یادوں کی جھرمٹ کا روشن ستارہ
عمر گل عسکر
طایر زلاند کا شمار افغغانستان کی اس نسل میں کیا جاتا ہے جو مھاجرت میں
پیدا ھوے مھاجرت میں پلے بڑھے اور اب جوان ہو کر ایسی استعداد اور صلاحیت
کے ساتھ ابھر رھے ہیں جس مییں نیا پن تو ہے ہی مگر یی احساس کس قدر قوی ہے
یہ وہی لوگ جانتے ہیں جنہوں نے دور بادشاہت سے لے کر اففانستان کے ادب کا
اب تک کا جایزہ بڑی گھری نظرون سے لیا ھو – افغانستان جب روسیی یلغار اور
اپس کے جھگڑوں سے تباھ اور برباد ھوا تو وہ نسل جو پاکستان اور ایران میں
پروان چڑھ رھیی تھی اس کی سوچ اور فکر کے دھارے کسی نئ سمت میں بھھ رھے تھے
– افغانستان کے فرزندوں کے اندر کا تخلیقی انسان بیدار ھو رھا تھا اور جب
انھں مھاجرت میں جدید ادب کے ھم زبان ھم عمر اور ھم نسل نمایندوں سے نشست و
برخاست کا موقع ملا تو ان کا تخلیقی ھنر ایک نئ شان کے ساتھ سامنے ایا –
ایسا کے خیبر پشتون خوا، بلوچستتان اور کراچی کے شعرا اور ادبا کو بھی
حیران کر گیا-
ھمیں حیرت ھوی تھی جب طایر زلاند کے شعریی مجموعہہ پر کراچی کے منجھے ھوے
جدید غزل گوشاعر ریاض تسنیم کا دیباچہ نظروں سے گزرا-حیرت ھمیں پروفیسر
محمود ایاز کی مضمون پر بھی ھویی جو فیس بک پر ھم نے پڑھا، اور ھمیں یاد
ایا کھ موصوف کچھ عرصہہ پہلے کویٹہ میں ایک بڑیی تقریب میں کوھاٹ کے
ساتھیوں کے ساتھ تشرییف لاۓ تھے- ھمیں ان کا اس وقتت کا چھرہہ یوں یاد نہیں
رھا تھا کہ بتانے والوں نے بتایا کہ اس وقت انھوں نے داڑھی رکھی ھوی تھی
یوں ھمیں ان کا نام تو یاد تھا مگر چھرہ بھول گیا تھا –پھر یہی نام اپنے
بغیر داڑھی والے چھرے ک ساتھ فیس بک پر میرا دوست بنا- ایک خوبصورت نوجوان،
کابل میں مقیمم، میڈیا سے منسلک ، اور اپنے پھلے شعری مجموعے کے لۓ کوشان،
نام اس کا" لپه کے رڼا" جو رازق فھیم کے"يوه پياله رڼا" سے ملتا جلتا تھا ،
اس پر چونک جانا نئ بات نھیں تھی کے تعلقات دوستاں کی ھمیں خوب خبر ھے،
لیکن اس کا فایدہ طایر زلاند کو نھیں ھوا کیوں کہ وہ جو اپنے مجمموعے میں
اپنی غزلوں سے اپنی روشنی بانٹ رھے ھیں اس کےے لۓ ناموں کی یک رنگی کوئ
معیار نھیں ھو سکتی، تاھم کھیل کو کھلاڑی ھی کھیلتے ھیں ھم جیسے اناڑی کھیل
کے داؤ پیچ کو سمجھ ھی نھیں پاتے طایر زلاند تو ابھی تازہ نوجوان ھیں۔ بھر
حال یھ ان کی شخصیت کا ایک پھلو ھے کہ وہ خوش قسمتی سے جدید غزل گو شاعروں
کی جھرمٹ میں کسب و ھنر کرتے رھے پھر کوھاٹ کا ادبی ماحول بھی اپنا ایک
تاریخی پس منظر رکھتا ھے،جس میں ایوبب صابر،محبت خان بنگش اور فی زمانہ
قیوم مروت، خالد پشتون اور دیگر نامی گرامی احباب شامل ھیں جو اپنا منفرد
تنقیدی شعور رکھتے ھیں، لھزا ایسے ادبی ماحول میں ان کا نکھر جانا کوئ
اچنبھے کی بات نھیں- ابھی فیس بک پر ان کے شعری مجموعے کا پتہ چلا تھا کہ
ماہ اپریل میں پشاور مییں ادبی چمن ٹل والوں کی جانب سے پشتو عالمی کنونشن
میںحاضر ھونا پڑا اورھماری بغیر داڑھی والے طاایر زلاند سے ملاقات
ھوی-داڑھی والے طایر ایسے بھی ھمیں یاد نھیں رھے –قدرے لمبا قد،، خوبصورت
نوجوان، مھذب اور باادب ،، لیکن ا نکے احباب کے جمگھٹے نے ھمیں محتاط رھنے
پر مجبور کیا کہ ذرا اور ان کی تاک جھانک لینے دو،ان کے ساتھ افغانستان سے
بھی بھت سے ان کے ھم عمر ساتھی اور سینیر احباب تشریف لاۓ تھے –مصروفیت
اوراقامت گاہوں کی دوریوں کے باعث موقع نھیں تھا کےان سےبالتفصیل گفتگو
کرتے البتہ شاعری پر ان کی ایک تنقیدی کتاب کا چرچاھو رھا تھا جن احباب نے
اسے پڑھا تھا وہ اپنے تبصرے اور راۓ کا اظھار کر رھے تھے،معلوم ھوا موصوف
نے یہ کتاب جلدی میںلکھی تھی اس لۓ کما حقہ موضوع سے انصاف نہ کر سکے اور
جو تاثر ان کا شعری تخلیق کے حوالے سے قایم ھونا تھا اسے ان کی نثری کتاب
لےڈوبی-شاید یہ بھی کوئ طے شدہ منصوبہ تھا کیوںکہ اپنے شعری صلاحیت کے
حوالے سے وہ جس مقام کو چھو رھے ھیں وہ ان کے ھم عصروں کو پسند نہ اتا ھوگا
لیکن ریاض تسنیم کی سند بھی کوئ معنا رکھتی ھے،بھر حال ان کے ساتھ یے، ھم
اسے" حادثہ" ھی کھیں گے کہ ان کی نثری کتاب کو کچھ عرصہ بعد میں انا چاھۓ
تھا کم ازکم ان کے شعری مجموعے کے پڑھے جانے اور اس پرلکھے جانے تبصرے اور
مضامین لکھے جانے تک، تو ان کے جدید غزل گو حیثیت مستحکم اور معتبر ھو
جاتی،اب بھی ان پر مضامین لکھے جا رھے ھیں –یھاں کویٹہ کے اخبار " زلاند
"میں ایک ادھ مضمون بھی شائع ھوا ھے اور افغانستان میں تقریب رونمائ بھی ھو
چکی ھے کیوں کہ وہ صرف ننگرھار کی آواز نھیں بلکہ افغانستان کی اواز ھیں-
طایر زلاند کیی شاعری کا طایرانہ جایزہ
جدید غزل گوئ کا رسم سوئمبر
طایر زلاند افغانستان کے شعرا میں جدید لب و لھجہ کے شاعر ھیں—"'په لپه کښې
رڼا" ان کا دوسرا شعری مجموعہ ھے جو پہلے مجموعے کےچار برس بعد چھپا
ھے—پہلا مجموعہ تو ھماری نظروں سے نھیں گزرا، البتہ خود ان کے بقول اس کے
بعد انھوں نے شعری ریاضت کو مسلسل جاری رکھا-تازہ شعری مجموعہ اس پر مہر
تصدیق ثبت کرتا ھے—مجھے کہنے دیجیے کہ کراچی کے استاد شاعر ریاض تسنیم نے
اپنے مختصر الفاظ میں ان کے منتخب اشعار کے ذریعے انھیں جدید غزلگو شاعروں
کی مختصر قطار میں جو مقام عطا کیا ھے اس مییں ان کی اضطرابی حالت کو اولیت
دی گئ ھے—اسی اضطرابی کیفیت کو وہ بڑی شاعری کا پیش خیمہ بھیی قرار دیتے
ھیں اور پشتوو شاعری کی روایت بھی-خوشحال خان خٹک اور قلندر مومند کے ایک
ایک شعر کے ذریعے وہ اس روایت کی نشانندھی کرتے ھیں لیکن ھمیں تعجب اس بات
پر ھے کہہ جس شعر کو تغزل اور غزل کی روح کھہ کر پیش کرتے ھیں وہ ان کی
مطبوعہ غزل میں شامل ھی نھیں ھے،یہ کیوں ھوا اور کیے ھوا یہ تو ھم نھیں بتا
سکتے البتہ اسی غزل کے دو شعر پیش کرتے ھیں اس کا اصل ذائقہہ تو پشتو ھی
میں ملے گا اپ اس کے اردو ترجمہ میں ذایفے کو تلاش کیجیۓ –
"جو تمناؤں کے لیۓ زندگی کا با عث تھیں ان ھونٹوں کو سسکیون نے مسکان کے لۓ
نھیںچھوڑا"
اس غزل کا دوسرا شعر دیکھیے-
میں نے فکر کی روشنی کو زندگی میں محفوظ کر لیا ھے اب میں بجھنے والا چراغ
نھیں ھوں،ھواؤں کو خبر کر دو"
طایر زلاند کا شمار افغان نوجوانوں کی اس نسل میں ھوتا ھے جو افغان مھاجرت
کے کسی کیمپپ میں پیدا ھوے انھی کیمپوں کے سکولوں اور مدرسوں میں تعلیم
حاصل کرتے ھوے حالات کی جکی میں پستے ھوے شعور اور فکر کی بیداری سے اشنا
ھوے-جدید فکر و شعور کی اس بیداری نے بادشاھی نظام کے حبس ذدہ تخلیقی عمل
کو بدل ڈالا اور پھر پاکستان کے طول و عرض میں آزاد لوگوں کی آزاد اور جدید
فکر سے سیرابی حاصل کر کے افغان نوجوان نسل نے تو ادب کے تخلیقی میدان میں
کمال کر دکھایا –ھم پاکستانی پشتون جو چند بڑے بڑے افغان محققین کے نام اور
کام سے باخبر تھے اب ایک نئ اور توانا کھیپ کو پروان چڑھتا دیکھ رھے ھیں-ان
میں طایر زلاند کی طرح اور بھی بےشمار نوجوانوں کی ایک لمبی چوڑی فھرست ھے
جو اب اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر دنیا بھر میں اور اپنے ملک افغانستان
میں میڈیا سے وابستہ ھو کر علم و دانش کی روشنی پھیلا رھے ھیں – وہ اب
بادشاہی نظام کے محبس سے آزاد ھو چکے ھیں اور کئ دیگر نظاموں جیسے
جمھوریت،کیمونزم،جنگجویا نہ حاکمیت اور عقاید کے ادوار کا تجربہ حاصل کر
چکے ھیں اس کی کارکردگی اور ماحول دیکھ چکے ھیں اور ببن الاقوامی سطح پر
میڈیا کے ذریعے صحیح اور غلط میں تمیز حاصل کر چکے ھیں تو وہ اب اپنی
تخلیقات سے ھمیںچونکا رھے ھیں-
ذرا دیکھیۓ کہ طایر زلاند امید اور عزم کے کس مقام پر کھڑے ھیں
"طایر! ھم وقت کی راہ پر خاموش سفر نھیں کرتے، جو بھی ھو سو ھو،اب خضر سے
سوال نھیں ھوگا"
" اے فکر! میں تیرے کاندھوں سے وھم کی گرد جھاڑ رھا ھوں ، میں نے زند گی کے
سفر دشت کی تبدیلی کا سنا ھے"
" پھر میں ھواؤں سے جنگ کرنے نکلا ھوں پھر میرے ھاتوں میں چراغ ھیں"
" ھمارے بے ستاروں کی زمین کے لۓ اب تو چاھیے کہ نۓ آسمان ڈھونڈے جائیں اور
نۓ سورج لاۓ جائیں"
طایر زلاند جھاں شعور کی بیداری کی اضطرابی عمل کا گواہ رھا ھے وھاں صحافت
کے کھلے میدان میں انھوں نے چاروں اور بھت کچھ دیکھا اسی لۓ وہ پل پل کی
خبر دینے کے ساتھ تاریخ کے اسباق بھی دھراتے ھیں، کبھی پر امید کبھی
مایوسیی کا شکار نظر آتے ھیں، مگر کیسے؟ ذرا دیکھیۓ-
"زندگی کے ڈرامے کا مزہ مجھ سے ھے،میرا کردار کل کے لۓ مثال رہ جاۓ گا"
" اے طایر، ھم جو خدا سے تخلیق کی آگ چاھتے ھیں، تو حالات ھمارے افکار پر
برف برساتے ھیں"
"مجھے حالات کے کوچے نے حصار میں لے رکھا ھے،اور شھر کی دیواروں پر ماتم
تححریر ھے"
" زمین پر تو روشنی کی ضرورت ھے،آسمان سے ستارے کیوں نھیں اترتے"
" اے طایر،لوگ سفر کا آخری پڑاؤ چاھتے ھیں،وہ وقت کے سراب سے بھت مایوس ھو
چکے ھیں"'
" یہ ستمگر حالات تو اسرافیل کا صور بجا رھے ھیں،اور زندگی مجھھ سے، میرے
تھکے ارمانوں کے لۓ تازہ روح چاھتی ھے"
" میں ھر دور میں ایک نئ کربلا سے گزراھوں،میں زندگی کی کس کربلا کا ماتم
کرتا"
" یہاں تو ھر ھونٹ پر آج کا نغمہ ھے،یہاں آنے والے دن کی کون کیا فکر کرتا"
" کسی کی آنکھ میں تعبیر کی روشنی نھیں ھے،یا کہ خوابوں کا سلسلہ ختم ھو
چکا ھے"
" طایر جب اسکی آنکھ میں خواب نھیں ھیں،، تو اس کے خوابوں کی تعبیر میں
کیسے کروں"
" وقت کی زلفوں میں تاریکی ابھی بھی سوئ ھوئ ھے،،اے سورجو،اوٹ سے کیوں نکل
آتے ھو"
"دن کو ھم دنیا والوں کے لۓ کام کرتے ھیں،اور ھمارے لۓ رات باقی رہ جاتی
ھے"
"طایر، جو اندھیرون کے جنگل میں راتیں بسر کر رھے ھیں،،قسمت دیکھو، یہی لوگ
صبح کے خواب دیکھتے ھیں"
" وہ زندگی کے سمندر کے کنارے پیاس سے مر جاتے ھیں، جو حالاتت کے سراب سے
آشنا نھیںھوتے"'
طایر کی غزل میں موضوعات پھیلے ھوے ھیں یہیی پھیلاؤ اس بات کا ثبوت پیش
کرتا ھے کہ وہ تخلیقی کرب کو کسس قدر برداشت کرتے ھیں-انھیں غزل کہنے پر نہ
صرف عبور حاصل ھے بلکہ وہ اس کا ادراک بھی رکھتے ھیں جب ھی تو وہ اپنے آپ
کو'' سپین غر'' کا غزل خواں کہتے ھیں تو شاعرانہہ تعلی کیی چادر اوڑھے ھوۓ
بھی مبالغہہ آرائ نھیں کرتے اور دعوی کرتے ھیں کہ '' اگر میں اپنے دور کے
نقادوں کو اپنی طرف متوجہ نہہ کر سکوں تو طایر میں اس دور کا غزل خواں نھیں
ھونگا"اس دوسری تعلی کے علاوہ ایک اور شعر میں یوں کہتے ھیں-
"میں اپنی فکر کے معراج تک پہنچ چکا ھوں کیونکہ میں نے حقیقت کو سراب میں
پا لیا ھے''
سراب سے حقیقت کو پا لینا کوئ معمولی حاصل نھیں ھے-ذرا یہ شعر بھی دیکھیں،
جس میں وہ سورج کو مخاطب کرتا ھے-
'' اے سورج! جب بھی میں نے تیرےے ساۓ کو سر پر لیا ھے تو میری نظروں میں
میرا سایہ چھوٹا پڑ جاتا ھے''
طایر خیال اور فکر کی نزاکتوں سے آشنا ھیں- یہ اشعار ملاحظہ کریں-
''یہ جو میرے خیال کے عارض گردآلود دکھائ دیتے ھیں تو اسی لمحےتیری یادوں
کے سفر سے لوٹ آیا ھوں''
''' اگر میں شھر کی گلیوں میں آئینے رکھ دوں تو سب لوگ اپنے گریبان پھاڑ
ڈالیں گے''
طایر تصوف کی وادی میں بھی نکل آتے ھیں-یہ اشعار دیکھیں-
''اگر میں اس دشت میں امکان کی گونج نھیں ھوں، تو کوئ میری حقیقت بتلا دے
کہ میں کون ھوں''
الغرض طایر زلاند روشنی کے سفر پر بڑے اعتماد سے چلتے ھوے کہتے ھیں—
''وھاں اندھیروں کا وجود کوئ امکان نھیں رکھتا جھاں پر فکر اور دماغ روشن
ھوں''
طایر کو اپنی فکری رسائ کا مکمل ادراک ھے اور باآواز بلند اس کا اظھار کرتے
ھیں-
''آوازوں کے ھجوم میں اے طایر، میں نے غز ل کے لۓ نئ راہ منتخب کیی ھے مییں
اگر حمزہ اور قلندر نھیں ھوں طایر تو ھوں-اے 'سپین غر' مت کہو کہہ تجھ کوئ
غزل خوان نھیں ھے''
ھماری دعا ھے کہہ برف پوش پھاڑ 'سپین غر' افغانستاان کا یہ نوجوان شاعر اس
مقام کو حاصل کرے جس کی آرزو میں نوجوانوں کا ایک قافلہ رواں دواں ھے-ھم
دیکھ رھے ھیں کہ وقت، عبد الباری جھانی کے بعد اس کے سر پر تاج سجانے میں
اور جددید غزل گوئ ،ھاتھوں میں گلاب کے پھولوں کا ھار لۓ کھڑی ھے- |