حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ساعدہ بن سعد
حذیفہ ؒ کہتے ہیں حضرت حذیفہؓ نے فرمایا کرتے تھے کہ سب سے زیادہ میری
آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث اور میرے جی کو سب سے زیادہ محبوب وہ دن ہے جس دن
میں اپنے اہل و عیال کے پاس جاﺅں اور مجھے ان کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ
ملے اور وہ یوں کہیں کہ آج ہمارے پاس کھلانے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں ،اس کی
وجہ یہ ہے کہ میں نے حضور کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مریض کو اس کے گھر
والے جتنا کھانے سے بچاتے ہیں اللہ تعالیٰ مومن کو اس سے زیادہ دنیا سے
بچاتے ہیں اور باپ اپنی اولاد کے لیے خیر کی جتنی فکر کرتا ہے اللہ تعالیٰ
اس سے زیادہ مومن کی آزمائش کا اہتمام کرتے ہیں ۔جو دنیا سے بے رغبتی
اختیار نہ کرے اور اس کی لذتوں میں مشغول ہو جائے اس پر نکیر کرنا اور دنیا
سے بچنے کی تاکید کرنا ،حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں ایک مرتبہ حضور نے مجھے
دیکھا کہ میں نے ایک دن میں دو مرتبہ کھانا کھایا ہے تو مجھ سے فرمایا اے
عائشہؓ کیا تم یہ چاہتی ہو کہ صرف پیٹ بھرنا ہی تمہارا مشغلہ ہو ؟ایک دن
میں دو مرتبہ کھانا اسراف ہے اور اسراف والوں کو اللہ پسند نہیں فرماتے ہیں
۔ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا اے عائشہؓ ! کیا تمہیں اس دنیا میں
بس پیٹ بھرنے ہی کی فکر ہے؟ اور کسی چیز کی فکر نہیں ؟ایک دن میں ایک مرتبہ
سے زیادہ کھانا اسراف ہے اور اسراف والوں کو اللہ پسند نہیں فرماتے ۔حضرت
عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں حضور کے پاس بیٹھی ہوئی رو رہی تھی آپ نے فرمایا تم
کیوں رو رہی ہو؟اگر تم مجھ سے (جنت میں)ملنا چاہتی ہو تو تمہیں دنیا کا
اتنا سامان کافی ہونا چاہے جتنا سوار کا زاد سفر ہوتا ہے اور مال داروں سے
میل جول نہ رکھنا ۔
قارئین آج کا کالم ہماری صحافتی زندگی کی داستانِ طلسم ہوش ربا کی حیثیت
رکھتا ہے ۔آج سے تقریباً چھ سال قبل ہم نے میدان صحافت میں قدم رکھا تو
کافی سارے آﺅٹ سائیڈر ز کی طرح ہمارا بھی یہ خیال تھا جو بعد میں خام نکلا
کہ صحافی ایک ”پہنچی ہوئی ہستی “ہوتی ہے اور کافی ساری ایسی جگہیں کہ جہاں
پر عام لوگوں کی دسترس نہیں ہوتی وہاں پر یہ پہنچی ہوئی ہستی پہنچ کر ”کچھ
کاکچھ“کرنے کی صلاحیت ،اہلیت اور طاقت رکھتی ہے ۔سنی سنائی باتوں اور سینہ
گزٹ سے پھیلنے والی افواہوں کی روشنی یا تاریکی میں ہم یہ سمجھتے تھے کہ
ایک صحافی بڑے اختیارات کا مالک ہو تا ہے بیوروکریسی سے لے کر ٹیکنوکریسی
تک اور سیاست دانوں سے لے کر ووٹروں تک صحافی ”سکندر اعظم “ بن کر گھومتا
ہے اور جہانگیری و جہاں بانی ایک صحافی کے گھر کے کھیت کی ”گاجریں اور
مولیاں “ہیں ۔الغرض ہم سمجھتے تھے کہ صحافی صدر و وزیراعظم کے بعد اس ملک
کا سب سے بڑا ” دادا اور بھائی “ہوتا ہے ۔میرپور آزادکشمیر ہمارا آبائی شہر
ہے اور راقم کے آباﺅ اجداد کا تعلق منگلا ڈیم کے پانیوں تلے دفن پرانے
میرپور کے ساتھ ہے ۔میرپور میں بھی ہم نے اپنے ناقص علم اور خام تجربے کی
عینک لگا کر جب یہاں کے صحافیوں کی کہکشاں کا جائزہ لیا تو یونس اعظم مرحوم
،زبیر زخمی مرحوم ،محمد شفیع مرحوم ، الطاف حمیدراﺅ، سردار عابد حسین ،رانا
محمد شبیر راجوری ،سردار جمیل صادق، شاہد مرزا ،میر آزاد بصیر،سید سرفراز
کاظمی ،حافظ محمد مقصود ،ظفر مغل ،امین بٹ ، سید عابد حسین شاہ ،راجہ حبیب
اللہ خان ،رمضان چغتائی ،خالد چوہدری،ارشد بٹ ،محمد اقبال خواجہ ،کاشف رشید
،پرویز شہزاد ،راجہ سہراب خان ،سید قمر حیات ، ظہیر احمد جرال ،جابر آزاد
طور ،سید سجاد بخاری ،سجاد جرال ،شجاع جرال ، محمد رفیق مغل ،رضوان اکرم سے
لے کر دیگر نوجوان صحافیوں کی ایک بہت بڑی فہرست موجود تھی اور ہمارے علم
میں یہ بات لائی گئی کہ یہ تمام لوگ بڑے اختیارات کے مالک ہیں اور میرپور
میں جو بھی فیصلے کیے جاتے ہیں ان احباب اور صحافیوں کی رائے کے بغیر کسی
مائی کے لال کی جرات نہیں کہ کوئی کام کر سکے ۔ہمیں بعض ” خیر خواہوں یا بد
خواہوں “نے یہ بریفنگ بھی دی کہ میرپور کے صحافی ایک بہت بڑی گدی کے مرید
ہیں اور اس گدی کا نام ” ادارہ ترقیات میرپور “ہے اور 1980سے لیکر آج تک
ادارہ ترقیات میرپور کی گدی پر جو بھی پیر ومرشد ” یعنی چیئرمین یا موجودہ
دور کا ڈی جی “براجمان ہوتا ہے وہ ” قوم کے وسیع تر مفاد “میں کیے جانے
والے تمام فیصلے کرنے کے دوران ان تمام صائب الرائے صحافیوں سے مکمل مشاورت
کرتا ہے اور اس کے بعد مریدوں کے مشوروں کی روشنی میں پیر و مرشد میرپور کے
عوام کو سر چھپانے کے لیے مکان بنانے کے لیے پلاٹس بنانے کی پالیسی مرتب
کرتے ہیں ۔
قارئین یہ سب باتیں اتنی خوش نما ، دلفریب اور جھوٹی تھیں کہ اس کے اندازہ
ہمیں میدان صحافت میں قدم رکھنے سے پہلے نہیں تھا ۔میدان صحافت میں طبع
آزمائی سے قبل ہم اسلام آباد میں بسلسلہ روزگار مقیم تھے کیونکہ ایم ۔فل
کرنے کے بعد ہم نے مارکیٹنگ کی ایک فرم میں کام کرنا شروع کیا اور جب تک
ہمارا دانہ پانی اللہ نے اس شعبے میں رکھا ہم اسی میں رہے ۔اسلام آباد دس
سالہ قیام کے دوران ہمارے کافی سارے یونیورسٹی فیلوز اپنی پروفیشنل تعلیم
کے برعکس اتفاقیہ طور پر انتہائی مستند انگریزی اور اردو اخباروں کے شعبہ
ایڈیٹنگ میں نوکریاں کر رہے تھے اور ہمارا ان کے ساتھ چونکہ ” لنگوٹیے
دوستوں “جیسا تعلق تھا اس لیے اکثر اوقات دوپہر دو بجے کے بعد ہم چائے پانی
پینے ان کے پاس چلے جاتے اور صحافت کے حوالے سے وہ بھی ہماری معلومات میں
خاطر خواہ اضافہ فرماتے ۔
قارئین چھ سال قبل صحافت میں ہم نے جزوقتی کام کرنا شروع کیا تو ہمارے
مہربانوں اور دوستوں نے ہمیں اپنے اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا ،ہماری زیادہ
تر دوستیاں کیونکہ پیشہ ورانہ حوالے سے ڈاکٹر کے ساتھ تھیں اور یہ تمام
ڈاکٹر ز صحافت کے حوالے سے ملی جلی رائے رکھتے تھے آزادکشمیر کے سب سے بڑے
ڈاکٹربلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آزادکشمیر کے طب کے شعبے کے سرتاج ڈاکٹر غلام
محی الدین پیر زادہ ہمارے پیر و مرشد بھی تھے بلکہ اب بھی ہیں اور دوست بھی
،ہمارا ان کے گھر کافی آنا جانا تھا مسز پیر زادہ مرحومہ ہمارے ساتھ بے
انتہا شفقت فرماتیں اور جب ان کے علم میںیہ بات آئی کہ ہم میدان صحافت میں
قدم رکھ چکے ہیں تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ خود بھی انگریزی زبان میں
آرٹیکلز لکھتی ہیں اور انہوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم صحافت کے شعبے میں
کالمز لکھنے کی طرف سب سے زیادہ توجہ دیں ۔ان کے بیٹے ڈاکٹر معید پیر زادہ
الیکٹرونک میڈیا میں پوری دنیا میں ایک منفرد شہرت رکھتے ہیں او ر انگلش
اور اردوزبانوں میں ڈاکٹر معید پیر زادہ کے کیے گئے شہرہ آفاق انٹرویوز ایک
”کلاسک “کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔ہم نے آزادکشمیر ریڈیو ایف ایم 93کے
ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی وساطت سے ” لائیو ٹاک ود جنید انصاری “کے نام
سے ایک انٹرویو پروگرام شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آزادکشمیر
کے انتہائی قابل احترام اور صائب الرائے سینئر صحافی راجہ حبیب اللہ خان نے
ہمارے استاد محترم کی حیثیت سے ہماری انگلی تھام لی ۔صحافت کے ابتدائی تین
مہینوں کے بعد ہم نے اندازہ لگایا کہ ہم نے پھولوں کی کسی وادی میں نہیں
بلکہ کانٹوں بھرے ایک صحرا میں قدم رکھ دیا ہے ،ایک ایسا صحرا کہ باہر کھڑے
ہو کر دیکھنے سے جہاں پر ایسے ایسے خوش نما سراب دکھائی دیتے تھے جیسے صحرا
میں سفر کرنے والے کسی پیاسے مسافر کو بہت دور پانی کے چشمے اور نہ جانے
کیا کیا دکھائی دیتا ہے ۔ان ابتدائی تین مہینوں میں راقم نے اپنا ڈھیر سارا
مالی نقصان کیا اور اس کے بعد ” توبتہ النصوح“کرتے ہوئے ہم نے اپنے استاد
گرامی راجہ حبیب اللہ خان سے عرض کی کہ حضور والا نہ تو ہم سے ” پلاٹوں
والی صحافت “ہوتی ہے اور نہ ہی ہماری خاندانی شرافت ہمیں اس بات کی اجازت
دیتی ہے کہ ہم اپنا دست ِ سوال دراز کرتے ہوئے ” بھکاری یا بلیک میلر “ بن
جائیں اس لیے ہم اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ ہم اس پیشے سے توبہ کرتے ہوئے
دوبارہ اپنے سابقہ پیشے کی طرف لوٹ جائیں یا کوئی اور محنت مزدوری اختیار
کر لیں استاد گرامی راجہ حبیب اللہ خان جو ہمیں ایک چھوٹے بھائی جیسا
سمجھتے تھے انہوں نے پوری صورتحال پوچھی تو ہم نے انتہائی دکھی انداز میں
اپنی داستان درد ان سے شیئر کی کہ ہم اپنا مالی نقصان بھی کر بیٹھے ہیں اور
ہماری طبیعت مروجہ صحافت سے کوسوں دور ہے اور اب حال یہ ہے کہ فاقوں تک
نوبت آ سکتی ہے اس پر راجہ حبیب اللہ خان نے تقریباً ایک ماہ ہماری بھرپور
کونسلنگ کی اور ہمیں یہ بات سمجھائی کہ ہم صحافت کو ایک مشن سمجھ کر جوائن
کریں اور گزر او قات کے لیے کوئی اور کام کرتے رہیں ۔راجہ حبیب اللہ خان کا
یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے پچیس سالہ صحافتی تجربے کی روشنی میں یہ سمجھتے
ہیںکہ راقم کے اندر کافی ساری مثبت صحافتی صلاحیتیں موجود ہیں الغرض استاد
محترم راجہ حبیب اللہ خان نے ہم سے وعدہ لے لیا کہ ہم صحافت جاری رکھیں گے
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہم سات سو سے زائد سائنسدانوں ،سیاستدانوں ،اربابِ
اختیار ،بیوروکریٹس ،ماہرینِ تعلیم ،ماہرینِ معیشت ،ماہرینِ سماجیات ،علمائے
کرام الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے انٹرویو کرنے
کا ایک منفرد ریکارڈ قائم کر چکے ہیں اور صحافت کے اس سفر میں خضر ِ راہ کی
مانند راجہ حبیب اللہ خان نے ہماری ” استادی “کا فریضہ انجام دیا ہے ۔استادی
کے اس فریضے کی ادائیگی میں راجہ حبیب اللہ خان کے دل پر کیا کیا گزری یہ
تو کوئی انہیں سے پوچھے لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ ہماری صحافتی زندگی کی
تراش خراش راجہ حبیب اللہ خان نے کی اور اس پر ہم ان کے دل سے مشکور ہیں ۔
قارئین اب تک کی تمام بات جو ہم نے آپ کے سامنے رکھی وہ ” صحافت اور ہماری
صحافتی زندگی“کی ایک ہلکی سے جھلکی تھی ۔آئیے اب بات کر لیں کالم میں تحریر
کردہ ایک شرارتی لفظ کے بارے میں ” صحافت ۔۔۔ایک کھرک“۔اس وقت آزادکشمیر کے
شعبہ اطلاعات کے سیکرٹری انتہائی سینئر سنجیدہ اور دیانتدار بیوروکریٹ شوکت
مجید ملک ہیں ۔شوکت مجید ملک جب کمشنر تھے تو اس وقت لارڈ نذیر احمد جو
پاکستان پیپلزپارٹی اور آزادکشمیر اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی ”
گڈ بکس “میں تھے اور کوئی بھی سیاستدان یا بیوروکریٹ ان سے ملتے ہوئے یا ان
سے تعلق رکھتے ہوئے آج کل جیسی جھجھک نہیں رکھتا تھا ہماری سلام دعا لارڈ
نذیراحمد کے حوالے سے چیف جسٹس ریٹائرڈ عبدالمجید ملک اور پھر شوکت مجید
ملک سے ہوئی اور ہم نے انہیں ایک انتہائی مہربان اور شفیق انسان پایا جس کی
گردن میں رائج بیوروکریسی کا سریا موجود نہیں تھا اور ہمیں وہ ایک
بیوروکریٹ سے زیادہ ایک ادیب ٹائپ انسان دکھائی دیئے ۔گزشتہ دنوں سیکرٹری
اطلاعات کی حیثیت سے شوکت مجید ملک کشمیر پریس کلب میرپور تشریف لائے اور
انتہائی سینئر صحافیوں کی موجودگی میں انہوں نے با آواز بلند راقم کو کشمیر
پریس کلب میرپور کی ممبر شپ ملنے پر مبارکباد پیش کی اور اپنے نیک جذبات کا
اظہار کیا ۔اب جب پریس کانفرنس شروع ہوئی تو ان کے ساتھ ڈائس پر کشمیر پریس
کلب میرپور کے صدر سید عابد حسین شاہ ،سیکرٹری جنرل سجاد جرال ،ڈسٹرکٹ
انفارمیشن آفیسر راجہ اظہر اقبال موجود تھے جبکہ سامعین صحافیوں میں الطاف
حمید راﺅ ،راجہ حبیب اللہ خان ،سید قمر حیات ، رانا شبیر راجوری ،حافظ محمد
مقصود ،سید سرفراز کاظمی،ارشد محمود بٹ ،راجہ سہراب خان،محمد ظفر مغل سے لے
کر سینئر و جونیئر صحافیوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی ۔سیکرٹری اطلاعات
شوکت مجید ملک نے پریس فاﺅنڈیشن کے حوالے سے طویل گفتگو کی اور باتوں باتوں
میں اس نیک خواہش کا اظہا رکیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ آزادکشمیر کے صحافی ”
انٹر نیشنل فورم فار جرنلسٹس“کا حصہ بنیں اور آئی ۔ایف ۔جے کا کارڈ حاصل
کریں جس کی حیثیت اتنی زیادہ ہے کہ اس کارڈ اور ممبر شپ کے ذریعے آزادکشمیر
کے صحافی دنیا کے کسی بھی ملک میں صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے یا انٹر
نیشنل کانفرنسز اٹینڈ کرنے کے لیے جا سکتے ہیں ۔اسی دوران شوکت مجید ملک نے
ایک انتہائی مزے دار فقرہ کہہ دیا ۔انہوں نے کہا کہ صحافت نہ تو کوئی
کاروبار ہے اور نہ ہی کوئی پیشہ بلکہ صحافت ایک ” کھرک “ کا نام ہے ۔یہ
جملہ ان کے منہ سے نکلنا تھا کہ راقم کی شاعرانہ رگ پھڑک اٹھی اور راقم نے
بے ساختہ با آواز بلند انہیں خراج تحسین پیش کیا اور کہہ دیا ”ملک صاحب عزت
افزائی کا شکریہ “اس پر انتہائی ذہین بیوروکریٹ شوکت مجید ملک سیکرٹری
اطلاعات نے مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ صحافت رگوں میں دوڑنے والے
انقلابی خون کا نام ہے جو سچ کی تلاش کے لیے مارا مارا پھرتا ہے اور ایک
صحافی معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
قارئین اگر ہم اپنی صحافت اور استاد محترم راجہ حبیب اللہ خان کی سکھائی
ہوئی صحافت کی بات کریں تو یقین جانیے صحافت جان کو ہتھیلی پر رکھ کر جہاد
کرنے جیسا ایک کام ہے کیونکہ جب آپ سچ لکھتے ہیں تو اپنے بھی آپ سے خفا
ہوتے ہیں اور بیگانے بھی آپ سے نا خوش رہتے ہیں ۔صحافت اگر سچے انداز میں
کی جائے تو انعام میں ” سقراط کو ملنے والا زہر کا پیالہ “بھی ملتا ہے اور
ولی خان بابر کی طرح تاریک راہوں میں موت بھی آپ کا پیچھا کرتی ہے ۔نہ مالِ
غنیمت نہ کشور کشائی ۔۔۔۔
بقول چچا غالب ہم نے میدان صحافت میں شاید یہی سیکھا ہے ۔
بازیچئہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اور نگِ سلیمان مرے نزدیک
ایک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے
جُز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جُز و ہم نہیں ہستی اشیا مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
مت پُوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
سچ کہتے ہو خُود بین و خُود آرا ہوں نہ کیوں ہُوں؟
بیٹھا ہے بُتِ آئینہ سیما مرے آگے
پھر دیکھیے اندازِ گُل افشائی گفتار
رکھ دے کوئی پیمانہ و صہبا مرے آگے
نفرت کا گمان گزرے ہے میں رشک سے گزرا
کیوں کر کہوں لونام نہ ان کا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آکے
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلا مرے آگے
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے
ہے موجزن اک قلزم خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے
گوہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہم پیشہ وہم مشرب وہم راز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
قارئین صحافت ایک انتہائی مقدس ،معزز اور مشکل پیشہ ہے اور ہم ایمان کی حد
تک یقین رکھتے ہیں کہ گدھ کی طرح مردار کھانے کی بجائے اگر علامہ اقبال ؒ
کا شاہین بن کر زندگی گزاری جائے تو صحافت کے پیشے میں عزت بھی ہے اور شہرت
بھی ۔ رہی بات رزق کی تو ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ
بزرگ و برتر نے ہر انسان کے پیدا کرنے سے پہلے اس کا رزق لکھ دیا ہے اب اس
انسان پر منحصر ہے کہ وہ حرام کھاتا ہے یا رزقِ حلال کھانے پر یقین رکھتا
ہے۔ ایک اور حقیقت آپ سے ہم شیئر کرتے چلیں کہ پاکستان آزاد کشمیر اور
میرپور کے تمام صحافی بھائی انتہائی مشکل حالات میں صحافتی ذمہ داریاں ادا
کر رہے ہیں اور اس پیشے کے تقدس کو قائم رکھتے ہوئے اس پیشے کے فرائض ادا
کرنا کسی جہاد سے کم نہیں ہے۔ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قلمی
مجاہدوں کی مشکلات دور کرے تاکہ وہ اپنے بال بچوں کا پیٹ بھی پال سکیں اور
”صحافتی کھرک “ بھی پوری کر سکیں۔ یقینا سیکرٹری اطلاعات شوکت مجید ملک کی
نیک خواہشات بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک اشاعتی ادارے کے مالک کو ایک عورت کا خط ملا جس میں لکھا تھا
”میری شادی کو دس سال ہوئے ہیں اور میرے دس بچے ہیں ، میں بچوں کی پیدائش
کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتی ہوں آپ کا کیا مشورہ ہے؟ “
پبلشر نے جواب لکھا
”محترمہ میرا مشورہ ہے کہ آپ اس موضوع پر کچھ لکھنے کی بجائے کچھ پڑھنا
شروع کر دیں۔“
قارئین جب سے ہمیں پتا چلا ہے کہ صحافت ایک کھرک ہے تب سے ہم بھی سوچ رہے
ہیں کہ کچھ لکھنے کی بجائے اب کچھ پڑھنا شروع کر دیں۔ اللہ ہم سب صحافیوں
پر رحم فرمائے آمین۔ |