وطن عزیز پاکستان میں منشیات کے
استعمال کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل بالخصوص
اور پوری قوم بالعموم بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے ۔منشیات کے استعما ل کی
بنیادی وجہ دین سے دوری ،نشہ آور اشیاءکے استعمال کے نقصانات اور وعیدوں سے
بے خبری ہے ۔حالات کا جبر ،بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور روز افزوں مہنگائی
بھی اس کا باعث بن رہی ہے لیکن سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ اس وقت منشیات
کے استعمال کے بارے میں ہم بعض افسوسناک مخمصوں میں مبتلاءہیں ۔مثال کے طور
پر شراب جسے ام الخبائث کہا گیا اس کے عادی افراد کی اجتماعی طور پر صفائی
پیش کی جاتی ہے ۔انہیں ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور جب کبھی بھی
منشیات کا تذکرہ ہوتا ہے تو شراب جو دینی ،طبی اور معاشرتی ہر حوالے سے سب
سے خطرناک ترین نشہ ہے اس کا سرے سے تذکرہ تک نہیں کیا جاتا ۔افیون ،چرس
اور دیگر منشیات کی ترسیل وتقسیم سے چشم پوشی کی جاتی ہے ۔سگریٹ سازی کی
صنعت کو باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل ہے لیکن یہ کس قدر مضحکہ خیز امر ہے کہ
سگریٹ کی ڈبیہ پر ”خبردار ! تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے “جیسا وعظ رقم
کیا جاتا ہے لیکن اس سگریٹ سازی کی صنعت کو روکنے یا اس کی خرید وفروخت کے
حوالے سے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا ۔آج کے دور میں
نوجوان نسل حتی کہ لڑکیوں میں بھی شیشہ کا استعمال ایک فیشن بن کر رہ گیا
ہے جگہ جگہ شیشہ کلب کھل گئے ہیں اور صرف منشیات کے استعمال ہی نہیں بلکہ
دیگر بہت سی خرابیوں اور قباحتوں کے گڑھ بھی ہیں لیکن ان کے خلاف نہ کوئی
ایکشن ہوتا ہے اور نہ ہی آپریشن ....میڈیا پر باقاعدہ منشیات کے استعمال کی
مختلف حیلے بہانوں سے ترغیب دی جاتی ہے ،کبھی سگار نوشی کو امارت کی نشانی
باور کروایا جاتا ہے ،کبھی سگریٹ نوشی کو پریشانی اورڈپریشن کا تدارک خیال
کیا جاتا ہے ،کبھی اس سے ملتے جلتے دیگر مناظر دکھائے جاتے ہیں اور اشتہاری
صنعت میں سگریٹ اور دیگر نشہ آور اشیاءکے باقاعدہ اشتہارات چلائے جاتے ہیں
اور پھر اس کے ساتھ ساتھ وزارت انسداد منشیات کو منشیات پر کنٹرول کا ٹاسک
بھی سونپا جاتا ہے ۔گاہے یوں لگتا ہے کہ ہمارے ہاں پانی ابالنے کے لیے کسی
دیگچی میں ڈال کر چولہے پر چڑھا دیا گیا ہے اور اس کو ٹھنڈا کرنے کے لیے آگ
بجھانے کا خیال کسی کو نہیں آتا بلکہ اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے وزارت انسداد
منشیات کو برف کی ٹکڑیاں اس پانی میں ڈالنے پر مامور کر دیا جاتا ہے ۔یاد
رہے کہ جب تک منشیات کے استعما ل کو رواج اور بڑھاوا دینے والے اسباب کا
خاتمہ نہیں کیا جاتا ہے اس وقت تک اس مسئلے کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اور
اسی طرح اگر حکومت کی طرف سے اس معاملے میں سنجیدگی کامظاہر ہ کیا بھی جائے
اور اس کے اصل اسباب کے تدارک کا اہتمام بھی ہو تب بھی جب تک زندگی کے دیگر
شعبوں سے تعلق رکھنے والوں بالخصوص علماءکرام اور منبر ومحراب کی طرف سے
منشیات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور نہیں دیا
جاتا اس وقت تک اسے کسی طور پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ۔اس وقت ضرورت اس
امر کی ہے کہ صرف حکومت نہیں بلکہ تمام طبقات بالخصوص میڈیا اور منبر
ومحراب منشیات کے استعمال کے رجحانات کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنا کردار ادا
کریں ۔اس سلسلے میں ذیل میں منشیات کے حوالے سے اسلامی احکامات اور پاکستان
کی صورتحال کی ایک دھندلی سی تصویر پیش کی جارہی ہے تاکہ اس کی روشنی میں
تمام لوگ بالخصوص اہل علم اور اہل قلم اپنی تحریروں ،تقریروں ،خطبات ومواعظ
میں اس انسانی ،اسلامی اور طبی مسئلے کو لازمی طور پر موضوع بحث بنائیں ۔
منشیات کا استعمال اسلام کی نظر میں
منشیات ایک لعنت ہے جو معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہے ہیں ۔اسلامی تعلیمات
کی روسے منشیات سے پرہیز لازم ہے ۔قرآن اور حدیث میں انکے استعمال سے سختی
سے روکا گیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے :
”اے ایمان والوں !شراب اور جوا اور بت اور پاسے (یہ سب ) ناپاک کام اعمال
شیطان سے ہیں ۔سوا ن سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاﺅ (5:90) “
اللہ تعالیٰ نے منشیات کو دوسری خطرناک اور قابل نفرت شیطانی اعمال میں سے
گنوایا ہے اور ہمیں ان سے پرہیز کرنے کے لئے کہا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے :
”شیطان تو یہ چاہتاہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور
رنجش ڈلوادے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم کو (ان
کاموں سے ) بازر ہنا چاہیئے ۔“(المائدہ:پارہ :۷،آیت 91)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ یہ کس طرح شیطان کا ایک قابل نفرت عمل ہے کیونکہ
منشیات دشمنی کے بیج بونے کے علاوہ آپکو اپنے اصل مقصد یعنی ذکر الہٰی سے
روکتی ہیں اور یہ کہ آپکا اپنے نفس پر کنٹرول ختم ہوجاتاہے ۔
رسول اللہﷺ سے بھی منشیات کے بارے میں کئی احادیث نقل ہیں ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جو کوئی شراب
پیئے ،اسکو درے مارو اور اگروہ چوتھی بار اس کا ارتکاب کرے تو اسے قتل کرو“
حضرت جابر رضی اللہ عنہ آگے فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو بعد میں آپ ﷺ کے
سامنے لایا گیا جس نے چوتھی بار شراب پی لی تھی تو آپﷺ نے اسکو مار ا مگر
قتل نہیں کیا (ترمذی ،ابوداﺅد )
مندرجہ ذیل احادیث واضح طورپر بتاتی ہےں کہ رسول اللہ ﷺ نے منشیات کی
ممانعت کی تھی :۔
(i) حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”ہر نشے والی چیز
خمر ہے اور ہر نشے والی چیز حرام ہے جو کوئی اس دنیا میں شراب پیتا ہے اور
اسی حالت میںمرتاہے اورتوبہ نہیں کرتا تووہ اگلے جہاں میں اسے نہیں پیئے گا
“
(ii) حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن سے آیا اوررسول اللہ ﷺسے ایک
شراب کے بارے میں پوچھا جوایک اناج (جسے مضرکہتے تھے )نکالا جاتاتھا ،اور
جسے وہ اپنے ملک میں پیتے تھے ۔رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا اس میں
نشہ ہے تو اس نے جواب دیا ،ہاں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ ہر نشہ آور چیز
حرام ہے ۔بے شک اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو کوئی نشہ آور چیز پیئے گا تو
انکو (تینة الخبل ) پلایا جائے گا ۔انہوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ یہ
”تینة الخبل “ کیا ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا جہنمیوں کا پسینہ یا پیپ ۔(مسلم شریف
)
(iiii) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا کہ جو شراب پیئے گا اللہ تعالیٰ اس کا چالیس دن تک نما ز قبول نہیں
کرے گا اور اگر وہ توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ معاف کرے گا ۔اور اگر وہ دوبارہ
پیتاہے تو اللہ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرے گا ،ا واگر وہ توبہ
کرتاہے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا ۔اور اگر وہ پھر پیتاہے تو چالیس دن
تک اس کی نماز قبول نہیں کرے گا ۔اور اگر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے
معاف فرمائے گا۔ اور اگر وہ چوتھی بار پیتاہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک
اس کی نماز قبول نہیں فرمائے گا اور اگر وہ توبہ کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس
کی توبہ قبول نہیں کرے گا اور اسکو جہنمیوں کی پیپ کے دریا سے پلایا جائے
گا۔(ترمذی ،نسائی ،ابن ماجہ ،دارمی )
(iv)ٍ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو کوئی چیز بڑی مقدار میں
نشہ دیتی ہے اسکی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے ۔(ترمذی ،ابو داﺅد ،ابن ماجہ )
(v) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ہر نشہ آور
اور مفتر (اعضاءکو بے حس کرنے والا) چیز سے منع فرمایا ۔(ابوداﺅ د)
(vi) حضرت عبداللہ بن رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جو
کوئی والدین کی نافرمانی کرتاہے ، جواکھیلتاہے ،صدقہ دینے میں سخت ہے اور
عادی شرابی ہے وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا(دارمی )
اس طرح کی متعدد احادیث میں منشیات کی ممانعت آئی ہے۔اور انکی قباحت بیان
ہوئی ہے ۔سکالرز اور علماءکرام نے بھی منشیات کے برے اثرات پر دنیا وی
ومذہبی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی ہے ۔
علامہ ابن حجر ؒ نے کئی سکالز سے حشیش استعمال کرنے کے 120دنیا وی اور
روحانی نقصانات روایت کئے ہیں ۔
ابن سینا کہتے ہیں کہ انکی بڑی مقدار منی کو خشک کرتی ہے ۔اور اس طرح آدمی
کے جنسی جذبہ کو ختم کرتی ہے ۔
ابن بیطار کہتے ہیں کہ لوگوں کے ایک گروپ نے منشیات کا استعمال کیا اور وہ
پاگل ہوگئے ۔
ابن تیمیہ فرماتے ہیں جو نقصانات شراب میں شامل ہےں اس سے زیا دہ حشیش میں
شامل ہیں ،کیونکہ شراب کے اکثر نقصانات دین کو متاثرکرتے ہیں مگر حشیش دینا
ور جسم دونوں کو متاثر کرتاہے ۔
الغرض منشیات جرائم ہیں اورا ن سے احتراز لازمی ہے یہ لوگوں کی زندگیوں کو
جسمانی ،ذہنی ،اخلاقی اور روحانی طورپر تباہ کرتی ہیں۔
منشیات اور پاکستان کی صورتحال ....حقائق اور اعداد وشمار کی روشنی میں
اگر چہ اس وبا کا اصل منبع ہمارا پڑوسی ملک افغانستا ن ہے تاہم اسکی منشیات
کی پیداوار (ہیروئن) کا تقریبا 44 فیصد پاکستان کے راستے دوسرے ممالک کو
سمگل ہوتا ہے جبکہ اسکا ایک بڑا حصہ (تقریبا 25 فیصد)یہیں پاکستان میں رہ
جاتا ہے جس کو ہمارے مقامی لوگ استعمال کرتے ہیں۔اس طرح سے منشیات کا دھندہ
اور اسکا بڑھتا ہوا استعمال ایک وبا اور چیلنج کی صور ت اختیار کر گیا ہے
۔منشیات کے عادی لوگوں میں 60فیصد لوگوں کی عمر 15تا 30سال کے درمیان ہے جو
یہ ظاہر کرتی ہے کہ منشیاب کی بڑھتی ہوئی لعنت کس طرح ہماری نوجوان اور آنے
والے نسلوں کے لئے زہر قاتل ثابت ہورہی ہے ۔
2: پاکستان میں نشہ کے لئے زیادہ تر چرس ،کیمیائی ادویات جیسے ڈائیز اپام
،ہیروئن اور گٹکا وغیرہ کا استعمال ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ نشہ کے عادی لوگوں
کی ایک کثیر تعداد ٹیکہ کے ذریعے ادویات کا استعمال کرتی ہے ۔وہ آپس میں
مشترکہ سرنج کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے یرقان اور ایڈز کے امراض
لاحق ہوجاتے ہیں ۔ایک حالیہ سٹڈی سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ پاکستان میں
تقریبا ً ایک لاکھ کے قریب ایچ آئی وی ایڈز کے مریض ہیں جن میں سے 27فیصد
ٹیکہ کے ذریعہ نشہ آور ادویات کا استعمال کرنے والے ہیں ۔ٹیکہ کا استعمال
جسم کے اہم اعضاءجیسے گردہ اورجگر وغیرہ کو بھی متاثر کرتاہے ۔اور ٹیکے کے
ذریعے نشہ آور ادویات کا استعمال کرنے والے تھوڑے ہی عرصہ میں معمول کی
زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے ۔
3: نشہ آور ادویات کا استعمال خواتین میں بھی برابر پھیل رہاہے ۔وزارت
انسداد منشیات کے تحت کرائی گئی ۔ایک حالیہ سٹڈی کے مطابق نشے کی عادی
خواتین میں 68فیصد پڑھی لکھی ہےں ۔جبکہ 38فیصد تویونیورسٹی اور کالج
گریجویٹ ہیں ۔خواتین کو نشہ آور ادویات کی بہم رسانی زیادہ تر انکے خاوند
،والد ،سسر ،بھائیوں اور ہمسائیوں کے ذریعے ہوتی ہے ۔ان میں سے 70فیصد
خواتین شوقیہ یا دوستوں کی وجہ سے نشہ کرنے لگی ہیں ۔ لڑکیوں اور لڑکوں کے
ہاسٹل نشہ پیچنے والوں کے زیادہ شکار ہوتے ہیں جوانکو انکی دہلیز پر نشہ
آور اشیاءبہم پہنچاتے ہیں ۔شیشے کا استعمال نوجوان نسل کے لئے ایک نئے خطرے
کو طورپر سامنے آرہاہے اور یہ مردوزن ہر دو میں مقبول ہے ۔گروپ کی صورت میں
40منٹ تک شیشہ پینا 200سگریٹ پینے کے برابر دھواں اپنے اندر لے جانے کے
برابر ہے ۔تپ دق کے مرض کا پاکستان میں دوبارہ سے پیدا ہوجانے کی ایک وجہ
شیشہ کا استعمال بھی ہے ۔
4: مطالعاتی تجزیہ بتاتا ہے کہ جن نوجوانوں میں درجہ ذیل علامات پائی جاتی
ہو ں وہ نشہ کی طرف مائل ہوسکتے ہیں !
(iغصیلہ پن ۔(iiاسکول کے امتحانات میں فیل ہونا ۔(iiiاسکول سے غیر حاضر
رہنا ۔(ivجسمانی ساخت میں تبدیلی آجانا ۔(vسونے کی عادات میں تبدیلی آجانا
۔(viرقم کی طلب یا معمول سے زیا دہ رقم کا پاس ہونا ۔کیونکہ پہلے پہل تو
والدین بچے پر توجہ نہیں دیتے اور جب ان کو بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا
بچہ نشہ آور ادویات کا استعمال کررہاہے تو وہ اس پر پابندیاں لگادیتے ہیں
اور رقم دینا بھی بند کردیتے ہیں ۔جس کے نتیجے میں بچے کے اندر پیسہ اور
گھر سے دیگر اشیاءچوری کرنے کی عادت پڑجاتی ہے ۔اس طرح تمام کنبہ متاثر
ہوجاتاہے اور اس کے چھوٹے بہن بھائی بھی بڑے کی نقل کرتے ہوئے نشہ کرنے لگ
جاتے ہیں۔
5؛ چونکہ ہمارے قانون نافذکرنے والے ادارے اور ایجنسیاں گلیوں اور بازاروں
میں عام لوگوں تک نشہ آور ادویات کی سپلائی کو کنٹرول نہیں کرسکے اس لئے ہم
اور کمیونٹی کا فرض بنتاہے کہ وہ اپنے علاقہ اور قرب وجوار میں نشہ کی
ترسیل اور استعمال کرنے والوں پر نگاہ رکھیں اور اس کی خرید وفروخت کو
روکیں۔چونکہ ہمارے مذہب اسلام میں نشہ حرام ہے اس لئے علماءحضرات کی ذمہ
داری بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔(نشہ کی حرمت سے متعلق قرآنی آیات واحادیث
کے اکتسابات منسلک ہیں ۔) علماءحضرات جمعہ کے خطبوں کے ذریعے اس پیغام کو
عوام تک پہنچا کر ہماری نوجوان نسل کو نشہ کے مضر اثرات سے محفوظ بنا سکتے
ہیں ۔مساجد کے علماءحضرات سے یہ بھی گذارش ہے کہ وہ والدین کو متنبہ
فرمائیں کہ وہ اپنے بچوں کی طرف توجہ دیں ۔اور کچھ وقت ان کے ساتھ بھی
گزایں تاکہ وہ راہ ِراست پر رہیں اور اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز رکھیں ۔
اسلامی تعلیمات اور طبی نقصانات کے اس مختصر سے جائزے کے بعد سب سے پہلے تو
ہم
(۱) حکومت سے گزارش کریں گے کہ وہ منشیات کی روک تھام کے لیے مستقل بنیادوں
پر پالیسی وضع کرے ،دوررس نتائج واثرات کے حامل اقدامات اٹھائے اور منشیات
کی کثرت کے اصل اسباب کے تدارک کی فکر کرے اور محض وعظ وتلقین پر اکتفاءنہ
کرے بلکہ سخت اقدامات اٹھائے ۔
(۲)والدین اور بچوں سے سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اور
نگرانی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں اور ان دینی تعلیمات بالخصوص منشیات کے
استعمال کے نقصانات وعواقب سے ضرور آگاہ کریں ۔
(۳) میڈیا اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد پر لازم ہے کہ وہ بھی اس سیالب
بلاخیز کو روکنے کے لیے اپنی اور اپنے ذرائع ابلاغ کی حیثیت کو مکمل طور پر
استعمال کریں ،کسی ٹی وی پروگرامیا ڈرامے وغیر ہ کے ذریعے سے کسی طور پر
حتی کہ بین السطور میں بھی یہ پیغام نسل نو کی طرف نہیں جانا چاہیے کہ وہ
منشیات میں کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار کریں ۔
(۴)تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو چاہیے کہ قوم کے بچے اور بچیاں ،ان کا
کردارا ور ان کا مستقبل ان اداروں اور اساتذہ کے پاس امانت ہوتا ہے وہ اس
کی مکمل پاسبانی کا اہتمام کریں اور کوئی ایسا چور دروازہ باقی نہ رہنے دیں
جہاں سے کسی کے بچے یا بچی کو نشے کی لت پڑ سکے ۔
(۵)اور سب سے اہم اور بھاری ذمہ داری حضرات علماءکرام پر عاید ہوتی ہے
۔چونکہ اللہ کے فضل وکرم سے علماءکرام کا تمام دینی اور سماجی حلقوں میں
ایک خاص مقام ہے۔لوگ ان کی بات کو بہت اہمیت دیتے ہیں ،مستقبل کی قیادت ان
علماءکرام کے زیر اثر پروان چڑھتی ہے اس لیے علماءکرام کو چاہیے کہ وہ اسے
دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنے حلقہ اثر کے مدارس وعلمائ،عوام الناس اور منبر
ومحراب کو اس لعنت سے چھٹکارے کے لیے استعما ل فرمائیں ۔ |