شہر کی تین قومی اور چھ صوبائی
سمیت ضلع بھر کی سات قومی اور چودہ صوبا ئی اسمبلی کی نشستوں کے لئے پانچ
سو سے زائد امید واروں نے کا غذات نامزدگی جمع کروا دئیے ہیں اب انکی جانچ
پڑتال کا سلسلہ جاری ہے جو سات دن تک جا ری رہے گا اب کی با ر امید واروں
کو صرف نامزدگی فارم صحیح بھرنے پر کلیرنس نہیں مل جائیگی بلکہ بجلی گیس
ٹیلی فون کے بلو ں کے ساتھ ٹیکسز اور گوشواروں کی تفصیلات کے علاوہ تعلیمی
اسنا د کی بھی تصدیق کروانا ہو گی ۔سادہ لفظو ں میں اب امید واروں کے لئے
جھوٹ اور فراڈکا سہارہ لے کر صرف دولت کے بل بوتے پر الیکشن لڑنا کا فی حد
تک مشکل ہو گا اور جو ان مرحلوں سے سر خرو ہو کر الیکشن لڑنے کا اہل قرار
پائے گا وہی عوامی نمائندگی کا مستحق ہو گا گوجرانوالہ شہر میں پاکستانی کی
انتخابی تاریخ سے آج تک پارٹی سسٹم ہی رائج رہا ہے کسی بھی شخصیت نے اپنے
طرز عمل اور کارکردگی سے لوگوں کو اتنی متاثر نہیں کیا کہوہ شخصیت پرستی کے
قائل ہو جائیں یہی وجہ ہے کہ ملک میں ہونے والے تمام انتخابات میں
گوجرانوالہ شہر کے حلقوں سے کسی بھی شخصیت کومسلسل دوبار اسمبلی میں جانا
نصیب نہیں ہوااب پھر 11مئی 2013 کو گوجرانوالہ سمیت ملک بھر میں انتخابی
دنگل سج رہا ہے2008 کے انتخابات میں گوجرانوالہ مسلم لیگ ن کا حلقہ ثابت
ہوا شہر کے تینوں حلقوںاین اے95 96اور97 سے بالترتےب عثمان ابراہیم، خرم
دستگیر خاں اور محمود بشیر ورک جبکہ چھ صوبائی حلقوں پی پی91،92 ،93 ،94
،95 ،96،سے بالترتیب عمران خالد بٹ،ڈاکٹر اشرف چوہان،طارق گجر،سعید
مغل،شازیہ اشفاق مٹو،اور شیخ ممتاز ہاشمی کامیاب ٹھرے ان میں صرف طارق گجر
کا تعلق پییپلز پارٹی سے تھا جبکہ باقی تمام لوگ مسلم لیگ ن سے تھے سابقہ
ریکارڈ اور پانچ سالوں میں شہر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کو دیکھیں تو
اس بار بھی لیگی امیدواروں کی کامیابی کے قومی امکان ہیںمگر پارٹی اختلافات
اور ٹکٹوں کی تقسیم سے بننے والے تحفظات اب تنازعات اور ذاتےات کی شکل
اختےار کر چکے ہیں پی پی 91 سے عمران خالد بٹ کی جگہ رضوان اسلم بٹ ٹکٹ کے
خواہاں ہیں سابق ایم این اے اور موجودہ امیدوار قومی اسمبلی عثمان ابراہیم
کی انہیں بھر پور حمایت بھی حاصل ہے جبکہ پی پی 92 سے بھی عثمان ابراہیم کی
آشیر باد سے عمر مغل ٹکٹ کیلئے پر امید ہیں جبکہ ضمنی الیکشن میں بیس ہزار
سے زائد ووٹوں کی لیڈ سے جیتنے والے نواز چوہان اپنے آپ کو ٹکٹ کا سب سے
زیادہ مستحق سمجھتے ہیں ایک تےسرے امیدوار عاصم انیس بھی خود کو میرٹ پر
سمجھتے ہوئے ٹکٹ کے حصول کیلئے اندرون خانہ اور خاموشی سے مہم چلائے ہوتے
ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عثمان ابراہیم کی پانچ سالہ کارکردگی سے
عوام اور لیگی کارکنان خوش نہیں ہیں ورکرز گروپ کا قیام اور عثمان ابراہیم
کے مدمقابل کاغذات نامزدگی جمع کروانا اس کی بہت بڑی دلیل ہے اسکے علاوہ
تعلیم صحت اور تفریح کے بہت بڑے فقدان کے باوجود عثمان ابراہیم اپنے حلقہ
کے لوگوں کیلئے کوئی بھی بڑا پراجیکٹ نہیں لے سکے این اے 96 کی بات کریں تو
یہاں خرم دستگیر کو مضبوط ترین امیدوار تصور کیا جاتا ہے اور اسکی بڑی وجہ
شہر میں ہونے والے تمام بڑے پراجیکٹ ان کے کریڈٹ پر ہیں مگر حالات اور ووٹر
کی رائے بدلتے دیر نہیں لگتی کیونکہ مسلم لیگ ن کو داغ مفارقت دینے اور
تحریک انصاف سے محبت بڑھانے والےایس اے حمید شہر کی بڑی برادری سے تعلق
رکھنے کے علاوہ اپنا ایک وسیع حلقہ احباب اور ووٹ بینک رکھتے ہیں،تحریک
انصاف نے انکو ٹکٹ جاری کررکھا ہے بوجوہ ابھی تک اعلان نہیں ہوسکا مگر وہ
کنفرم تحریکی امیدوار ہیں پیپلز پارٹی نے سعید گجر کو ٹکٹ جاری کرکے دونوں
سیٹیں ایک ہی گھر میں دیکر اپنا ووٹ بینک خراب کیا ہے مگر یہ بھی پارٹی کی
مجبوری تھی کہ انہیں اس سے بہتر امیدوار مل بھی نہیں رہا تھا این97 سے بھی
ایک مرتبہ پھر محمود بشیر ورک کو ٹکٹ جاری کر دیا گیا ہے مسلم لیگ ق سے
تحریک انصاف اور پھر مسلم لیگ ن تک کا سفر کرنے والے بھنڈر فیملی کے شاہد
اکرم بھنڈر بھی تا حال کوشاں ہیں مگر ان کو ماسوائے مایوسی کے شاید کچھ بھی
نہ ملے جبکہ ذیلی صوبائی حلقوں پی پی 95 سے شازیہ اشفاق مٹو کی جگہ انکے
والد پیر غلام فرید اور 96 سے شیخ ممتاز ہاشمی کی جگہ توفیق بٹ کو ٹکٹ جاری
کر دیا گیا ہے۔ ان تمام حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم لیگی قلعہ
میں کافی حد تک دراڑیں پڑ چکی ہیں اب تحریک انصاف گوجرانوالہ کی قیادت
خصوصا ایس اے حمید اور رانا نعیم الرحمنٰ کی سیاسی بصیرت اور فہم وفراست کا
بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی کمزوری اور لیگی تنازعات کو کس طرح
کیش کروا کر اپنی پارٹی کی جیت کی راہ ہموار کرتے ہیں ظاہر ظاہر ہے این اے
97 سے وہ اپنی جماعت کی نمائندگی کریں گے 96سے ایس اے حمید اور 95سے علی
اشرف مغل کو اگر الیکشن لڑوایا جاتا ہے تو مقابلہ نہ صرف بہت سخت ہو گا
بلکہ اپ سیٹ کی بھی توقع کی جا سکتی ہے اسکے علاوہ پیپلز پارٹی کے صدیق
مہر،رانا فیصل رﺅف اور لالہ اسد اللہ پاپا کو بھی اپنی بکھری وقت کو یکجا
کر نے کیلئے کو مضبوط اور ٹھوس پالیسی بنانا ہو گئی پی پی 91 میں کمبوہ
برادری کافی ووٹ بینک کی مالک ہے اس کی حمایت میں بھی کسی بھی امیدوار کی
ہار جیت پر اثر انداز ہو سکتی ہے اسکے علاوہ مہر برادری جسکا ووٹ بنک ہمیشہ
سے اکثر ہی طور پر پیپلز پارٹی کے حق میں جاتا رہا ہے اسکی بھی ناراضگی کو
دور کر کے ساتھ ملائے بغیر جیت ایک انجانا خواب ہو گئی علاوہ ازیں صوبائی
امیدواروں کی نامزدگی بھی قومی سیٹوں کی ہار جیت میں اہم حیثیت رکھتی ہے اس
لئے انکی نامزدگی بھی سوچ بچار کے بعد کرنا لازمی امر ہے بقیہ چھوٹی موٹی
جماعتےں صرف الیکشن لڑنے کا شوق پورا کریں گی جیت صرف ان کا خواب ہی رہے گا
البتہ جماعت اسلامی صوبائی حلقوں خصوصاََ پی پی 92،93،94 جہاں بالترتیب
رضوان چیمہ، شاہد منیر گوندل اور ادریس ایوب شیخ امیدوار ہیں اور گزشےہ
ڈیرھ سال سے انتخابی مہم چلاتے ہوئے ہیں دیگر جماعتوں کی اختلافی صورت حال
اور فائدہ اٹھاکر کوئی بھی اپ سیٹ کر سکتے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن جو ابھی تک
فےورٹ قرار دی جا رہی ہے اگر اس کے اندرونی اختلافات نہ ختم ہوئے اور
کارکنان نے اندرونی اختلافات کی بنا ءپر اپنے امیدواروں کے خلاف پروپیگنڈہ
جاری رکھا تو اسے اس کاخمیازہ اپنی سابقہ نشستوں کی تعداد میں کمی کی صورت
میں بھگتنا پڑے گا اور ظاہر یہ اس کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ |