پاکستان مسلم لیگ ن ملک کی بڑی
جماعتوں میں سے ایک ہے۔ن لیگ پاکستان بنانے والی آل انڈیا مسلم لیگ کی
حقیقی وارث جماعت ہے جس کے قائد محمد علی جناح تھے جنہوں نے پاکستان حاصل
کیا ۔مسلم لیگ ن کو وسطی اور شمالی پنجاب میں نہایت مضبوط حمایت حاصل ہے
اور یہی اس کی انتخابی طاقت کی بنیاد ہے۔ حالیہ پارلیمنٹ میں اس کی
107نشستیں تھیں۔ قومی اسمبلی میں 92 اور سینیٹ میں 15 نشستیں۔ 2008 سے
2013تک پنجاب میں اس کی حکومت قائم رہی۔ مسلم لیگ ن کی زیادہ تر قیادت شہری
متوسط طبقے اور تجارتی و پیشہ ورانہ شعبوں سے تعلق رکھتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ پر جب حق جتانے والے کئی ہو گئے تو پاکستان مسلم لیگ نواز
1992 میں معرض وجود میں آئی۔ تاہم نواز شریف 1988 سے اس مسلم لیگی گروپ کے
صدر تھے اور وہ اب تک بدستور پارٹی کے صدر چلے آرہے ہیں۔ جماعت کی موجودہ
قیادت نے 1981 میں جنرل ضیاءالحق کے زیر سایہ اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا
تھا۔1985 میں ضیاءالحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے اور پھر
پارلیمنٹ کے اندر مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی تشکیل دے کر محمد خان جونیجو کی
سربراہی میں لیگی حکومت قائم کردی۔ وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو
بعض وجوہات کی بنا پر1988 میں جنرل ضیاءالحق نے برطرف کردیا جس کے بعد
حکمراں رہنے والی مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ایک کی قیادت محمد خان
جونیجو اور دوسرے کی سربراہی میاں محمد نواز شریف کررہے تھے۔
1988 کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف کی زیرِ قیادت لیگی دھڑے نے
اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ
لیا۔جناب نواز شریف اس اتحاد کے سربراہ تھے۔ یہ اتحاد پاکستان پیپلز پارٹی
کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیاگیا۔ جنرل ضیا الحق کی حادثاتی موت کے بعد
ایک عشرے سے زائد عرصے پر محیط فوجی دورِ حکمرانی کا خاتمہ ہوا جس کے چند
ماہ بعد انتخابات منعقد ہوئے۔یہ اتحاد پارلیمنٹ کی خاطر خواہ نشستوں پر
کامیابی حاصل نہ کرسکا ۔اور حکومت بنانے کا موقع محترمہ بے نظیربھٹو کو ملا۔
بینظیر بھٹو کی حکومت مدت سے بہت پہلے ختم کردی گئی اور اس کے بعد 1990میں
پھر عام انتخابات ہوئے۔میاں محمد نواز شریف کی زیر ِ قیادت اسلامی جمہوری
اتحاد نے ایک بار پھر انتخابات میں حصہ لیا۔ اس بار اتحاد نے پارلیمنٹ میں
اکثریت حاصل کی۔ اس کے پاس حکومت سازی کے لیے درکار نشستوں سے زیادہ تعداد
موجود تھی۔
میاں نواز شریف پہلی بار وزیرِ اعظم بنے۔1993 میںاس وقت کے صدر غلام اسحاق
خان نے ان کی حکومت کو بھی برطرف کردی اور یہ پاکستان کی تاریخ کاریکارڈ ہے
کہ ایک صدر نے دو عوامی حکومت کو فارغ کیا۔ 1993کے عام انتخابات میں ن لیگ
نے پہلی بار تنہا الیکشن لڑا لیکن وہ حکومت سازی کے لیے درکار نشستیں حاصل
کرنے میں ناکام رہے۔
1997 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز نے ایک بار پھرتنہا حیثیت میں
حصہ لیا اور پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار پارلیمنٹ میں دو
تہائی اکثریت حاصل کی۔نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کر کے بہت زیادہ مقبولیت
حاصل کی۔نواز شریف نے اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کی ایک نہ مانی اور
اپنے ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایٹمی دھماکے کیے اور دھماکے بھی ایک
نہ دو پورے سات ۔جس دن یہ دھماکے کیے اس دن کو سنہری لفظوں سے لکھا اور یاد
کیا جاتا ہے۔ پھراس لیڈر کی عوام سے محبت دیکھو کہ اس دن کو کس نام سے یاد
کرنے کے لیے نام بھی عوام سے پوچھا اور اس دن کو اب یوم تکبیرکے نام سے
منایا جاتا ہے۔ یہ نام پاکستان کے ایک عام شہری مجتبیٰ رفیق نے رکھا۔ جس پر
اس کو ایک سند سے نوازا گیا۔ نواز لیگ کے اس بھاری مینڈیٹ کے باوجود1999
میں فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت برطرف کر کے اقتدار پر
قبضہ کرلیا اور ملک ایک بار پھر فوج کے زیرِ اقتدار چلا گیا۔
2002 کے عام انتخابات میں پی ایم ایل ن کو سخت مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ
شریف بردران کو فیملی کے ساتھ جلاوطن کردیا تھاجس کی وجہ سے ان کی جماعت
میں دھڑے بندیاںبن گئیں اس کے بعدایک دھڑاجس کی قیادت چوہدری شجاعت حسین
کررہے تھے اس نے مشرف کی فوجی حکومت کی حمایت کا فیصلہ کیا۔
2006 میں پی ایم ایل ن کی قیادت نے پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ بیرون
ممالک میں میثاقِ جمہوریت (چارٹر آف ڈیموکریسی) پر دستخط کیے۔ اس میں جنرل
مشرف کی فوجی حکومت کو نکال باہر کرنے کے لیے مشترکہ جدوجہد پر اقرار بھی
کیا گیا تھا۔
2008 کے انتخابات سے قبل ن لیگ کی جلاوطن قیادت وطن لوٹ چکی تھی۔ انہوں نے
انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور انتخابی مہم شروع کردی اسی دوران
بینظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا۔اس قتل پر بطورِ احتجاج ن لیگ نے انتخابات کے
بائیکاٹ کا اعلان کیا لیکن پیپلز پارٹی کی نئی قیادت آصف علی زرداری کے
اصرار پر انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کر کے انتخابات میں حصہ لیا۔
مسلم لیگ ن نے حال ہی میں اپنا انتخابی منشور جاری کیا جس میں ملک کی تباہ
حال معیشت کی بحالی و استحکام پر توجہ مرکوز کی ہے۔اس کے علاوہ ن لیگ نے
دیگر درپیش مسائل جیسا جس میں صحت، تعلیم، توانائی اور امن و امان شامل ہے
، سے متعلق بھی اپنا پروگرام بیان کیا ہے۔ انہوں نے قومی ترقی میں خواتین
کی شمولیت کا اظہار کیا ہے۔ اس جماعت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی شعبوں میں
خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سماجی سیاسی اور معاشی لحاظ سے
انہیں با اختیار بنایا جائے گا۔
اس وقت نوازشریف متعدد سیاسی جماعتوں جیسا کہ جماعتِ اسلامی، پاکستان مسلم
لیگ فنکشنل اور سندھ کی بعض قوم پرست جماعتوں کے ساتھ آنے والے عام
انتخابات کے لیے اتحاد کے قیام اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملے پر مذاکرات میں
مصروف ہے۔حال ہی میں انہیں ایک اور بڑی کامیابی اس وقت ملی جب بلوچستان
اسمبلی کے بائیس اراکین نے پی ایم ایل ن میں شمولیت اختیار کی۔
ایک وقت تھا کہ عمران خان کی تحریک انصاف عوام میں مقبول ترین جماعت تھی
مگر پھر وقت نے الٹا چکر کھایا اور میڈیا کے سروے کے مطابق مسلم لیگ ن
پاکستان کی نمبر 1جماعت بن گئی۔ اس سروے کو عمران خان نے بوگس قرار دیا
جبکہ اسی میڈیا نے پہلے عمران خان کو نمبر 1کہا تھا تو عمران خان پھولے
نہیں سما رہے تھے ۔ حقیقت حقیقت ہوتی ہے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے
بلی بھاگ نہیں جاتی اورپتہ جب چلتا ہے جب بلی گردن پکڑ لیتی ہے۔ سروے کے
علاوہ سیاستدانوں کے ناخدا (امریکہ اور برطانیہ) نے بھی ن لیگ کی مثبت
رپورٹ دی ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی حکومت میاں نواز شریف کی ہوگی۔
یہ تو میڈیا اور سیاسی پنڈتوں کی بات تھی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ن لیگ کا
اگر سابقہ ریکارڈ دیکھا جائے تو یہ واقعی عوام کی ترجمان جماعت ہے۔ میاں
نوازشریف کو جب بھی اقتدار ملا اس نے عوام کی ضرورت کو مدنظررکھتے ہوئے
کوئی نہ کوئی انقلابی کام کیا۔ جس کے منہ بولتے ثبوت موجود ہےں۔ پہلے
موٹروے کا تحفہ دیا تھا اور اب اس بار پنجاب پر حکومت کی اور پنجاب کو
میٹرو بس کا نایاب تحفہ دیا ہے ۔ ایک سروے کے مطابق اس بار عوام میاں نواز
شریف کو ایک بارپھر اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے کیونکہ دیگر حکومتوں سے بہت
بہتر ہے نوازشریف کی حکومت۔ ن لیگ کی حکومت عوامی ترجمان ہے وہ سابقہ حکومت
کی طرح اپنا بنک بیلنس بنانے کے چکر میں نہیں ہوتے۔مجموعی طور پر ن لیگ کی
حکومت ہرطبقے کے لیے سودمند ثابت ہوتی ہے مگر سرکاری ملازمین اس سے شاکی
رہتے ہیں۔ امید ہے کہ اس بار اسکو اقتدار ملا تو یہ حکومت دیگر شعبوں کے
ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین کو بہتر سہولیات مہیا کرے گی۔ |