خدا کرے کہ ایک دن وہ بھی آئے کہ
پاکستان کے باشندے پھر سے یکجا ہو جائیں، تفرقہ، مصلحت پسندی، آپسی دشمنی
کو چھوڑ کر پھر سے سر جوڑ کر بیٹھیں۔ کیونکہ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم تلے
یکجا ہونا آج کی اشد ضرورت ہے۔ سیاست بھی ہو مگر امن و امان قائم رہے، عوام
کو بنیادی ضرورتیں میسر رہیں، پیار کی ٹھنڈی ہوا سے بہار آجائے، محبت بڑھے
گی تو دشمنی مٹے گی، ملک میں تجارت کا فروغ ہوگا تو غریبی دور ہوگی، کاش!
عوام میں اس کے لئے بیداری آ جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو ہم یورپ سے بھی
زیادہ ترقی کر سکتے ہیں۔ خوشحالی کا دریا رواں ہو سکتا ہے، کاش! وہ دن جلد
آجائے۔ لیڈران سیاسی داﺅ پیچ بھول کر انسانوں میں پیار جگائیں جیسا کہ شاعرِ
مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے یہ خوبصورت شعر ہندی میں کہا تھا۔
بھگتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پریت میں ہے
کاش میرے علامہ اقبال کی یہ آرزو، یہ تمنا لیڈروں اور لوگوں کے دلوں میں
اُتر جائے۔اور ایک بار پھر سے قائد اعظم کا پاکستان بن جائے جہاں ہر چیز کی
فراوانی ہو، عوام خوشحال رہیں، ملک ترقی کرے، اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو
سچی سمجھ عطا فرمائے۔کیونکہ اب ہمارے یہاں وہ حالات نہیں رہے جیسے پہلے تھے۔
یہاں کے حالات اور ماحول میں زبردست تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ آج لوگوں کو
نوکریاں نہیں ملتیں، نئے افراد کو ملازمتیں حاصل کرنے میں کافی شواریوں کا
سامنا کرنا پڑتا ہے مطلب یہ کہ ملازمتوں کا حصول اب پہلے کی طرح آسان نہیں
رہا۔ نیز یہاں کھانے پینے کی اشیائ، گھروں کے کرائے، اسکول کی فیس اور
بنیادی اشیاءکی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے جس سے عام آدمی کی
زندگی پر کافی اثر پڑ رہا ہے۔
خونِ ناحق چاہے شہنشاہِ وقت کا ہو یا جھونپڑی میں رہنے والے بے سہارا انسان
کا ، وہ لائق مذمت ہے اور قاتل چاہے جو بھی ہو وہ قابلِ نفرت اور مستحق سزا
ہے۔ ایسا قانون بننا چاہیئے کہ قاتلوں کو فوری سزا مل سکے۔ پاکستان میں امن
و امان کی دگر گوں صورتحال کو یہاں کے عوام سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ جن
کا اپناکفن پہن کر منوں مٹی تلے چلا جائے اس کا دکھ امرا ءسمجھ نہیں سکتے۔
عوام کے ساتھ ہونے والی ظلم و بربریت کے خلاف کوئی ٹھوس حکمتِ عملی وضع
نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی مضبوط آواز اس مطالبے کو لے کر اُٹھی ہے جس کی
وجہ سے آج تک یہاں کی صورتحال ناگفتہ با ہے۔
وطنِ عزیز میں جیسے جیسے الیکشن کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے سیاسی
پارٹیوں کی سرگرمیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں اور تمام سیاسی پارٹیوں میں ایک
اضطرابی کیفیت پائی جا رہی ہے۔ کیونکہ اکثر سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں جس سے
ملک کے عوام خوش نہیں ہیں۔ قومی پارٹیوں کے علاوہ صوبائی سطح کی پارٹیوں
میں بھی بے چینی کا عالم نظر آتا ہے اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ عوام میں
جاتے ہوئے ڈر رہے ہیں کیونکہ پچھلے پانچ سالوں میں عوام کو کچھ بھی ڈیلیور
نہیں کیا گیا ہے۔ اس لئے ابھی تک انتخابی مہم میں بھی وہ گرمائیش دیکھنے کو
نہیں مل رہی ہے ۔ عوام کے لئے کام کرو گے تو سیاسی وجود برقرار رکھ سکو گے
اور اگر صرف نام کے لئے کام کرو گے تو نام خود ہی مٹ جائے گا۔ اس لئے مشورہ
ہے کہ نام و نمود، شہرت و جاہ سے بچے رہو اور مخلص ہو کر عوام کے مسائل کو
حل کیا جائے تاکہ عوام میں آپ کی جڑیں مضبوط رہیں۔شاعر سے بہت معذرت کے
ساتھ:
لوگ تو سیب سے گالوں پہ غزل لکھتے ہیں
ہم مگر سوکھے نوالوں پہ کالم لکھتے ہیں
ہم نے بھی پائی ہے کانٹوں کی چبھن سے راحت
اس لئے پاﺅں کے چھالوں پہ کالم لکھتے ہیں
عوام آج فریادی ہو گئی ہے ۔ اپنے ہی حکمرانوں سے فریادکر رہے ہیں کہ انہیں
امن و امان دے دو، مہنگائی سے چھٹکارا دلا دو، لوڈ شیڈنگ کا کچھ حل دے دو،
بیروزگاری کا خاتمہ کر دو، مگر یہ تمام فریادیں بے سود ثابت ہو چکی ہیں اور
حکمران سوائے نام کے حکمران ہونے کے اور کچھ نہیں کر رہے۔ لوگوں کی آنکھیں
ان سب مسائل کی تعبیر دیکھنے کو ترس رہی ہیں ، اور اس انتظار میں جوان
آنکھیں بوڑھی ہونے کو ہیں ۔ حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں مگر عوام کی
داد رسی کسی نے بھی نہیں کی۔ اور پچھلا پانچ سال تو عوام پر ایسا گزرا ہے
کہ عوام کی چیخیں ہی نکل گئی ہیں۔ ہر طرف مارا ماری کا بازار گرم کر دیا
گیا ہے۔ شہرِ قائد میں کوئی بھی انسان اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتا ،
یہاں زندگی کی قیمت ایک گولی ہے اور بس! کب ، کہاں، کسے یہ گولی نگل لے
کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔بس عوام اللہ کے آسرے پر جی رہے ہیں۔ خدا سب کی
حفاظت فرمائے۔
پاکستانی قوم ہمیشہ اپنے ملک سے حب الوطنی اور وطن پرستی کا نمونہ بنے رہے
ہیں، جب بھی اس ملک کو لہو کی ضرورت پڑی ہے عوام اپنے فوجی جوانوں کے ساتھ
صفِ اوّل میں رہے ہیںاور کبھی بھی اپنے وطن کا سر جھکنے نہیں دیا۔ مگر آج
انہی پاکستانیوں کی چھاتی پر تعلیمی، تہذیبی، اور معاشرتی لحاظ سے پیچھے
کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ،اور بہت منظم طریقے سے انہیں ترقی کی
راہ سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی ہے، ایسا کون کر رہا ہے ، اس کے
پیچھے کن افراد کا ہاتھ ہے یہ سوچنا حکومت کا کام ہے مگر وہ صرف اپنا سَر
کھجا کر رہ جاتی ہے۔ آج قاتل کھلے عام گھوم رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان
کی جمہوریت اور حکومت دونوں پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔ مگر ابھی بھی
انسانیت کو شرمسار اور پاک سر زمین کو ناپاک کرنے والے ظالموں کو سزا ملنا
تو دور کی بات ہے ان میں سے بہتوں کے خلاف تو کوئی کاروائی بھی نہیں ہو
رہی۔
ہماری سرکار صرف وعدو ں اور یقین دہانیوں کی سرکار ہے ، اس میں جتنی غلطی
سرکاروں کی ہے اس سے کہیں یہاں زیادہ قصور ہماری سیاسی بے وزنی، بے وقعتی،
لاچاری اور بے بسی کا ہے جس کی وجہ سے کئی سالوں میں ہم دہشت گردانہ
معاملوں میں ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکے۔
عوام فریاد کر تی ہے کہ انہیں تعلیمی ، معاشی اور سیاسی سطح پر کمزور کرنے
کی سازش کرنے والوں کا قلع قمع کیا جائے جس کی ذمہ دار کہیں نہ کہیں تو
حکومت بھی ہے۔ عوام ایسے نازک حالات میں صرف اللہ کی ہی مدد و نصرت کی آس
لگائے بیٹھے ہیں کیونکہ حکمران تو عوام کی داد رسی چاہتے ہی نہیں۔ اگر
چاہتی تو ریاست سے زیادہ طاقت ور ظالم نہیں ہوتا اور کب کا اس کا قلع قمع
کر دیا جاتا۔اب دیر مت کیجئے کیونکہ اگر انتظار بھری آنکھوں میں مایوسی کی
دوپہر اُتر آئی تو یہ بہت بڑا خسارہ ہو سکتا ہے۔ آیئے دعا کریں کہ اللہ
ہمیں ان ظالموں کی مکاری و عیاری اور سازشوں سے بچائے اور ترقی کی راہ پر
گامزن کرے اور ہمارا پیارا وطن دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ |