اگر کسی کے پاس گز بھرکی زبان ہے
دوسروں کی پگڑی اچھال سکتا ہے اور منٹوں میں کسی مسلمان کو کافر قرار دے
سکتا ہے یا پھر اپنے مقصدبراری کیلئے کچھ بھی کرسکتا ہو تو وہ اس مملکت میں
رہنماہے اس ملک میں لی ڈر بننے کیلئے بنیادی شرائط میں جھوٹا ہونا شرابی
ہونا جعل سازی کرنا اور قرضہ لیکر معاف کروانا شامل ہیں ساتھ میں ان تمام
خامیوں کو خوبیاں بنا کر پیش کرنا بھی لیڈر کا خاصہ ہے منافقت کی سیاست
کرنے والے ہی اس ملک کے اہم عہدوں پر پہنچتے ہیں -بہت سارے لوگوں کیلئے یہ
باتیں انتہائی سخت ہونگی لیکن اسلام کے نام پر وجود میں آنیوالے اس ملک میں
جھوٹا ہی لیڈر ہے جو جتنا زیادہ جھوٹ بولے گا اتنے ہی اس کی پذیرائی
ہوگی-پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں کلرک سے لیکر سپاہی افسر اور کسی بھی
شعبے میں داخلے کیلئے بنیادی ضروریات میں تعلیم کمپیوٹر سے آگاہی ضروری ہے
سکیل سات میں بھرتی ہونیوالے کلرک کیلئے تعلیمی قابلیت بھی ایف اے اور
میٹرک پاس ہے لیکن اس ملک میں قانون سازی کرنے والے لی ڈر کیلئے کسی قابلیت
کی ضرورت ہی نہیں جو ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرتا ہو جو ملکی کاروبار کو
چلانے والوں میں شامل ہو اس کیلئے کوئی تعلیمی قابلیت ضروری نہیں کیا یہ
حیرت کی بات نہیں -یقینا باعث حیرت ہی نہیں باعث شرم بھی ہے کہ ملک کی
تقدیر کا فیصلہ کرنے والے جعل ساز ہو ان کی سب سے بڑی خوبی بینک بیلنس لمبی
گاڑیاں ہو ایسے میں اس ملک کی کسی بھی شعبے سے ترقی کی توقع رکھنا ہی عبث
ہے ہاں ان مخصوص لوگوں کی ترقی ہوسکتی ہے جو کسی نہ کسی طرح پارلیمنٹ تک
پہنچ گئے ہوں-اس ملک میں جس کے سیاسی رہنما اپنے آپ کو مہا سیاستدان اور
ریاست کو اسلام کا قلعہ قرار دیتے ہوئے تھکتے نہیں اور سارے جہاں کا درد دل
میں سمونے کی ناکام کوشش کرتے ہیں یہ الگ بات کہ اس ملک کے کونے کونے میں
رہائش پذیر لوگوں کی دکھ و درد کو نہیں سمجھ سکتے-
گذشتہ دنوں ایک سوشل سائٹ پر برطانوی ادارے کی سروے رپورٹ شائع ہوئی جس میں
بتایا گیا کہ پاکستان کے 70 فیصد لوگ اسلام کے حق میں ہیں اور اتنی ہی
تعداد میں لوگ فوجی حکمرانی کے حق میں ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ میری طرح کے
لولے لنگڑے مسلمان بھی ہر مسئلے کا حل اسلام کو ہی سمجھتے ہیں یہ حقیقت بھی
ہے لیکن اگر اس ملک میں صحیح معنوں میں اسلامی انقلاب ممکن ہوا نہ کہ مخصوص
لوگوں کا اسلام جنہیں نماز کے اوقات میں جلسے تو یاد رہتے ہیں لیکن اللہ کا
حکم یاد نہیں رہتا ہاں اسلام کی یہ بات یاد رہتی ہے کہ اسلام نے چار بیویوں
کا حق دیا ہے یہی صورتحال فوجی حکمرانوں کا بھی ہے جمہوریت کی آڑ میں عوام
کے گردنوں پر پائوں رکھ کر عیاشی کرنے والے حکمرانوں کی عوام سے کوئی
دلچسپی نہیں اس ملک میں لیاقت علی خان کے بعد کوئی لیڈر ہی نہیں آیا -حکمران
بن کر حکومت میں جو بھی آیا تو مہرے ہی ثابت ہوئے اس میں فوجی و سیاسی سارے
حکمران شامل ہیں لیکن ایک بات جس پر اس ملک کا ہر شہری متفق ہے کہ جمہوریت
کے نام پر لوٹ مار کرنے والوں سے غیر سیاسی اور فوجی حکمران بہتر نکلے کہ
انہوں نے لوٹ مار اور غلطیاں کم کی غیر سیاسی اور فوجی حکمران فرشتے نہیں
تھے لیکن ان کے کارہائے نمایاں عوام کے ساتھ دکھ و درد کا ڈرامہ کرنے والے
کم تھیں-سابق صددر جنرل مشرف نے اس ملک کیساتھ کیا کیا وہ الگ داستان ہے
لیکن یہ اسی ہی کا کارنامہ ہے کہ اس نے ملک میں سیاسی لیڈری کا دعوی کرنے
والوں کیلئے تعلیمی قابلیت مقرر کی یہ الگ بات کہ اس پر وہ بہت حد تک
عملدرآمد نہ کرواسکے لیکن یہ بھی کمال ہی تھاکہ کئی عشروں سے عوام پر مسلط
مخصوص خاندانوںکے لوگ میدان سیاست سے آئوٹ ہوگئے تاہم بعد میں انہوں نے جعل
سازیوں اور روپے پیسے کی زور پر ڈگریاں حاصل کیں اور اس کی مدد سے قانون
ساز اداروں تک پہنچے لیکن پھر جمہوری دور آیا اور مخصوص لوگوں نے اپنی شغل
یعنی سیاست کا شعبہ سنبھالنے کیلئے تعلیمی قابلیت کی شرط ختم کروادی-
سیاسی رہنما ئوں کیلئے تعلیمی قابلیت ضروری نہیں اس بارے میں کچھ لوگوں کا
موقف ہے کہ جو کوئی بھی ان کے مسائل حل کرسکتا ہو وہی رہنما ہے اور اس
کیلئے تعلیمی قابلیت کی ضرورت ہی نہیں جبکہ زیادہ تر لوگوں کا اس حوالے سے
کہنا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ شخص ہی کسی بھی مسئلے کے ہر رخ کو دیکھتا ہے اس
کو پرکھ سکتا ہے اور اس کے حل کیلئے سوچتاہے سو اگر رہنمائی کا دعوی کرنے
والے شخص کو خود ہی نہیں پتہ کہ مسئلے کا حل کیا ہے توقوم کو کسطرح آگے
لاسکتا ہے-اس سلسلے میں بعض لوگوں کا موقف ہے کہ سیاسی رہنماء ایسے ہونے
چاہئیے جومختلف شعبوں میں ماہر ہوہو خواہ وہ صنعت کا شعبہ ہو تعلیم کا شعبہ
ہو یا کوئی بھی شعبہ ہو اگر ماہر شخصیات ملک کے عام لوگوںکی رہنمائی کرینگے
تو پھر کچھ بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ورنہ دوسری صورت میںعمر گزر جاتی
ہیں اور قومیں ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوتی- موجودہ دور میں جب ہر کوئی
شخص رہنمائی کا دعوی کرنے والوں کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے کہ کس نے کس
طرح حرام کا مال کمایا کس طرح جعل سازی کرکے ڈگریاں حاصل کیں اور کس طرح
جھوٹے وعدے کئے لیکن پھر بھی لوگ انہی لوگوں کے آگے پیچھے " آوے ہی آوے" کا
نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں کیا ان جعل سازوں اور جعلی ڈگری والوں کو سپورٹ
کرکے ہم اپنی آنیوالی نسلوں کو تباہ نہیں کررہے-یہ وہ سوال ہے جو ہم سب کو
اس انتخابی عمل میں ووٹ ڈالنے سے قبل اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے -اگر ہم
اس مرتبہ بھی ان دو نمبر رہنمائوں کے دعوئوں اور وعدوں میں آئے تو پھر ترقی
کی امید تو بہت بڑی بات ہمیں اپنی بقاء کیلئے بھی سوچنا ہوگاکیونکہ رہنمائی
کے دعوے کرنے والے صرف اپنے آپ کواور اپنے خاندان کو دیکھتے ہیں اور اندھوں
کی طرح قوم کو چلا رہے ہیں- |