قومی سیاست میں ملائم سنگھ نے
اچانک بڑی اہمیت حاصل کرلی ہے ایک طرف مرکز میں یو پی اے حکومت کی برقراری
اور اپنی معیاد کی تکمیل یا مقررہ وقت سے قبل انتخابات کا انعقاد ملائم
سنگھ پر ہی بظاہر منحصر نظر آتا ہے۔ دوسری طرف ملک میں سیکولرازم کا
استحکام بھی ملائم سنگھ کا ہی مرہون منت نظر آتا ہے۔ لیکن دونوں ہی معاملات
میں ملائم سنگھ کا موقف غیر یقینی محسوس ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ منموہن
سنگھ کی حکومت نرسمہا راؤ کی حکومت کی طرح اکثریت سے محروم ہے ۔نرسمہاراؤ
کی حکومت کو بی جے پی نے بابری مسجد کی شہادت میں بی جے پی کی مدد (بابری
مسجد کو نرسمہا راؤ نے ہی شہید کروایا تھا) کے انعام کے طور پر باقی رکھا
تھااور منموہن سنگھ حکومت کو ملائم سنگھ اور مایاوتی نے محض اپنی مصلحتوں
کی خاطر برقرار رکھا ہے۔
اس وقت ملک میں سیکولرازم کے سب سے بڑے علم بردار بھی ملائم سنگھ یادو اور
لالوپرساد یادو ہی نظر آتے ہیں۔ لالو پرساد یادو اگر کانگریس نتیش کمار اور
بی جے پی کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں تو ملائم سنگھ اپنے لئے مسائل خود ہی
پیدا کررہے ہیں اور اس طرح اپنے آپ کو نہ صرف سوالات کے گھیرے میں بلکہ
مسائل میں گرفتار کررہے ہیں۔
ملائم سنگھ ایک طرف کہتے ہیں کہ وہ ملک کو فرقہ پرست بی جے پی کی حکومت سے
ملک کو بچانے کے لئے منموہن سنگھ حکومت بچارہے ہیں۔ یہ تو واقعی بڑا اچھا
جذبہ ہے بلکہ یہ ایک طرح سے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے ’’نظریۂ کم تر
برائی‘‘ پر عمل کی ایک عمدہ مثال ہے لیکن ملائم سنگھ کے پاس اس سوال کا
شائد ہی کوئی جواب ہوکہ وہ اڈوانی کی بے تحاشہ تعریف کیوں کرتے رہتے ہیں؟
اور ملائم سنگھ اڈوانی کی مداح سرائی میں ایسی باتیں بھی کررہے ہیں جو سنگھ
پریوار والے بھی نہیں کرتے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ملائم سنگھ یہ بات
کیسے بھول گئے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت کے منصوبہ کو ممکن بنانے والے (سرکاری
مدد سے) نرسمہا راؤ سابق وزیر اعظم ہیں تو اس سازش کے منصوبہ ساز یا سرغنہ
(ماسٹر مائنڈMaster Mind)تو اڈوانی ہیں بابری مسجد کو شہید کرنے کی سازش کا
اہم فرد جس نے ’’مندر وہیں بنائیں گے‘‘ کا نعرہ دیا۔ جس نے مسجد کی شہادت
کے لئے یاترا نکالی تھی مسجد شہید کرنے کا حکم دیا تھا۔ (مسجد کو شہید کرنے
آنے والوں پر ملائم سنگھ نے ہی گولی چلانے کا حکم دیا تھا )وہ فرد اڈوانی
ہے۔ مسجد کی شہادت کے وقت ابتداء سے آخر تک 6 دسمبر کو وہاں موجود رہنے
والے اور آج بھی سنگھ پریوار والوں کو ایودھیا کے معاملے میں شرمندہ نہ
ہونے واور فخر کرنے والے اڈوانی کو سچا آدمی کہتے ہوئے ملائم سنگھ کو شرم
آنی چاہئے تھی۔
نہ صرف اس کالم نویس بلکہ بیشتر کالم نویسوں اور تجزیہ نگاروں کو یقین ہے
کہ ایک سیکولر ذہن کا نسان جو ہندوتوا اور فرقہ پرستی کا شدید مخالف ہووہ
بھلا اڈوانی کا مداح کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کا ایک مطالب تو یہ ہے کہ ملائم
سنگھ خود اڈوانی کی پارٹی بی جے پی کے این ڈی اے میں شامل ہونا چاہتے ہیں
لیکن ان کے متعدد بیانات کی روشنی میں یہ ملائم کی بی جے پی میں شرکت
ناممکن ہے یا پھر بات صرف اس قدر ہے کہ بی جے پی مودی اور اڈوانی کے درمیان
جو سردجنگ چل رہی ہے وہ اس جنگ میں اڈوانی کا قد بلند کرنے کے لئے اڈوانی
کی مدد کررہے ہیں تاکہ بی جے پی کے اندر اڈوانی گروپ ملائم کی تائید و
حمایت کو اپنے حق میں استعمال کرسکے تاہم اڈوانی کی تائید کا یہ جواز بھی
کوئی خاص وزن نہیں رکھتاہے اور ناقابل فہم ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ملائم سنگھ غیر متوقع اور ناقابل فہم فیصلے کرنے کے لئے
خاصی شہرت حاصل ہیں قارئین کو ہم یاددلادیں کہ 1999ء میں تمام تر توقعات کے
برخلاف ملائم سنگھ نے سونیا گاندھی کی حمایت نہ کرکے سب ہی کو حیران کردیا
تھا (گو کہ اس سلسلے میں سونیا گاندھی نے بھی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی
کا مظاہرہ کیا تھا)۔ نیو کلیر معاہدہ کے سلسلہ بھی ملائم سنگھ نے منموہن
سنگھ کی مدد کرکے سب کو چونکا دیا تھا۔ تاہم کانگریس کی مدد میں یہ پہلو
بہر حال اس لئے قابل تعریف ہے کہ اس طرح ملک کو این ڈی اے کے ذریعہ ملک پر
بی جے پی کے ذریعہ نازل ہونے والے عذاب سے بچایا جاسکتا ہے۔ لیکن اڈوانی کی
تعریف کا کوئی بھی پہلو قابل فہم نہیں ہے اور نہ ہی قابل ستائش ہے۔
وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم کی حیثیت سے اڈوانی نے اقلیت یا مسلمانوں کو
اذیتوں او ر مصائب سے دوچار ضرور کیا 2002ء میں گجرات میں نریندر مودی کی
بربریت اور مسلم دشمنی کو اگر اڈوانی کی درپردہ حمایت حاصل نہ ہوتی تو کسی
بھی سچے، کھرے لیڈر طرح اڈوانی مودی کے خلاف کارروائی ضرور کرتے ہے؟
اڈوانی نے ’’پوٹا‘‘ جیسے قانون کو مسلط کیا جس کا نشانہ 90فیصد صرف
مسلمانوں کو بنایا گیا۔ ان تلخ، حقائق کو ملائم سنگھ کس طرح بھول گئے؟ یہ
حقیقت ہے کہ اٹل بہاری واجپائی اور صدر شرف کے درمیان مسئلہ کشمیر پر کوئی
ایسا فارمولا تقریباً طئے پاگیا تھا لیکن اس مساعی کو ناکام بنانے والے
دراصل اڈوانی ہی تھے۔ دہشت گردی کے کئی واقعات اور جعلی پولیس مقابلوں میں
سنگھ پریوار کی دہشت گردوں کے ملوث ہونے اور ہندوتوا دی پولیس افسران کے
سلسلے میں اڈوانی کی کون سی خدمات ملائم سنگھ کو پسند آگیں؟
اڈوانی کی راست گوئی کی تعریف کرتے ہوئے ملائم سنگھ نے کہا ہے کہ اڈوانی
کبھی جھوٹ نہیں بولتے ہیں اور ایک ایماندار سیاست داں ہیں۔ اگر واقعی
اڈوانی بھی جھوٹ نہ بولنے والے ایماندار سیاست داں ہیں تو بابری مسجد مسجد
کی شہادت کے سلسلے میں وہ 1992سے کیوں مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں اگر وہ
ایماندار سیاست داں ہیں مودی کے خلاف جوڑ توڑ کی سیاست کی جگہ واضح کردیں
کہ وہ بھی وزیر اعظم کے عہدے کے لئے امیدوار ہیں۔
ملائم سنگھ اپنے فائدے کے لئے یو پی اے حکومت سے جیسی چاہیں رعاتیں حاصل
کریں جیسا چاہیں ویسا سیاسی حربہ اختیارکریں لیکن وہ ایک طرف اڈوانی کی
تعریف کرکے دوسری طرف مسلمانوں کا ہمدرد اور مسیحا بھی بننے کی کوشش کریں
تو یہ نہیں ہوسکتا ہے! مسلمانوں نے چند سال کلیان سنگھ سے ان کی یاری دوستی
کو معارف کردیا تھا۔ حال ہی میں راجو بھیا اور ساکشی مہاراج سے ان کی دوستی
برداشت کرلی لیکن اس سلسلے کو ملائم سنگھ اب یہی ختم کریں۔ دو گھوڑوں پر
سواری کا شوق (یقنی اڈوانی سے یاری مسلمانوں کی سچائی کے دعوے بلاشبہ ملائم
سنگھ کو مہنگے پڑیں گے۔
2014ء کے انتخابات کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر اگر ملائم سنگھ ہر ایک
کے لئے ایک دروازہ کھلا رکھ کر جدہر فائدہ نظر آئے ادھر گھس جانے کی فکر
کررہے ہیں تو اس قسم کی سوچ ان کے زندگی بھر کے منصوبوں پر بھاری پڑسکتی ہے۔
ایک مرتبہ پھر جو سیاستداں یا پارٹیاں ابن ڈی اے یا بی جے پی کا ساتھ دیں
گی ان کا نہ صرف سیکولر ازم ہمیشہ کیلئے مشکوک ہو جائے گا بلکہ ان کو
مسلمانوں کے ووٹس کو ہمیشہ کے لئے بھول جانا ہوگا ۔ بی جے پی کے کسی حلیف
کو ووٹ دینے سے بہتر خود بی جے پی کو ووٹ دینا ہے’’ہندوتوا‘‘ کا ساتھی کسی
صورت میں بھی ہندو توا کے علمبردار سے بہتر نہیں ہوسکتا ہے خواہ وہ ملائم
سنگھ ہوں یا نتیش کمار یا مایاوتی یا ممتابنرجی یا چندرابابو نائیڈو۔ ملائم
سنگھ مسلمانوں کو ترنوالہ نہ سمجھیں۔ یہ ان کے لئے لوہے کے چنے بھی ثابت
ہوسکتے ہیں۔ |