دنیا کا ہر ملک اپنی قومی زبان کا احترام
کرتے ہوئے اسے سرکاری حیثیت دیتا ہے اور اس کا سارا تعلیمی نصاب اور سرکاری
ریکارڈ بھی ان کی اپنی مادری و قومی زبان میں پرنٹ کیا جاتا ہے تاکہ شہریوں
کو پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہو۔ معروف لائبریریوں میں آج بھی دنیا کی
قدیم ترین زبانوں پر مشتمل مجموعات موجود ہیں جنہیں اس دور کی قوموں نے
اپنی شان سمجھتے ہوئے محفوظ کیا۔ تاہم بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ
پاکستان میں ایسا نہیں۔ ہماری قومی زبان اردو اور سرکاری زبان انگریزی ہے
جس سے ہماری غلامانہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ دوسری طرف ملک میں دیگر کئی
زبانیں بھی بولی جاتی ہیں جنہیں سرکاری سطح پر قبول نہیں کیا جاتا۔ پاکستان
کا تعلیمی نصاب اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ سرکاری
سطح پر قومی زبان کی پذیرائی نہ ہونے کے باعث ہماری قوم گومگوں کا شکار ہے۔
ایک خاص طبقہ اردو بولنے کو اچھا نہیں سمجھتا اور انگریزی بولنے میں فخر
محسوس کرتا ہے۔ متوسط طبقہ اسے اپنی احساس محرومی سمجھتے ہوئے خاص طبقے کی
پیروی کرتے ہوئے انگریزی بولنے کو ترجیح دیتا ہے اور دیکھا دیکھی یہ بیماری
پھیلتی جا رہی ہے۔ 64برس گزرنےکے بعد بھی قومی زبان سرکاری سرپرستی سے
محروم ہے۔جسکی وجہ ہم خود ہیں۔ہم نے انگریزی زبان کو ہی سرکاری زبان کا
درجہ دے دیا ہے۔آج کسی کو اردو نہیں آتی وہ فخر سے بتاتا ہے جبکہ انگریزی
نہ آنا شرمندگی کی بات سمجھی جاتی ہےحالانکہ اردوزبان عالمی زبان ہےاور یہ
دنیا کی کئی جامعات میں پڑھائی جا رہی ہے۔جن میں چین،ترکی،جرمنی اور بھارت
شامل ھیں۔اور کئی دوسرے ممالک میں اس پر کام ہو رہا ہےلیکن ہمارے ہاں اپنی
قومی زبان کے فروغ کے لئے کوئی کام نہیں ہو رہا یہاں تک کہ مائیکروسوفٹ
وئیر میں اردو ٹائپنگ اوراِن پیج پر بھی کسی اور ملک نے کام کیا ہےیہ بھی
پاکستان میں نہیں بنایا گیا۔اردوٹائپنگ کا ایک سوفٹ وئیربھارت میں بنا ہے
جوپاکستان کے لئے اردو میں ہے لیکن یہ انکی قومی زبان ہندی میں ہے۔ضرورت یہ
ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کو فروغ دیں تاکہ یہ زبان زندہ رہےاور ترقی کرےمگر
پاکستان میں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
سحرش جمال
ماس کمیونیکشن
لاہور گریژن یو نیورسٹی |