائے . اس لیئے میں یہ بات لکھنے پر مجبور ہو کہ سعودیی حکومت کا یہ اقدام
اگرچہ ایک احسن اقدام ہے لیکن اسکا فائدہ اتنا نہیں . اسی لیئے تمام تر
حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اب وقت آگیا ہے کہ مسلم حکومتیں اپنی وجود کا
احساس کرتے ہوئے ان مظلومین کی مدد کے لیئے آگے بڑھے اور یہ مدد عارضی نہیں
ہونی چاہیے بلکہ ایسا مدد ہونا چاہیئں کہ اس مدد کے ملنے کے بعد نہ صرف
مسلمان اپنی اس سر زمین پر اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزار سکے بلکہ
آئندہ بدھوؤں کو انکے خلاف کسی بھی قسم کے ظلم کی جرآت ہی نہ ہوسکے .اور یہ
کا بہت جلد کرنا ہوگا کیونکہ مسلمانوں کو غفلت کے خواب میں پڑے دیکھ کر اب
سری لنکا بھی مسلمانوں کے خلاف پر تول رہاہے.لہذا لازم ہے کہ جتنا جلدی
ہوسکے او ائی سی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال کر ان سے وہ کام کرائے جائے جس
کے لیئے اسے وجود میں لایا گیا تھا .لیکن اگر اس میں یعنی او ایئ سی میں
کھڑی ہونے کی توفیق نہیں تو پھر اسکو کسی گڑھے میں دفن کرکے کوئی اور فورم
بنایاجائے .اور اس میں ایسے لوگوں کو اگے لایا جائے جو سچ مچ امت امہ کا
دکھ درد اپنے دلوں میں رکھتے ہوں. ایک اور لیکن اخری بات اپنے تمام مسلمان
بھائیوں کے نام کے نام یہ کہ آپ اپنے تقریر ، تحریر اور دعاؤں میں برمی
مسلمانوں کو یاد ضرور رکھیں .کیونکہ وہ آج کل سب زیادہ ہمدردی کے مستحق
ہیں- |