اِن میں سے کوئی نہیں!

نواز شریف صاحب نے فرمایا ہے کہ مہذب معاشروں میں ووٹ نہ دینا جرم ہے۔ آج ہم ببانگِ دہل اس جرم کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے عمرِ عزیز کے چونتیس سال گزرنے پر بھی آج تک ووٹ نہیں ڈالا۔ اور ہم ہی نہیں، ہمارے جاننے والوں میں اکثریت ان شہریوں کی ہے، جو اس سعادت سے اب تک محروم رہے ہیں۔ہاں!ہمارے کچھ دوست ایسے ہیں جو ووٹ کاسٹ کرتے ہیں تو وہ خود اس کاصاف اقرار کرتے ہیں کہ ہمارا ووٹ امیدوار کے امین، باکردار اور محب وطن ہونے کی بنیاد پر نہیں بلکہ لسانی و قومی بنیاد پر ڈالا گیاہے(ان دوستوں سے معذرت) ۔ بہرحال تمہید برطرف اس بار ہم نے پکا عزم کر لیا تھا کہ ہم پولنگ اسٹیشن ضرور جائیں گے۔ اور ہمارے اس عزم کے پیچھے الیکشن کمیشن کاملکی تاریخ کا وہ انوکھا فیصلہ تھا جس میں انہوں نے بیلٹ پیپر میں ایک خانہ خالی رکھنے کا ارادہ کیا ، جس سے ووٹر کو تمام امیدوار مسترد کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا،یعنی بار بار کے جانے پہچانے اور آزمائے چہروں کو مسترد کرنے کا حق ۔تفصیل یہ تھی کہ اگر خالی خانے میں 51فیصد ووٹروں نے مہر لگا کر تمام امیدواروں پر عدم اعتمادکا اظہار کر دیا تو اس حلقے کا الیکشن کالعدم قرار دیا جائے گا اور دوبارہ انتخابات کرایا جائے گا۔ کیا زبردست فیصلہ تھا، جسے بیک زبان ہو کر تمام پارٹی سیاستدانوں نے کارِ لاحاصل قراردیا ،اس فیصلے پر طرح طرح سے پھبتیاں کسیں اورپھریوں جمہوریت کے علمبرداروں نے جمہوریت کے نقصان کا واویلا مچا کر ایسا دباؤڈالا کہ یہ فیصلہ موخر کر نا پڑا۔

انتخابات میں بیلٹ پیپر پر ایک خانہ خالی چھوڑنایعنی ایک خانے میں”اِن میں سے کوئی نہیں“(none of the above) کا نشان پاکستان کی انتخابی تاریخ میں تو بے شک ایک انوکھی بات ہو گی، لیکن دنیا کے کئی ممالک میں انتخابات میں بیلٹ پیپر میں ایک خانہ ”ان میں سے کوئی نہیں“ کا رکھا جاتا ہے، اور یہ ممالک وہ ہیں جہاں پاکستان کی طرح ”جمہوریت“ کسی کوٹھے کی طوائف نہیں ، جس کے پیروں میں گھنگھروؤں کی زنجیر ڈال دی جاتی ہے ،بلکہ ان ممالک میں جمہوریت وہ پری ہے جو اپنے تمام حسن کے ساتھ آسمانِ سیاست میں اڑان بھرتی ہے۔ہم یہاں صرف دو مثالیں پیش کرتے ہیں، ایک ترقی یافتہ ممالک میں سے امریکا کی کہ وہاں انتخابی بےلٹ پیپرز کے آخر میںبھی ےہ خانہ موجودہوتا ہے۔ آپ سرچ انجن گوگل پرامریکا الیکشن2012ءسرچ کرلیجیے، آپ کے سامنے2012ءکے صدارتی الیکشن کا بیلٹ پیپر آ جائے گا، آپ ملاحظہ کر لیں گے کہ بیلٹ پیپر پر مٹ رومنی اور اوباما کے خانوں کے بعد( none of the above) کا خانہ موجود ہے۔ یعنی امریکی عوام کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اگر ان دونوں کو صدارت کے اہل نہیں سمجھتے تو دونوں کو مسترد کردیں۔ اس خانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مختلف سروے کرنے والی ٹیموں اور تھنک ٹینک کوعوام میں امیدواروں کی حقیقی ”مقبولیت“ کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔

دوسری مثال‘ترقی پذیر ممالک میں سے ہمارے برادر ملک بنگلہ دیش کی ہے....گو بنگلہ دیش میں جمہوریت کا حال کچھ ایسا تسلی بخش نہیں، لیکن بنگلہ دیش کے انتخابی بےلٹ پیپرز کے آخر میں بھی یہ خانہ موجود ہے۔اور اس سے بڑھ کر بنگلہ دیش کے ہر پولنگ سٹیشن کے باہر اور اندر بنگلہ دیش الیکشن کمیشن کی جانب سے پوسٹر لگائے جاتے ہیں کہ ووٹر جس امیدوار کو ووٹ ڈالنے جارہا ہے، کیا وہ دیانتدار ہے؟لہٰذا ہمیشہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالیے۔بنگلہ دیشی الیکشن کمیشن کے ان اقدامات کی وجہ سے تمام سیاسی پارٹیوں پر یہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ مقابلے میں ایسے امیدوار کو کھڑا کریں جس کی شہرت اچھی ہوتی ہے۔

جب دنیا کے دوسرے ممالک میںیہ مثال موجود ہے تو پھر ہمارے ہاں اس کو تمام سیاستدانوں نے اس شدت سے ردّ کیوں کیا؟ آخر انہیں کس بات کا خوف ہے؟ کیا اس بات کا کہ کہیں پاکستانی عوام کی انتخابی عمل سے لاتعلقی اور تمام سیاسی مداریوں پر عدم اعتمادی کھل کر سامنے نہ آ جائے۔اے کاش کہ یہ فیصلہ موخر نہ ہوتاتو ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ اس بار انتخابی نتائج سیاسی پارٹیوں کے لیے کافی حیرت انگیز ہوتے۔ موروثی سیاست کرنے والے چہروں کو لگ پتا جاتا کہ عوام ان کی شکلوں سے کتنے بیزار آ چکے ہیںاور ان کے دل فریب نعروں کاکیسا مضحکہ اڑاتے ہیں۔یہ محض زور بیان نہیں بلکہ کسی بھی حلقے میں جا کر ایک سروے کر لیں، خود جان جائیں گے کہ عوام کی اکثریت کو اب کسی کے بے روح نعروں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے،جس کا ایک واضح ثبوت عوام کی اکثریت کاانتخابات سے لاتعلق رہنا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ووٹرز ٹرن آؤٹ بمشکل تمام 30 سے 35 فیصد رہتا ہے، یعنی 65 سے 70فیصد ووٹرز ووٹ ہی نہیں ڈالتے۔جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ ہمارا شمار بھی انہی میںہوتا ہے، کیوں کہ جب ہم پورے خلوص سے یہ سمجھتے ہیں کہ جن امیدوار وں کے نام ہمارے سامنے انتخاب کے لیے پیش کیے گئے ہیں، وہ اس کے اہل نہیں تو ہم کیسے ان میں سے کسی کو سلیکٹ کر سکتے ہیں؟ا ور جب پہلی بار ہمارے ملک میں ہمارے جیسی خاموش اکثریت کو یہ موقع دیا جا رہا تھا کہ ہم موجودہ سیاسی چہروں سے کھل کر بیزاری کا اظہار کرسکیں تو یہ موقع ہم سے چھین لیا گیا۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ لازمی ووٹ ڈالنے کا قانون لایا جا رہا ہے، یعنی ہر شہری اس بات کا قانوناً پابند ہو گاکہ وہ ووٹ ڈالے ، اگر ایسا نہیں کرے گا تو وہ قانون کی نگاہ میں مجرم ہے جیسا کہ نواز شریف صاحب نے مہذب معاشروں کی مثال دیتے ہوئے بھی کہا، لیکن نواز شریف یہ بتائیں کہ انہوں نے مہذب معاشروں کے عوام کی مثال دی تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ مہذب معاشرے کے سیاستدانوں کی کوئی مثال بھی تو پیش کریں۔ اورپھر جب انتخابی بیلٹ پیپر پر خانہ خالی چھوڑنے کی مثال موجود ہے تو پھر وہ کیوں اس میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔

اگرلازمی ووٹ کاسٹ کا قانون بنتا ہے تو کوئی ہمیں یہ بتائے گاکہ قانون کی عدالت میں مجرم بننے سے بچنے کے لیے کیا آدمی اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرم بن سکتا ہے؟کیاہم قانون کی پابندی کی وجہ سے پولنگ اسٹیشن پر کھڑے ہو کرمحض اپنے ضمیر کو تسلی دینے کے لیے اپنے دل میں یہ حساب کریں کہ ان میں سے کون کم برا ہے اور کون زیادہ؟تا کہ کم برے کو ووٹ دے سکیں.... یا للعجب!
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174198 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More