امریکا ایک بار پھر حملوں کی زد میں

امریکی ریاست میساچوسٹس کے شہر بوسٹن میں میراتھن ریس کے دوران یکے بعد دیگرے تین بم دھماکوں میں بارہ افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد زخمی ہو ئے ہیں۔ ایک دھماکا بوسٹن لائبریری کے باہر بھی ہوا۔ اطلاعات کے مطابق 17 افراد کی حالت تشویشناک ہے، بعض امریکی میڈیا کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 4 ہے جبکہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کی تعداد پچیس تک پہنچ چکی ہے۔امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق دھماکے دوڑ کے اختتامی پوائنٹ کے نزدیک ایک عمارت میں اس وقت ہوئے جب دوڑ کے شرکا وہاں سے گزر رہے تھے۔برطانوی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق 117 ویں سالانہ ’بوسٹن میراتھن‘ کا روٹ 42 کلومیٹر طویل تھا ۔میراتھن میں 96 ممالک کے ایتھلیٹس نے شرکت کی اور اس میں 28 ہزار کے لگ بھگ ایتھلیٹ شریک تھے۔میراتھن دوڑ میں شریک 17,600 افراد ان دھماکوں سے قبل ہی اختتامی یا فنش لائن عبور کر چکے تھے۔بوسٹن امریکا کی شمال مشرقی ریاست میسا چوسٹس کا صدر مقام ہے اور یہاں ہر سال ہونے والی میراتھن کا شمار شہر کی روایتی اور اہم ثقافتی سرگرمیوں میں ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے ایتھلیٹ شریک ہوتے ہیں۔ بوسٹن میراتھن کو امریکا کا ایک بڑا اسپورٹس ایونٹ قرار دیا جاتا ہے۔ بوسٹن شہر میں سرکاری طور چھٹی تھی۔انیسوں صدی کے آخر میں امریکا کے شہر بوسٹن میں شروع ہونے والی یہ میراتھن ریسں دنیا کی چھ بڑی میراتھن ریسوں میں شامل ہے۔

امریکی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق دھماکے کی جگہ سے کئی بم پھٹنے سے پہلے برآمد کرلیے گئے۔ دھماکوں کے بعد نیویارک سٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان ہے،نیو یارک اسٹاک ایکسچینج میں سونے اور تیل کے کاروبار میں گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ دھماکوں کے بعد بوسٹن میں پروازوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ موبائل فون بند کر دیے گئے۔ وائٹ ہاﺅس کے سامنے والا علاقہ بھی سیل کردیا گیا۔ امریکی پولیس کے مطابق دھماکوں کی جگہ سے متعدد دھماکا خیز ڈیوائسز ملی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دھماکوں سے مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق دونوں دھماکے اختتامی لائن کے نزدیک شمال میں واقع ایک عمارت میں چند سیکنڈ کے وقفے سے ہوئے جس کے باعث عمارت کے سامنے کھڑے کئی افراد زمین پر گر گئے۔ دھماکے کی آواز سن کر عمارت کے نزدیک پہنچنے والے کئی ایتھلیٹس نے خبر رساں اداروں کو بتایا ہے کہ انہوں نے جائے حادثہ پر کئی ایسے زخمیوں کو دیکھا جو اپنے ہاتھ یا پاﺅں سے محروم ہوچکے تھے۔ بوسٹن پولیس نے دھماکوں کے نتیجے میں ہلاکتوںکی تصدیق کی ہے۔ جائے حادثہ سے سو سے زائد افراد زخمی حالت میں ہسپتال بھی لے جائے گئے۔میراتھن ریس میں حصہ لینے والے ایک کھلاڑی کا کہنا تھا کہ یہ سب بہت خوفناک تھا اور لوگ گیارہ ستمبر کو یاد کرنے میں حق بجانب ہیں۔حال یہ تھا کہ ایک پرجوش، خوشی کا لمحہ دیکھتے ہی دیکھتے خون میں نہا گیا۔ دھماکے کے نتیجے میں شیشے ٹوٹ گئے اور یہ ٹوٹے ہوئے شیشے ہر طرف بکھرے ہوئے تھے۔وہاں زمین پر انسانوں کے جسم پڑے تھے، کچھ دوڑنے والے جنہوں نے دوڑ ختم ہی کی تھی خوف کے مارے چیخ یا رو رہے تھے جو ظاہر ہے اس دھماکے کے خوف کا نتیجہ تھا۔ یہ بہت افسوسناک ہے، بہت ہی افسوسناک۔یہ بہت بڑا دھماکا تھا اور جب پہلا دھماکا ہوا تو زمین زور سے ہلی، اسی اثنا میں دوسرا دھماکا ہوا اور اس کے بعد ہر کوئی خوف کے مارے دوڑنے اور علاقے سے بھاگنے لگا۔دھماکے سے افراتفری اور خوف و ہراس پھیل گیا ۔پولیس نے علاقے کو سیل کر دیا ۔ دوڑ ختم کرنے والے کینیڈا کے مائیک مچل نے بتایا کہ اس نے فنش لائن عبور کی تو پیچھے ایک بڑا دھماکا ہوا، اس کے بعد فضا میں 50 فٹ تک دھواں بلندہوا اور وہاں بھگدڑ مچ گئی۔ دھماکوں کے بعد متعدد ایمبولینسیں اور درجنوں پولیس کی گاڑیاں موقع پر پہنچ گئیں۔ امریکی صحافی تانیس کا کہنا تھا کہ میں تقریباً جائے دھماکا سے تین سو کلومیٹر دور تھی اور ایک ریس میں دوڑنے والے کا انٹرویو کر رہی تھی اور میرا کیمرا چل رہا تھا۔ اچانک میں نے زوردار آواز سنی جیسے ایک توپ چلی ہو اور اس کے نتیجے میں زمین لرز اٹھی۔میں نے آگ کا ایک بگولہ دیکھا اور پھر دھواں جیسے ایک توپ سے نکلتا ہے۔جو لوگ جائے دھماکا سے قریب تھے وہ بہت خوف کا شکار تھے ان کے چہروں پر شیشے لگنے سے کٹ لگے ہوئے تھے اور یہ سب دوڑ کر پناہ تلاش کر رہے تھے۔میں جب مزید قریب گئی تو میں نے سڑک پر خون اور انسانی جسم دیکھے اور پھر دوسرا دھماکا ہوا۔وہاں بہت افراتفری کا عالم تھا۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق بوسٹن میراتھن میں ہونے والے دھماکوں کے بارے میں صدر اوباما کو فوری طور پر مطلع کر دیا گیا تھا۔ امریکی صدر نے دھماکوں کے مقام پر موجود بوسٹن شہر کے میئر ٹام مینینو (Tom Menino) اور ریاست میساچوسٹس کے گورنر ڈیوال پیٹرک سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے تازہ ترین حالات سے آگاہی بھی حاصل کی۔ بوسٹن کی صورت حال کے بارے امریکی صدر کو داخلی سلامتی کی مشیر لیزا موناکو نے اوول آفس میں بریفنگ بھی دی۔امریکی صدر براک اوباما نے اپنے بیان میں کہا کہ ذمہ داروں کو تلاش کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔”ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ یہ کس نے اور کیوں کیا، تمام حقائق سامنے آنے سے قبل لوگوں کو نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن کوئی غلطی نہیں کریں گے اور اس معاملے طے تک پہنچیں گے۔“صدر اوباما نے کہا کہ ”جس نے یہ کیا ہم ا ±سے تلاش کریں گے“۔ اس بات کا پتہ لگایا جائے گا کہ یہ کیوں کیا گیا۔ وائٹ ہاو ¿س کے عہدیدار نے کہا کہ متعدد دھماکے ”واضح طور پر دہشت گردی ہے اور انہیں دہشت گردی کے واقع کے طور پر ہی دیکھا جائے گا۔“امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے تحقیقات کو’ممکنہ دہشت گردی‘ کی تفتیش بیان کیا ہے۔اگر تصدیق کی جاتی ہے کہ دہشت گردی کا واقعہ تھا تو یہ امریکا میں نائن الیون دو ہزار گیارہ کے بعد دہشت گردی کا بدترین واقعہ ہو گا۔بوسٹن پولیس کے مطابق تمام اہلکار چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں اور چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔مقامی پولیس کے سربراہ نے عوام کو گھروں میں رہنے کی تلقین کی ہے۔منگل کے روز وائٹ ہاو ¿س سمیت پورے امریکامیں امریکی پرچم سرنگوں رہے۔دھماکے کے خلاف اقوم متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے شدید مذمت کی۔واضح رہے کہ ان دھماکوں کے بعد امریکا میں رہنے والے مسلمان خوف کا شکار ہیں،ان کا کہنا ہے کہ امریکا میں کوئی واقعہ بھی ہوتا ہے تو یہاں رہنے والے مسلمانوں کو بہت زیادہ تنگ کیا جاتا ہے۔

پولیس کمشنر ایڈورڈ ڈیوس نے کہا کہ اس حملے سے متعلق مخصوص انٹیلی جنس معلومات نہیں تھیں اور حکام کے مطابق تاحال کسی نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔دھماکوں کے بعد امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی، نیویارک اور دیگر بڑے شہروں میں سیکورٹی انتہائی سخت کردی گئی ہے۔برطانیہ کے دارالحکومت لندن شہر کی پولیس نے بھی بوسٹن دھماکوں کے بعد اتوار کو ہونے والی ’لندن میراتھن‘ کے سیکورٹی انتظامات کا از سرِ نو جائزہ لینے کا اعلان کیاہے۔واضح رہے کہ امریکی حکومت ابھی تک ان دھماکوں کے ذمہ داروں کو پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ،البتہ امریکی میڈیا ان دھماکوں کی ذمہ داری القاعدہ پرڈال رہا ہے،میڈیا کے علاوہ بھی کچھ امریکی حلقے القاعدہ کو ان حملوں میں ملوث بتا رہے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ القاعدہ ایک بار پھر نائن الیون جیسی بڑی کارروئی کے گی،کیونکہ وہ مختلف ممالک میں امریکا کی جانب سے چھیڑی ہوئی جنگ کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔میڈیا کے مطابق امریکا میں شدت سے یہ خوف پایاجاتا ہے کہ القاعدہ کچھ ضرور کرے گی۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700746 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.