ایک سیاسی پارٹی کا بننا اور ادھڑنا

ویہلا پارٹی کا آج کا اجلاس ایک ہنگامی اجلاس تھا۔یہی وجہ تھی کہ تھکاوٹ اور کسلمندی باباجی کے علاوہ ان کے چہروں سے عیاں تھی۔اجلاس سابقہ اجلاسوں کی طرح دولے چھپر ہوٹل والے کے قریب ترین ایک پرانے جنگلی شہتوت کے نیچے رکھا گیا تھا۔کسی مسجد سے ریٹائر ہونے والی چٹائی کو پانچوں نے جھاڑ کر بچھایا۔یہی ان کے اجلاسوں کی نشست گاہ تھی۔’’آج چائے کی باری کس کی ہے؟‘‘باباجی نے پرانے اخبار جو انہوں نے دولے کے چھپر ہوٹل سے اٹھائے تھے ۔ان کو بغل میں دبائے معتبر بنتے ہوئے کہا۔ہم پانچوں چٹائی پر بیٹھ چکے تھے۔’’باباجی،آج آپ کی باری ہے ‘‘۔یہ غریبو تھا،اپنے نام کی طرح غریب جس نے اپنی پھٹی ہوئی جیب سے سرخ رنگ کی ایک جیبی ڈائری کھول کر ڈرون کی طرح باباجی پر غیر متوقع حملہ کر دیا تھا۔’’وہ کیسے بھئی ‘‘ باباجی نے سرخ آنکھوں سے اسے گھورا۔’’یہ دیکھیں،غریبونے ایک صفحہ کھول کر باباجی کے سامنے کر دیا۔’’لیکن اس حساب سے تو میری باری اس اتوار کو آئے گی آج تو ہنگامی اجلاس ہے۔‘‘بابا جی، ہنگامی اجلاس بھی تو آپ نے ہی کال کیا ہے‘‘۔لفنگے نے اپنے سر کی پٹی ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔اس کی سر کی پٹی کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ بچپن سے ہی اس کے ساتھ کچھ ایسا ہوتا آ رہا ہے کہ ابھی پچھلی چوٹ ٹھیک نہیں ہوتی نئی لگ جاتی ہے۔باباجی، باری آپ کی ہی ہے آج بھی اور اس اتوار کو بھی۔‘‘بونگے نے اپنی بونگی ماری۔’’بونگے تیری کسر تھی ،تو نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا دی‘‘۔باباجی نے جیب سے نکال کر ریز گاری گنی۔’’چائے کے پیسے پورے نہیں ہیں اور تمہیں پتہ ہے دولے کا اس نے چائے ادھار دینی نہیں ہے ۔میں گھر سے بنوا لاتا ہوں۔‘‘باباجی نے اٹھنے کی کوشش کی ۔’’ہمیں تمہاری سیاست کی سب خبر ہے۔ہم کہاں تمہیں اور تمہاری چائے کو ڈھونڈیں گے۔اتنے میں چار ٹوکن چائے تو آ ہی جائے گے۔‘‘ غریبو نے باباجی کو آڑے ہاتھوں لیا۔بونگے نے بابا جی کے ہاتھ سے ریز گاری لی اور ٹوکن چائے کے لئے دولے کے چھپر ہوٹل کا رخ کیا۔

یہ لوگ اسلام آباد کی شاپر بستی کے رہائشی تھے۔کام چوری ان چاروں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی یہی وجہ تھی کہ جونہی ان کی بیویاں کاموں پر نکل جاتیں تویہ سارا دن جنگلی شہتوت کے نیچے بیٹھ کر گپیں ہانکتے ،لفنگاشہتوت پر چڑھ کر اس کا سرخ رنگ کا پھل اتارتا اور اس بات سے بے خبر کہ سرکار نے اس درخت کو خطرناک درختوں کی صف میں شمار کر رکھا ہے ۔وہ خوب جی بھر کر بھل کھاتے۔ یا پھرایک شاپر بستی سے دوسری شاپر بستی تک کا پیدل سفر کرتے ،اپنے جیسوں سے ملتے کبھی کبھار کہیں سے چائے روٹی سے تواضع ہو جاتی تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی۔دولے کے چھپر ہوٹل پر انہوں نے اپنی جگہ مخصوص کروانے کی کوشش کی مگر چونکہ دولے کے ہوٹل سے چند ایک پولیس کے اہلکار مفت روٹی توڑتے تھے ۔اس لئے وہاں ان کی دال نہ گل سکی ۔اور انہوں نے اس سے کچھ دور ٹھکانہ لگا لیا ۔ایک معاہدہ دولے اور ان کے درمیان طے پایا کہ باسی اخبار اور دوسرے دن کی باسی دال سبزی جو بک نہ سکے اس پر ان کا حق ہو گا۔

’’جی بابا جی ،اب بتائیں کیوں ہنگامی اجلاس بلایا ہے‘‘۔غریبو نے چائے کے کپ میں آخری قطروں کو زبان کی نوک مارتے ہوئے کہا۔’’یار،یہ ٹوکن چائے ایک تو آتے ہوئے ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور ختم بھی بہت جلدی ہو جاتی ہے‘‘۔بونگے نے کپ میں انگلی ڈال کر چینی منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا یار ،اب بابا جی کو بھی سن لو‘‘۔لفنگے نے اپنے سر کی پٹی ٹھیک کرتے ہوئے ان کو چپ کروایا۔باباجی نے اپنے سامنے پھیلائے ہوئے اخباروں کو سائیڈ پر کیا۔’’تمہیں پتہ ہے کہ اب نگران حکومت آ گئی ہے۔اور الیکشن میں تھوڑا وقت باقی ہے‘‘۔’’باباجی صرف یہ بتانے کے لئے اتنی صبح اٹھا دیا ۔ہم شاپر بستی میں سہی رہتے تو اسلام آباد میں ہیں۔اور کھانے کے مقابلے میں جتنا مزہ طاہر القادری کے دھرنے میں آیا ہے ۔وہ شائد ہی آج تک آیا ہو۔‘‘لفنگا خیالوں میں کھانے کے مزے لے رہا تھا۔’’یارو،میری بات تو سن لو۔میں نے اخبار میں پڑھا ہے پاکستان میں اس وقت رجسٹرڈ سیاسی پارٹیوں کی تعداد 217 ہے۔اان میں ایک سیاسی پارٹی ہماری بھی سہی‘‘ ۔’’باباجی،گھر میں آٹا نہیں اور آپ تندور سے روٹیاں لگوانے کا سوچ رہے ہیں۔‘‘بونگے نے ایک عقلی دلیل پیش کی ۔’’پاکستان میں سب سے سوکھا کام سیاسی پارٹی بنانا ہے‘‘۔ باباجی کی آنکھوں میں چمک تھی ۔’’مگر بابا جی ہماری شاپر پارٹی چلے گی کیسے ۔اس کے ممبر کون بنیں گے‘‘ ۔غریبو کچھ پریشان سا ہو گیا۔کیونکہ یہ ایک جمہوری پارٹی ہو گی ۔اس میں سب برابر ہو نگے۔لیکن کیوں کہ اس کا خیال میں نے پیش کیا ہے ۔اس لئے اس کا تا حیات صدر میں بنوں گا‘‘۔’’اچھا ‘‘۔لفنگے نے اچھا کو لمبا کیا۔’’اچھا عہدے تو بعد میں بھی بانٹ لیں گے۔سب سے پہلا مسئلہ پارٹی کا نام رکھنے کا ہے‘‘۔باباجی نے بات کو آگے بڑھا دیا۔’’اچھا نام تو ساتھ ساتھ سوچتے ہیں۔اس کا منشور کیا ہوگا‘‘۔غریبو کے سوال میں بڑا وزن تھا۔منشور جو سب سیاسی پارٹیوں کا ہوتا ہے۔روٹی ،کپڑا اور مکان‘‘باباجی نے چند پارٹیوں کے منشور اخباروں کے بھیڑ سے نکال کر ان کے سامنے رکھ دیئے۔’’مگر باباجی،روٹی کپڑا اور مکان تو ہمارے اپنے پاس نہیں ہے‘‘۔بونگے کا حیرانی سے منہ کھلا ہوا تھا۔اسی لئے تو سب سے مضبوط سیاسی پارٹی ہوگی۔’’پارٹی کے جھنڈے کو رنگ کیا ہوگا‘‘لفنگے نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔’’تم نے سوال کیا ہے تو تم ہی بتاؤ۔’’سبھی رنگ تو مارکیٹ میں چل رہے ہیں۔سرخ ۔کالے،سبز،سفید تو کیا رنگ ہونا چاہیئے؟‘‘ایسا رنگ ہو جس سے فوراً ہماری پارٹی کی پہچان ہو جائے‘‘ ۔باباجی نے ہنکارا دیا۔’’پیلا رنگ اور ایک ہی رنگ،پیلا پھٹک جیسے غریب کا ہوتا ہے۔خون کی دو بوتلیں دینے کے بعد یا تین دن فاقے سے رہنے کے بعد‘‘۔’’چلیں جھنڈا اور منشور تو فائنل ہو گیا۔اب پارٹی کانام بھی فائنل ہو جائے‘‘۔باباجی نے ایک سفید کاغذ پر آڑھی ترچھی لکیریں مارتے ہوئے کہا۔’’میرے عزیز ہم شاپر دوستو‘‘۔بونگے نے ابھی خطاب شروع کیا ہی تھاکہ باباجی پکار اٹھے ’’بس نام فائنل ہو گیاپاکستان شاپر پارٹی،واہ واہ کیا نام ہے۔ہم علامت بنیں گے سب شاپر بستیوں میں رہنے والوں کی پورے پاکستان میں جو خانہ بدوش ،،ٹپری واس ہیں۔وہ سب ہمارے ووٹر ہونگے۔ہم ہر بے گھر غریب کی آواز ہونگے۔ہمارے دور میں کوئی کسی غریب کا شاپر بستی میں گھر مسمار نہیں کر سکے گا۔ہم دلائیں گے ہر غریب کو روٹی کپڑا اور مکان‘‘۔’’باباجی ،پارٹی اور الیکشن کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا۔‘‘غریبو نے باباجی کی بریک لگوا دی۔’’ایک دفعہ پارٹی رجسٹرڈ ہو جائے دیکھنا کیسے فناسر ادھر کا رخ کرتے ہیں۔جاؤ لفنگے شاپر بستی سے اپنے جیسے لفنگوں اور غریبو تم کچھ بڑوں کو اکھٹا کرکے لاؤتاکہ ہم ان کواعتماد میں لے لیں‘‘۔’’باباجی ہم چلے تو جاتے لیکن ان میں سے کسی نے بھی روٹی پانی کے بغیر ہمارے ساتھ نہیں آنا‘‘لفنگے اور غریبونے اٹھتے ہوئے کہا۔’’اچھا انہیں روٹی ،چائے کا لارا دینا۔دولے کامنت ترلا کر لیں گے یا پھر شائد پہلی میٹنگ میں بدمعاشی ہی کر نا پڑے‘‘۔ان کے جانے کے بعد باباجی بونگے کو پاکستان میں بننے والی چند سیاسی پارٹیوں کی تاریخ سے آگاہ کرنے لگے۔اور بونگے کے چہرے پر آنے والی سہانے دنوں کی لالی بکھرنے لگی۔

لفنگے اور غریبو کی کوششوں سے شاپر بستی کے بہت سے ویہلے باباجی کا خطاب سننے کے لئے بے قرار تھے۔غریبو نے باباجی کے خطاب سے قبل نعرہ لگایا ۔’’پاکستان شاپر پارٹی‘‘۔مجمع میں خاموشی تھی۔بابا جی نے کہا بھئی سب نے کہنا ہے ۔’’زندہ باد‘‘۔مجمع میں سے ایک جوان اٹھا ۔’’باباجی سب کے لئے پہلے روٹی کاکہہ دیں ۔تاکہ سب کی آواز نکلے۔اور ہم تین کے لئے ٹیکوں کے سیٹ کہہ دیں ۔پھر دیکھیں کیسے نعرے لگتے ہیں‘‘۔بابا جی کے لئے چند اینٹیں رکھ کر ایک سٹیج بنانے کی کوشش کی گئی تھی ۔باباجی اس پر تشریف لائے۔’’میرے عزیز شاپر بستی کے دوستو،آج جو کوئی جس چیز کی ڈیمانڈ کرئے گا اس کو ضرور فراہم کی جائے گی۔اگر دولا ہوٹل والا کھانا نہیں دے گا ۔ہم اس کا ہوٹل تہس نہس کر دیں گے ۔اس کابنا بنایا کھانا لوٹ لیں گے ۔خود بھی کھائیں گے اور گھر بھی لے کر جائیں گے۔‘‘باباجی کی اس اعلان کے ساتھ تالیوں اور بڑھکوں کی زور دار آوازیں نے ماحول کو گرما دیا۔بابا جی اپنے پارٹی کے اغراض و مقاصد سے ان کو آگاہ کرنے لگے۔

دولے چھپر ہوٹل والے کو آج صبح سے بستی کے ان چاروں ویہلوں کی حرکات مشکوک محسوس ہو رہی تھیں۔اس نے جب مجمع اکھٹا ہونا شروع ہوا تو اس میں اپنا ایک چھوٹا جاسوس بھی شامل کر دیا۔جب چھوٹ وہاں سے بھاگتا ہوا واپس آیا تو اس نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان بتایا کہ وہ لوگ آپ کا ہوٹل لوٹنے کا پروگروم بنا رہے ہیں۔دولے نے فوراً اپنے سپاہیوں کو فون کر دیا جو وہاں سے مفت روٹی توڑتے تھے۔

مجمع میں موجود جہازوں کو ٹیکے کے لئے رقم ادا کر دی گئی تھی۔اور یہ رقم لفنگے نے مجمع میں شامل کسی کی جیب سے کمال مہارت سے فنڈ اکٹھا کیا تھا۔نعروں پر نعرے لگ رہے تھے۔ایسے میں پولیس کا ڈالا تمام حفاظتی انتظامات سے لیس ہو کر وہاں پہنچا۔ہوٹر کی آواز سے تمام مجمع کو ایک دفعہ تو سانپ سونگھ گیا۔جب کچھ اوسان بحال ہوئے تو جس کو جدھر جگہ ملی ادھر کو بھاگ کھڑا ہوا۔لفنگا بھاگتا ہوا ایک سپاہی کے ڈنڈے کی ذد میں آ گیا۔اس کے سر پر ٹھیک اسی جگہ پر پھر چوٹ لگ چکی تھی جہاں پر وہ پٹی لپیٹے ہوئے تھا۔باباجی کو باعزت گرفتار کر لیا گیا۔سبھی شاپر بستی کے شاپروں سے جھانک کر دیکھ رہے تھے کہ باباجی کا یہ کیا حال کرتے ہیں۔دولے چھپر ہوٹل والے کے کمرے کو انہوں نے باباجی کے لئے سب جیل قرار دے دیا۔

تفتیش کے لئے ایک پھول والے افسر صاحب تشریف لائے۔جو کہ ایک پھول کی خوشبو سے ہی پھول کر کپا بنے ہوئے تھے۔انہوں نے سر نیہوڑے باباجی کو دیکھا۔’’ہوں ،تو تم بنا رہے ہوسیاسی پارٹی‘‘۔’’کیوں میں نہیں بنا سکتا؟‘‘۔بنا سکتے ہو ہمیں اب یہ بھی تحقیق کرنا پڑے گی۔تمہارے پاس فنڈ کہاں سے آیا‘‘۔’’جنہوں نے پارٹیاں بنا رکھی ہیں ۔ان کے پاس کہاں سے آتا ہے‘‘ ۔باباجی نے بغیر گھبرائے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔’’اوئے تم ایک شاپر بستی میں رہتے ہو،پانی،سوئی گیس،بجلی کا بل تم نہیں دیتے۔کھانا ،پینا تمہارا فری ہے‘‘۔یہ جو وڈیرے ،جاگیر دار ،سرمایہ دار ہیں ۔یہ کسی چیز کا بل دیتے ہیں۔جب چاہتے ہیں کروڑوں اربوں کی زمین پر قبضہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔اربوں روپوں کے دو نمبر کمائی سے ان کے اکاونٹ بھرے ہوئے ہیں‘‘۔کافی مضبوط معلومات ہیں تمہارے پاس‘‘۔’’اخبار پڑھتا ہوں‘‘۔باباجی نے اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے پرانے اخبار اس کے سامنے لہرائے۔’’یہ تمہارے نام ایک ایف آر کٹی ہے‘‘ افسر نے اس کے سامنے ایک سرکاری کاغذلہرایا۔’’سیاسی پارٹی بنانے کے جرم میں ؟‘‘۔باباجی نے طنز کیا ۔’’شکیل صاحب میں بھی اسلام آباد میں ہی رہتا ہوں کل تمام شاپر بستی والوں کے ساتھ پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے تمہارے خلاف ہم دھرنا دیں ۔انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے۔ہماری آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہو۔ہم تھر تھلی مچا دیں گے ۔ہم ذیادہ کچھ کر نہ سکیں لیکن تمہاری پیٹی ضرور اتر جائے گی‘‘۔’’پوچھ تو لو،کیا جرم ہے تمہارا،دولے نے ڈکیتی کی ایف آئی آر تمہارے نام کٹوائی ہے بمعہ ثبوت اس ویڈیو کے ‘‘۔افسر کے اشارے پر ایک سپاہی نے باباجی کے ڈکیتی والے الفاظ تصویر سمیت باباجی کو سنوا دیئے۔باباجی کا رنگ ان کی سیاسی پارٹی کے جھنڈے جیسا پیلا پھٹک ہو چکا تھا۔’’اوئے اس کو ذرا لمبا تو کروسیاسی لیڈر کومیں بھی دیکھوں کتنی اکڑ فوں ہے اس میں ۔‘‘افسر نے ماتحتوں کو اشارہ کیا۔ باباجی کی پندرہیوں چیخ پر دولا اندر داخل ہوا ۔’’چھوڑ دیں سر جی،لیکن اس سے لکھوا دیں کہ یہ مفتا نہیں توڑے گا۔اپنا میلہ ادھر سے اٹھا لے گا‘‘۔باباجی کی حالت غیر تھی ۔’’لیکن میں اس سرکاری کاغذ کا کیا کروں گا۔میری جواب طلبی ہوگی‘‘۔سر جی لکھ یں جیسے سارے بھاگ گئے۔باباجی کو بھی اشتہاری قرار دے دیں‘‘۔’’ہاں یہ ٹھیک ہے۔کیوں باباجی منظور ہے‘‘۔’’مجھے منظور ہے ‘‘۔ باباجی رو ہانسے ہو گئے۔’’ٹھیک ہے پھر آپ نکلیں ‘‘ ۔باباجی دولے کی قیام گاہ سے باہر نکلے شاپر بستی کے لوگ جو شاپروں سے چھپ،چھپ کر جھانک رہے تھے۔پاکستان شاپر پارٹی کا نعرہ لگاتے ہوئے باہر نکل آئے۔قریب آ کر انہوں نے باباجی کو کاندھوں پر اٹھانے کی کوشش کی۔مگر باباجی نے دوڑ لگادی۔سارے لوگ پاکستان شاپر پارٹی کا نعرہ لگاتے ہوئے ان کے پیچھے تھے۔

افسر اپنے ماتحتوں سمیت کوک کی ٹھنڈی یخ بوتل اپنے حلق میں اتار رہا تھا۔’’سر جی،آپ نے اتنی جلدی ایف آئی آر کٹوا دی‘‘ ۔’’یہ تو شکر کروں تمہارا سیاسی لیڈر بھولا تھا‘‘۔سرکاری کاغذ کے ٹکڑے کرتے ہوئے ۔’’کہاں کی ایف آئی آر اس بے چارے نے شائد زندگی میں ایف آئی آر کا منہ بھی نہ دیکھا ہو۔یہ تو ایک لکھا ہوا فضول سا کا غذ تھا۔چلو اسے بہانے تمہاری بھی جان چھوٹ گئی اور پاکستان اور پاکستان کے عوام ایک اور سیاسی پارٹی سے بچ گئے۔***
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 32275 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.