پاکستان میں سیاست کرنا صرف
اسمبلیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبہ میں پائی جاتی ہے۔
اور یہ صرف سیاستدانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبہ سے
وابستہ افراد کا مشغلہ ہے۔ کچھ افراد تو اپنے اپنے شعبہ زندگی میں بھر پور
سیاست کرتے ہیں۔ الیکشن لڑنا ہی سیاست ہے تو الیکشن صرف اسمبلیوں کے ہی
نہیں لڑے جاتے یہاں تو ہر زندگی کے ہر شعبہ میں الیکشن لڑے جاتے ہیں۔ پریس
کلبوں میں صحافیوں کے انتخابات ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان بھی خوب مقابلہ ہوتا
ہے۔ مخالف فریق کے ممبرز توڑنا اور ان کو اپنے ساتھ ملانا ان کا بھی کام
ہوا کرتا ہے۔ مد مقابل امیدوار یا ٹیم کو پریس کلب کے انتخابات سے باہر
کرنا اور اس کی مقبولیت کم کرنے کی کوشش یہاں بھی کی جاتی ہے۔ یہاں بھی
کوشش کی جاتی ہے کہ کرسی اقتدار پر کوئی اور نہ آجائے۔ یہاں بھی پاور شو
منعقد کرائے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خوب کوشش کی جاتی ہے۔
کوئی نہ کوئی فریق عدالت پہنچ جاتا ہے۔ اور بھی بہت کچھ یہاں ہوتا
ہے۔وکلاءکی ایک اپنی تنظیم ہوتی ہے اس کو ہم بار کونسل کہتے ہیں۔ یہاں بھی
سیاست کی جاتی ہے۔ الیکشن یہاں بھی لڑے جاتے ہیں۔ یہاں بھی دو ٹیموں کے
درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔ الیکشن کمپین یہاں بھی چلائی جاتی ہے۔ پریس کلب میں
صحافی ووٹ دیتے ہیں۔ بار کونسل میں وکلاءووٹ دیتے ہیں۔ یہاں بھی ووٹ مانگے
جاتے ہیں۔ مد مقابل کو الیکشن سے باہر کرنے اور اس کو ہرانے کی کوشش کی
جاتی ہے۔ مد مقابل جیت بھی جائے تب بھی اس کو باہر کرنے کی کوشش جاری رکھی
جاتی ہے۔ تاہم یہ سب کچھ ایک طے شدہ پارسس کے تخت ہی ہوتا ہے۔ صحافی اپنی
اپنی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں تو خوب مقابلے کی فضا ہو تی ہے۔ اچھی سے اچھی خبر
اور وہ بھی سب سے پہلے اپنے اپنے چینلز سے چلوانا سب کی کوشش ہوتی ہے۔ ہر
صحافی کی ایک ہی کوشش ہوتی ہے کہ آج کی جو بھی عام یا خاص خبر ہو وہ صرف
میرے پاس ہی آئے تاکہ اس کی واہ واہ ہوجائے۔ یہی صحافی جب پریس کلب میں
ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ اپنے مسائل پر بات چیت کرتے
ہیں۔ آپس میں مشورے بھی کرتے ہیں۔ ملک میں کسی بھی شہر یا علاقہ میں کسی
بھی صحافی پر کوئی ظلم ہوتا ہے یااس کو جان سے مار دیا جاتا ہے تو ملک بھر
کے صحافی سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ اسی طرح وکیل جب اپنے بار روم میں ہوتے ہیں
تو وہ اپنے مشترکہ مسائل پر آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ
بیٹھتے ہیں۔ اپنے مسائل حل کرانے کیلئے مل کر کوشش کرتے ہیں۔ بارروم کی
تعمیر کرانی ہو۔ وکلاءکالونی منظور کرانی ہو یا کوئی اور باہمی دلچسپی کا
کوئی کام کرنا یا کرانا ہو تو یہ سب ایک ہو جاتے ہیں۔ یہی وکیل جب اپنے
اپنے چیمبر میں ہوتے ہیںتو یہاں ان کی پالیسی اور ہو جاتی ہے۔ ہر وکیل کی
یہ کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مقدمات اس کے پاس آئیں۔ ہر
وکیل کی کوشش ہوتی ہے کہ جس جس مقدمہ میں وہ عدالت میں بطور وکیل پیش ہو
رہا ہے۔ ہر اس مقدمہ کا فیصلہ اس کے موکل کے حق میں ہوجائے۔ اور یہ سب کچھ
قانون میں طے شدہ طریقہ کار کے تحت ہی ہوتا ہے۔ ملک میں مذہبی تنظیمیں بھی
کام کررہی ہیں۔ کچھ تنظیمیں قومی سطح کی ہیں۔ کچھ تنظیمیں صوبائی سطح کی
ہیں اور کچھ مقامی سطح کی ہیں۔ ان کے بھی الیکشن ہوتے ہیں۔ یہ بھی اپنے
اپنے عہدیدار وں کا چناﺅ کرتے ہیں۔ ملک میں مذہبی تنظیموں کے ساتھ ساتھ
ادبی تنظیمیں بھی کام کررہی ہیں۔ ان کے بھی انتخابات ہوتے ہیں۔ یہ بھی اپنی
اپنی ادبی تنظیموں کے عہدیداروں کا چناﺅ کرتے ہیں۔تاجروں اور دکانداروں کی
بھی اپنی تنظیم ہوتی ہے اس کو انجمن تاجران کہتے ہیں۔ اکثر شہروں میں انجمن
تاجران کام کرتی ہے۔ ان کے بھی انتخابات کرائے جاتے ہیں۔ ممبر سازی ہوتی ہے۔
یہاں بھی کاغذات نامزدگی داخل کرائے جاتے ہیں۔ یہاں بھی کاغذات نامزدگی کی
جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ یہاں بھی کاغذات نامزدگی کے منظور ہونے یا مسترد
کیے جانے کا آپشن پایا جاتا ہے۔ یہ تاجر بھی اپنے انجمن تاجران کے الیکشن
میں مد مقابل امیدوار یا ٹیم کو انتخابات سے باہر کرنے کی پوری کوشش کرتے
ہیں۔ ان کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے مقابلے میں کوئی بھی نہ آئے تاکہ یہ
بلامقابلہ اپنی سیٹ پر منتخب ہو جائیں۔ یہاں بھی مخالف امیدوار یا ٹیم کو
ہرانے کی پوری پوری کوشش کی جاتی ہے۔ انجمن تاجران کے الیکشن میں دو ٹیموں
کے درمیان مقابلہ ہویا دو سے زیادہ ٹیموں کے درمیان سب میں سے ہر ایک کی
کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ووٹ اس کو ملیں۔ تاکہ یہ جیت کر زیادہ سے
زیادہ تاجروں اور دکانداروں کی نمائندگی کااعزاز حاصل کرسکے۔ انجمن تاجران
کے انتخابات میں جو ٹیم بھی جیت جاتی ہے۔ تاجروں کے اکثر مشترکہ مسائل وہی
حل کرتی ہے۔ شہر کے دکاندار جب انجمن تاجران کے دفتر میں یا اجلاس میں ہوتے
ہیں ۔ تو سب ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ اپنے مشترکہ مسائل پر بات
کرتے ہیں۔ ان کو حل کرنے کیلئے آپس میں مشورے بھی کرتے ہیں۔ جب یہ اپنی
اپنی دکانوں پر ہوتے ہیں تو وہاں ان کی پالیسی تبدیل ہو جاتی ہے۔ وہاں یہ
چاہتے ہیں کہ ان کی جس چیز کی بھی دکان ہے اور بازار یا مارکیٹ میں ایسا
گاہک آئے جس نے اس کی دکان میں پایا جانے والا سامان ہی خریدنا ہے تووہ اس
سے ہی خریدے۔ ہر دکاندار گاہک کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اپنی ہی دکان میں
بلانے کی کوشش کرتا ہے۔ کلاتھ ہاﺅس والا چاہتا ہے کہ جس نے بھی کپڑا خریدنا
ہے وہ اس سے ہی خریدے۔ برتن سٹور کا ملک کہتا ہے کہ جس نے بھی برتن خریدنے
ہیں وہ اس کی دکان میں ہی آئے۔ جیولرز حضرات میں سے ہر جیولر چاہتا ہے کہ
آج بازار میں جو بھی زیور بنوانے یا فروخت کرنے آئے تو وہ اس کے پاس ہی آئے۔
ہوٹل والے کی خواہش ہوتی ہے کہ جس نے بھی چائے پینی ہے وہ اس کی ہوٹل پر ہی
آئے۔
ہم ایک دن جنرل بس سٹیند پر گئے۔ وہاں ایک ہوٹل میںٹی وی چل رہا تھا اور اس
پر خبریں ٹیلی کاسٹ کی جارہی تھیں۔ ہم بھی خبریں سننے بیٹھ گئے۔ کیونکہ یہ
صبح کا وقت تھا اس لیے ہوٹل پر گاہکوں کا ہجوم تھا۔ وہاں پر سات آٹھ افراد
آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے۔ وہ اپنی باتوں سے ڈرائیور اور کنڈیکٹر معلوم
ہوتے تھے۔ وہ آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے۔ ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ کس
نے کتنے چکر لگائے۔ کس کو کتنی آمدنی ہوئی ۔ اس میں سے کتنا خرچہ تھا۔ اور
بچت کتنی ہوئی۔ جو ڈرائیور ابھی تک نہیں آئے تھے۔ ہوٹل میں بیٹھے ہوئے
ڈرائیور ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ فلاں فلاں نہیں آیا۔ سب نے مل کر
چائے پی۔ پھر اپنی اپنی گاڑیوں کی طرف چلے گئے۔ جہاں جہاں ان کی گاڑیوں نے
جانا تھا اسی اسی شہر کی آوازیں لگا رہے تھے۔ ایک ہی شہر کی دو ،دو تین،
تین آوازیں لگائی جارہی تھیں۔ سب سواریوں کو اپنی طرف بلا رہے تھے۔ ہر ایک
یہی کہہ رہا تھا کہ اس کی گاڑی سب سے پہلے جائے گی۔ ہر ایک یہی کوشش تھی کہ
سواریاں اس کی ہی گاڑی میں بیٹھیں۔ سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش
کررہے تھے۔ ہم ایک دن سفر کرررہے تھے۔ کہ ایک سٹاپ پر گاڑیاں کھڑی تھیں ہم
جس گاڑی میں سوار تھے وہ بھی ان کے پیچھے لائن میں کھڑی ہو گئی۔ پھر
ڈرائیور اور کنڈیکٹر ایک ہوٹل میں چلے گئے وہاں اور ڈرائیور اور کنڈیکٹر
بھی تھے۔ سب نے مل کر کھانا کھایا چائے پی ۔ پھراپنی اپنی گاڑیوں میں آگئے۔
اور پھر سے آوازیں لگانے لگے۔ اور اپنی اپنی باری اور اپنے اپنے وقت پر
منزل مقصود کی جانب روانہ ہونے لگے۔ ہمیں ایک باربر ایسوسی ایشن کی ایک
تقریب میں بلایا گیا۔ وہاں سب ہیرڈریسر اکٹھے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک تنظیم
بنائی تھی یہ اس تنظیم کے عہدیداروں کی تقریب حلف برداری تھی۔ وہ بھی اپنے
مشترکہ مسائل پر بات کررہے تھے۔ اور حکومت وقت سے کچھ مطالبات بھی کررہے
تھے۔ اس کے بعد ایک دن ایک ہیئر ڈریسر کی دکان میں ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ کہ
ایک شخص آیا ۔ اس سے ہیئر ڈریسر کہنے لگا کہ کیا بات ہے کہ تمہاری محبتیں
کم ہو گئی ہیں۔ ہمارے کام میں کیا کوئی کمی تھی جو تم فلاں ہیئر ڈریسر کے
پاس چلے گئے تھے۔ تم جہاں بھی جاﺅ جس کے پاس بھی جاﺅ ہمیں سب پتہ ہو تا ہے
کہ کون کہاں جارہا ہے۔ ہم ایک دن شہر کی سبزی منڈی میں گئے وہاں ایک دوست
کا ہوٹل ہے ۔ ہم اس ہوٹل میں گئے تو وہاں گاہکوں کا ہجوم تھا ۔ وہ اپنی
باتوں سے آڑھتی معلوم ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کو بتا رہے تھے۔ ان کا کل کا
بزنس کیسا رہا۔ کوئی بتا رہا تھا کہ اس نے سیب کی اتنی پیٹیاں بیچی ہیں۔
سبزی اتنی بیچی ہے۔ کوئی بتا رہا تھا کہ اس نے کینو اتنا بیچا ہے۔ ان میں
سے ایک بتا رہا تھا کہ ہماری منڈی میں تو گزشتہ روز مندا رہا تاہم فلاں
فلاں منڈی میں تیزی رہی۔ وہاں سیب اس طرح بکتا رہا۔ سبزیوں کے ریٹ یہ رہے۔
فلاں فلاں شہر کی منڈیوں میں ریٹ ہماری منڈی سے بھی کم تھے۔ چند آڑھتی کہہ
رہے تھے کہ اخراجات بڑھتے جارہے ہیں۔ آئے روز بجلی اور تیل کی قیمتوں میں
اضافہ سے آمدن اور خرچ کا تناسب بگڑتا ہی جارہا ہے۔ سب اسی مسئلہ پر سوچ
رہے تھے کہ کیا کیا جائے۔ پھر کہنے لگے چلیں اب دکانداری کا ٹائم ہو رہا ہے
اس مسئلہ پرپھر بات کریں گے۔ یہ کہہ کر وہ اپنی اپنی آڑھتوں میں چلے گئے۔
ادھر آکر ان کا آپس میں غیر اعلانیہ مقابلہ شروع ہو گیا۔ سب نے اپنا اپنا
فروخت کا سامان اس طرح رکھا ہو اتھا کہ گاہک اسی دکان سے سبزی یا فروٹ لینے
پر مجبور ہو جائے۔ سب اپنی طرف گاہک کو متوجہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اپنی
اپنی دکان پر پڑی ہوئی سبزیوں اور پھلوںکی بڑھ چڑھ کر تعریفیں کر رہے تھے۔
اور وہ کئی گاہکوں کو بلا بھی رہے تھے کہ آﺅ دیکھو یہ سیب پڑ ا ہے اچھا مال
ہے لے جاﺅ۔ وہ پوچھتا ہے کہ کیا قیمت ہے اس کی کہا جاتا ہے کہ لے جاﺅ کرلیں
گے ۔ تیرے ساتھ کوئی فرق والی بات ہے ؟ اس کے بعد کوئی خرید لیتا ہے تو
کوئی کسی اور طرف چلا جاتا ہے۔ کسی کو بلا کر کہا جاتا ہے کہ دیکھو یہ تازہ
سبزی پڑی ہے لاگ بھی آج کل اس سبزی کو پکار رہے ہیں لے جاﺅ ۔ وہ بھی قیمت
پوچھتا ہے۔ کبھی لے جاتا ہے تو کبھی آگے چلا جاتا ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ
اس کے پاس مطلوبہ پیسے نہیں ہیں۔ تو اس سے کہا جاتا ہے کہ لے جاﺅ۔ کل دے
دینا ۔ تمہارے پیسے کہیں نہیں جاتے۔ اسی سبزی منڈی میں ہر آڑھتی کی دکان کے
سامنے چار چار چھابڑی فروش بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے فرش پر اپنی اپنی
چھوٹی چھوٹی دکانیں سجائی ہوئی تھیں۔ کسی نے پھل لگائے ہوئے تھے تو کسی نے
سبزی۔ کوئی آلو اور پیاز بیچ رہا تھا تو کوئی ٹماٹر۔ کسی کے پاس سیب پڑے
تھے تو کوئی کینو بیچ رہا تھا۔ انہوں نے بھی آپس میں غیر اعلانیہ مقابلہ
لگا رکھا تھا۔ وہ بھی آوازیں لگا لگا کر گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی
کوشش کررہے تھے۔ جو شخص بھی ان کے پاس گزرتا اس سے پوچھتے کہ بابا جی سبزی
خریدنی ہے۔ فروٹ لینے ہیں۔ آجاﺅ دیکھو۔ دیکھنے کے کوئی پیسے نہیں ہیں۔ کوئی
آوازیں لگا رہا تھا کہ سپر مال، سپر مال، لے جا میرے لعل، لے جا میرے لعل۔
کسی کی زبان پر یہ فقرے تھے کہ آﺅ بھائی آﺅ۔ جو چاہیے وہ لے جاﺅ۔ کوئی کہہ
رہا تھا کہ بچو بچو لٹیروں سے بچو۔ کسی کا مال گیارہ بجے بک گیا ۔ کسی نے
اپنی دکان بارہ بجے بند کی۔ سب نے اپنا اپنا سامان آڑھتیوں کی دکانوں میں
رکھا اور ہوٹل پر آگئے۔ کچھ ہوٹل میں آئے ہوئے تھے کہ جب کچھ ابھی اپنا
اپنا سامان سمیٹ رہے تھے۔ جو ہوٹل پر آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک کہنے لگا
کہ چائے کاآرڈر دو۔ ایک اور کہنے لگا کہ ابھی ٹھہرو سب کو آنے دو۔ کچھ دیر
کے بعد سب چھابڑی فروش آگئے۔ ان کی آپس میں گپ شپ شروع ہوگئی۔ انہوں نے
چائے کا آرڈر دیا ۔ ایک دوسرے کو اپنے اپنے کاروبار کی پوزیشن بھی بتائی۔
قیمتوں پر بھی تبصرے ہوتے رہے۔ اس کے بعد وہ چائے پی کر اپنے اپنے گھروں کو
چلے گئے۔ سرکاری ملازمین نے بھی اپنی اپنی تنظیمیں بنا رکھی ہیں۔ ہر محکمہ
کے ملازمین کی الگ الگ یونین بھی ہیں اور بہت سے محکموں کی مشترکہ تنظیمیں
بھی کام کررہی ہیں۔ ان میں سے ایک تنطیم کلرکوں کی ہے۔ ہم نے ایک دن بازار
اور مارکیٹوں میں دیکھا کہ اشتہار لگے ہوئے تھے۔ جن پر کلرکوں کی اس تنظیم
کے امیدواروں کی تصویریں اور ان کے عہدے چھپے ہوئے تھے۔ اسی طرح کے اور
اشتہار بھی دیکھے ان پر بھی اور امیدواروں کے نام تصویریں اور عہدے چھپے
ہوئے تھے۔ ان کے انتخابات کی تاریخ بھی لکھی ہوئی تھی۔ ان کے انتخابات ہوئے
ایک گروپ جیت گیا ایک گروپ کو شکست ہوئی۔ جیتنے والے گروپ نے اپنا کام شروع
کردیا۔ اس کے کچھ ہفتوں بعد ہمیں کسی کام سے ایک سرکاری دفتر میں جانا ہوا
۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ آج سے کلرکوں نے ہڑتال کررکھی ہے۔ ہم نے پوچھا کہ
کس گروپ نے ہڑتال کی ہوئی ہے تو جواب ملا کہ سب نے ہڑتال کررکھی ہے۔ ہم نے
پھر سوال کیا یہاں تو کلرکوں کے دو گروپ ہیں ۔ ان کے الیکشن میں بھی ان کے
درمیان مقابلہ ہوا تھا ایک گروپ جیت گیا اور ایک ہار گیا۔ تو جواب ملا کہ
یہ مقابلہ صرف الیکشن تک تھا اب سب کلرک ایک ہیں۔ اب ہڑتال کریں گے تو سب
کریں گے۔ اور اگر احتجاجی ریلی نکالیں گے تو سب ایک ساتھ نکالیں گے۔ اسی
طرح زندگی کے ہر شعبہ میں او ر ہر سرکاری اور پرائیویٹ محکموں میں تنظیمیں
کام کررہی ہیں۔ ان کے انتخابات بھی ہوتے ہیں۔ ان کے آپس میں مقابلے بھی
ہوتے ہیں ۔ پھر یہ سب ایک ہوجاتے ہیں۔ جس طرح مختلف محکموں اداروں کے
ملازمین اپنے مشترکہ معاملات کو چلانے کیلئے اپنے نمائندے چنتے ہیں۔ تاکہ
ہر ایک کو ان معاملات میں اپنا وقت صرف نہ کرنا پڑے ۔ جو تنظیمی انتخابات
میں منتخب ہوں گے وہی ان معاملات کو دیکھیں گے۔ کسی سے مذاکرات کرنے ہیں تو
یہی کریں گے اور اگر احتجاج کا پروگرام بنانا ہے تو وہ بھی یہی بنائیں گے۔
اس طرح ملک اور صوبوں کے معاملات اور انتظامات کو چلانے کیلئے بھی قوم اپنے
نمائندے منتخب کرتی ہے اس کو ہم جنرل الیکشن یا عام انتخابات کہتے ہیں۔ ملک
اور صوبوں کے معاملات کو چلانے کے خواہش مندوں نے بھی اپنے اپنے گروپ بنا
رکھے ہیں۔ ان گروپوں کو سیاسی جماعتیں کہا جاتا ہے۔ یہ اختیار عوام کے پاس
ہے کہ وہ ملک اور صوبوں کے معاملات چلانے کیلئے جس کو چاہے منتخب کرے ۔ اس
مقصد کیلئے عام انتخابات منعقد کرائے جاتے ہیں۔ ملک کے نمائندے چننے کیلئے
ملک کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور حصہ کو حلقہ کا نام دیا
گیا ہے اور اس کو قومی اسمبلی کا حلقہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح صوبوں کو بھی
چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ہر حصہ کو صوبائی حلقہ کہا جاتا ہے۔
قوم ہر حلقہ سے اپنا نمائندہ متخب کرتی ہے۔ ان کے درمیان بھی مقابلہ ہوتا
ہے۔ یہ سب بھی اپنی طرف قوم کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے
بڑے بڑے جلسے بھی کیے جاتے ہیں۔وال چاکنگ بھی کی جاتی ہے۔ قوم کو اچھے
مستقبل کی خوشخبریاں سنائی جاتی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اور اس کا امیدوار قوم
کو ووٹ دے کر کامیاب کرانے کے بدلے اچھے اچھے مستقبل کی نوید سناتے سنائی
دیتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اور اس کے امیدوار اپنی سابقہ کارکردگی بھی بتاتے
رہتے ہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے بھی قوم کی خدمت کرنے میں کوئی کوتاہی
نہیں کی اس لیے اس کو اب پھر قوم کی خدمت کرنے کا موقع دیا جائے۔ سیاسی
جماعتیں قومی اور صوبائی حلقوں میں اپنے اپنے نمائندے کھڑیکرتی ہیں۔ اور ہر
سیاسی جماعت یہی چاہتی ہے کہ اس کے نمائندہ کو ہی قوم اپنا نمائندہ چن لے۔
قوم کی نمائندگی کے خواہش مند اپنے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہیں کہ
ان کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔ یہاں بھی ایک دوسرے کو نیچا
دکھانے کی خوب کوشش کی جاتی ہے۔ ہر امیدوار کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے حلقہ
سے جتنے بھی امیدوار ہیں سب گھر چلے جائیں اور وہ بلا مقابلہ منتخب ہو
جائے۔ یہاں بھی ایک دوسرے کو الیکشن کے عمل سے باہر کرنے کی پوری پوری کوشش
کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف ایسے ایسے ثبوت لانے کی کوشش کی جاتی ہے جس
سے مخالف امیدوار انتخابی عمل سے باہر ہو جائے۔ جن امیدواروں کے خلاف
الزامات درست ثابت ہو جائیں وہ انتخابی عمل سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اور جن
امیدواروں کے خلاف الزامات ثابت نہ ہوسکیں ان کو انتخابات میں حصہ لینے کی
اجازت دے دی جاتی ہے اور ان کو انتخابی نشان بھی دے دیے جاتے ہیں۔ ہر سیاسی
جماعت اور اس کا امیدوار یہی کہتا ہے کہ وہ قوم کی خدمت کر سکتی ہے۔ مقررہ
دن انتخابات ہوتے ہیں۔ قوم اپنے نمائندے منتخب کرتی ہے۔جس سیاسی جماعت کے
سب سے زیادہ نمائندے منتخب ہو جاتے ہیں وہ اپنی اتحادی سیاسی جماعتوں سے مل
کر حکومت بناتی ہے۔ پھر سب ایک ہوجاتے ہیں۔ قوم کو دکھانے کیلئے ان کے
اختلافات جاری رہتے ہیں۔ اپنے مشترکہ مسائل اور مفادات کیلئے سب ایک ہو
جاتے ہیں۔ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں ۔ اسمبلیوں میں اراکین اسمبلی کی
تنخواہوں اور مراعات میں جتنی بار بھی اضافہ ہوا ہے متفقہ اضافہ ہوا ہے کسی
رکن اسمبلی نے اس سے اختلاف نہیں کیا ۔ کسی نے اجلاس کابائیکاٹ نہیں کیا۔
کسی نے اس کے خلاف واک آﺅٹ نہیں کیا۔ جب سیاسی حکومت نہ ہو تو اس وقت بھی
سب سیاستدان ایک ہو جایا کرتے ہیں۔ جہاں ان سیاستدانوں کے مفادات کو خطرہ
ہوتا ہے وہاں یہ ایک ہوجاتے ہیں۔ اب قوم ایک بار پھر اپنے نمائندے منتخب
کرنے جارہی ہے۔ سیاسی پہلوانوں کے درمیان مقابلہ کی تیاریاں جاری ہیں۔ اب
یہ قوم کا اختیار ہے وہ کس کو اسمبلیوں میں بھیجتی ہے۔ یہ ہمارا سیاسی کلچر
بھی ہے اور قومی کلچر بھی۔یہ سیاست اب گھر گھر میں بھی رائج ہو چکی ہے کہ
ایک ہی گھر میں ایک سے زیادہ پارٹیوں کے چاہنے والے موجود ہوتے ہیں۔ ایک
بھائی ایک سیاسی پارٹی کے امیدوار کے حق میں دلائل دے رہا ہوتا ہے تو دوسرا
بھائی کسی اور سیاسی پارٹی کے امیدوار کی مہم چلا رہاہوتا ہے۔ باپ کسی اور
سیاسی پارٹی یا امیدوار کا دلدادہ دکھائی دیتا ہے تو بیٹا کسی اور امیدوار
کو پسند کرتا ہے ۔ اس الیکشن میں توایک ہی خاندان سے اور ایک ہی گھر سے ایک
دوسرے کے مد مقابل امیدوار بھی ہیں۔ ویسے یہ بہت کامیاب فارمولا ہے کہ جو
بھی جیتے اقتدار گھر میں ہی رہے گا۔ ایک گھرانہ اس طرح سب امیدواروں یا
زیادہ امیدواروں کی حمایت یا سپورٹ کرکے فائدے میں ہی رہتا ہے ۔ جو بھی جیت
کر ممبر اسمبلی منتخب ہوگا ۔ یہ گھرانہ اسی کا ہی حمایتی ہوگا۔ آپ اس کو
کونسی سیاست کا نام دیں گے؟۔ |