امیدِ بہار

امیدِ بہار - انتساب: احمد صفی اور سحر طاہر خان

تحریر: امین صدرالدین بھایانی


مذکورہ افسانے کی تحریک مجھے گذشتہ روز جناب احمد صفی کے فیس بک پیج پر اُن کی طرف سے سحر طاہر خان کے بلوچ کالونی، کراچی میں دیکھے ایک واقعے کو بڑے ہی متاثر کن انداز میں پیش کیئے جانے سے ملی۔ اِسی لیئے میں نے اپنا یہ افسانہ اُن ہی سے منسوب کردیا ہے۔ مجھے امید ِواثق ہے کہ انشاءاللہ آپ کو میرا یہ افسانہ بھی دیگر افسانوں کی طرح سے ضرورپسند آئیگا۔ مجھے آپ سب کی رائے کا شدت سے انتظار رھیگا۔

۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-

آخری سوٹ کیس بھی گاڑی کی ڈکی میں رکھے جانے کے ساتھ ہی چار پانچ گاڑیوں کا وہ مختصر سا قافلہ حرکت میں آیا۔ سب سے اگلی گاڑی میں سیٹھ ستار کپاڈیہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر براجمان تھا۔ پچھلی نشست پر اُس کی بیوی بلقیس کپاڈیہ اور دو بیٹیاں چودہ سالہ کلثوم کپاڈیہ اور نو سالہ زینب کپاڈیہ بیٹھے تھے۔ پیچھے والی گاڑی میں اُس کا سولہ سالہ جوانسال اکلوتا بیٹا فیصل کپاڈیہ اپنے چند دوستوں اور کزنز کے ہمراہ خوش گپیوں میں مشغول تھا۔ بقیہ گاڑیوں میں سیٹھ کپاڈیہ کے وہ رشتہ دار عورتیں اور مرد سوار تھے جو اُنہیں ائیرپورٹ تک الوداع کہنے کے لیئے ساتھ جارہے تھے۔ اگلی گاڑی قدرے سُست رفتاری کے ساتھ چلتی ہوئی ایک دو رویہ گلی جس کے دونوں اطراف بڑے ہی شاندار وسیع و عریض بنگلے، کوٹھیاں اور عین بیچ میں چھوٹی سی ہرے بھرے سرسبز پودوں، پھولوں اور درمیانے قد کے درختوں سے لدی گرین بلیٹ تھی، سے دائیں مڑ کر ایک بڑی سڑک جس پر خیابانِ سعدی کی تختی لگی ہوئی تھی میں داخل ہوگئی۔ گاڑی دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگی جبکہ قافلے میں شامل دیگر گاڑیاں اُس کی رفتار کا ساتھ دیتے ہوئے پیچھے چلی آرہی تھیں۔ تھوڑا ہی آگے جا کر گاڑی بوٹ بیسن کے چوراہے سے دائیں مڑ کر خیابانِ رومی کی وسیع و کشادہ سڑک پر آگئی۔ سیٹھ کپاڈیہ اپنی نشست پر بیٹھا گاڑی کی ونڈ اسکرین اور بند شیشے والی کھڑکی سے سارے مناظر کچھ یوں حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے وہ انہیں آخری بار ہی تو دیکھ رہا ہے۔

گاڑی کی رفتار کچھ تیز ہوئی اور پھر وہ شون سرکل والے چوراہے کے سرخ اشارے پر رک گئی۔ اچانک سیٹھ کپاڈیہ کی نظریں چوراہے کے پار عین بائیں جانب والے کونے پر قائم دین آرکیڈ کی چھت پر لگے اشتہاری بورڈ پر پڑی جس پر کسی تنظیم کی جانب سے حضرتِ علامہ اقبال کا یہ شعر لکھا ہوا تھا:۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

سیٹھ کپاڈیہ نے اپنی نگاہیں ایک جھٹکے کے ساتھ بورڈ سے یوں ہٹا لیں جیسے وہ کوئی قابلِ اعتراض منظر ہو اور کوئی اُسے دیکھتے ہوئے نہ دیکھ لے۔ اُس نے چور نگاہوں سے گاڑی کے ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ کر پورے انہماک سے گاڑی چلاتے ڈرائیور کی جانب دیکھ کر یہ تسلی بھی کرلی کہ کہیں اُس نے اُسے وہ شعر پڑھتے ہوئے دیکھ تو نہیں لیا۔

سرخ اشارے کے سبز ہوتے ہی گآری چوراہا پار کرکے آگے بڑھی اور سب میرین چورنگی کو تیزی سے پیچھے چھوڑتی پنچاب کالونی کی حدود سے نکل کر ڈیفینس کے سن سیٹ بلے وارڈ میں داخل ہوگئی۔ سیٹھ کپاڈیہ اُن سب سڑکوں، پوش دکانوں، شاپنگ سینٹروں، مالوں، چوراھوں اور اُن پر نصب یادگاروں کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے وہ اُن سب کو اپنی آنکھوں میں بھر لینا چاہتا ہو اور سچ بھی یہ ہی تھا کہ وہ صرف ان مناظر کو ہی نہیں، اپنے پیارے شہر کراچی ہی کو اپنی آنکھوں میں بسا لینا چاہتا تھا۔

کراچی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، جہاں وہ پیدا ہوا، جس کے گلی کوچوں میں کھیل کود کر وہ بچپن کی سرحدوں کو پھلانگ کر لڑکپن کی حدود میں داخل ہوا۔ جس شہر نے اُس کے لڑکپن کی ہر وہ اٹکھیلیاں دیکھیں جو اُس عمر کا خاصہ ہوا کرتیں ہیں۔ اُس نے اِسی شہر میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ لڑکپن ہی سے ممین مسجد کے عقبی علاقے کاغذی بازار کی "کپڑا مارکیٹ" میں قائم اپنے والد کی سوتی کپڑے کی دکان میں اُن کے ساتھ بیٹھنا شروع کیا۔ کپڑے کی تجارت سیٹھ ستار کپاڈیہ کا جدی پشتی کاروبار تھا اور اُسی کی نسبت سے وہ "کپاڈیہ" کہلاتے تھے۔

اُسے اپنا بچپن یاد آیا۔ وہ اپنے ابو سیٹھ جاجی غفار کپاڈیہ کے ساتھ کپڑا مارکیٹ والی دکان "کپاڈیہ اینڈ سن، کلاتھ مرچنٹس" میں اُن کے ساتھ جایا کرتا اور اُن کے منہ سے ہزار بار کی سنی ہوئی داستان ایک بار پھر سنتا کہ ستاریہ تیرے دادا سیٹھ حاجی جبار کپاڈیہ بہت ہی "جہین" کاروباری "آدمین" تھے۔ قیامِ پاکستان سے قبل گجرات کاٹھیاواڑ میں وہ اِسی "کپاڈیہ اینڈ سن، کلاتھ مرچنٹس" ہی کے نام سے کاروبار کرتے تھے اور خود میری "پیدائس" بھی کاٹھیاواڑ ہی میں ہوئی تھی۔ ستار تم ہماری کپاڈیہ "پھیمیلی" کے وہ پہلے "پھرد" ہو جس کی "پیدائس" پاکستان میں ہوئی ہے اور تم بڑے "خوس نصیب" ہو جو "پیدائسی" پاکستانی ہو۔

ننھے ستار کو خوب پتہ ہوتا تھا کہ اب ابو دادا کے پاکستان آنے کا قصہ بھی ضرور چھیڑیں گے اور ایسا ہی ہوتا۔ اُس کے ابو دور خلاوں میں گھورتے ہوئے وہ ساری کہانی کچھ یوں سناتے جیسے وہ خلا میں نہ گھور رہے ہوں بلکہ کسی نظر نہ آنے والے سنیما کی اسکرین میں سے دیکھ کر یہ سارا واقعہ سنا رہے ہوں اور ہر بار سارا واقعہ حرف بہ حرف وہ ہی ہوتا جو ننھا ستار اپنے ہوش سنبھالتے ہی سنتے آیا تھا:۔

۔"میرے ابو بہت ہی جہین آدمین تھے۔ اُنکا کاٹھیاواڑ میں کپڑے کا بیجنس تھا اور اُس میں ایک گجراتی ہندو بیوپاری کی بھاگی داری [حصہ داری] بھی تھی۔ پاکستان بننے سے پلے ہی وہ کیتے تھے کہ انساءاللہ ہم سب پاکستان جائیںگے اور بٹوارے سے کوئی آٹھ دس مہینے پلے ہی انہوں نے اپنے ہندو بھاگیدار سے اُس کا حصہ خرید لیا اور پھر بڑی مُسکلیوں کے بعد وہ کاروبار ایک دوسرے گجراتی ہندو کو بیچنے میں کامیاب ہو سکے۔ اِس دوران کراچی براستہ سمندر دو تین چکر لگا کر یہ اپنی کاگجی بجار والی دکان کا سودا طے کرلیا اور پھر کاٹھیاواڑ والی دکان کو بیچنے کے بعد ایک بار پھر کراچی آئے اور اِس دکان کو خرید کر اپنا تالہ ڈال دیا۔ اِسی کاگجی بجار ہی کی ایک بلڈنگ میں چالی والا "ڈوھڈھیا" گھر خرید کر اُس پر بھی تالہ لگا کر پھر واپس کاٹھیاواڑ آئے اور وہاں کا گھر بیچ کر پہلے تو ہم سب گھر والے گھر کے سامان سمیت ٹرین سے بمبئ پہنچے اور وہاں سے ایک بڑے سمندری جہاج میں بیٹھ کر سارے سامان کے ساتھ قیام ِپاکستان سے پورے تین ایک مہینے پہلے ہی کراچی پہنچ گئے۔ پھر میرے ابو نے دکان میں یہ جو نام کا پاٹیا تو دیکھتا ہے نے ستاریہ، ایک بڑے ہی جبرجست پینٹر سے لکھوا کر اپنے ہاتھ سے لگایا اور جیسے تو میرے ساتھ دکان پر بیٹھتا ہے ویسے ہی میں بھی روج آ کر بیٹھنے لگا، حالانکہ میں اس وقت بمُسکیل آٹھ سال کا تھا "۔

اچانک ایک جھٹکے سے گاڑی سن سیٹ بلے وارڈ اور کورنگی روڈ کے سنگم پر ڈیفینس موڑ پر کچھ لمحات کو رکی اور دائیں جانب مڑ کر کورنگی روڈ پر آ کر شہیدِ ملت کاز وے کی طرف بڑھنے لگی۔ اِس جھٹکے نے سیٹھ ستار کپاڈیہ کی سوچوں کا تار توڑ دیا۔ اُس نے کلائی پر بندھی گھڑی پر وقت دیکھا اور کچھ ایسے انداز میں سر ہلایا جیسے اُسے اطیمنان ہو کہ وہ پورے وقت پر ہی ائیرپورٹ پر پہنچ جائے گا۔ گاڑی سے باہر اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس نے کوشیش تو ضرور کی کہ اب سوچیں اُس پر حاوی نہ ہوں لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ سوچوں کے بھنور نے ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کیا۔ اُسے یاد آیا کہ کیسے اُس نے دادا اور باپ کے چھوٹے سے کاروبار پر اپنی نوجوانی کے شب و روز وار کر اُسے کچھ ایسے آگے بڑھایا کہ وہ کاروبار کاغذی بازار کے کپڑا مارکیٹ کی ایک چھوٹی سی دکان سے آگے بڑھ کر پہلے ریڈی میڈ گارمینٹس کی ایک چھوٹی سی فیکڑی میں منتقل ہوا اور پھر وہ چھوٹی سی گارمنیٹس فیکڑی ایک بہت بڑے جدید گارمینٹس ایکسپورٹ یونٹ میں تبدیل ہوگئی۔ جس میں بننے والیں مصنوعات پورپ، امریکا اور کینیڈا تک جانے لگیں اور اُس کا کاروبار دن دونی و رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔

لیکن پھر وہ افسوسناک مرحلہ بھی آیا کہ مسلسل بجلی نہ ہونے، امن و امان کی مخدوش صورتحال اور آئے دن کی ہڑتالوں کے سبب پروڈکشن میں آنے والی کمی کے سبب غیرملکی خریداروں کو بروقت شیپمینٹس نہ سکیں اور نہ صرف آرڈرز کینسل ہونے لگے بلکے کمپنی کی سال ہا سال کی بنی ہوئی ساکھ کو بھی شدید دھچکے لگے۔ لہذا اِس ساری صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سیٹھ ستار کپاڈیہ نے اپنے ہی جیسے ایک بہت بڑے گارمنیٹس ایکسپورٹر کے ساتھ شراکت داری کا آغاز کیا اور پہلے سے بھی بڑے مینیوفیکچرنگ یونٹ کے قیام کو منصونہ بنایا گیا لیکن اس عظیم الشان یونٹ کو کراچی میں نہیں لگنا تھا بلکہ کراچی تو کیا اسے تو پاکستان میں ہی نہیں لگنا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، اُسے تو ڈھاکہ میں لگنا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! جی ہاں ڈھاکہ، بنگلادیش میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔!!!. اور لگنا کیا تھا وہ تو نہ صرف لگ بھی گیا بلکہ وقتِ مقرہ پر دھڑا دھڑ پروڈکشن کا آغاز بھی ہوگیا اور دنیا بھر میں ایکسپورٹ نہایت ہی کامیابی سے شروع بھی کردی گئی اور سچ تو یہ ہی کہ اِن دنوں بنگلادیش میں گارمنیٹس انڈسٹری جس طرح سے پھل پُھول رہی ہے اور حکومت کی طرف سے ملنے والیں مراعات نے پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیئے اُسے محفوظ سرمایہ کاری کی جنت بنا دیا ہے۔

سیٹھ ستار کپاڈیہ نے اپنے ایکسپورٹ یونٹ کو کس دکھی دل کے ساتھ کراچی سے ڈھاکہ منتقل کیا اُسے تو بس وہ ہی جانتا تھا۔ اُس کے کراچی والے یونٹ جسے چلتے ہوئے کوئی بیس برس کا طویل عرصہ گز چکا تھا اور اِنگنت کارکنان جو سال ہا سال سے اُس کی کمپنی سے وابستہ تھے، جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ کمپنی اپنے دروازے اُن پر ہمیشہ کے لیئے بند کررہی ہے تو اُن کے غمگین چہروں پر لکھیں تحریروں کو پڑھ کر اُسے نہ جانے کتنی راتوں کو نیند تک نہ آئی۔

گاڑی کورنگی روڈ سے شیہدِ ملت کازوے کے پُل پر چڑھنا شروع ہوئی، پُل کے وسط سے دو راستے نکلتے ہیں۔ سیدھا راستہ اِنگش بسکٹ فیکَٹری سے ہوتا ہوا کورنگی انڈسٹریل ایریا کی طرف جاتا ہے سے ہٹ کر گاڑی پل کے بائیں والے موڑ پر مڑ گئی اور اب وہ کاز وے کے بلوچ کالونی دوڑ پر دوڑے چلے جا رہی تھی۔ سیٹھ کپاڈیہ نے ایک بار پھر گھڑی دیکھی۔ حالانکہ وہ اِس طرح سے گھر سے چلا تھا کہ اپنے وقت سے بھی پہلے ائیرپورٹ پر پہنچ جانے کی پوری امید تھی لیکن نہ معلوم وہ کیا بات تھی جو اُسے بے چین کیئے دے رہی تھی۔ شاید وہ بات اُس کا وہ فیصلہ تھا جس کے سبب وہ خود اور اُس کے سارے گھر والے ائیر پورٹ کی جانب رواں دواں تھے۔

اُس کا کاروباری شراکتدار محسن علی خان تو دھاکہ والی فیکڑی کے شروع ہوتے ہی اپنے پورے خاندان کے ہمراہ مستقل طور پر ڈھاکہ ہی منتقل ہوگیا تھا اور مسلسل اُسے بھی سمجھا رہا تھا کہ ملک اور بطورِخاص کراچی کے حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے وہ بھی اپنے سارے خاندان کے ساتھ ڈھاکہ ہی منتقل ہوجائے لیکن وہ ہمیشہ یہ کہہ کر صاف انکار کردیتا کہ میں نے کراچی کے برے حالات کے سبب اپنا کاروبار تو ضرور ڈھاکہ منتقل کیا ہے لیکن ابھی حالات اتنے بھی خراب نہیں ہوئے کہ میں اپنا شہر، اپنا ملک چھوڑ کر ڈھاکہ ہی منتقل ہو جاوں۔

لیکن پھر چار روز قبل ہونے والے عباس ٹاون سانحے نے تو جیسے اُس کی ہمت توڑ کر رکھ دی۔ ٹی وی اسکرین پر عباس ٹاون کے فلیٹوں کو دیکھ کر اُسے وہ منظر یاد آئے جو اُس نے کبھی بیروت کی خانہ جنگی کے دوران دیکھے تھے۔ اُس نے سوچا کہ پہلے تو لوگ کہتے تھے کہ اگر خریت درکار ہے تو گھر میں ہی دُبکے رہو لیکن اب تو یہاں انسان اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سونے پہ سہاگہ محسن علی خان نے یہ خبر سنتے ہی اسے فوراً فون کرکے اُس کے وہ لتے لیئے کہ بس خدا کی پناہ اور کہا: "میاں اب تو کچھ ہوش کے ناخن لو اور اِس سے پہلے کے کچھ اس سے بھی بُرا ہوجائے فوراً گھر والوں کو لے کر یہاں منتقل ہو جاو"۔

اِس واقعے نے تو سچ مچ اُسے ہلا کر ہی رکھ دیا تھا اور پھر اُس نے فیصلہ کر ہی لیا کہ وہ ڈھاکہ منتقل ہوجائے گا اور اگر جو وہاں مزا نہ آیا تو دو ایک سال بعد دبئی چلا جائے گا یا پھر کینیڈا کی شہریت کے لیئے درخواست دے دے گا۔ محض تین دنوں میں ساری تیاری ہوگئی۔ ویسے تیاری کرنی ہی کیا تھی۔ کاروبار تو ویسے ہی سارا کا سارا ڈھاکہ منتقل ہوچکا تھا۔ گھر کے سارے ساز و سامان کو سفید چادریں اوڑھا دیں گئیں اور تالے لگا دیے گیئے۔ باقی رھ گیا ڈھاکہ کا تو وہاں محسن علی خان کی یہ لمبی چوڑی سجی سجائی رہائش گاہ تو موحود تھی ہی اور پھر وہ جو کہتے ہیں نہ کہ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ۔ تو پیسے کی تو کوئی کمی تھی ہی نہیں۔

گاڑی شہید ملت کاز وے اور شاہراہ فیصل کے سنگم پر بلوچ کالونی موڑ پر دائیں جانب مڑ گئ اور ابھی کونے والی گول حبیب بنک سے تھوڑا سا ہی آگے بڑھی تھی کہ ایم سی بی بنک سے کچھ ہی پہلے شدید ٹریفک جام نظر آیا۔ ڈرائیور کو گاڑی روک دینا پڑی۔ تھوری دیر میں گاڑی کے پیچھے گاڑیوں کا ہجوم جمع ہوتا چلا گیا اور پھر آگے اور پھچیے دونوں جانب بس یوں جانوں جیسے گاڑیوں کا ایک سمندر نظر آرہا تھا۔ سیٹھ ستار کپاڈیہ بار بار بیچنی سے گھڑی کو دیکھتا تو کبھی گاڑی کی کھڑکی سے سر باہر نکال کر آگے پیچھے دیکھتا لیکن اُسے تو بس چاروں طرف گاڑیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آرہا تھا۔

کوئی آدھا گھنٹہ یونہی ٹریفک میں پھنس کر اُس نے دل میں سوچا کہ ایسی جگہ جہاں کسی کو اپنی زمہ داری کا قطعاً کوئی احساس ہی نہ ہو وہاں سے تو چلے جانا ہی بہتر ہے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک گاڑی کے ونڈ اسکرین میں اُسے تھوڑی ہی دور چوراہے پر ایک اکیلا ٹریفک پولیس کا سپاہی نظر آیا جو اُس ٹریفک کے عظیم الشان اژدھام کو قابو میں کرنے کی کوشیش میں نہ جانے کب سے مصروف ِعمل تھا۔ دھوپ کی شدت اور اِرد گرد ہزارہا گاڑیوں کے دھویں اور اُس کی تپیش سے وہ پسینے میں شرابور ہوا جارہا تھا اور بار بار اپنی آستین سے پیشانی پر آیا ہوا پسینہ پونچتا لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اب اُس کی ہمت دھیرے دھیرے جواب دینا شروع ہوچکی ہے۔ اچانک وہ لڑکھڑایا اور اُس سے پہلے کہ وہ وہیں اُس سڑک پر گر کر ڈھیر ہو جاتا، لڑکھڑاتا ہوا، اپنے اِرد گرد ہارن بجاتی ہوئی گاڑیوں سے خود کو بچاتے ہوئے سڑک کے ایک کونے پر جا کر دھم سے زمین پر جا بیٹھا۔

ابھی سیٹھ ستار کپاڈیہ اِس منظر ہی میں گم تھا کہ اچانک ایک زور دار گونج نے اُسے چونکا دیا:۔

"!چلو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔"

اس نے سر گھما کر دیکھا تو اُسکی گاڑی کے بالکل ساتھ ہی بیس ایک سال کا اڑی ہوئی فلزی رنگت کی ٹی شرٹ میں ملبوس نوجوان اپنی موٹر بائیک پر سوار پیچھے کھڑے اپنے بہت سارے بائک سوار ساتھیوں کو ہاتھ کے اشارے سے آگے بلا رہا تھا۔

وہ کسی بالی وڈ کی فلم کا سا منظر نظر آرہا تھا۔ سیٹھ کپاڈیہ کے چہرے پر شدید ناگواری کے تاثرات ابھرے۔ اُسے ویسے بھی بالی وڈ کی فلموں سے چڑ تھی اور اُس نے سوچا کہ بائیک سوار نوجوانوں کا یہ جتھا بالی وڈ کی فلموں سے متاثر ہو کر اپنی اپنی بائیکوں پر سوار ہلڑ بازی مچانے کے لیئے آن پہنچا ہے۔

لیکن اب جو اگلا منظر سیٹھ ستار کپاڈیہ کی آنکھوں نے دیکھا تو جیسے اُسے تو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہ ہوتا تھا۔ بائیک سوار نوجوانوں کا جتھا ٹریفک سپاہی کی طرف بڑھا۔ اُن میں سے چند نے اُسے سڑک کے کنارے سے اٹھایا، دھول مٹی میں اٹے ہوئے اُس کے کپڑے جھاڑنا شروع کیئے۔ اُس ٹریفک جام میں کافی دیر سے ایک ایمبولینس کھڑی اپنا سائرن بجا رہی تھی لیکن اُسے آگے جانے کے لیِے جگہ میسر نہیں آرہی تھی۔ اُن نوجوانوں نے فوری طور پر تمام گاڑیوں پر فرداً فرداً جا کر ایک ایک ڈرائیور سے درخواست کر کے اُس پھنسی ہوئی ایمبولینس کے جانے کے لیئے راستہ بنوایا اور پھر بڑی ہی مستعدی سے دیگر پھنسی ہوئی گاڑیوں کے لیئے راستہ بنا کر ٹریفک کو بڑی ہی خوش اسلوبی کے ساتھ کنڑول کرنا شروع کردیا۔ اُن کے اِس عمل سے رکا ہوا ٹریفک دھیرے دھیرے آگے بڑھنا شروع ہوا۔ ٹریفک کے کسی قدر رواں ہونے کے بعد اُن نوجوانوں نے بس اسٹاپ پر کھڑے لوگوں کو جو نہ جانے کب سے بس کے انتظار میں تپتی دھوپ میں جل رہے تھے، اپنی بائیک پر لفٹ دیکر سوار کرنا شروع کردیا۔

یہ سارا منظر دیکھ کر وہاں موجود سارے ڈرائیوروں نے گاڑیوں کے شیشے نیچے اتار کر زور زور والہانہ انداز میں تالیاں بجا کر اُن نوجوانوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

سیٹھ کپاڈیہ کی آنکھیں آنسوں سے ڈبڈبا آئیں۔ لیکن اُس نے اپنی ڈبڈباتی آنکھوں سے امید کی ایک روشن کرن ضرور دیکھ لی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، امیدِ بہار کی روشن کرن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔

اُس نے ڈرائیور کی طرف جھک کر اُس کے کان میں کچھ کہا اور ڈرائیور نے گاڑی کو آگے بڑھا دیا اور اگلے ہی چوراہے گاڑی کو دوبارہ واپس موڑ لیا۔ گآڑی اب ائیر پورٹ کی بجائے اُسی راستے سے واپس جارہی تھی جہاں سے چلتی ہوئی آئی تھی۔

بڑی عجیب بات تھی کہ سیٹھ ستار کپاڈیہ کو واپسی کے سارے راستے، ہر دیوار، ہر سجر، ہر گزرتے انسان کے چہرے پر بس یہ ہی مصرعہ لکھا نظر آرہا تھا اور اب وہ اُس سے اپنی آنکھیں چرانے کی کوئی کوشیش بھی نہیں کررہا تھا:۔
پیوستہ رہ شجر سےامیدِ بہار رکھ
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 55051 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.