نعت گوئی کے فن میں ضمائر یعنی
’تو ‘ اور ’تم‘ کا استعمال اور ان کے مراجع کا تعین ایک خاص اہمیت کا حامل
ہے۔ ضمائر کا استعمال حد درجہ سلیقہ اور قرینہ کا متقاضی ہے اس لیے کہ
ضمائر کے استعمال میں اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کون سی ضمیر کس
ذات کے لیے استعمال ہورہی ہے اور اس کا تعلق عبد سے ہے یا معبود سے ،نیز
اسی کے ساتھ یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ کس ضمیر کا مرجع کیا
ہے ۔نعت میں ضمائر کے استعما ل سے زیادہ توجہ اور احتیاط اس کے مرجع کے
تعین میں دامن گیر ہوتی ہے۔ بہ ہر حال! نعت میں ضمائرکااستعمال کیا جاسکتا
ہے لیکن مکمل حزم و احتیاط کے ساتھ کہ معنی و مفہوم تخریب کاری کے شکار نہ
ہوں ورنہ عبد کا اطلاق معبود پراور معبود کا اطلاق عبد پر ہوجائے گا جس سے
دنیا و آخرت کی تباہی وبربادی ہمارا مقدر بن سکتی ہے ۔امیرؔ مینائی کا یہ
شعر دیکھیں جس میں مرجع اور مُشارُُ الیہ کا تعین سمجھ میں نہیں آتا ؎
پاک تھی رنگِ دو رنگی سے وہ خلوت گہہِ خاص
وہی شیشہ ، وہی مَے خوار تھا معراج کی شب
امیرؔ مینائی کا یہ شعر اس امر کا اشاریہ ہے کہ قابَ قوسین کی خلوتِ گاہِ
خاص میں دو نہ تھے بل کہ صرف ایک ہی ذات تھی۔وہی ذات شراب کی بوتل ، وہی
ذات شراب پینے والی تھی۔ مصرعۂ اولیٰ کے لفظ’’ وہ ‘‘ کا مرجع اور مُشارُُ
الیہ کون سی ذات ہے واضح طور پر پتہ نہیں چلتا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم
کی ذات ہے یا اللہ جل شانہ کی ۔امیرؔ مینائی کا ’’وہی ‘‘ سے خدا کی طرف
اشارہ ہے یا حبیبِ خدا کی جانب ، یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔غرض مرجع اور
مُشارُُ الیہ کے مجہول استعمال سے شعر ایک پہیلی بن کر رہ گیا ہے ۔ خدا کو
رسولِ خدا کا منصب دینا یا رسولِ خدا کو خدا کے مقام پر فائز کرنایا دونوں
کو ایک ہی قرار دینا دونوں ہی صورتیں قابلِ گرفت ہیں۔ نیز خدا اور حبیبِ
خدا کو شیشہ وشراب اور مَے خوار جیسے سوقیانہ الفاظ سے تشبیہ دیناادب و
احترام کے یک سر خلاف ہے ۔چناںچہ آدابِ نعت میں یہ بات پیشِ نظر رکھنا
شاعر کے لیے ازحد ضروری ہے کہ وہ رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جس
صفت یا ضمائرکا استعمال کررہا ہے وہ ادب اور احترام سے مکمل طور پر ہم
آہنگ ہو، تاکہ کسی بھی طرح سے نعت کا تقدس اور پاکیزگی مجروح نہ ہوسکے ۔
عربی اور فارسی کے بجاے اردو لسانیات کا یہ ایک توصیفی پہلو ہے کہ اس میں
معظم او رمکرم شخصیتوں کے لیے ضمیرِ تعظیمی (آپ)کااستعمال کیا جاتا ہے جس
سے ممدوح کا علوے مرتبت ظاہر ہوتا ہے ۔اس لیے نعت میں ضمائر ’’تو ‘‘ اور
’’تم‘‘ سے اجتناب برتنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ لیکن یہاں یہ امر ذہن نشین
رہے کہ جن بزرگ شعرا نے رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام کو
ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے نعتیہ کلام میں ضمائر کا استعمال کیا ہے انھیں شریعت
سے بے خبر اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا بے ادب اور گستاخ
قرار نہیں دیا جاسکتا۔جیسا کہ استاذِ محترم پروفیسر ڈاکٹر اشفاق انجم نے
نعت میں ضمائر سے متعلق جو اظہارِ خیال کیا ہے اُس سے جیداکابرِ امت پر ضرب
پڑتی ہے ۔ موصوف راقم ہیں:
’’ آج بھی اکثر شعرا سید الثقلین ، حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو
’’تو‘ سے مخاطب کرتے ہیں ، میری نظر میں یہ گستاخی کی انتہا ہے‘‘(1)
محترم ڈاکٹر اشفاق انجم نے نعت میں ضمائر’’تو‘‘ …’’تم‘‘اور اس کی اضافی
صورتوں کے استعمال کوبارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی سے
تعبیر کیا ہے ۔ لیکن ہمیں حیرت ہوتی ہے موصوف کے مجموعۂ کلام کے نام
’’صلوا علیہ و آلہٖ‘‘ پر کہ اس میں ’’علیہ‘‘ ضمیر واحد غائب ہے جس کے معنی
ہوتے ہیں ’’اُس‘‘ … اِس طرح اگر نعت میں ضمائر ’’تو‘‘ …’’تم‘‘ اوراس کی
اضافی صورتوں کا استعمال استاذِ محترم ڈاکٹر اشفاق انجم کے نزدیک بارگاہِ
نبوی علیہ الصلاۃ والتسلیم میں گستاخی ہے تو موصوف خود اس کے مرتکب ہورہے
ہیں !…
یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم نعت میں ضمائر کے استعمال کی وکالت کررہے ہیں
۔ بل کہ ہمارا مقصود یہ ہے کہ لسانی ترقی کا دائرہ جب تک محدود رہا تو جن
شعرا نے نعت میں ضمائر کا استعمال کیا انھیں گستاخ اور بے ادب قرار دینا
سراسر انصاف و دیانت کے منافی ہے ۔ خود محترم ڈاکٹر اشفاق انجم کی مرقومہ
’’مناجات بہ واسطۂ صد و یک اسماے رسولِ کریم ﷺ‘‘کے چند اشعار نشانِ خاطر
کریں جس میں آپ نے ضمائر ’’تو‘‘…’’ تم‘‘ اور اس کی اضافی صورتوں کا
استعمال کیاہے ؎
مدد اے شفیعِ امم المدد
کہ گھیرے ہیں رنج و الم المدد
تم ہی ہو ولی و نبی و رسول
شفیق و شکور و حبیب و وصول
تمہی داعی و ہادی و ہاشمی
تمہی بالغ و صادق و ابطحی
تمہارے کرم سے ہوں میں نام دار
جلائے گی کیا مجھ کو دوزخ کی نار
ہو جنت میں ایسی جگہ گھر مرا
تمہیں دیکھوں ہر دم حبیبِ خدا
(اشفاق انجم ، ڈاکٹر:روزنامہ انقلاب ، ممبئی، جمعہ میگزین ، بہ تاریخ 1؍
جنوری 2010ئ،ص10)
ڈاکٹر اشفاق انجم کی اس مناجات سے استغاثہ و فریادکا جو پُر سوز انداز
مترشح ہوتا ہے اس سے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی
مخلصانہ عقیدت و محبت عیاں ہوتی ہے ۔ اس مناجات میں آپ نے
ضمائر’’تو‘‘…’’تم‘‘ اور اس کی اضافی صورتیں استعمال کی ہیں، لیکن کہیں بھی
معنی و مفہوم کا عمل ادب و احترام کے تقاضوں سے دور نہیں ہوا ہے۔ جب انجم
صاحب خود ضمائر کا استعما ل کررہے ہیں تو انھیں چاہیے کہ اپنے فرمانِ والا
شان پر نظر ثانی فرمالیں۔
اس کے علاوہ نعت میںضمائرکے استعمال سے متعلق ڈاکٹر اشفاق انجم ہی سے ملتا
جلتا خیال ڈاکٹر ملک زادہ منظورؔنے اپنے ایک مضمون مشمولہ ماہنامہ ’’مظہرِ
حق‘‘ بدایوںکے’’تاج الفحول نمبر‘‘میں ظاہر فرمایا ہے موصوف لکھتے ہیں :
’’ اچھے نعتیہ کلام کے حسن میں اس وقت اور اضافہ ہوجاتاہے جب شاعر احترام و
ادب کے سارے لوازمات کو ملحوظِ خاطررکھے اور اسی سیاق وسباق میں الفاظ و
محاورات ،صنائع و بدائع اور ضمائرکا استعمال کرے۔چوںکہ اردو زبان میں کلمہِ
تعظیمی بہت زیادہ مستعمل ہیں اس لیے نعتیہ کلام میں ’’تو ‘ ‘اور ’’تم‘‘
قابلِ اجتناب ہوجاتے ہیں جو شعرا شریعت کے رموز ونکات سے واقفیت رکھتے ہیں
وہ ان کی جگہ ’’وہ‘‘،’’اُن‘‘اور ’’آپ‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔‘‘(2)
ڈاکٹر ملک زادہ منظورؔ کی محولہ بالا عبارت سے نعت لکھتے وقت ضمائر کا خیال
کس طرح رکھا جائے پورے طور پر واضح ہوگیا ہے لیکن مذکورہ عبارت اس بات کا
اشاریہ بھی ہے کہ جو شعرا اپنے نعتیہ کلام میں ’’تو‘‘ اور ’’تم‘‘اور اس کی
اضافی صورتوں کا استعمال کرتے ہیں گویا وہ شریعت ِ مطہرہ کے اسرار و نکات
سے یک سر ناواقف ہیںاور یہ کہ یہ ضمیریں نعت میں استعمال کرناایک طرح کا
سوئِ ادب اور گستاخی ہے ۔جب کہ اردو کا کوئی بھی ایسا شاعر نہیں ہوگا جس نے
بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کمالِ ادب و احترام ملحوظ رکھنے
کے باوجود ان ضمائر کا استعمال نہ کیا ہو ۔ قواعد کی رُو سے ان ضمائر
’’تو‘‘اور’’تم‘‘ کاجب تحقیقی جائزہ لیتے ہیں توجامعہ اشرفیہ مبارکپور کے
رکنِ مجلسِ شوریٰ و معروف ادیب ڈاکٹر شکیل اعظمی ’’تو‘‘،تم‘‘ اور ’’تیرا‘‘
وغیرہ ضمائر کی تحقیق کرتے ہوئے اس طرح رقم طراز ہیں :
’’تو،تم ،تیرا ،وغیرہ اگرچہ لغۃً ضمیر ِ مخاطب اور کلمۂ خطاب ہے جو ادنا
کی طرف کیا جاتاہے۔ فارسی میں’’تو‘‘ اور’’شما‘‘عربی میں ’’انت‘‘ ۔۔۔۔’’
انتم‘‘۔۔۔۔ ’’لک‘‘۔۔۔۔’’ بک‘‘ وغیرہ ایک ہی انداز سے استعمال ہوتے ہیں خواہ
مخاطب ادنا اور کمتر درجے کا ہو یا اعلا اور برتر درجے کا۔لیکن اردو میں
تو، تیرا ،تم جیسے کلماتِ خطاب وضمائرادنا اور کمتر درجے کے لئے مستعمل ہیں
لیکن یہ معاملہ صرف نثر تک ہی محدود ہے ،نظم میں معاملہ اس سے مختلف ہے ۔
چناںچہ قواعدِ اردو از مولوی عبدالحق میں صا ف درج ہے کہ نظم میں اکثر
مخاطب کے لیے ’تو‘ لکھتے ہیں یہاں تک کہ بڑے بڑے لوگوں اور بادشاہوںکو بھی
اسی طرح خطاب کیا جاتاہے ؎
بعد شاہانِ سلف کے ’تجھے‘ یوں ہے تفضیل
جیسے قرآن پسِ توریت و زبور و انجیل
(ذوق ؔ دہلوی)
دعا پر کروں ختم اب یہ قصیدہ
کہاں تک کہوں ’تو‘ چنیں و چناں ہے
(میرؔ)
اگرچہ لغوی اعتبار سے’ تو ‘اور’ تیرا‘کے الفاظ کم تر درجے والوں کے لیے وضع
کیے گئے ہیں لیکن اہلِ زبان پیارومحبت کے لیے بھی ان کااستعمال کرتے ہیں
اور کسی بھی زبان میں اہمیت اہلِ زبان کے محاورات اور استعمالات ہی کو حاصل
ہوتی ہے اس لیے نعت ِ پاک میں ان کا استعمال قطعاً درست ہے اور اس میں کسی
طر ح کی بے ادبی اور شرعی قباحت نہیں ۔‘‘ (3)
واضح ہو کہ نعت میں بارگاہِ رسالت مآ ب صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب واحترام
کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے ضمائر ’تو ‘اور’ تم‘اور ان کی اضافی صورتوں کا
استعمال بلاشبہ کیاجاسکتاہے اور نعت میں ضمائر کا استعمال کرنے والے بزرگوں
اور نعت گو شعرا کو بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کابے ادب اور گستاخ
قرار نہیں دینا چاہیے ۔بہ طورِ مثال مشہور ومعروف اور مستند شعرا کے نعتیہ
اشعار جن میں ’تو،تیرا،تم،تجھ وغیرہ ضمائر کااستعمال کیا گیا ہے ملاحظہ ہو
؎
کھینچوں ہوں نقصانِ دینی یارسول
’تیری‘ رحمت ہے یقینی یارسول
(میر تقی میرؔ)
’تم‘ شہ دنیا و دیں ہو یا محمد مصطفیٰ
سر گروہِ مرسلیں ہو یا محمد مصطفیٰ
(نظیرؔ اکبر آبادی)
واللیل ’تیرے‘ گیسوے مشکیں کی ہے قسم
والشمس ہے ’ترے‘ رُخِ پُر نور کی قسم
(بہادر شا ہ ظفرؔ)
حشر میں امّتِ عاصی کا ٹھکانہ ہی نہ تھا
بخشوانا ’تجھے‘ مرغوب ہوا، خوب ہوا
(داغ ؔدہلوی)
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امّت پہ ’تری‘ آکے عجب وقت پڑا ہے
(حالیؔ)
جھلکتی ہے ’تری‘ امّت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
شیرازہ ہوا ملّتِ مرحوم کا ابتر
اب ’تو‘ ہی بتا ’تیرا‘ مسلمان کدھر جائے
(ڈاکٹر اقبالؔ)
’ترے‘ روضے کو مسجودِ زمین و آسماں کہیے
عبادت خانۂ عالم، مطاعِ دوجہاں کہیے
(محسنؔ کاکوروی)
’تو‘ جو چاہے ارے او مجھ کو بچانے والے
موجِ طوفانِ بلا اُٹھ کے سفینہ ہوجائے
(ریاضؔ خیرآبادی )
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنّا ’تمہیں‘ تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا ’تمہیں‘ تو ہو
(ظفرؔعلی خان)
زینت ازل کی ’تو‘ ہے تو رونق ازل کی ’تو‘
دونوں میں جلوہ ریز ہے ’تیرا‘ رنگ و آب
(سائل دہلوی)
’ترے‘ کردار پہ دشمن بھی انگلی رکھ نہیں سکتا
’ترا‘ اخلاق تو قرآن ہی قرآن ہے ساقی
(ماہرؔالقادری )
سلام اے ظلِ رحمانی سلام اے نورِ یزدانی
’ترا‘ نقشِ قدم ہے زندگی کی لَوحِ پیشانی
(حفیظ ؔ جالندھری)
کس کی مشکل میں ’تری ‘ ذات نہ آڑے آئی
’تیرا‘ کس پر نہیں احسان رسولِ عربی
(بیدم ؔ وارثی)
مرے آقا رسولِ محترم خیرالورا ’تم‘ ہو
خدائی بھر کے داتا شافعِ روزِجزا ’تم‘ ہو
(جذبی ؔ بریلوی)
’تری‘ پیمبری کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے
بخشا گداے راہ کو ’تو‘ نے شکوہِ حیدری
(جوشؔ ملیح آبادی)
حمیدِؔ بے نوا پربھی کرم ہو
مُسلَّم ہے ’ترا‘ فیضِ دوامی
(حمیدؔصدیقی لکھنوی)
ہے ’تری‘ ذات باعثِ تخلیقِ دوعالم
جھکتے ہیں ’ترے‘ در پر جہاں گیر و جہاں دارا
(شورشؔکاشمیری)
کُنتُ کنزاً سے ہویدا ہے حقیقت ’تیری‘
نور بے کیف کا آئینہ ہے صورت ’تیری‘
(عزیزؔ صفی پوری)
’تو‘ حبیبِ ربِّ جلیل ہے، ’تری‘ عظمتوں کا جواب کیا
’تو‘ ضیاے شمعِ خلیل ہے، ’تری ‘ رحمتوں کا جواب کیا
(شعری ؔ بھوپالی)
’ترے ‘نام سے ہے سکونِ دل، ’ترا‘ ذکر وجہِ قرار ہے
’تری‘ یاد پر شہِ بحروبر، مری زندگی کا مدار ہے
(نفیس ؔ لکھنوی)
رخشندہ ’ترے‘ حسن سے رخسارِ یقیں ہے
تابندہ ’ترے‘ عشق سے ایماں کی جبیں ہے
(صوفی غلام مصطفیٰ تبسمؔ)
کعبہ ہے زاہد کا قبلہ ،میں تو ہوں ’تیرا ‘ عاشقِ شیدا
قبلہ مرا ’ترے ‘ ابروے پُر خم ،صلی اللہ علیک وسلم
(آسی ؔ سکندرپوری )
دستگیری اب ’تری‘ درکار ہے
ہے فقیرِؔ خستہ مضطر الغیاث
(فقیرؔ بدایونی)
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و
محبت اور ادب واحترام خانوادۂ رضا بریلوی کا طرۂ امتیاز ہے، امام احمد
رضامحدثِ بریلوی اور ان کے فرزندِ ارجمند مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضانوریؔ
بریلوی بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ نعت گو شعرا ہیں کہ جن
کی مثیل و نظیر شاید ہی کہیں ملے۔ان شمع رسالت کے پروانوں اور مصطفیٰ جانِ
رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانوں کے شعر شعر میں شرعی و لسانی حزم و
احتیاط کے وہ جلوے پنہاں ہیںجو کسی اور کے یہاں شاذونادر ہی پائے جاتے ہوں
ان واقفانِ علم ِ شریعت اور محافظانِ ناموسِ رسالت نے بھی اپنے نعتیہ کلام
میں’’تو،تیرا،تم‘ وغیرہ ضمائر کابلاتکلف استعمال فرمایاہے۔
چناں چہ امام احمد رضابریلوی نے اپنے مشہور ومعروف نعتیہ مجموعۂ کلام ’’
حدائقِ بخشش‘‘ میں جو پہلی نعت درج کی ہے اس کی ردیف ہی ’’تیرا‘‘ہے ؎
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا ’تیرا‘
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا ’تیرا‘
’تو‘ جو چاہے تو ابھی میل مرے دل کے دُھلیں
کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا ’تیرا‘
’تیرے ‘ ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ ’تیرا‘
’تو‘ نے اسلام دیا ’تو‘ نے جماعت میں لیا
’تو‘ کریم اب کوئی پھرتا ہے عطیہ ’تیرا‘
’تیری‘ سرکار میں لاتا ہے رضا ؔ اُس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا ’تیرا‘
مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کے نعتیہ کلام میں ضمائر کا بہ
کثرت استعمال ہوا ہے۔ مگرضمائر کے مراجع اور مُشارُُ الیہ میں کہیں بھی
مجہول انداز نہیں دکھائی دیتا،کلامِ نوریؔ میںضمائر کا استعمال بڑے حسن
وخوبی اور سلیقہ و قرینہ سے کیا گیا ہے کہ کہیں بھی اس کے مرجع کے تعین میں
کسی طرح کی کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی ؎
ضیابخشی ’تری‘ سرکار کی عالم پہ روشن ہے
مہ و خورشید صدقہ پاتے ہیں پیارے ’ترے‘ در کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’تو‘ ہے رحمت، بابِ رحمت ’تیرا‘ دروازہ ہوا
سایۂ فضلِ خدا سایہ ’تری‘ دیوار کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’تو‘ اگر چاہے ملے خاک میں سلطانِ زماں
’تیرا‘ بندہ کوئی ’تو‘ چاہے تو سلطاں ہوگا
حضرت نوریؔ بریلوی کے متذکرہ بالااشعار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ نے
بارگاہ ِرسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام کو ملحوظِ خاطر
رکھتے ہوئے اس حسن و خوبی کے ساتھ ضمائر کا استعمال کیا ہے کہ مرجع و معنی
کے تعین و تفہیم میں کسی طرح کی کوئی دشواری محسوس نہیںہوتی اور عبد و
معبود کا واضح فرق نظر آتا ہے ،مرجع اور مُشارُُ الیہ میں معقولیت کے سبب
شعر فہمی میں دقت کا احساس نہیں ہوتا۔ کلامِ نوریؔ سے ضمائر کے استعمال کی
مزید مثالیں نشانِ خاطرہوں ؎
’تیرا‘ دیدارِ کرم رحمِ مجسم ’تیرا‘
دیکھنی ہو جسے رحماں کے کرم کی صورت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مالکِ کل کے ’تم‘ہو نائب ،سب ہے ’تمہارا‘حاضر وغائب
’تم‘ ہو شہود وغیبت والے ،صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ذرہ پر ’تیری‘ نظر ہے ، ہر قطرہ کی ’تجھ‘ کو خبر ہے
ہو علمِ لدنی کے ’تم‘ دانا، صلی اللہ علیک وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہارِ جاں فزا ’تم‘ ہو ،نسیمِ داستاں ’تم‘ ہو
بہارِ باغِ رضواں ’تم‘ سے ہے زیبِ جناں ’تم‘ ہو
حبیبِ ربِّ رحماں ’تم‘ مکینِ لامکاں ’تم‘ ہو
سرِ ہر دوجہاں ’تم‘ ہو شہ، شاہنشہاں ’تم‘ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’تمہارے‘ فیض سے لاٹھی مثالِ شمع روشن ہو
جو ’تم‘ لکڑی کو چاہو تیز تر تلوار ہوجائے
’تمہارے‘ حکم کا باندھا ہوا سورج پھرے اُلٹا
جو ’تم‘ چاہو کہ شب دن ہوابھی سرکار ہوجائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’تم‘ آئے چھٹی بازی رونق ہوئی پھر تازی
کعبہ ہوا پھر کعبہ کر ڈالا تھا بت خانہ
کیوں زلفِ معنبر سے کوچے نہ مہک اُٹھیں
ہے پنجۂ قدرت جب زلفوں کا ’تری‘ شانہ
ہر پھول میں بو ’تیری‘ ہر شمع میں ضو ’تیری‘
بلبل ہے ’ترا‘ بلبل پروانہ ہے پروانہ
پیتے ہیں ’ترے‘ در کا کھاتے ہیں ’ترے‘ در کا
پانی ہے ’ترا‘ پانی دانہ ہے ’ترا‘ دانہ
میں شاہ نشیں ٹوٹے دل کو نہ کہوں کیسے
ہے ٹوٹا ہوا دل ہی مولا ’ترا‘ کاشانہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فوجِ غم کی برابر چڑھائی ہے
دافعِ غم ’تمہاری‘ دہائی ہے
’تم‘ نے کب آنکھ ہم کو دکھائی ہے
’تم‘ نے کب آنکھ ہم سے پھرائی ہے
’تو‘ خدا کا ہوا اور خدا ’تیرا‘
’تیرے‘ قبضے میں ساری خدائی ہے
تاج رکھا ’ترے‘ سر رفعنا کا
کس قدر ’تیری‘ عزت بڑھائی ہے
مذکورہ بالااشعار میں بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب و احترام
اور تعظیم وتوقیر کے جملہ لوازمات کے ساتھ ضمائر کونہایت طریقے اور سلیقے
کے ساتھ استعمال کیاگیا ہے ۔ لہٰذامذکورہ مثالوں سے کلّی طور پر واضح ہوگیا
کہ حضرت نوری ؔ بریلوی نے بھی ضمائر کی زبان میں نعت نگاری کی ہے۔لیکن
زمامِ حزم واحتیاط کو مکمل طور پرملحوظِ خاطر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کا
کلام اپنی قادرالکلامی اور انفرادیت کی آئینہ داری کرتا ہے ۔
حاصلِ مطالعہ یہ کہ نعت میں ضمائر کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سلیقہ
مندی سے کہ معنی و مفہوم کسی بھی طرح کی تخریب کاری کے شکار نہ ہوں اور نعت
کے جملہ لوازمات کا احترام بھی باقی رہے۔ ہاں! وہ شعراے کرام جنھوں نے
لسانی ترقی کے ہوتے اپنی نعتوں میں ضمائر ’’تو، تم تیرا ‘‘ اور اس کی شکلیں
کی بجاے ضمیرِ تعظیمی ’’آپ‘‘ کااستعمال کیا ہے اور کررہے ہیں وہ بلا شبہ
لائقِ تحسین و آفرین ہیں ۔ آج جب کہ زبان کا دائرہ وسعت اختیار کر چکا ہے
تو نعت نگار شعرا کو چاہیے کہ نعت میں ضمیرِ تعظیمی کا ہی استعمال کریں تو
بہتر ہے۔
حواشی
(1) اشفاق انجم ، ڈاکٹر: پیش لفظ صلو ا علیہ وآلہ، …(2)ماہنامہ اشرفیہ :
ستمبر2000ء مبارک پور ،ص43
(3)ماہنامہ اشرفیہ : ستمبر2000ء مبارک پور ،ص48/49 {……}
|