میرے دیس میں بجلی (کیوں )آئی ہے

سائنسی ایجادات کی ابتداءہوئی توانسانی سہو لیات میںبتدریج اضافہ ہو نا شروع ہوا،پہیہ کی ایجاد نے زرائع آمد و ر فت میں آسا نی پیدا کی،بلب کی ایجاد سے رات میںدن کا سماں ہونے لگا،ٹی وی ایجادہوا تو تفریح اور وقت گزاری کا ایک اچھا موقع ہاتھ لگا،ٹیلی فو ن،موبائل رابطے کاچلتا پھرتامؤثرزریعہ ثابت ہوئے، کمپیو ٹر اور انٹر نیٹ نے ذخیر ئہ معلوما ت میںبے پناہ ا ضافہ کیا۔

مگروائے افسو س!کہ یہ سب تو بجلی سے چلتاہے،اور ان کو چلانے کے لیے بجلی بھی چا ہئے،جبکہ پاکستان میں غیر اعلا نیہ لوڈ شیڈ نگ کی آنکھ مچو لی کچھ اس طرح سے جا ری ہے کہ یہ مشینیں استعما ل میں تو کم ہی آتی ہیں مگر اس بجلی کی آنی جانی میں جلد ہی ہمت ہا ر دیتی ہیں اور نا کا رہ ہو جا تی ہیں۔ کسی شاعر نے کےا خوب کہا ہے کہ،
یہ اکثر بند رہتی ہے ،یہ اکثر بند ہوتی ہے
یہ پبلک کو جگا کے چین سے دن رات سوتی ہے

بے شک واشنگ مشین نے خاتو نِ خانہ کا صد یو ں پرا نا مسئلہ حل کر دیاہے۔ابھی زیادہ عر صہ نہیں گزراکہ ان کے ایک ہاتھ میں دیسی صابن اور دوسر ے ہا تھ میںبیس بال کی طرز کا ایک عدد ڈنڈا ہوا کرتا تھا،یہ ڈنڈا ایک وقت میں تین تین کام سرانجا م دیتا تھا،اس سے کرکٹ کھیلی جا تی،شرارتی اور کہنا نہ ماننے والے بچوں کی ٹھکا ئی کی جاتی اور پھر آخر میں یہ کپڑوں کی ُدھلا ئی کے کا م آتا،اس طر ح بیک وقت بچوں کے رونے کے ُسروں اور کپٹرے دھوتے وقت ڈنڈے سے نکلنے والے سا ز سے ایک عجیب سا سما ع بندھ جاتاتھا ۔ َ

بھلا ہو اس واشنگ مشین کا کہ اگر”لائٹ“ ہو تو پتا ہی نہی چلتا کہ کب کپڑے دھوئے نکالے اور سوکھ بھی گئے،کیو نکہ الٹرا ماڈرن قسم کی مشینوں میں یہ سب سہولتیں بدرجہ اتم موجود ہیں،اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ صرف مشینوں کا الٹرا ماڈرن ہونا ہی مفید ہے۔

ویسے جناب اس لوڈ شیڈنگ کے دو فائدے تو بہر حال ہیں ، جس سے عوام ناواقف ہے ایک تو یہ کہ جب صبح ۹ بجے سے لے کر رات ۹ بجے تک بجلی نہیں ہو گی تو خواتین میں لگائی بجھائی کا تناسب کم ہو گا۔ لڑائی جھگڑے کی شرح میں بھی کمی واقعہ ہو گی ۔تمام اخلاقی برائیاں اچھے اخلاق میں تبدیل ہونا شروع ہوجائیں گی، لا ئیٹ آنے کے انتظار میں وقت ، دعا کرتے ہوئے گزرے گا کہ یا اللہ لائیٹ آجائے۔اللہ میاں جی یہ لا ئیٹ کب آئے گی ۔۔۔یوں ذکر الہی کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوتی رہے گی ۔ دوسرا گھر بیٹھے خواتین ڈریس ڈیزایئنر بھی بن سکتی ہیں ، مشین کے اندر ڈالے گئے کپڑے جب ابھی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوں گے ہی کہ لائیٹ چلی جائے گی۔۔۔بجلی کی آنکھ مچولی ، چھپن چھپائی،شروع۔۔۔ اور کپڑے پڑے پڑے ، ۔مجھے رنگ دے۔۔ مجھے رنگ دے کہتے کہتے ۔ خود ہی ٹائی اینڈ ڈائی ہوجائیں گے،ایسے ایسے رنگ ہوں گے کہ پروفیشنل کے بس سے باہر کی بات ہو گی۔

کون کہتا ہے کہ ہمارے ملک میں قومی یکجہتی کا فقدان ہے،جب بھی تین یا چا ر گھنٹے کے بعدلائٹ آ تی ہے تو سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے آہا !لائٹ آگئی، اورپھر جب دوبارہ کئی گھنٹے کے لیئے چلی جاتی ہے تو ایک دفعہ پھر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کی ایک ہی صدا سنائی دیتی ہے اوہو!لائٹ چلی گئی۔

ہمیں یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ ہمارے حکمران کس قدر غریب ہیں ،کہ وہ اپنا یوٹلیٹی بل تک نہیں ادا کر سکتے ۔شکر اللہ کا کہ ہم مرتے بیشک مر جائیں ، مگر بل اپنے وقت پر ادا کریں گے ، اس قدر لوڈشیڈنگ کے باوجود اتنا ہوشربا بل آتا ہے کہ ہر مہینے ہی آنکھیں اس معجزے پر پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ۔گویا بقول شاعر۔
ہوا ہے ضُعف بجلی کو جو گرمی پر شباب آیا
مگر ہر ماہ بِل بجلی کا بن کر اک عذاب آیا

ویسے ایک بات ہے کہ اگرحکمرانوں کے محلات میں بھی طویل غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہوتی تو ان کو بھی کلمہ طیبہ اور بہت سی دعائیں یاد ہوتیں۔آیت الکرسی ،دعائے قنوت پڑھ پڑھ کے واپڈ پر پھونک رہے ہوتے ۔۔، بڑے بڑے ڈیم اور منصوبے بنانے سے تو یہ کہیں زیادہ آسان کام ہے۔یوں نامزد امیدوار سیاست کے سالانہ امتحان میں فیل ہو کر نا اہل بھی نہ ہوتے۔

لوڈ شیڈنگ نے بہت سی گھریلو سہولیات میں اضافہ کر دیا ہے ، پہلے کتنا ہنگامہ ہوا کرتا تھا ، جب پوری بجلی آیا کرتی تھی ،ہرروز نہیں تو ہفتے میں ایک دفعہ ضرور میاں یا بچوں کے کپڑے استری سے جل جایا کرتے تھے ،یا استری، اپنا نشان چھوڑ جایا کرتی تھی ،اب تو جناب آپ بےشک استری کپڑے کے اوپر رکھ کے بھول جائیں ،مجال ہے کہ ذرا سی بھی کہیں سے جلی ہو ۔

ایسا لگتا ہے کہ بجلی کا یہ بحران ہماری زندگی کا لازمی جزو بنتا جا رہا ہے ۔اگر بجلی گھر آئے مہمان کی طرح زیادہ دیر کے لئے رکی رہے تو ہم حیران ہو کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ محترمہ آخر کب جائیں گی،؟؟ابھی تک گئی کیو ںنہیں ،؟؟۔۔خدا خیر کرے ۔

صاحب! بجلی پر تو اس قدر لکھا جا سکتا ہے کہ لکھتے لکھتے ہاتھوں کی انگلیوں میں کر نٹ دوڑنے لگے،دل و دماغ کا میٹر شارٹ ہو جائے،غصہ اس قدر آئے کہ 440وولٹ کی اس کے آگے کےا حیثیت،جسم میں خون کسی برقی رَوکی طر ح گردش کرنے لگے،سانس لینے کی رفتار اس قدر تیز ہو کہ اس کے فیوز ہی اُڑ جانے کا اندیشہ ہو،مُنہ سے ایسے ایسے کلمات ادا ہو ں کہ مثبت اور منفی چارج کا فرق ختم ہوجائے ۔۔ اس سے پہلے کہ ہم بجلی کی رَو میں مزید بہہ کر کہیںسے کہیںنکل جائیں،اصل موضوع کی طرف آتے ہیںجو کہ ز یادہ موزُوں بھی ہے۔

گرمی بڑھتی جا رہی ہے ، اے سی کے بغیر گزارا نہیں ۔۔ یہ نہیں تو روم کولر تو ہو۔اب کون سرے شام صحن میں چارپائی بچھائے پانی کا چھڑکاﺅ کرے ۔۔اور پھر رمضان المبارک کی بھی آمد آمد ہے۔اس کیفیت کو ایک شاعر نے بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے،
نمازی مسجدوں میں کس قد ر حیران بیٹھے ہیں
یہ روزہ دا ر بیچارے بہت ہلکان بیٹھے ہیں
بہت بے ہوش لیٹے ہیں بہت بے جان بیٹھے ہیں
لئے ہاتھوں میں بس اک دولتِ ایمان بیٹھے ہیں

کچھ عرصہ قبل ٹیلی وژن پر ایک اشتہار چلا کرتا تھا ۔۔میرے گاﺅں میں بجلی آئی ہے اک خوشحالی ” سی“ لہرائی ہے۔

نہ بجلی آئی نہ ہی خوشحالی ، بس عوام سی سی ہی کرتی رہ گئی ، ۔بجلی ہوتی تو ٹیوب ویل چلتے۔ فصلیں لہراتیں، تب خوشحالی بھی ضرور آتی۔اس اشتہار میں کام کرنے والے بچے اب جوان ہو گئے ہوں گے۔اور کسی درخت کے نیچے چارپائی بچھا کر تازہ ہوا کے مزے لے رہے ہوں گے۔پہلے پہل واپڈا کے بجلی کے پول، ڈھول کے پول ہی ہوا کرتے تھے ۔ذرا سی بارش کیا ہوئی پورے کھمبے میں کرنٹ دوڑ گیا ،کسی کا جانور مر گیا تو کوئی انسان اس کو چھوتے ہی فوت ہو گیا۔۔۔، تاریں اس قدر نازک مزاج واقعہ ہوئی تھیں کہ بغیر دیکھے اِ دھر اُدھر گرتی پڑتی تھیں۔اب تو تار اور کھمبے بھی اعلی نسل کے لگ گئے ہیں۔مگر حسنِ اتفاق دیکھیں کہ اب بجلی مری پڑی ہے۔۔۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے یہ لمبے تڑنگے کھمبے، احتجاج کے لئے خوب استعمال ہو رہے ہیں۔ مگر واپڈا کو کون سمجھائے کہ اب ہر کوئی احتجاج کے لئے نہیں چڑھتا،بلکہ اوپر تازہ ہوا کا جھونکا اور شہر کا فضائی جائزہ لینے جاتا ہے۔۔ ظالم،واپڈا والے کھمبا ہی اکھاڑکے لے گئے ہیں ، کہ نا رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ،پتہ نہیں کیوں عوام کو کوئی کسی حالت میں بھی خوش نہیں دیکھ سکتا، خواہ پرندوں کی طرح تاروں پر اکڑوں بیٹھے یا سپائیڈرمین کی طرح کھمبے پر چڑھے۔

بجلی کے تار اب کپڑے لٹکانے کے کام آتے ہیں ۔واپڈا والوں کو کئی دفعہ بزریعہ ایس ایم ایس پیغام بھی بھیجا ہے کہ اپنے تار لپیٹ کر لے جائیں ،پرندوں کے بیٹھنے کا کوئی اور وسیلہ اور کپڑے سکھانے کے لئے ، اللہ اور انتظام کر دے گا ۔ مگر ابھی تک ان کے کانوں میں کوئی جوں تک نہیں رینگی۔

پُرانے وقتوں کی بات ہے جب بیل کی مدد سے کنو یںسے پانی نکا لا جاتا تھا،ویسے اب بھی پاکستان کے کئی پسماندہ علاقوں میںیہ طریقہ رائج ہے،اسی طر ح بلوچستان کے چند دور دراز علاقوںمیں گدھا پنکھے کا بہترین نعیم البدل ہے،گدھا جب بیل کی طرح گول گول گھومتا ہے،تو دوسری طرف پڑے ہوئے کپڑے سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے ہیں، اس طرح چارپائی پر لیٹی اشر ف الخلوقات اس سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہے، کیوں نہ اس طریقہ کار، کو گاﺅں گاﺅں،قریہ قریہ ،شہرشہررواج دیا جائے،ہمارے ملک میں کونسا بیل کی طرح کام کرنے والوں اور گدھوں کی کمی ہے، بس آزمائش شرط ہے۔ ویسے بھی اپنے وطنِ عزیز میں بجلی ایسے غائب ہوتی ہے جیسے کہ گدھے کے سر سے سینگ۔۔ اب ہم اس کے سوا اور کےا کہہ سکتے ہیں کہ
یہاں چھوٹی ،بڑی جتنی بھی ہے سرکار ناقص ہے
کریں کیا ہم ہمارا سارا کاروبار ناقص ہے

مریم ثمر
Saima Maryam
About the Author: Saima Maryam Read More Articles by Saima Maryam: 3 Articles with 2011 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.