ہمارے ملک کیاپورے بر صغیر میں
معاشی عدم مساوات ایک نا سور بن چکا ہے،ویسے بھی یہ منطقہ عالمی تر قی کی
دوڑ میں مستحکم ملکوں کے دوش بدوش نہیں ہے،رہی سہی کسر حکمراں واہل ثروت کی
بے حسی سے دوبالا ہوجاتی ہے،یہاں بیو ر وکریسی ، اسٹبلشمنٹ اور سیا سی
وابستگی سے کسی بھی طرح اقتدار تک پہنچ جانے والے لوگ ،تاجر اور امراء صر ف
جمع کرناجانتے ہیں ،خرچ کرنے اور بجا خرچ کر نے میں وہ بخل اور تقلیل مال
سے خائف نظر آتے ہیں ، یہ کوٹھیوں میں رہتے ہیں ،بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے
ہیں ،فائیور اسٹار باربی کیوز کے کھانے کھاتے ہیں ،جہازوں میں سفر کر تے
ہیں ،گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں ہیٹر استعمال کرتے ہیں ،دامادوں سے
بھاری بھر کم مہر لیتے ہیں ،بچیوں کو اسراف کی حدتک لگژری جہیز دیتے ہیں ،شادیوں
کے کھانے عالی شان میرج ہالوں میں کھاتے ، کھلاتے اور ضائع کرتے ہیں ،تعلیمی
اداروں میں زیادہ سے زیادہ فیسیں بطور فیشن اداکرتے ہیں ۔
یہ سب کچھ انہیں مبارک ہو، اﷲ تعالٰی مزید برکتوں سے نوازے ،لیکن انہیں ان
نعمتوں ،برکتوں اور رحمتوں کوزوال پزیر ہونے ،نظر بد لگنے اوراپنی اولادوں
کے مستقبل کو عدم استحکام سے بچانے کیلئے ،گویا اپنے ہی فائدے کیلئے ما ل
ودولت جمع کرنے کے ساتھ ساتھ انفاق کے وہ طریقے بھی اختیار کرنے ہوں گے، جن
سے ان ہی کی یہ دولت وثروت قائم دائم رہے، ان کو نظر بد نہ لگے ،عیش وعشرت
لمحوں کی خطاؤں سے صدیوں تک سزاؤں میں نہ بد لیں ،مزدور ،غریب ،لاوارث ،یتیم
واسیر ،مقروض،بیوہ اورستم رسیدہ کی رال انہیں دیکھ کر نہ ٹپکے،غربت
وکسمپرسی پر مشتمل اکثریتی معاشرے میں یہ اقلیت بن کر نہ رہیں ،کل کلاں
دشمنوں ،حاسدوں اور مخالفین کے سینے ان کی کلفتوں ،مصائب اور حشر سامانیوں
سے ٹھنڈے نہ ہوں ،غریب کے بچے ان کے بچوں کو گھور کر نہ دیکھیں ،انہیں
لاچاروں کے خون چوسنے والے نہ سمجھیں ،ان پر خود کش حملوں کیلئے کسی کی
بھینٹ نہ چڑھیں ،بیوائیں اور غریب بچیاں ان کے ہاتھوں تعمیر کردہ اس بے
توازن سماج میں اپنی عزتیں نہ لٹائیں ،ان کے گھروں میں ان ہی کے ملا زمین
سامان ِتعیش کے حصول کیلئے ان پر ڈاکے نہ ڈالیں ،ان کی نیندیں حرام نہ کریں
،انہیں خود یا ان کے بچوں کواغوابرائے تاوان کے منصوبے نہ بنائیں ،نوجوان
بھتہ مافیا بن کر ان سے زبردستی اموال نہ چھینیں ،بلکہ وہ ہر موڑپر ان کی
حفاظت ،سیکورٹی اور خدمت کو اپنے لئے فخر سمجھیں ،غریبوں کی اولادیں ،ماں
باپ اور ان کی جمیع متوسلین ومتعلقین ان کیلئے ہمہ وقت بارگاہ ایزدی میں
دست بدعا بنے رہیں ۔
سویڈن کا ایک فارغ التحصیل عالمِ دین ہمارے پاس گذشتہ سالوں عربی ادبیات
کاطالب بن گیا ،ایک دن وہ بتانے لگا ،ہم دو بھائی ہیں،میرا بھائی اسپیشل
چلڈرن میں سے ہے، جن کی دیکھ بھال کے لئے حکومتی قانون کے مطابق دو ملازم
فراہم کئے جاتے ہیں،چنانچہ میرے ماں باپ نے اس ملازمت کیلئے درخواست دی، ان
کا تقرر بھی ہوگیا،اب وہ دونوں اپنے ہی گھر پر اپنے ہی بچے کی خدمت کر کے
گورنمنٹ جاب کرتے ہیں۔
جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک فقیر حاضر ہوئے،اپنی حاجت
براری کی درخواست کی ،آپ ؑ نے فرمایا، فلاں دکاندار کے پاس میرا کھاتہ
چلتاہے، جاکے میرے نام پر اپنی حاجت کی چیزیں لے لیں ،وہ گئے، مجلس میں
حضرت عمر ؓ بھی تھے ،عرض کیا ،یارسول اﷲ ،یہ اشیا آپ کے پاس موجود
ہوتیں،توآپ دیدیتے ،دکانوں سے اپنے اوپر قرضے چڑھاکر دلانا مناسب نہیں،اتنے
میں ایک غیر معروف صحابی نے فورا کہا ،نہیں یارسول اﷲ، آپ اسی طرح انفاق
فرماتے رہیں اور عرش والوں سے تقلیل وقلت کا خوف نہ کھائیں ،نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم کا چہرۂ انور حضرت عمر بن خطا ب کی مداخلت سے متغیر
ہوگیاتھا،جواس دوسرے صحابی کے جواب سے دوبارہ کھل گیا،آپ نے فرمایا عمر کیا
تمھیں پتہ نہیں میں رحمۃ للعالمین ہوں۔
ایک موقع پر آپ مسجد نبوی میں خطاب فرمارہے تھے ،اے لوگوں تم میں سے اگر
کوئی فوت ہوجائے اور پیچھے چھوٹے بچے یا بوڑھے والدین اور بیوہ چھوڑدیں ،تومیں
ان کی کفالت کا اعلان کرتاہوں ،وہ اپنے حوائج میں ہم سے رجوع کریں ،اے
لوگوں تم میں سے اگر کوئی مقروض ہوکر مرتاہے ، قرض خواہ اس بارے میں ہمارے
پاس آئے ،ہم ادا کرینگے ،اور اے لوگوں تم میں سے اگر اس حال میں اس دنیا ئے
فانی سے گذرا، کہ اس نے اموال چھوڑے تو اس سے ہمارا کوئی سروکار نہیں، وہ
ان کے وارثوں کے ہیں ۔
کیا ہم ان نبی کے امتی اور پیروں نہیں ،کیا ہم ان کے وارث نہیں ،کیا جہانوں
کیلئے رحمت ہونے میں وہ ہمارے لئے ماڈل اور ان کے توسط سے پوری امت عالمین
کیلئے رحمت نہیں ،کیا اس نبی پر نازل شدہ قرآن کریم میں اسراف اور بے جا
خرچ کر نے والوں کو شیاطین کے بھائی (اخوان الشیاطین) نہیں قراردیا گیا ،کیا
اس قرآن میں ظلم ،زیادتی ،غصب حقوق ،ریاکاری ،اور بخل کو حرام نہیں
کرایاگیا،کیا اس کتاب میں ان اموال وخزائن کو برزخ ودوزخ میں گنجے سا نپوں
اور بچھووں کی شکل اختیار کر نے اور ان مالکان کو ڈنک مارنے کانہیں بتایا
گیا؟
کمانے اور لوٹنے کیلئے ہم جتنا سوچتے ہیں ،اس سے کہیں زیادہ ہمیں ان کے
صحیح مصارف پر غور کر ناہوگا ،حدیث میں آتاہے ،دوسروں کو دوگے تو ہم دینگے
،اور مال ہر گز صدقات وخیرات سے روبقلت نہیں ہو تے ۔حاتم طائی اور عثمان بن
عفان کے اموال توکم نہیں ہوئے ،بل گیٹس اور نوبل کو دیکھیں،کیارونالڈو نے
اپنا سونے کا فٹبال بوٹ فلسطینی بچوں کیلئے وقف کر کے پوری دنیا میں عزت
ودعائیں اور نیک تمنائیں نہیں کمائیں ۔
ہم یا تو اموال کے اسلامی وسرکاری حقوق ادانہیں کرتے یا ان رفاہی اور سیاسی
بڑے بڑے اداروں اور شخصیات کو دیتے ہیں،جو اپنے فنڈکابہت سا حصہ اپنے اور
ادارے کی تشھیر واشتھارات پر لگا تے ہیں، آپ صرف رمضان نہیں سال بھر محلے ،رشتے
اور پیشے کے اعتبار سے اپنے قریب ترین،غریب ،فقیر ،عیال دار ،یتیم ،اسیر ،
ذہنی یا جسمانی معذور،ضعیف وعمر رسید، بیوہ اومقروض کو تلاش کیا کریں ،ان
کی تاک میں رہیں ،ان کا تفقد کر یں ،ان کی خبر گیری کریں،اور اسراف نہیں
بقدر ضرورت ان کو اپنی اموال میں سے دیتے رہیں ،زائد از ضرورت سامان خانہ
اور روز کا بچاہواکھانا مھیا کرتے رہیں ،دیہاتوں میں فقیر وں کے بچے آس پاس
کے دس پندرہ گھروں سے دوپہر شام خانہ بخانہ دستک دے کر روٹی سالن مانگتے
ہیں ،شہروں میں آپ ہر محلے کی سطح پر اس بنیاد ی ضرورت کا بندوبست اسی طرح
کرائیں ،یوں غریب کو روٹی بھی مل جائیگی ، ان کی دکھوں کا مداوا بھی ہوگا،
ان کی دعاؤں کی بدولت اہل اقتدارکی حکمرانی اوراہل ثروت کی توانگری کودوام
بھی ملے گا۔۔۔۔توکیاہے کوئی نصیحت وعبرت حاصل کر نے والا ؟؟؟ |