آج مورخہ ٢٢ اپریل ٢٠٠٩ کو کئی دنوں کے بعد
ن لیگ کے قائد جناب نواز شریف صاحب فرماتے ہیں کہ
سیاستدان متحد ہو جائیں، طالبان سوات کے بعد دیگر علاقوں پر بھی کنٹرول
چاہتے ہیں۔ اور پھر فرماتے ہیں کہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے اعتدال
پسند طالبان سے مذاکرات ہونے چاہیے۔ معاشی ترقی کے زریعے شدت پسندی پر صرف
دو سال کے اندر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ملک کو غیر مستحکم کر رہے ہیں نہ
اقتدار حاصل کرنے کی خواہش ہے۔ میاں صاحب نے مزید فرمایا کہ مقامی طالبان
سوات کے باہر بعض دیگر علاقوں پر بھی کنٹرول چاہتے ہیں ۔ اور یہ کہ عسکریت
پسندوں کی سرگرمیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جو کہ باعث تشویش ہے
اور اگر ان کی سرگرمیوں پر قابو نا پایا گیا تو ان کا دائرہ کار وسیع ہو
جائے گا۔ مزید فرماتے ہیں کہ عسکریت پسندوں سے کوئی بھی معاہدہ اس صورت میں
ہونا چاہیے جس میں حکومت کی رٹ چیلنج نہ ہو اور جمہوریت کا احترام کیا جائے
اپنے بیان کے پہلے حصے میں میاں صاحب فرما رہے تھے کہ عسکریت پسندی سے
نمٹنے کے لیے اعتدال پسند طالبان سے مزاکرات ہونے چاہیے اور پھر فرماتے ہیں
کہ عسکریت پسندوں سے معاہدہ اس صورت میں ہونا چاہیے کہ۔۔۔۔۔۔ اب یہ بتائیں
کہ عسکریت پسند طالبان یا اعتدال پسند طالبان سے مزاکرات کیے جائیں اور زرا
یہ تو بتائیں کہ اعتدال پسند طالبان (اگر کوئی ہیں تو) کی کوئی ایسی موثر
آواز ہو گی جو ان کے عسکریت پسند طالبان بھائیوں سے مختلف ہو۔ کیا طالبان
کو بھی سیٹوں کے لیے لڑنے جھگڑنے والا سیاستدان سمجھ رکھا ہے کہ ان کے دہ
گروہ ہونگے عسکریت پسند اور اعتدال پسند۔
ہمارے میاں صاحب بھی کتنے بھولے ہیں کچھ دنوں پہلے جب ایم کیو ایم چیخ چیخ
کر طالبان کے خطرے سے پورے ملک کو آگاہ کر رہی تھی تو ہماری چوٹی کے
سیاستدان اس کو مذاق سمجھ کر اس کا مذاق اڑا رہے تھے اور اب نیندیں اڑ گئیں
ہیں کہ بھی ایک ایسا گروہ سامنے آرہا ہے جو نا پارلیمنٹ کو مانتا ہے نا
آئین کو نا عدالتوں کو اور نا سیاست کو اب ان سے نمٹ کر تو دکھاؤ اگر دم ہے
تو۔
مزید توجہ طلب ہے کہ مستونگ کے تعلیمی اداروں میں قومی ترانہ اور پرچم
کشائی بند کر دی گئی ہے جسکی وجہ وہ خطوط ہیں جو دھمکیوں سے بھرے ہوئے ہیں
جن سے اساتذہ اور طلبہ میں بے چینی پھیل گئی ہے۔ گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن
مستونگ نے ضلعی رابطہ افسر اور ڈی پی او مستونگ کو تحریری طور پر یادداشت
پیش کی ہے اور اساتذہ کے لیے سیکورٹی کا مناسب انتظام کرنے کا مطالبہ کیا
ہے۔ سیکورٹی والے اپنی سیکورٹی کے لیے پریشان ہیں اور یہ نئی سیکورٹی کی
ڈیمانڈ کہاں سے پوری ہوگی ؟
ادھر گلگت کے علاقے کرروٹ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے
والے شمالی علاقہ جات قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر سید اس زیدی کے سوگ
میں شمالی علاق جات کے تمام تعلیمی ادارے بند رہے۔
واہ بھی واہ کیا امن و سکون نصیب ہوا ہے صوبہ سرحد کے بدنصیب لوگوں کو اس
نام نہاد نظام عدل کے نفاذ سے اور اس کے زمہ دار وہ سب ہیں جنہوں نے کسی
بھی سطح پر اس نام نہاد نظام جبر کو نافذ کیا اور اس کی حمایت کی۔
ارے نافذ کرنا ہی ہے تو اپنی زات اور اپنے اوپر تو پہلے شریعت نافذ کرلو
معاشرے کا نمبر تو بعد میں آتا ہے۔
شرم ان کو مگر نہیں آتی مجھے تو آتی ہے خدا کی قسم۔
اللہ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے اور ہمارے حال پر رحم فرمائے آمین |