ملک میں الیکشن کی سرگرمیاں

پاکستان میں یہ پہلے الیکشن ہیں جس میں ووٹر سیاسی نمائندوں کے مواخذے،نااہلی اور پریشانی کی صورتحال سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ رکن اسمبلی کی اہلیت کے بارے میں آئینی پابندی کی شرائط لاگو کئے جانے سے سیاسی جماعتیں اب تک اپنے امیدواران کا اعلان نہیں کر سکی ہیں۔سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس بات کا انتظار کیا جارہا ہے کہ آئین کی دفعہ62اور 63کی پابندیوں سے بچ بچا کر نکلنے والے ” مردان مومن“ کو جماعتی ٹکٹ جاری کئے جائیں۔جو امیدوار اس عمل میں محفوظ رہے ان کے لئے سیاسی جماعتوں کی طرف سے ”گرین سنگل“ دیئے جا رہے ہیں۔ملک میں پہلی بار کمپیوٹرائیز ووٹر لسٹوں پہ الیکشن ہوں گے۔ان نئی لسٹوں سے دوہرے ووٹوں کا تداراک ہوا ہے اور ووٹر لسٹوں سے متعلق کسی حد تک عوامی اعتماد پیدا ہوا ہے۔

الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق اپیل پر ٹریبونل کے فیصلے کی آخری تاریخ 17اپریل اورکاغذات نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ 18اپریل ہے جبکہ 18اپریل کو امیدواران کی حتمی فہرست شائع کی جائے گی۔یہ شیڈول قومی اسمبلی اور پنجاب ،سندھ،خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میںخواتین اور غیر مسلموں کی مخصوص سیٹوں پر بھی لاگو ہے۔11مئی 2013ءکو الیکشن کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
قومی اسمبلی کی کل 342نشستیں ہیں جن میں272جنرل،60خواتین اور 10غیر مسلموں کی نشستیں شامل ہیں۔پنجاب میں قومی اسمبلی کی کل183نشستیں (148جنرل،35خواتین)سندھ سے قومی اسمبلی کی کل75نشستیں(61جنرل،14خواتین)خیبر پختون خواہ میں قومی اسمبلی کی کل43نشستیں(35جنرل،8خواتین)بلو چستان میں قومی اسمبلی کی کل 17نشستوں (14جنرل،3خواتین)فاٹا کی کل 12،وفاقی دارلحکومت2اورملک گیر طور پر غیرمسلموں کی کل 10نشستیںہیں۔پنجاب اسمبلی کی کل نشستیں371(297جنرل66خواتین 8غیرمسلم)سندھ اسمبلی کی کل نشستیں168(130جنرل29خواتین9غیر مسلم)خیبر پختون خواہ اسمبلی کی کل124نشستیں(99 جنرل،22خواتین،3غیر مسلم)بلوچستان اسمبلی کی کل 65سیٹیں(51جنرل،11خواتین،3غیر مسلم)ملک بھر سے قومی اسمبلی کی کل 272نشستوں کے لئے 8072،چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لئے 19132امیدواران نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں ۔یوں ملک بھر سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے کل 27204امیدواران نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ان عام انتخابات میں 148سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان الاٹ کئے گئے ہیں۔

سیاسی جماعتوں اور امیدواران کے لئے الیکشن کمیشن کا ” کوڈ آف کنڈکٹ“46نکات پر مشتمل ہے۔گزشتہ ماہ کے آخر تک الیکشن کمیشن کی طرف سے 54سیاستدانوں کی” بی اے“ کی ڈگریوں کو جعلی قرار دیا گیا۔دوہری شہریت سے متعلق ڈیکلریشن الیکشن کمیشن میں جمع نہ کرانے والوں میں قومی اسمبلی و سینٹ کے11ممبران شامل ہیں جبکہ پنجاب اسمبلی کے 2سندھ اسمبلی کے 6،کے پی کے اسمبلی کے ایک رکن نے دوہری شہریت سے متعلق ڈیکلریشن جمع نہیں کرایا۔

الیکشن کمیشن نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کی سہولت دینے سے یہ کہتے ہوئے معذرت کی ہے کہ غیر مصدقہ کمپیوٹر نظام سے ووٹ کا حق دینا انتخابی عمل کے لئے تباہ کن ہو سکتا ہے۔الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر اسے محدود پیمانے پر شروع کیا جائے اور پہلے اس حوالے سے قانون سازی کی جائے۔سپریم کورٹ میں جمع کرائے بیان میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کی سہولت دینے کے لئے 15ممالک میں مقیم 45لاکھ ووٹروں کے لئے کمپیوٹر سسٹم بنایا گیا تھا۔

الیکشن شیڈول کے مطابق سیاسی جماعتوں اور امیدواران کو انتخابی مہم چلانے کے لئے تقریبا 20دن میسر ہوں گے۔اکثرانتخابی حلقہ جات میں اب تک سیاسی جماعتوں کی طرف سے امیدواران حتمی طور پر سامنے نہیں آ ئے ہیں۔مختلف سیاسی جماعتوں کا جوڑ توڑ کا سلسلہ غیر حتمی انداز میں جاری ہے۔ان عام انتخابات میں سابق حکمران پیپلز پارٹی،مسلم لیگ(ن) اور نئی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے درمیان مقابلے کی فضا ہے۔ ملک کی آئندہ حکومت کا فیصلہ بڑی حد تک پنجاب کی قومی اسمبلی کی نشستوں سے ہو گا۔اسی لئے مسلم لیگ(ن) پنجاب سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے اور پیپلز پارٹی،تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ق) پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہیں۔

اب بھی اس خطرے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ عبوری حکومت کی معیاد میں اضافہ کرتے ہوئے الیکشن کو آئندہ وقت تک کے لئے ملتوی نہ کر دیا جائے۔سابق فوجی آمرو سابق جنرل پرویز مشرف واپس وطن آ گئے ہیں لیکن یہاں انہیں اس طرح کی صورتحال نصیب نہیں ہوئی جس کی توقع وہ کر رہے تھے۔اب پریز مشرف پر ملک سے باہر نہ جانے کی پابندی بھی لگ گئی ہے۔کسی مبصر نے موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں بجا طور پر کہا ہے کہ ” ملک میں جمہوریت اس دن ہو گی جب پرویز مشرف عدالت میں جمشید دستی کی طرح رو رہا ہو گا“۔

انہی دنوں امریکی فوج کے اعلی عہدیداران نے پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے پاکستانی فوجی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں اور اس حوالے سے میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق اب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سلالہ حملے سے پہلے کی سطح پر بحال ہو گئے ہیں۔ملک میں الیکشن کی سرگرمیوں کی ساتھ ساتھ وہ دیگر خطرناک امور بھی بدستور جاری ہیں جن کی وجہ سے ملک و عوام سنگین صورتحال سے دوچار ہیں۔مرکزی اور صوبائی عبوری حکومتیں حاصل اتھارٹی کے مطابق اپنا نمایاں کردار ادا کرنے سے قاصر اور مقررہ عرصہ حکومت ” کھانا پینا اور سلامی لینا“ کے انداز میں گزارتی نظر آ رہی ہیں۔

راولپنڈی مسلم لیگ(ن) کا گڑھ چلا آیا ہے لیکن آزاد کشمیر اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں راولپنڈی سے دو نشستیں پیپلز پارٹی کے پاس جانے سے مسلم لیگ (ن) کی مخالف جماعتوں کی امیدوں میں اضافہ ہوا ہے۔راولپنڈی کے حلقہ این اے 55میں ایک دلچسپ صورتحال اس وقت دیکھنے میںآئی جب پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے سالہا سال سے صوبائی نشست پی پی 11کے لئے ”گرین سگنل“ رکھنے والے امیدوار کو عین الیکشن کے وقت این اے55سے پیپلز پارٹی کا امیدوار بنا دیا گیا ہے۔راولپنڈی سے مسلم لیگ (ن) کے بعض امیدواران کے غیر حتمی اعلان کے باوجود راولپنڈی کے کئی سیاست کار لاہور میں جماعتی ٹکٹ حاصل کرنے کی ”جدو جہد“ میں مصروف ہیں۔

اس طرح 18اپریل کے بعد انتخابی مہم میں تیزی آئے گی اور میڈیا بھی الیکشن کے دوران عوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے اپنا کردار موثر طور پر ادا کرے گا۔میڈیا میں عام انتخابات کی اشاعت اور نشریات شروع ہو گئی ہیں لیکن تمام میڈیا عام شہریوں،سول سوسائٹی کی رائے کو سامنے لانے کے بجائے سیاست دانوں کے بیانات اور خیالات میں ہی روائتی طور پہ محدود نظر آ رہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ملک میں گزشتہ حکومت کے تسلسل میں وقت مقررہ پہ عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں یا کسی غیر معمولی صورتحال کو جواز بناتے ہوئے جمہوری تسلسل کو توڑا جاتا ہے۔اگر انتخابات ہو جاتے ہیںتو عوام کس کس سیاسی جماعت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں؟جماعت کوئی بھی کامیابی حاصل کرے لیکن یہ بات اہم ہے کہ نصف درجن جماعتوں کے اتحاد پر مبنی حکومت جمہوریت کے سست رو عمل میں کسی پیش رفت سے قاصر رہے گی اور اہم ملکی معاملات بدستور انہی قوتوں کے ہاتھوں میں رہیں گے جن سے تمام اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کی ”امید و آس“ میں جمہوریت کے تسلسل کی کوشش کی جارہی ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 701735 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More