حکومت پاکستان، صوفی محمد صاحب، اور تحریک
طالبان پاکستان کے درمیان سوات کے حالات کے پیش نظر ایک معاہد کیا گیا۔ جس
کو نظام عدل کا نام دیا گیا۔ اگرچہ اس معاہدے پر کئی قوتوں کو تحفظات تھے،
اور اس کی مخالفت بھی کی گئی لیکن اکثریت نے اس کو ایک خوش آئند فیصلہ قرار
دیا اور اس معاہدے کی پذیرائی کی گئی۔کیوں کہ اس معاہدے کی صورت میں لوگوں
کو اسلامی نظام کی تصویر نظر آرہی تھی۔لیکن اس کے فوراً بعد ہی مولان صوفی
محمد صاحب کے کچھ غیر ذمہ داررانہ بیانات لمحہ فکریہ ہیں۔
ان کا یہ کہنا کہ جمہوریت، عدالتیں اور جمہوری نظام غیر اسلامی ہے اور یہ
کہ سوائے کالی پگڑی کے اور کوئی پگڑی نہیں باندھنی چاہیئے۔ان کی بات کا
تجزیہ کیا جائے تو ان کی بات جزوی طور پر درست ہے کہ جمہورت واقعی اسلامی
طرز حکومت نہیں ہے کیوں کہ اسلام میں شوراعی نظام ہوتا ہے اور اس میں تجربہ
کار اور علم والے لوگوں کو ذمہ دارایاں سونپی جاتی ہیں اور ان کی رائے کو
معتبر جانا جاتا ہے جبکہ جمہوریت بقول شخصے ایسا نظام ہے کہ جس میں بندوں
کو تولاتے نہیں ہیں بلکہ گنتے ہیں یعنی اس بات کو یوں سمجھیں کہ جمہوریت
میں ایک فرد ایک ووٹ کا اصول ہوتا ہے جب ووٹنگ کا مرحلہ آئے گا تو وہ
اٹھارہ سالہ نوجوان جو کہ غیر تعیلم یافتہ اور عملی زندگی کا کوئی تجربہ
نہیں رکھتا اور ایک ساٹھ سالہ اعلیٰ تعیلم یافتہ پی ایچ ڈی والا فرد ایک
برابر ہوتے ہیں۔یہجمہوری نظام کی ایک بڑی خرابی ہے۔رہی عدالتیں تو وہ آج تک
برٹش قوانین پر مبنی ہیں۔لیکن چونکہ ملک میں یہی قوانین رائج ہیں اس لیئے
ہمیں اسی طرز حکومت اور انہیں عدالتوں کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے تبدیلی کے
لیے اسلامی طریقہ بھی یہی ہے کہ اگر موجودہ سسٹم میں خرابیاں بھی ہیں تو وہ
جمہوری طریقے سے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد ہی لائی جاسکتی ہے۔ اسی
لیے ہم نظام عدل کی حمایت کرتے آئے ہیں کہ یہ حکومت کے ساتھ باقاعدہ
مذاکرات کے بعد نافذ کیا گیا تھا۔
لیکن مولانا صوفی محمد صاحب کا انتہا پسندانہ طرز عمل نہ صرف ان کے لیے
بلکہ پورے اسلامی نظام اور اسلامی تعیلمات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔اس
لیے انہیں چاہیے کہ وہ صبر و سکون کے ساتھ سوات میں امن قائم کرکے اور
اسلامی نظام کو باقاعدہ اس کی روح کے مطابق نافذ کریں تاکہ یہ ایک مثال بنے
نہ کہ لوگ اس کی ناکامی کے بعد مایوس ہوجائیں۔ مولانا صاحب یاد رکھیں کہ جس
طرح ستر کی دھائی میں چلائی گئی نظام مصطفٰی تحریک کو سیاستدانوں نے اپنے
مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اس کے بعد لوگ مذہبی قوتوں سے متنفر ہوگئے
تھے اسی طرح اگر اس وقت انتہا پسندی کا ثبوت دیا گیا تو پھر شائد ایک لمبے
عرصے تک لوگ اسلامی نظام کا نام بھی نہ لیں گے۔اس لیے مولانا صاحب اپنے طرز
عمل پر نظر ثانی کریں |