میں نے اپنے ایک مضمون "پیپلز پارٹی کا
پانچ سالہ دور حکومت" میں لکھا تھا
گذشتہ پانچ سال کے دوران زرداری حکومت کے دور میں دہشت گردی ، ٹارگیٹ کلنگ،
بدترین کرپشن ، بری گورننس، طویل لوڈشیڈنگ ، غربت کیساتھ اندرونی و غیر
ملکی قرضوں میں اضافہ ہوا ، مشرف دور کے 34 بلین ڈالر کے قرضے پانچ سال میں
ڈبل ہوگے، 62 روپے کا ڈالر اب 100 روپے کا ہے، ملک کے تمام ادارئے تباہ
ہوچکے ہیں۔ خود کش دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کی یلغار نےکوئٹہ اور پشاور جیسے
بڑے شہروں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے، کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے
اسکا وہ برا حال ہے کہ یہ شہر جو کبھی امن کا گہواراہ تھا آج لاقانونیت اور
لاشوں کا شہر بن چکا ہے، زرداری حکومت کے پانچ سالہ دور میں کراچی میں دہشت
گردی اور ٹارگیٹ کلنگ سے پانچ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، بھتہ خوری
اور اغوا برائے تاوان اس شہر میں عام بات ہے۔ سرکاری اور فوجی املاک پر
حملے ، فرقہ وارانہ نفرت ، بے روز گاری اور مہنگائی اس حکومت کے تحفے ہیں ۔کہنے
کو تو عدلیہ آزاد ہے مگر زرداری حکومت نے عدلیہ کے کسی بھی فیصلے پر کبھی
بھی عمل نہیں کیا۔ آصف زرداری، دو وزیراعظم ، وفاقی اور صوبائی وزرا نے
ملکر کرپشن اور بری گورننس کے حوالے سے ماضی کے کرپشن کےتمام ریکارڈ
توڑڈالے ۔ اربوں روپے کی کرپشن کر کے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان
پہنچایا اورملکی معیشت کو مفلوج بناڈالا"۔
یہ اوپر لکھی ہوئی باتیں زرداری اور پیپلز پارٹی کی بدترین کردگی کا منہ
بولتا ثبوت ہیں ۔ روٹی کپڑااور مکان کا نعرہ لگاکر چوتھی مرتبہ پیپلز پارٹی
نے پاکستان کو کسقدر پیچھے کردیا ہے یہ پورا پاکستان جانتا ہے۔ مگر تعجب ہے
کہ پیپلز پارٹی اور اسکے رہنمااس ڈھٹائی سے اپنی حکومت کے گن گا رہے ہیں کہ
جیسے انہوں نے پورئے ملک کو ایک مثالی ملک بنادیا ہوں۔ اپنے منشور میں تو
پھر روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا ہے مگر اخبارات اورٹی وی اشتہارات
کچھ اور ہیں۔ پیپلز پارٹی کی بدقسمتی کہ اس مرتبہ اُسکے پاس کوئی شہید بھٹو
بھی نہیں اس لیے ٹی وی کی حد تک تودو شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بےنظیر
بھٹو کے علاوہ ایک نام نہاد بھٹو یعنی بلاول سے کام چلارہے ہیں۔مگرپانچ سال
کی لوٹ مار کے بعد اب اخبارات میں پیپلز پارٹی کے نئے مالک آصف زرداری کی
تعریفوں کے اشتہارات آرہے ہیں۔ آج کے ایک اخبارکے پورئے آخری صفحہ پر آصف
زرداری کی تصویر کے ساتھ انکے جیل میں گذارئے ہوئے گیارہ سال کا ذکر ہے ۔
یہ یاد رہے کہ آصف زرداری نے جیل میں جو وقت گذارا وہ ایک لوٹ مار کے ملزم
کی حیثیت سے نہ کہ سیاسی قیدی کی حیثیت سے ۔اسکے علاوہ اشتہار میں جو بڑے
کارنامے جتائے گے ہیں ان میں بہت سے اختیارات اور شعبہ جات کو صوبوں میں
منتقلی کے لیے کی جانے والی آئینی ترامیم، اور چند مزید قانونی اصلاحات و
سطحی اقدامات شامل ہیں جن سے اس ملک کے عوام کی وسیع اکثریت کو کوئی سروکار
نہیں۔
اسکے علاوہ اسی اخبار کے صفحہ اول پر چوتھائی صفحہ پر بے نظیر بھٹو اور
بلاول کی تصویر کے ساتھ ایک اور اشتہار بھی کراچی سٹاک ایکسچینج کے حوالے
سے شایع ہوا ہے جس میں یہ دعویَ کیا گیا ہے کہ 2007-2008 میں کراچی سٹاک
ایکسچینج کے ایس ای 100 انڈیکس صرف 4800 پوانٹس پر تھا جبکہ 2013 میں 18500
پوانٹس پر ہے۔ اگرچہ عام لوگوں کا اس اشتہار سے کوئی واسطہ نہیں مگر حقیقت
یہ تھی کہ جس دن جنرل مشرف نے صدارت سے استفعی دیا اس دن کے ایس ای 100
انڈیکس 15400 پوانٹس پر تھا مگر اسکے بعد اس میں کمی آتی چلی گئی اور نوبت
یہاں تک آگی کہ چھوٹے سرمایہ دار تو تقریباٰبرباد ہوگے اور بہت سارئے لوگوں
کو یاد ہوگا کہ ٹی وی پر ان خبروں کے دوران لوگ رورہے ہوتے تھے۔بڑئے بروکرز
کا کام بھی ختم ہوگیا تھا اور تقریباٰ 9 ماہ سٹاک مارکیٹ میں کاروبار ہی نہ
ہوا اور تمام بڑئے بڑئے بروکرز نے اپنے ممبر سے اس عرصے کی فیس نہیں لی اُس
وقت تک 100 انڈیکس صرف 4800 پوانٹس پر پہنچ گیا تھا۔ پانچ سال میں پیپلز
پارٹی کا یہ بھی ایک کارنامہ تھا کہ 15400 کے انڈیکس کو 4800 پر پہنچادیا
تھا. اگر ملک کچھ ترقی کرتا تو آج یہ انڈیکس 20 یا 22 ہزارسے زیادہ پر ہوتا-
لہذا یہ اشتہار سراسر جھوٹ کا پلندہ ہے۔
حقیقت دیکھیں تو پیپلز پارٹی کا خاتمہ ہوچکا ہے ہاں اگر آج آپ پیپلز پارٹی
کے بارے میں مجھ سے پوچھیں تو میں پیپلز پارٹی کی تعریف کچھ یوں کرونگا "اس
وقت پیپلز پارٹی اصل معنوں میں ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ بھٹو خاندان کے
عشق میں مبتلا ہجوم کا نام ہے۔اسکی اگر مثا ل آپکو دیکھنی ہو تو کراچی کا
لیاری دیکھ لیں، یہ غریب بلوچوں کا علاقہ ہے، 1970 سے بھٹوخاندا ن کے عشق
میں مبتلا ہے، مگر آج لیاری میں زرداری کی پیپلزپارٹی سے نفرت عام ہے،
بھٹویا بینظیر سے اُنکا عشق اب بھی برقرار ہے"۔ہجوم کی نفسیات میں جتنا
والہانہ پن ہوتا ہے اتنا ہی وہ منہ پھٹ بھی ہوتا ہے۔ ہجوم بلا کی یادداشت
رکھتا ہے جو دیوانگی میں بھی قائم رہتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کو
تو چھوڑیں خود پیپلز پارٹی کے حامی زرداری کی پیپلز پارٹی سے نفرت کرتے ہیں۔
گیارہ مئی کو پاکستان کے عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیسی اسمبلیاں یاکیسا
پاکستان چاہتے ہیں، ان کا ووٹ انکی قسمت کا فیصلہ کرئے گا۔ آج کل ہر پارٹی
اپنا منشورعوام کے سامنے لارہی ہے، بڑئے بڑئے وعدئے کیے جارہے۔ مگر چار
مرتبہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی جسکو اب ہم زرداری
لوٹ مار پارٹی کہہ سکتے ہیں پاکستان کے عوام کو سوائے بربادی اور کرپشن کے
کچھ نہیں دیا۔ لہذا اگر غور کریں تو معلوم ہوگاکہ زرداری اور انکے حواریوں
کے پاس 2013 کے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے عوام کی بہتری کا کوئی پروگرام
نہیں ہے ۔ اس مرتبہ عوام کو چاہیے کہ وہ زرداری ٹولے کےلیے ایک پروگرام
بنایں اور زرداری ٹولے ووٹ نہ دے کرانکی ضمانتیں ضبط کروادیں یقین کریں آنے
والی حکومت صرف آپ کے اس عمل کے ڈر سے اگلے پانچ سال بہترین کام کرئے گی ۔
آپ اپنے ووٹ کا استما ل ایسے کریں کہ لگے کہ پاکستان کے عوام نے اس الیکشن
میں ایک ہی کام کیا ہے کہ زرداری ٹولے کوپاکستان کی سیاست سے صاف کردیا ہے۔
تو آئیے ملکر نعرہ لگاتے ہیں"لٹیروں کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے"۔ |