رحمان ملک صاحب فرماتے ہیں کہ طالبان بھارت
بھی جاسکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کو مل کر مقابلہ کرنا چاہیے، امن معاہدے پر
عمل نہ ہوا تو کاروائی کریں گے۔ مشیر داخلہ مزید فرماتے ہیں کہ دس ہزار غیر
ملکی مقامی طالبان کو تربیت دے رہے ہیں۔ عالمی برادری دہشت گردی کے خاتمے
کے لیے پاکستان کی مدد کرے (اور کتنی بھیک ہماری بدنصیب قوم کے سر چڑھاؤ گے
ظالموں، ہم طالبان اور عسکریت پسندوں سے مذاکرات اور ان کے آگے گھٹنے ٹیکتے
رہیں اور عالمی برادری سے تعاون کی اپیل کرتے رہیں اور انہیں ڈراتے رہیں کہ
یہ طالبان بڑے خطرناک لوگ ہیں) اور مزید فرماتے ہیں کہ صوفی محمد آئین
پاکستان کو پڑھے بغیر غیر اسلامی قرار دے رہے ہیں (تو کیا بے چارے پڑھ نہیں
سکے اس لیے قابل معافی ہیں) اور مزید مشیر داخلہ نے انکشاف کیا ہے کہ
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں افغان اسلحہ اور کرنسی استعمال ہونے
کی مصدقہ اطلاعات ہیں۔
ادھر سوات میں طالبان کی چوکیاں اور مورچے پھر سے قائم ہو گئے ہیں، بونیر
کی اہم پہاڑیوں پر طالبان نے قبضہ جما لیا ہے ڈرائیوروں کو میوزک بند کرنے
کا حکم اور این جی اوز کو بونیر سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ مقامی
لوگوں نے نام نہاد نظام عدل کے پہلے مرحلے میں اپنے علاقوں سے نقل مکانی
شروع کردی ہے (واہ بھی واہ ثمرات پہلے مقامی لوگوں پر ہی پڑنے تھے ہمارے
اور آپ کے شہروں تک تو بعد میں ثمرات آئیں گے)۔ مقامی افراد کے مطابق
حکومتی ارکان منظر سے غائب ہو رہے ہیں، بونیر کے اکثر علاقوں میں طالبان نے
مسلح گشت شروع کر دیا ہے۔ خواتین کو پردے کرنے اور نوجوانوں کو داڑھی رکھنے
کا حکم دینا شروع کر دیا ہے طالبان بعض علاقوں کے تھانوں میں گئے اور جرائم
پیشہ افراد سے متعلق تفصیلات طلب کیں (کیوں کیا موجودہ طالبان فورس کم پڑ
رہی ہے جو مزید بھرتی کرنے ہیں)۔ ادھر بونیر سے بہادر اے این پی اور پیپلز
پارٹی سے تعلق رکھنے والی بااثر شخصیات اور لوگوں نے پشاور، ایبٹ آباد اور
اسلام آباد کا رخ کر لیا ہے اور ان کی اکثریت نے اپنے اپنے رشتہ داروں کے
گھروں میں رہائش اختیار کر لی ہے (رہ گئے مقامی لوگ تو وہ نام نہاد نظام
عدل کے ثمرات لوٹیں اور خوش رہیں)۔ |