سنا ہے میں نے سخن رس ہے ترک
عثمانی !
سنائے کون اسے اقبال کا یہ شعر غریب
سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا
ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب
کسی ملک کی تاریخ میں تہذیب سے ہی اس کی شناخت ہوتی ہے۔دیکھا جاتا ہے کہ
تہذیب کی اساس کیاتھی ،کس حد تک اس میں اخذ وقبول کی صلاحیت تھی اور کس حد
تک دوسرے تہذیبی دھاروں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی سکت یا قوت تھی۔ہندوستان
دنیا کا واحد ملک ہے جس نے مختلف تہذیبی دھاروں سے اپنی شناخت یا پہچان
بنائی ہے اورہزاروں برس کی اقوام عالم کی تاریخ میں اگر آج ہندوستان زندہ
ہے تو اس کا سبب اسکے مختلف علاقوں کے تہذیبی دھارے تھے جوایک دوسرے سے
اختلاف کے باوجود مشترکہ عناصر بھی رکھتے تھے۔ان تمام تہذیبوں کے مختلف رنگ
تھے مگر سب مل کر ایک رنگ تھا جسے ہندوستانی تہذیب کہاجاتاہے ۔بالکل اسی
طرح جیسے انسانی وجود میں ہاتھ کی انگلیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف
ہوتی ہیں مگرسب ایک ہاتھ کا حصہ ہوتی ہیں۔سنگم پر گنگا اور جمناکے پانی کا
رنگ مختلف ہوتاہے مگر بہر حال وہ ایک ہوتاہے ۔
کسی بھی دیش کے اتہاس ،ساہتیہ یا سنسکرتی کو نزدیک سے جاننے اور سمجھنے کا
سب سے اچھا ذریعہ اس دیش کی بھاشا ہوتی ہے بھارت دیش کی عظمت اور رنگار
رنگی کا اندازہ یہاں کی زبانوں سے ہوتاہے ۔ہمارے سنوِدھان میں دیش کے سبھی
ورگوں اور سبھی لوگوں کی آرزوؤں اور امنگوں کی عکاسی کی گئی ہے۔اس سے ہم
آہنگی کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ بھارت کی ایکتا اور اکھنڈ تا کو مضبوطی پر
دان کر نے والی ہے۔اجنتا،الورا،تاج محل اورلال قلعہ ہماری ساجھی وراثت ہیں
اور ہندوستان کے سبھی باشندے اس سا جھی وراثت کے امین ہیں،چاہے وہ کسی بھی
زبان یا مذہب کے ماننے والے ہوں۔عبادت کا طریقہ بدل جانے سے کوئی اپنی
تہذیب سے کٹ نہیں جا تا ۔ہماری ساجھی وراثت کی مثال ایک ایسے خوبصورت اور
پہلے لباس سے دی جا سکتی ہے جو بھاشاؤں کے رنگ برنگے تانے بانے سے بہت ہی
باریکی کے ساتھ تیار کیاگیاہے۔بھاشاروپی یہ مہین اور خوبصورت دھاگے اپنی
الگ الگ پہچان رکھتے ہیں ۔ان میں ہرایک کی اپنی خوبیاں ہیں لیکن ان کی
خوبصورتی ،ان کا سماجی قیمت اوران کی تکمیل ایک دوسرے کے وجود پر نرمنھ
ہوتی ہے،اوران سب کی مشترک پہچان نہ صرف ان کے اپنے وجود کو معنی دیتی
ہے،بلکہ اکھنڈ بھارت کی اسمتا کو قائم رکھنے میں ہم رول ادا کر تی ہے۔
ہر دور کاادب اپنے عہدکی تہذیب اور زندگی کا عکاسی ہوتاہے اوراپنے دورکی
عصری حیثیت کو پیش کرتاہے جس کا اظہار کم وبیش زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی
دیتاہے۔اس حقیقت کو وہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں جو ادب برائے ادب کے قائل
اوراس کا رشتہ ذہن اور زندگی سے زیادہ کتاب اور لغت سے جوڑنا چاہتے ہیں
بقول ڈاکٹر محمد حسن ’’انفرادی ذہن بھی بالآخر سماجی زندگی کا آئینہ دار
ہوتاہے اور وہ ادیب بھی جو اپنی نفسیاتی الجھنوں کی عکاسی کرتے ہیں دراصل
زندگی ہی کے عکاس ٹھہرتے ہیں ۔‘‘ادب انسانی جمالیات او راس کے فنی شعور
وصلاحیت کا مکمل مظہر و عکاسی ہوتاہے ۔انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ فنی شہہ
پارے کے مطالعہ کے ذریعہ خود کو سنواریں اوراس کو قدرومنزلت کی نگاہوں سے
دیکھیں اور جذبہ کو تکمیل تک پہنچانے اوران خواہشات کو پوراکرنے میں ذرائع
ابلاغ کا اہم کردار ہے ۔اس سلسلے میں سب سے موثر اورنمایاں مقام سمینار وں
کاہے جو شعرا،ادباء،مصنفین،ماہرین زبان وادب اور متعدد قسم کے دانشوروں کو
منظر عام پر لانے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں ،فنکاروں کو ذرائع نشر واشاعت
اور قاری کوان کے نگار شات میسر نہ ہوتے تو دنیا علم وادب سے بھی واقف نہ
ہوتی۔
فطرت کتنی بڑی فنکار ہے اس بات کو ثابت کرنا چنداں دشوار نہیں۔باغوں
،جنگلوں ،صحراؤں اور ویرانوں میں غرض ہر جگہ اس کی بے شمار مثالیں مل سکتی
ہیں ۔ضرورت ہے تو بس چشم بینا اور حساس وکشادہ ذہن ودل کی ۔باغوں میں بے
شمار رنگوں کے نشاط انگیزودلنواز پھول چمن میں صحراؤں اور ویرانوں میں ہر
سو بکھرا ہوا لامتناہی سناٹا کسی نہ کسی طرح ہر آدمی کے ذہن ودل پر براہ
راست اثرانداز ہوتا ہے۔
خلیل طوق آرکو عام طور سے ایک مصلح قوم،ایک پرجوش مقرر،ایک رہبر ملت ،اور
ایک صحافی کی حیثیت سے پہنچانا جاتا ہے ۔ لیکن ایک شاعر کی حیثیت سے بھی ان
کی اہمیت کچھ کم نہیں ۔ انہوں نے کثیر تعدادمیں شاعری کی ہے ۔ اگرچہ ان کا
مجموعہ کلام کی اشاعت کم ہوئی ہے ۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ درسی اور
ادبی مصروفیات اور دوسرے کاموں کے کرنے کے ساتھ ساتھ بھی انہیں گیسوئے سخن
کی تزئین اورآرائش کا زیادہ سے زیادہ موقع ملا ہے۔تاہم سردست ان کا جس قدر
کلام موجود ہے وہ اس اامرکا شاہد ہے کہ خلیل طوق آر ایک فطری شاعری ہیں۔
موصوف ترکی کے ہی نہیں پوری دنیا کے دانشوروں میں ایک ممتاز مقام کے حامل
ہیں ۔انہوں نے ملک وقوم اور ادب،بطور خاص اردواور ترکی ادب کی خدمت اور
ایثار قربانی کی جو راہ اختیار کی ہے وہ ہم سبھوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔اپنی
تحریروں میں خلیل طوق آر نے سب سے زیادہ زور وحدت ،ادیان،جذباتی ہم آہنگی
،اقلیتی پسندی،سائنسی مزاج،فلسفیانہ تکفراور مذہبی رواداری پر دیا ہے ۔یہ
باتیں بڑی اہم اور بنیادی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ موصوف کی تحریروں کو
ترکی کی جغرافیائی حدود سے باہر لا کر پوری دنیا میں عام کیا جائے اوران کا
پیغام دور دور تک پہنچا یا جائے تاکہ ملک اور پوری دنیا کے سبھی لوگ ان
مسائل کی طرف متوجہ ہوں اورمل جل کر نہایت خلوص اورسنجیدگی سے ساتھ ان
مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔جن کے حل کے بغیر ملک وملت صحیح معنوں میں
ہمارا ملک مہذب اور ترقی یافتہ نہیں کہا جا سکتا ۔
خلیل طوق آر سے میری ملاقات 2008میں عالمی شعبہ اردو شاہ عبدالطیف
یونیورسٹی سندھ کے عالمی کانفرنس بتوسط پروفیسر یوسف خشک سمینار کے روح
رواں کے ذریعہ ہوئی۔جن کے تعلیمی اور تحقیقی کاموں کی میں بہت قدر تا ہوں
۔ان سے میں نے مکارم اخلاق کے حوالے سے بہت سی چیزیں سیکھی ہیں ۔
اردو کو خالص ہندوستانی زبان ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ہندوستان کی تہذیب
وروایت کی پروردہ یہ زبان اپنے نشوونما کے دوران ہندی یا ہندوی مزاج کے
ڈھانچے میں پلی بڑھی لیکن اسمیں دوسری زبانوں مثلاً
عربی،فارسی،سنسکرت،انگریزی اور ترکی جیسی بہت سی زبانوں کے الفاظ واصطلاحات
شامل ہوتے ر ہے اور دوسری زبانوں سے رابطہ وتعلق کے بنا پراور بعض کو اپنی
وسعت دامانی کی بنا پر خلق بھی کئے۔جس سے اردو کی مقبولیت اورافادیت میں
اصافہ ہوگا گیا۔
جس طرح دورمغلیہ کے دوران واردین کے ذریعہ فارسی ہندستان میں داخل ہوئی اور
یہاں کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل کیا۔ اس طرح دوسرے ممالک میں جا کر بسنے
والے مہاجرین کے ذریعہ اور ہندوستان سے آگے پاکستان اور یوروپ اور امریکہ
میں بھی اپنی وسعت مانی کی وجہ سے مقبول ہوئی اورنہ صرف مقبول ہوئی بلکہ اس
میں اہم ادبی اور تحقیق وتدوین کا سرمایہ منتقل ہوا ۔
انہیں چند خطوں میں ترکی ایک ایسا ملک ہے جس کو ایشیا اور یوروپ کے چوراہے
کی حیثیت حاصل ہے ۔جب ہم ترکی میں اردو زبان وادب کی موجودہ صورت حال
پرگفتگو کرتے ہیں جس سے ہماری تین چیزوں پر ضرور ٹکتی ہے۔پہلااردو سہ ماہی
جریدہ ’’ارتیاط‘‘دوسرا استنبول یونیورسٹی اور تیسرا اردو کے مایہ ناز شاعر
ودانشور ڈاکٹر خلیل طوق آر جس نے ترکی میں اردو کی بقا اور تحفظ کو مدنظر
رکھتے ہوئے استنبول یونیورسٹی میں شعبۂ اردوکے قیام کی کوششیں 1984سے ہی
شروع کردی تھیں ۔اس شعبے میں حنیف فوق اور یعقوب فعل کے علاوہ ڈاکٹر غلام
حسین ذالفقار اور سرسید بخاری صاحب پاکستانی سے اور پھر ترکی استاد احمد
ابربوکسل پھر 1997میں اکبرکنڈی کے تقررکے بعد 2004میں ذکائی کارداش کا تقرر
بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر کے ہوا ان سب پیش رفتوں کے پس پشت جس شخصیت کی
کوششوں کی کار فرمائی تھی وہ ڈاکٹر خلیل طوق آر کی ہے جس نے پاکستان اور
خود ترکی النسل لائق وفائق اساتذہ کو تیار کیا اور اردو کی بقا اورتحقیق کے
لیے مواقع فراہم کئے جو کہ ترکی میں اردو کی تاریخ کا اک اہم باب ہے۔
ڈاکٹر خلیل طوق آر ایک اچھے استاد کے ساتھ ساتھ (1)کی جماعت سفرنامہ تو بس
محقق،تنقید نگار اور شاعر بھی ہیں ان کی شاعری کے دومجموعے منظر عام پر آکر
مقبول ہوچکے ہیں ان کے مجموعے میں غزلیں بھی شامل ہیں لیکن نظموں کا مطالعہ
کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ زندگی کو نظم کے زاوے سے دیکھنے پر قدرت
رکھتے ہیں ۔ان کی شاعری ہمیں جس تخلیق کار سے متعارف کراتی ہے ۔وہ خود پرست
انسان پرست اور اقدار پرست انسان ہے ۔جو سماج میں پھیلی بے راہ روی اور
زندگی کے بے ڈھنگے پن سے دکھی ہے اور ایمان رکھتا ہے کہ انسان خدا سے دوری
اور بے راہ روی کی وجہ سے اس بدحالی کا شکار ہوا ہے۔وہ مشرقی اور مغربی
اقدام کے درمیان تفاوت اورامیروں وغریب کے درمیان عدم توازن اوراس کی
وجوہات سے بخوبی واقف ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام کی نعتیں ان پر پوری طرح
اشکار ہیں ۔ضیاء الحسن کے مطابق اگر دیکھا جائے تو خلیل طوق آر ایک ترقی
پسند شاعر نظر آتے ہیں ۔ وہ کہیں استعاراتی زبان بھی استعمال کرتے ہیں لیکن
ان کا مدعا دو ٹوک بات کرکے ہی پورا ہوتا ہے ۔
ایک حساس ذہن رکھنے والا شاعر جب عملی میدان میں اپنے قدم رکھتا ہے تو نہ
صرف اپنے قلم کے ذریعہ دوسروں تک اپنے پیغام کو پہنچاتا ہے بلکہ دوسرے
شعراء اور محققین اوراہل فن اور اہل نظر کوایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرتا
ہے۔ جس سے اردووزبان وداب کے ساتھ ساتھ معاشرے اور قوم وملت کے فلاح وبہبود
کا کام ہوسکے ۔
ڈاکٹر خلیل طوق آر نے اس کا ثبوت اپنے سہ ماہی مجلے’’ارتیاط‘‘کے ذریعہ
سرمایہ ہے ۔کس غیر ملکی زبان کو سیکھنا اس پر کمال حاصل کرنا اوراس کے بعد
تحقیق وتنقید میں ایک مسلم حیثیت کو منوانے کا ہنر خلیل طوق آر کو خوب آتا
ہے ۔اس سلسلے میں ہم اکثر ارتیاط کے چند شمارے دیکھتے ہیں ۔ترکی کی اردو کی
ادبی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ترکی میں اردو زبان وادب کی ترویج کا
اندازہ لگا یا جاسکتا ہے ۔ڈاکٹر خلیل طوق آر کے ذریعہ’’ارتباط‘‘کے نام سے
شائع ہونے والا ترکی کا سب سے اہم رسالہ ہے جو کہ گزشتہ چند سالوں سے اردو
زبان کو ترویج واشاعت کے ساتھ ساتھ اہم کی صف میں اپنی جگہ مستحکم کو ہے ۔
ارتباط کے گزشتہ شمارہ اپریل پراگرہم غور کریں تو رنگ مضامین وموضوعات
مثلاً عصرجدید میں ترکی زبان از ڈاکٹر مظہر مبین،ایک اور ادبی تحریک کی
ضرورت ہے از ڈاکٹر سید محمد یحییٰ صبا،’’یورپ کی نوآباد بستیوں میں اردو کا
مستقبل از حیدر قریشی، منفرد ادبی تاریخ،از احمد ہمدانی ،کراچی،اشرف وغیرہ
،ان مندرجہ بالا موضوعات کی فہرست کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں
کہ ڈاکٹر طوق آر کا مشن اور ذوق ادبی تحقیقی اور خلاصہ پر مبنی ہے۔
ان کا یہ جریدہ اسم بامسمی ہے کیونکہ مدیرنے اس رسالے کے ذریعہ دیگر ممالک
بالخصوص ہندوستان وترکی کے روابط کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے اوراس کے
لیے تاریخ کے اوراق سے استفادہ کیا ہے جس کی زندہ مثال ان کی سب سے بڑی
علمی وتحقیقی کاوش وجہان اردو کو ریافت ہے۔
اس میں انہوں نے انیسویں صدی سے ترکی سے نکلنے والے اردو اخبار’’جہان
اردو‘‘کو تلاش کرکے اس کے متعدد شمارے جمع کئے ہیں ۔ڈاکٹر خلیل طوق آر کی
تحریروں کا مقصد ہندو ترکی کے تعلقات کو تاریخی پس منظر کو پیش کرنے کی
کوشش کی ہے ۔ موصوف کی بین الاقوامی شہرت یافتہ اردو رسالہ’’ارتباط‘‘ کے
ذریعہ بھی یہی کوشش کارفر نظر آتی ہے ۔’’پیاراملک ہے پاکستان‘‘اور ’’خریق
سے پشارور تک ‘‘ان کے اہم سفرنامے ہیں۔
مندرجہ بالا تعارف ہندوستان میں دستیاب موادکی روشنی میں پیش کیا گیا
ہے۔موصوف یقینا مستقبل قریب میں ہمیں اپنے علمی وادبی نگار شات سے نوازے
،رہیں گے ۔جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ا ن کی علمی وادبی
خدمات کو عالمی ادب کے کسی بھی پختہ ادب سے موازانہ کریں وہ اس میں ڈاکٹر
خلیل طوق آر کلاسیکی مزاج رکھنے والے محبت کے جذبے سے سرشار عشق حقیقی وعشق
مجازی دونوں سے تعلق خاطر انہیں مضطرب رکھتا ہے ۔اس کے علاوہ سماج کے دبے
کچلے طبقے کے مسائل انہیں بے چین رکھنے میں کھونا۔بسااوقات شاعری کے عروضی
نظام کے بندہنوں سے آزادی حاصل کرکے عوام کے دکھ درد سے ہم آہنگ کردینا
چاہتے ہیں ۔ان کے لفظوں کا انتخاب نیا اور اسالیب منفرد ہیں۔ ڈاکٹر خلیل
طوق آر آزاد نظموں اور نثری نظموں کے علاوہ پابند شاعری یعنی شامل ہے ۔اردو
شاعری کے مجموعے میں اپنے ابتدا سے آج تک فنی اعتبار سے تجزیوں سے مختلف
مراحل سے لرز چکی ہے لیکن ڈاکٹر خلیل طوق آرنے عہدمقفا غزلیں کہہ کر ایک
نئے طرز کی بنیاد ڈالی ہے ۔ایک طرف ڈاکٹر طوق اار پرانی روایتوں کے پرستار
ہیں تو وہیں دوسری طرف نئے نئے تجربے کرکے اردو شعروادب سے نئے امکانات
اورنئی گنجائش مہیا کرانے میں اس طرح کوئی کہنہ فن شاعر ہی شاعری میں تجربہ
کرکے اپنے آپ کو مقوائے کی جرأت کرسکتا ہے ۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ترکی کے قوم کے معماروں میں خلیل طوق آر
کو ایک بلندمرتبہ حاصل ہے ۔ان کوایک قابل فخر سلسلہ نسب اور اعلیٰ تعلیم
حاصل ہے اور ملک کے لیے ان کے دل میں عظیم ولولہ اور خواہشات وعزائم ہے
۔موصوف ایک اعلیٰ حوصلہ اور عول العزم شخصیت کا نام ہے ۔جس نے سخت محنت کو
اپنا شعائر بنا ئے رکھا ہے ۔وہ ایک ایسا عظیم مجاہد ادب ہے جس نے بین
الاقوامی وسیع النظری کے ساتھ ادبی اورقومی تحریک کو دیکھا ہے ۔موجودہ صدی
کے انسانیت کے رہنماؤں میں خلیل طوق آر ایک ایسی شخصیت ہیں جو ہر ایک
معاملہ میں وسیع النظری سے دیکھ رہے ہیں ان میں خدمت عامہ کا ایک کبھی نہ
ختم ہونے والا جذبہ ہے ان کا کوئی نظریہ کسی محدود طبقے کا محض قومی سطح تک
محدود نہیں ہوتا ہے وہ ایک ہی وقت میں نہ صرف ترک کی بلکہ پوری دنیا سے
تعلق رکھتے ہیں ۔خلیل طوق آر تاریخی قوتوں کے ممکنہ حد تک بہترین ہتھیاروں
میں سے ایک ہیں کیونکہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر بے حد چست ہیں یہاں ان کی
دلچسپ ودلکش شخصیت اہم نہیں بلکہ اہمیت ان ادبی طاقتوں کی ہے جن کی وہ
رہنما ئی کررہے ہیں ۔ان کی مقاصد کی ہے جن کے لیے وہ لڑرہے ہیں اوران ادبی
اصولوں و پالیسیوں کی ہے جو انہوں نے وضع کی ہے ۔یہ پالیسیاں جیساکہ ان کا
سوچ ہے ان کے ذہن کی پیداوارنہیں بلکہ بین الاقوامی روایات اور ضروریات کی
پیداوار ہیں لیکن ان پالیسیوں کو انہوں نے ایک واضح شکل ،استحکام اور
مضبوطی عطا کی ہیں ۔تاکہ وہ نہ صرف ترکی بلکہ مستقبل کے ترکیوں کی بھی
بنیاد بن جائے ۔ان پالیسیوں کے انہوں نے اپنا یا ہے لیکن ان بنیادوں میں
کوئی تبدیلی نہیں کی ہے ۔ان پالیسیوں کے سیکولرازم جمہوریت منصوبہ بندی
ترقی سوشلزم اور آزادانہ خارجہ پالیسی جس کو بعد میں ناوابستگی ،فروغ امن
اور مجموعی تحفظ کا نام دیا جائے گا ۔یہ الگ بات ہے ہوسکتا ہوکہ موصوف کی
ان اصولوں اور پالیسیوں کی ادبی وعلمی دنیامیں مخالفت بھی ہورہی ہو یا
ہوسکتی ہے ۔موصوف اپنے ہر اصولوں کے لیے بسااوقات خطروں کا سامنا بھی کرتے
ہیں ۔کبھی ایسا خطرہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ ان کے پائے استقامت کو کہیں
لرزش نہیں آجائے مگر ان کو اپنی بلندی ہمتی استقامت اور مسلسل کوششوں سے ان
کو ثابت کرنا ہوگا کہ ادب اور قوم کی تعمیر کے لیے ان کے یہ اصول اور
پالیسیاں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں ۔عصری تقاضہ اور بدلتے ہوئے حالات کے پیش
نظر موصوف نے اپنے نظریات میں وقتاً فوقتاً بھی تبدیلیاں بھی کرتے رہے ہیں
۔یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ بین الاقوامی سطح پر ان کی ادبی اقدار کی واہ واہی
ہورہی ہے ۔موصوف کا یہ نظریہ تمام مذاہب کی عالمی اہمیت کے قدیم نظریہ پر
مبنی ہے ۔متعدد مختلف مذاہب کی ذاتوں اور طبقوں والے ملک میں انسانیت ہی
ایک ایسا سائنسی نظریہ ہے جو ان سب کو قومی سطح پر یکجاں کررہا ہے ۔پروفیسر
خلیل طوق آر اپنے ملک اور پوری دنیا کی رنگا رنگ پر بھی اتنا ہی زوردیتا ہے
جتنا کہ ملکی اتحاد پر ۔ان کا نظریہ ہے کہ دنیا کے کلچر تمام تر رنگا رنگ
کے باوجود بنیادی طور پر ہم آہنگی رکھتا ہے اس نظریہ نے مختلف ذاتوں
،مذہبوں اور طبقوں کو انسایت کی ایک لڑی میں پیرو دیا ہے ۔قومی یکجہتی ایک
مسلسل عمل ہے ۔پروفیسر موصف کی نظر میں جمہوریت بھی دنیا کے لیے سوشلزم طرح
ناگزیر ہے ۔ہر نئی ترقی کی روشنی میں موصوف کا یہ نظریہ درست اور عین موافق
ہے ۔ منصوبہ بندی آج سرمایہ دار سماجوں کے لیے بھی ضروری ہوگئی ہے اور
عالمی تناظر حالات میں منصوبہ بندی کا مطلب ملکی اور سماجی ترقی بھی ہے
۔حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو لوگ منصوبہ بندی کی مخالفت کررہے ہیں اس کے حامی
ہورہے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ کچھ عناصر آج بھی اس کے صحیح مفہوم سے ناواقف
ہیں ۔منصوبہ بند ترجیجات درست ثابت ہوچکی ہیں کیونکہ بڑی صنعتوں کے قیام نے
عالمی معیشت کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے ۔جہاں سے اپنی ترقی کی راہیں وہ
خود کھوج رہی ہے ۔پروفیسر خلیل طوق آر کی تخلیقات کی روشنی میں کہاجاسکتا
ہے کہ انہوں نے ثابت کردیا کہ جمہوری اور سوشلٹ طریقہ کار ساتھ چلائے جا
سکتے ہیں اور اس پر عمل کرنا امن وامان اورانسانیت کو فروغ حاصل ہوسکے گا
۔ناوابستگی عالمی خارجہ پالیسی کی شناحت بن گئی ہے اورا س سے وابستہ وہ
تمام غلط فہمیاں دور ہوگئی ہے جونا وابستگی منفی مفہمو کولے کر اس کے بارے
میں پیدا ہوگئی ہیں ۔یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ہماری پالیسی امن اور مجموعی تحفظ
کی ہے اور تمام دنیا کی ترقی پر مبنی ہے ۔ناوابستگی کا مطلب کبھی بھی غیر
جانبداری اور غیر متعلق رہنا نہیں ہے ۔اس کا مطلب محض یہ ہے کہ دنیا کسی
بھی ایک بلاک سے وابستہ سے رہ کر نہیں رہ جائے گا اور ایک ایسی پالیسی وضع
کرے گا جس کے تحت ہر مسئلہ لو فرداً فرداً دنیاوی اورانسانی مفاد اور اس کی
خوبیوں اور خامیوں کی روشنی میں رکھا جائے گا ۔اس نظریہ نے نو آبادیوں کی
آزادی پیام امن تحفیف اسلحہ اور نیو کلیائی ہتھیاروں پر پابندی کے لیے اپنا
فرض ادا کرنے میں بے حد مدد گار ثابت ہورہے ہیں ۔یہ تمام ادبی اصول وضوابط
اور نظریہ پروفیسر خلیل طوق آر کی شناخت بن گئی ہیں جو اس کے حسب ونصب میں
شامل ہے ۔فی زمانہ ان کا یہ ادبی ورثا قومی سرمایہ بن گئی ہے ۔موصوف کا وہ
یہ طریقہ کار جن کے برعکس نہیں کیاجاسکتا اور جب تک اردو کے ادبا ،شعرا اور
دانشوران ان پالیسیوں پر عمل پیرا رہے گا ۔تب تک اردوکے اسکالروں کو دنیا
کے ہر میدان میں کامیابی ملتی رہیں گی ۔
خلیل طوق آر اردوکا محبوب ترین شاعرہے ۔جسے ہم احمد فراز کا ہمنوا کہہ سکتے
ہیں ۔اس صدی میں خلیل طوق آر کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا ہے اس میں
اورباتوں کے علاوہ نئے مزاج کا بھی دخل ہے ۔یہ احساس آزادانہ خیال سے بیدار
ہونے والے نئی دنیا اور نئے مامور اور تقاضے کے مزاج سے ہم آہنگ ہے ۔جسے
عظمت رفتہ پرناز بھی اور دکھ بھی ہے اورنئی عظمت کی تلاش بھی ہے ۔موصوف
سیاسی شاعری نہیں کررہے ہیں مگر نئے مزاج کے عہد کر سمولیاہے ۔اور جب نئے
طوفان سے کھیلنے والے آئیں گے تو انہیں بلاخیز موجوں سے لڑنے کے لیے خلیل
طوق آر کی شاعری سے تقویت ملے گی۔ممتاز دانشور ستیہ پال آنند نے کہا ہے کہ
خلیل طوق آر کے آرٹ کی وجہ سے شاعری حدیث دلبری سے بڑھ کر حدیث زندگی بن
جاتی ہے اور زندگی کے مختلف دوروں،کروٹوں اور ان انقلابات کا ساتھدینے لگتی
ہے ۔ |