وطن عزیز معرض وجود میں آیا ہی
تھا کہ چند ہوس پرست اور بے رحم ہاتھوں نے اغواءکر کے طبقاتی تفریق کے
لعنتی کلچر میں دھکیل دیا ۔مزدور سے لے کر اقتدار تک اور مقدس نظریات سے لے
کر ذرائع معاش تک تما م اقدار کو تہس نہس کیا جانے لگا ۔نت نئے بحرانوں سے
وطن کی کشتی طغیانیوں کے بھنور سے ڈگمگاتی ہوئی تاروں کو گن گن کر شب کو
سحر کرنے لگی ۔وطن عزیز نے آمریت کے دور بھی دیکھے اور نام نہاد جمہوریت کا
چرچا بھی سنا لیکن چند ادوار کے علاوہ پاکستان میں طبقاتی سسٹم کو فروغ دیا
گیا ۔مفادات کی جنگ اور خود غرضی کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ پاکستان
کے چند علاقے تو پیرس کا حلیہ پیش کرنے لگے جب کہ جو ارباب اقتدار کا قرب
حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے وہ آج بھی افریقہ کے جنگلوں کی طرح نوحہ
کناں ہیں ۔طبقاتی نظام ملکی تاریخ کا المیہ ہے کہ چند خاندان اپنی اپنی
باری سے بر سر اقتدار آجاتے ہیں اور اپنے ہم مزاج مگر مچھوں سے مک مکا کر
کے اپنا دورانیہ پورا کر لیتے ہیں تبدیلی کے نام پرسادہ لوح عوام سے ووٹ لے
کر وعدوں کے خلاف کرکے عوام سے مذاق کرتے ہیں ۔
گزشتہ دس سالوں کو نام نہاد سیاستدان جمہوریت کی کامیابی اور ملکی تاریخ کا
اہم سنگ میل قرار دے رہے ہیں ۔اگر ان کے ایک ایک بیان پر تجزیہ کیا جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے خالی ڈھول ہیں ۔جھنگ وسط پنجاب میں واقع
جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا اہم حصہ ہے ۔تقریباً چھے لاکھ آبادی والا یہ
ضلع تاحال بنیادی اور معیاری سہولتوں سے محروم ہے ۔اس وقت تک جھنگ میں کوئی
اچھا سرکاری ہسپتال نہیںجو ان چھ لاکھ بیچاروں کو معیاری اور مفت علاج
فراہم کرسکے ۔جھنگ کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس
میں سات شوگر ملیں ہیںجن سے ٹیکس کی بھاری مقدار حکومت کو وصول ہوتی ہے
لیکن بائی پاس فیصل آباد کی زینت بنتے ہیں ۔ زرعی لحاظ یہ ضلع پنجاب کو
شوگر ،کپاس اور چاول سمیت اہم برآمدات میںمدد فراہم کرتا ہے ۔ ایگریکلچر کا
respectable market export shareجھنگ سے پیدا ہوتا ہے لیکن ایگریکلچر
یونیورسٹی قائم کرنے کا کوئی نام نہیں لیتا ۔پچھلے سال جھنگ نے پنجاب میں
تعلیمی میدان میں اول پوزیشن حاصل کی لیکن چند ٹکے دے کر بد دیانتی کا ثبوت
دیا گیا ۔اہل جھنگ 1972کو یاد کر کے کیا روئیں ۔ان کی اپنی سرزمین کو
موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں چار لخت کردیا گیا ہے ۔الگ الگ ضلع بنانے کی
سیاست کی جاتی رہی ہے ۔سکڑتا ہوا جھنگ اب دیہاتوں پر مشتمل ہے ۔مقدار
خواندگی کی پوزیشن 28فیصد ہے جس کو بیان کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے ۔انٹرٹینمنٹ
کے لئے کوئی قابل ذکر پارک ہے نہ کوئی اچھا پلے گراﺅنڈ ۔دوران سروے مشاہدہ
کیا تو معلوم ہوا کہ احمدپور سیال جو جھنگ کی تحصیل ہے وہاں ایسے بھی
دیہاتی مراکز صحت موجود ہیں جو ہسپتال نہیں بلکہ وحشت کا گھر ہیں ان میں
جانے کا اتفاق بھی ہوا جن میں جاتے ہوئے واقعی وحشت ہوتی ہے ۔اڈا پیر
عبدالرحمانؒ کے قریب واقع ایک دیہی مرکز صحت ایسا بھی تھا جو بھینسوں کا
باڑہ لگتا تھا ۔بیچارے مریض دس دس کلو میٹر پیدل یا بائی سائیکل اور بیل
گاڑیوں پر سفر کرکے یہاں پہنچتے ہیںاور ایک ڈسپنسر سو نخرے کرنے کے بعد
اپنی سروسز فراہم کرتا ہے ۔پرائمری سکول پنجاب کے نہیں بلکہ سوات اور
وزیرستان کے شورش زدہ لگ رہے تھے۔ سابقہ دس سالوں میں جھنگ سے منتخب ہونے
والے سابق ایم این اے شیخ وقاص اکرم نے اسمبلی کے فورم پر خوب ہلہ گلہ کیا
لیکن ان کا سارا درد اور غصہ اپنے سیاسی مخالفین کے ارد گرد ہی گھومتا رہا
۔اس سارے دور میں نہ تو ان کو جھنگ کی کوئی سوجھی نہ اہل جھنگ کی ۔پورے دس
سالوں میں حکومتی اتحادی ہونے کے ساتھ کبھی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین یا
کبھی وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے لیکن اسمبلی سے جھنگ کی ترقی کے لئے کوئی
قرارداد منظور کروائی نہ فنڈز جھنگ کے مقدر بن سکے ۔
بد قسمتی سے جھنگ کو ایسے بھی عوامی لیڈر ملے ہیں جو کالج بننے کے مخالف
بھی تھے ۔ کیاامید کی جائے گی ایسے عوامی لیڈر سے کہ وہ قوم کی ترقی میں
کردار اداکریں گے ۔ جس عوامی نمائندے کے ہاں تعلیم کی یہ حیثیت ہے کہ وہ
خود جعلی ڈگری بردار بن کر دس سالہ آئین کی آرٹیکل 62اور 63کی دھجیاں اڑاتے
رہے ،وہ کیا جھنگ کے لئے یونیورسٹی بنانے میں کردار ادا کرتے ۔ جھنگ کے
دوسرے حلقہ سے منتخب ہونے والے ایک رکن اسمبلی نے دس سال عوام کی نمائندگی
کی لیکن حضرت پیر سائیں کی زبان سے نکلنے والاکوئی لفظ اسمبلی کے بدنصیب
فورم کو نصیب نہ ہوسکا ۔یوں وہ بھی 155گونگے ارکان کی لسٹ میں شامل رہے ۔ایسے
دور میں جب اپنے حقوق کو منوایا نہیں بلکہ چھین کر لانا پڑے تو ایسے گونگے
عوامی لیڈران عوام کے لئے کیا کچھ لائیں گے ۔اگر اہل جھنگ مولانا اعظم طارق
شہید ؒ کو اسمبلی میں نہ پہنچاتے تو یقیناسوئی گیس سے عوام تاحال محروم ہی
رہتے ۔
انسان کو بنیادی طور پر اگر صحت اور تعلیم نہ ملیں تو مایوسی کا پیدا ہونا
ایک فطری عمل ہے لیکن اگر اس مایوسی کی بنیاد پر اپنے آپ کو غاروں میں
دھکیل دے تو یہ گناہ ہے ۔ دوران سروے حکمرانوں سے مایوس مگر فلک بوس عزائم
کے حامل چند ضلع کے بلاصلاحیت ،باشعور اور تعلیم یافتہ افراد سے ان کا درد
دل سننے کا موقع بھی ملا جو تقریبا ًمیدان عمل میں اتر چکے ہیں ۔تعمیر ملت
پاکستان کے نام سے وہ جھنگ کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔اس نو مولود تنظیم کے
چیئرمین سے ملاقات ہوئی تو انہوں اپنے کام کا طریقہ بتایا تو بھلا لگا اس
لئے قارئین کی نذر ہے ۔انہوں نے بتایا ”1۔ہم معاشی لحاظ سے جھنگ کی برین
ڈرین کا خاتمہ اس انداز میں کریں گے کہ جو Investorsجھنگ سے تعلق رکھتے ہیں
ان کی profileتیار کی جاچکی ہے ۔دوسرے مرحلے میں ان کی ذہن سازی کے لئے
تعمیر ملت ایسے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کرے گی اور ان کی ذہن سازی
کی جائے گی کہ جھنگ کا بھی آپ پر کچھ حق ہے اس لئے Industriesکے یونٹس جھنگ
میں قائم کئے جائیں تاکہ غریب طبقہ کو روزگار اور جھنگ کو معاشی ترقی ممکن
بنائی جائے اور اس ٹارگٹ کو حاصل کیا جا سکے ۔ 2۔تعلیمی ترقی اس وقت تک
ممکن نہیں جب تک جھنگ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹی کا قیام عمل میں
نہیں لایا جاتا ۔اس کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے سیاسی نمائندوں کو مجبور
کیا جائے گا کہ جو وہ چکا اب اس پہ سر پیٹنے کا وقت بھی بیت چکا ہے لہٰذا
اب آنے والے انتخابات میں نوجوان ووٹ ان کو دے کر اسمبلی کی زینت بنائیں گے
جو حکمرانوں سے کم از کم یونیورسٹی چھین کر عوام کی گود میں ڈالیں گے تاکہ
جھنگ کا مستقبل اپنے آبائی شہر میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے ۔اس کو عملی
جامہ پہنانے کے لئے man to man ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور جھنگ کے
نوجوانوں کی بڑی تعداد اس دوٹوک مو ¿قف پر دست بیعت ہوچکی ہے ۔3۔اچھے
ہسپتال کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے عوامی شعور بیداری مہم چلائے گی کہ
اس بار جو بھی ووٹ کا سوال کرے گا وہ یہ عوام سے معاہدہ کرے گا کہ جھنگ کے
لئے اگر اچھا ہسپتال نہیں لاسکا تو مجھے عوامی نمائندگی کا کوئی حق نہیں
۔نالی ، سولنگ اور روزگار کے خواب دکھانے سے اس بار کام نہیں چلے گا ۔4 ۔
جھنگ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی مایوسیوں کے ازالے کے لئے اس کو ڈویژن کا
درجہ دیا جائے تو اس حوالہ سے دبے دبے لفظوں میں کچھ تحریکی انداز میں کام
ہورہا ہے ،تنظیم ان درد دل رکھنے والوں کے ساتھ رابطہ کر کے ان کے دست
وبازو ہی نہیں بلکہ صف اول کا کردار ادا کرے گی “۔
یقینا تمام جھنگ کے باسیوں کے لئے یہ امید کی کرن ہے ۔اگر یہ تنظیم اپنے
اسی راستے پر چلنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور coming election میں متوقع
منتخب نمائندوں کی توجہ اس طرف مبذول کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو
یقینا جھنگ اور اہل جھنگ کی تاریخ کا اہم سنگ میل ثابت ہوگا ۔اس لئے اس
تنظیم کے ارباب سے گزارش ہے کہ مسلکی منافرت اور ذاتی تعصب کو نظر انداز
کرکے پورے ضلع کے نوجوانوں کی ایک آواز بنانے کے لئے باقاعدہ کمیٹی تشکیل
دی جائے اور تمام درددل رکھنے والے فورمز کے ساتھ بیٹھ کر اپنی آواز کو
موثر بنایا جائے ۔عین ممکن ہے کہ مئی کے بعد سے ہی آپ کا پیارا جھنگ ترقی
کی راہ پر چل پڑے اورمتوقع مستقبل کے حکمران میاں شہبازشریف صاحب سمیت
دوسرے ارباب اقتدار کو بھی اسے انداز میں نظر انداز کئے جانے پر ندامت ہو
اور اس کے ازالے کے لئے جھنگ ان کی آنکھوں کا تارہ بن جائے اور وہ بھی
عوامی جذبات کو دیکھ کر اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے اپنی تجوری جھنگ
کے لئے کھول دیں ۔ |