پچھلے دنوں اسلام آباد کے دوپے
درپے سفروں کے بعد سندھ وپنجاب کے تفصیلی سفر کا موقع ملا، جناب صاحبزادہ
عزیز الرحمن رحمانی ،جناب مرسلین صاحب اور مولانا عبدالقدوس میمن کے ساتھ
بیر شریف جانے کا اتفاق ہوا ، حضرت مولانا عبدالکریم بیر شریف مرحوم کے
صاحبزادے مولانا عبدالعزیز آف بیر شریف سے بہت تفصیلی ملاقات ہوئی ،
پاکستان اور عالم اسلام کے موضوع پر ان کی نگاہ بڑی عمیق اور دور رس تھی،
حضرت بیر شریف اور ان کے آباؤ اجداد کے کارناموں ،کرامتوں ،سیرتوں اور
مخطوطات ومسودات پر بھی گفتگو ہوئی ،مولانا عبدالرشید ومولانا عبد الوحید
حفیدگان بیر شریف نے حضرت بیر شریف والوں کے جد امجد حضرت مفتی محمد صاحب
مرحوم کا ایک مخطوطہ’’ مخزن الروایات ‘‘ کے نام سے دکھایا ،جو ریشم کے لباس
میں ملبوس تھا ،دوجلدوں پر مشتمل یہ مجموعہ تقریباً ہزار بارہ سو صفحات کا
تھا، ہم نے دارالفکر بیروت سے اس کے چھپوانے کی بات کی جس پر ان حضرات نے
نہایت فراخدلی سے حامی بھری۔
بیر شریف سے براستہ قمبر ، لاڑکانہ ،رتوڈیرو ،گڑھی خدابخش پہنچے ،جہاں
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم جنہوں نے تکفیر قادیانیت ،جمعے کی چھٹی ،شراب پر
پابندی ،ایٹمی صلاحیت کی بنیاد ڈالنے اور جمہوریہ پاکستان میں ’’اسلامی
‘‘کا لفظ بڑھانے جیسے کارہائے نمایاں انجام دیئے تھے، ان کے مزار پر فاتحہ
پڑھی،مرحومہ بے نظیر بھٹو نے ’’مائی فادر‘‘ میں لکھا ہے کہ ہمارا تعلق یمن
کے ایک عرب قبیلے سے ہے، نیز بھٹو صاحب کے اسلامی بلاک بنانے ،عالم اسلام
کی ایک ہی کرنسی ’’الدینارالاسلامی‘‘ڈیزائن کرنے، او آئی سی منظم کرنے اور
تکفیر قادیانیت آرڈیننس پر دستخط کرنا ان کی گرفتاری اور پھانسی کے اسباب
بتائے جاتے ہیں۔
اس کے بعد ہم سیدھے سومرانی شریف کیلئے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کی
بارگاہ میں حاضر ہوئے، لنگر کا کھانا نوش کیااور حضرت سے دعائیں لیں،حضرت
پیر عزیزالرحمن رحمانی صاحب نے خلوت میں بھی کچھ دیر تک استفادہ کیااور پھر
کہروڑ پکا کیلئے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزی حکیم العصر شیخ
الحدیث حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی صاحب کی خدمت میں باب العلوم روانہ
ہوئے، حضرت مفتی ظفر اقبال صاحب نے حسب روایت مہمان داری میں مبالغہ کیا،
اﷲ تعالیٰ انہیں اس کا اجر جمیل وجزیل نصیب فرمائے، حضرت اقدس سے دینی
مدارس میں عربی دوروں اور مختلف موضوعات ومسائل پر سیر حاصل بحث ہوئی،
الحمد ﷲ بے پناہ استفادہ کا موقع ملا ،ان کو بہاولپور مفتی مظہر اسعدی صاحب
والوں کے یہاں ختم بخاری میں جانا تھا،دوپہر واپسی پر ایک اور نشست ہوئی
اور پھر شام کو وہاں سے حضرت کی دعائیں لے کر ہم واپسی کیلئے روانہ ہوگئے،
خان بیلہ میں کچھ دیر کیلئے ٹھہر ے، عشاء کے وقت رحیم یار خان میں
پٹھانستان چوک کے قریب لیور برادرز میں اشفاق صاحب کے یہاں کچھ خفیف لیکن
پرتکلف فطور تناول کیا، رات کو مولانا طہ صاحب برادر خورد حضرت مولانا طلحہ
صاحب والوں کے یہاں مدرسہ تحفیظ القرآن مدنیہ صادق آباد میں عشاء اور قیام
کا انتظام تھا،موصوف جامعہ ام القری مکہ مکرمہ کے فاضل ہیں ، عربی زبان
وادب کے شہ سوار ہیں، علماء کی مجلس کے درمیان درمیان وہ یا تو عربی میں
بولنا شروع فرمادیتے ہیں اور یا پھر عربی ضرب الامثال اور موقع ومحل سے
متعلق جملوں کا سہارا لیتے ہیں، اپنے ادارے میں بالکل غیر محسوس انداز میں
’’العربیہ للناشئین‘‘اور ’’العربیہ لغیر الناطقین بھا‘‘اس طرح ضم کئے ہوئے
ہیں کہ اپنا موجودہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا نصاب ونظام بھی باقی
رہے اور عربی لکھت پڑھت اور تکلم بھی طلبہ کو بآسانی آسکے، ان کے تجربہ سے
اہل مدارس وجامعات نیز وفاق المدارس کے ذمہ داران استفادہ کر سکتے ہیں ،جامعہ
بنوری ٹاؤن کے مولاناسعید عبدالرزاق اورموصوف ام القریٰ میں زملاء درس رہیں
، حرمین شریفین کے تذکرے میں گاہے گاہے سعید صاحب کاحوالہ بھی دے دیتے ہیں
۔
اگلے دن ہم ڈھرکی کے علاقے بر چونڈی شریف گئے جہاں سندھ کے تمام صوفیا ء و
اولیاء کے شیخ حافظ صدیق صاحب کا مزارو مدرسہ ہے ،فاتحہ اورمدرسے کے معاینے
کے بعد قافلہ ہالیجی شریف (پنو عاقل)کی طرف پابہ رکاب تھا ، شیخ المشایخ
حضرت مولانا عبدالصمد ہا لیجوی صاحب ،ان کے صاحبزادے مولانا عبدالقادر صاحب
اور جامعہ حمادیہ ہالیجی شریف کے مایہ ناز استاد مولانا خالد محمود (فاضل
معہدودورۂ حدیث جامعہ فارقیہ کراچی )سے بہت تفصیلی ملاقات ہوئی ، پیر
عزیزالرحمان رحمانی صاحب اور حضرت مولانا عبدالصمد ہالیجوی صاحب کی باہمی
گفتگو سے ایسا لگ رہا تھا کہ گویا ایک ہی خانوادے کے چشم وچراغ ہوں ، بعد
میں پتہ چلا کہ حضرت بنوری رحمتہ اﷲ علیہ کو ارشادوخلافت کی خلعت یہیں سے
ملی تھی ، شیخ ہالیجوی نے مولاناسلیمان بنوری ،مولانا احمد بنوری
،مولاناطلحہ رحمانی ، مفتی حذیفہ رحمانی اور اسامہ رحمانی کا ایک ایک کر کے
حال احوال پوچھا،ڈھیر ساری ضخیم ضخیم مصنفاتِ ہالیجوی مرحوم بھی ہدیہ کیے،
الوداعی کلمات کے ساتھ یہ پیغام بھی حوالہ کیا کہ آپ حضرات مرکز میں ہیں
علماء سے درخواست کیا کریں کہ زمانہ صحابہؓ سے اختلافی مسائل میں تنازعات
سے گریز کیا جائے ، دونوں موقف بتائے جائیں اور کسی ایک کو اسلام اور دوسرے
موقف کو کفر قرار نہ دیا جائے ، علم الکلام اور فقہ کی وسعتوں اور گنجائشوں
کو بحال رکھا جائے ،ہاں دلیل اور منطق کی بنیاد اپنے اپنے موقف کے پرچار کا
حق ہر ایک کو ہے ۔
شام کو ضلع روہڑی کے علاقے ’’علی واہن ‘‘میں برلب نیشنل ہائی وے مدرسہ
عربیہ مدینۃالعلوم کے منتظم مولانا میر محمد موسیٰ ــخیل صاحب کے پاس تھے ،
باب العلوم کہروڑ پکا کے فاضل اور حضر ت شیخ لدھیانوی کے متوسلین میں سے
ہیں ، یہ ادارہ اور جامعہ بحرالعلوم کویٹہ ایک عامی آدمی جناب حاجی
عبدالستار خان مرحوم کے قائم کردہ ہیں ، ان دونوں اداروں کا علمی مقام اہل
علم وفضل خوب جانتے ہیں ،اس ادارے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ مولانا میر محمد
صاحب مسجد کی تنگی کا تذکرہ بغل میں واقع زمین کے مالک ایک ہندو سے کیا
اوران سے رقم دے کر جگہ لینے کی بات کی ، سیٹھ صاحب نے کہا کہ اگر اﷲ تعالی
کے نام پر زمین کی ضرورت ہے تو مسجد ومدرسہ کی توسیع کیلئے ایک بہت بڑے
رقبے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ سب جگہ تمہاری ہو گئی اور کاغذات بھی
وہاں تک کے بنواکر دیدیے ،یہ مدارس دشمنوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
اس کے بعدہم سکھر کے مضافات میں شکار روڈ پر واقع محبوب گوٹھ کی جانب محو
ِسفر تھے، جہاں مولانا عبدالہادی مہرصاحب کے قائم کردہ مدرسے کے پاس ہی ایک
وسیع وعریض رقبے پر پھیلے قبرستان میں اصحاب رسولﷺحضرت عمروبن عبسہ حضرت
عمروبن اخطب اور حضرت معاذ بن عبداﷲ الجھنی رضی اﷲ عنھم کی مبارک آخری آرام
گاہیں ہیں ، فاتحہ ،سورہء اخلاص اور درودو سلام کا ایصال ثواب کرنے کے بعد
ان مزارات کے متعلق مولانا مہر صاحب سے تبادلہء خیالات دیر تک ہوتا رہا ،
پشاور پنجاب اور بہاولپورکے ساتھ ساتھ ملک بھر کے متعدد مقامات پرحضرات
صحابہ کرامؓ کی قبور پر مستند حوالوں سے گفتگو ہوئی، ہمارے ملک میں صدیقی
،فاروقی،عثمانی،علوی ،قریشی ، شیخ اور سادات کی تعداد سب ملا کر کروڑوں میں
ہے، افغان جہاد کے بعد عالمی استعماری قوتیں اگر افغان عرب کے خلاف منظم
اور منصوبہ بند سازش کر کے انہیں یہاں سے واپس جانے پر مجبور نہ کرتیں تو
خطے میں عربوں کی تعدادمیں ایک نیا اورمفید اضافہ ہوتا ، محبوب گوٹھ سے
ہمیں پیر جو گوٹھ پیر پگاڑاکے خاندانی بزرگوں اور اپنے وقت کے عظیم مجاہدین
کی قدیم خانقاہوں پر جانے کا ارادہ تھا ،مگر کچھ راستے کی مشکلات کی وجہ سے
یہ ارادہ فی الوقت ملتوی کرنا پڑا اور یوں ہم سیدھے کراچی صبح فجر میں پہنچ
گئے ،الحمد ﷲ علی السلامۃ۔ |