ہمارے ملک میں الیکشن سے پہلے
امیدواروں کی سکروٹنی کا مرحلہ مکمل ہوچکا اور اب اعتراضات داخل کرانے کے
بعد ان کے فیصلے کئے جارہے ہیں۔ نا اہل ہونے والوں میں سے اکثر جھوٹے اور
دغا باز لوگ ہیں جنہوں نے اپنی اسناد کو غلط طریقے سے استعمال کیا اور اپنے
اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے ملکی اور عوامی پیسے کو بے دریغ استعمال
کیا اور حکومت (عوام )کو اربوںروپے کا ٹیکہ لگایا ۔عوام کو ننگے بدن رہنے ،
بھیک مانگنے بھوکا سونے پر مجبور کردیا جس سے معاشرے میں بدامنی کی فضا
قائم ہوئی اور ایسی قائم ہوئی کہ ہر جگہ لاقانونیت دکھائی دیتی ہے امیر
غریب سب جائز و ناجائز حربے استعمال کرکے ایکدوسرے کا خون چوستے نظر آتے
ہیں کوئی پرسان حال نہیں کوئی مسیحانہیں کوئی غمخوار نہیں۔
نگران حکومت بھی اللے تللوں پر لگی ہوئی ہے سوائے اجلاس بلانے او ر کمیٹیاں
بنانے کے کوئی عملی کام نظر نہیں آتا۔ لے دے کہ ایک عدلیہ رہ گئی ہے جسے اب
”استادوں“کی طرح ہر کام میں استعمال کیا جارہا ہے اور الیکشن میں اپنی ذمہ
داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس پر بھی اب ایک مخصوص
طبقے(خائن اور جھوٹے)کی جانب سے انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ کہ سوالات
پوچھنا چاہئے تھے کہ نہیں پوچھنا چاہئے تھے اور اگر پوچھنا تھے تو اسلام سے
متعلق نہیں ہونا چاہئے تھے ہاں اگر یورپ کے بارے میں کسی اداکار کے بارے
میں کسی کرپٹ معاشرے کے بارے میں پوچھا جاتا تو نہایت فصاحت و بلاغت سے
ریٹرننگ آفیسرز کو جوابات سے تشفی کرائی جاتی
یہ ایک مسلمان کا حال ہے کہ جسے معلوم نہیں کہ مغرب کی کتنی رکعت ہوتی ہیں
جسے معلوم نہیں کہ عشاءکی نماز وتر میں کونسی دعا پڑھی جاتی ہے جو نہیں
جانتا کہ کتاب مقدس قرآن کریم کے کل پارے کتنے ہیں سب سے زیادہ استعمال
ہونے والی سورہ اخلاص کا یاد نہ ہونا”رحمان ملک کی طرح“ وہ نہیں جانتا کہ
دوسرے کلمے کی اسلام کے بنیادی عقائد میں کیا اہمیت ہے لیکن وہ قانون سازی
کی سیٹ پر بیٹھ کر قانون سازی کررہے ہوتے ہیں اور پھر یہی قوانین ان کے گلے
کا پھندہ بن رہے ہوتے ہیں تو ان کو غلط اور انسانیت کے حلاف گردان رہے ہوتے
ہیں اور عوام کی بھلائی اور فلاح کی بات تو ان سے کرنا ہی فضول اور بے معنی
ہے-
بہرحال بات ہورہی تھی کہ دھوکہ فریب جعل سازی بے ایمانی جھوٹ ہٹ دھرمی کی
جن کی بنا پر معاشرے میں نقص امن کی صورت حال پیدا ہوگئی ان کو کیسے قابو
کیا جائے ۔ در حقیقت صورت حال بھی ہماری ہی پیدا کردہ ہے اگر ہم خود اپنے
آپ کو صحیح کرلیں تو ہر دن عید کا دن ہوگا اس دن میرا حکمران بھی ایک نیک
نیت اور پارسا انسان ہوگا پھر ہر تحریک تحریک انصاف ہوگا ہر لیگ مسلم لیگ
ہوگی ہر پارٹی پیپلزپارٹی ہوگا ہر موومنٹ متحدہ موومنٹ ہوگی ہر جماعت جماعت
اسلامی ہوگی اور اگر انقلاب چاہتا ہوں اور تبدیلی چاہتا ہوں تو مجھے پہلے
خود کو بدلنا ہوگا پھر مسجد اقصی کو بچانے ایوبی بھی آئیگا دیبل میں بہن کی
عزت و عصمت بچانے محمد بن قاسم بھی آئیگا اور اگر ہمارا منشور اصلاح اور خو
د احتسابی بن جائے تو پاکستان میں اسلام اور آئین کی بالادستی قائم ہوجائے
گی -
امن و امان قائم کرنے کیلئے امیر و غریب کو یکساں معیار اور کسوٹی پر رکھنا
ضروری ہے مرتکب افراد کو سزا دینا نہایت ہی لازمی جزو۔حضرت علیؓ کی مثال سے
اس کو باآسانی ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ایک روز آپؓ مدینہ سے باہر سفر میں
تھے آپ نے دو نوجوانوں کو گتھم گتھا دیکھا اپنی سواری سے نیچے اترے اور
دونوں کو الگ الگ کردیا سواری پر سوار ہوگر چند قدم چلے ہونگے کہ ان میں سے
ایک نوجوان کی فریاد سنی کہ کوئی ہے میری مدد کرنیوالا آپؓفورا اس کی جانب
گئے اور فرمایا مدد آگئی کہو کیا معاملہ ہے؟تو اس نے کہا کہ میں نے اس
دوسرے شخص سے کپڑے کا سودا کیا اورکہا کہ مجھے بدلے میں کھوٹے سکے نہ دیگا
لیکن اس نے مجھے کھوٹے سکے دے دیئے اور اب واپس بھی نہیں کررہا اور مجھے اس
نے منہ پر طمانچہ بھی مارا ہے۔
حضرت علی نے فرمایا کہ ”سکے بدلوانے کی تم فکر نہ کرو یہ تومیری ذمہ داری
ہے کہ میں کھوٹے سکوں کے بدلے کھرے سکے تمہیں دلواﺅں البتہ طمانچہ مارنے کا
تمھیں ثبوت دینا ہوگا“نوجوان نے فورا دو گواہ پیش کردیئے جنہوں نے تصدیق
کردی کہ واقعی تھپڑ مارا گیا ہے۔ آپؓ نے مجرم کو پکڑ لیا اور نوجوان کو کہا
کہ اس کے منہ پر بھی اسی طرح طمانچہ مارے لیکن اس نے کہامیں اسے معاف کرتا
ہوں آپ نے فرمایاکہ تمہیں اس کا اختیار ہے کہ بدلہ لو کہ معاف کردولیکن
حکومت کی طرف سے بھی اس پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے کہ اس نے معاشرے کے امن
کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے اور وعدہ خلافی کی ہے اور اپنی غلطی پر نادم
ہونے کی بجائے طاقت کااستعمال کیا ہے۔حکومت اس حق کو نہیں چھوڑے گی کیونکہ
امن عامہ کا قیام اور کمزور شہریوں کے حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے
اور ایک اسلامی ریاست کا فریضہ ۔ اس لئے میں اس کو درے لگانے کا حکم دیتا
ہوں
اور قارئین کرام اس کو درے لگائے گئے اوروہ مناظر مورخین نے قلم بند کرلئے
تاکہ آئندہ نسلوں کو باور کرایا جائے لیکن ....؟ اور آج کی اسلامی حکومت و
ریاست میں یہ سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر ہورہا ہے لیکن نہ درے لگانے والے ہیں
اور نہ ہی کھانے والے۔ سب ننگے دھڑنگ ہوکر حمام میں موجود ہیں اور نائیوں
کے ہاتھ ان کی عزت ۔تو آئیے تبدیلی کا عمل شروع کرتے ہیں اپنے آپ سے اپنے
گھر آج سے اور ابھی سے............ |