تحریک انصاف کی طالبان کے بونیر میں داخلے کی مذمت کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے - محاورتاً

بالآخر تحریک انصاف پنجاب نے طالبان کی جانب سے بونیر میں داخل ہونے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ طالبان امن معاہدہ کی خود خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ان کا دوسرے علاقوں پر قبضہ کرنے کا اعلان تشویشناک ہے (اعلان کیا وہ تو بونیر پر قبضہ کر بھی چکے ہیں میرے بھولے بادشاہوں اور اب شانگلہ پر چڑھائی کی جا رہی ہے)۔ تحریک انصاف پنجاب کے رہنماؤں احسن رشید، امین زکی، راجہ جاوید مجتبٰی اور ڈاکٹر شاہد صدیق خان نے کہا کہ طالبان کی سرگرمیوں سے ملک بھر میں خوف کی فضا پیدا ہو گئی ہے اور طالبان جس علاقے میں بھی جاتے ہیں وہاں لوٹ مار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا طالبان نے آئین کو تسلیم نہ کرنے کی بات کر کے دراصل پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے جو غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ (اچھا تو غداری کی سزا بھی تجویز کر دی ہوتی کہ جو آئین پاکستان سے غداری کرے اس کی سزا کیا ہے مشرف کے لیے تو سزائے موت تجویز کرتے ہیں آئین کو توڑنے کی پاداش میں اور جو آئین کو ہی نا مانے اور اسے ہی حرام یا غیر شرعی قرار دے اس کی سزا کیا ہے اللہ ہی بہتر جانے)۔

تحریک انصاف پنجاب نے بھی بالآخر طالبان کی سرگرمیوں اور پیش قدمیوں پر تحفظات کر اظہار کر دیا ہے اور یہ جانتے ہوئے تمام سیاسی جماعتیں اب طالبان سے دوری اور تحفظات کا اظہار کرنے میں نمبر لے جانے میں مصروف ہیں کیونکہ ان سیاسی جماعتوں کو اب سمجھ میں آگیا ہے کہ طالبان کا اصل مقصد کیا ہے جو وہ شریعت کی آڑ لے کر انجام دینا چاہتے ہیں اور یہ سیاسی جماعتیں شاید اب یہ محسوس کر رہی ہیں کہ کل کلاں کو طالبان کے ہاتوں بے گناہ شہریوں پر جو ظلم و ستم ہو سکتا ہے اس کے نتیجے میں عوام میں ان سیاسی جماعتوں کا اعتبار و یقین ختم ہو جائے گا اسلیے حالات کو بگڑتے محسوس کر کے سب اب اپنے اپنے طور پر طالبان سے دوری کا اشارہ دینے میں مصروف ہیں پہلے کچھ بیانات و خیالات تھے اور اب کچھ ہیں کیا یہ ہی ہوتی ہے سیاسی سمجھ بوجھ اور سیاسی بلند نظری۔

ادھر سابق وفاقی وزیر اطلاعات شیریں رحٰمن صاحبہ فرماتی ہیں کہ وفاقی حکومت نے اے این پی کی خواہش پر معاہدے کو قبول کیا۔ اور کہتی ہیں کہ طالبان نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وہ پہلے بھی امن معاہدے کے خلاف تھیں (اب تو سب یہ ہی دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم معاہدے کے خلاف تھے تو بھائی میرے یہ قومی اسمبلی سے صرف ایک جماعت کی مخالفت کے بعد پاس کیسے ہو گیا (شرم ہم کو مگر نہیں آتی)۔

اگر اے این پی کی خواہش تھی تو اے این پی کو کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کیونکہ آپ کی ہے اسلیے اس مسئلے کو آپ اپنے صوبے میں ہی حل کرنے کے لیے قانون سازی کریں مگر کیا کریں اے این پی نے اپنے گندے کپڑے دھونے کے لیے صوبائی اسمبلی کی جگہ قومی اسمبلی کا ہی انتخاب کیا اور کپڑے دھلوا بھی لیے

معلوم نہیں ہماری سیاسی جماعتوں میں سیاسی شعور کب پیدا ہوگا اور ہوگا کیسے سب نے ہی تو سیاست کو موروثی بنا رکھا ہے اور اپنے بھائیوں، چچوں، ماماؤں ، رشتے داروں کو سیاست کے پرتعیش گل زار میں جمع کر رکھا ہے اور عوام کو جیے اور مردہ باد کے نعرے لگانے اور جہاد کے نام پر اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے میں مصروف ہیں۔ 
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533812 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.