ہم خوف ذد ہ لوگ ہیں۔۔۔ آئے دن کہیں نہ کہیں کوئی خودکش
حملہ آورخود سوزی کر رہا ہے ۔۔۔کہیں نسب شدہ دھماکہ خیز مواد پھٹ رہا
ہے۔۔۔کہیں کسی کو گھات لگا کر موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔۔۔کہیں کسی
وبائی مرض میں مبتلا ہو کر انگنت لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔۔۔کہیں ڈاکوؤں نے
ڈاکہ مارتے ہوئے اہلِ خانہ کو موت کی نیند سلا دیا۔۔۔موت بر حق ہے اس کا
تعلق کسی دین و مذہب سے نہیں ۔۔۔موت کا تعلق کسی مخصوص خطے یا علاقے سے
نہیں۔۔۔یہ وارد ہے ۔۔۔در حقیقت موت کا راج ہمارے ملک نہیں پوری دنیا پر چل
رہا ہے۔۔۔یہ موت ایک پر اسرار ایلین کی مانند ہمارے درمیان گھوم رہی
ہے۔۔۔آپ سفر میں ہوں ۔۔۔بازار میں ہوں ۔۔۔دفتر میں ہوں ۔۔۔ گھر میں ہی کیوں
نہ ہوں۔۔۔ایک انجانا سا خوف آپکے ساتھ ہے۔۔۔
یہ کوئی ڈراؤنی فلم کا سین نہیں ۔۔۔یہ ہماری عملی زندگی ہے جسے اس طرح ہم
سب ہی گزار رہے ہیں۔۔۔اگر ہم اس بحث میں جائیں کہ ہم ان حالات کا شکار کیسے
ہوئے ۔۔۔ایک لمبی کہانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔میرے علم کے مطابق اس کے
لئے کوئی بھی تیار نہیں ۔۔۔تو پھر اب اس سے نکلنے کا وقت آگیا ہے ۔۔۔ہر طرف
تبدیلی کا شور ہے ۔۔۔ایک بار پھر بلند و بانگ دعوے فضاؤں میں گونج رہے ہیں
۔۔۔کردار کشی کا سلسلہ جاری ہے۔۔۔گڑے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں۔۔۔ایک دوسرے
کے کالے کارناموں کے پردے فاش کئے جارہے ہیں۔۔۔جی ہاں! یہ وہ لوگ ہیں جو
اپنی ذاتی بقا کی خاطر کسی کی کردار کشی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔۔۔ہم ہر
بار اپنے پاک وطن کی باگ دوڑ ان کے میلے کچیلے او رخون آلود ہاتھوں میں
تھما دیتے ہیں۔۔۔ہم کیوں انکے وہ وعدے بھول جاتے ہیں جو یہ پہلے کئی بار
کرچکے ہیں۔۔۔جن میں سے شائد کسی ایک پر عمل ہوا ہو۔۔۔یہ کیسے بے حس لوگ ہیں
جو ہر بار جھوٹ بول کر ہم سے ہمارے ضمیر سے دھوکہ کرتے رہے ہیں۔۔۔اور ہر
بار چہرے پہ نیا چہرہ لگا کر سامنے آجاتے ہیں۔۔۔
اس دکھ سے بھر پور مضمون میں ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا تبدیلی کی امید
۔۔۔الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق ہمارے ملک کے کل رجسٹرڈ ووٹرز میں
تقریباً اٹھاون فیصد(58%) ووٹرز کی عمر اٹھارہ سے چالیس سال ہے۔۔۔اگر دیکھا
جائے تو تازہ خون ہے اور اس ملک میں سب سے زیادہ اسی عمر کے افراد مشکلات
کا شکار ہیں۔۔۔نوکری کا مسلۂ ، اچھی تعلیم کا مسلۂ ، حفاظت کا مسلۂ اور اس
طرح کے چھوٹے چھوٹے مسائل کی ایک لمبی فہرست ہے۔۔۔یہ تعداد تخت یا تختہ
کرنے لئے کافی ہے۔۔۔مگر یہ تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی اکثریت جذباتی ہوتی
ہے ۔۔۔اپنے فیصلے جذباتی انداز سے کیا کرتے ہیں۔۔۔مگر اب وقت بہت نازک ہو
چکا ہے۔۔۔زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے۔۔۔ہمیں وقت کی نزاکت کا خوب اندازہ
ہے۔۔۔
مجھے ووٹ نہیں چاہئے۔۔۔میرا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں اور نہ ہی میں
کوئی آزاد امیدوار ہوں۔۔۔میں صرف اس ملک میں اس تبدیلی کی طرف گامزن ہوں جو
بغیر کسی خونی انقلاب کے آجائے۔۔۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریروں کے ذریعے آپ
لوگوں کی سوچ میں کچھ تبدیلی لانا چاہتا ہوں۔۔۔ جو کچھ سمجھتا ہوں آپ لوگوں
کے ساتھ بانٹ لیتا ہوں۔۔۔اس یقین کے ساتھ انشاء اﷲ ہم ایک دن اس ملک کو
اپنے آباؤ اجداد کی خواہشوں کے عین مطابق بنا دینگے۔۔۔ہمارے لئے ان تمام
شہیدوں کا لہو اکسیجن اور فیول کا کام کرتا ہے جو اس ملک کو حقیقی معنوں
میں پاکستان بنانا چاہتے تھے۔۔۔ہم ہی ہیں جنہوں نے تبدیلی لانی ہے۔۔۔ہمارا
ووٹ آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کی امانت ہے ۔۔۔اسکا صحیح استعمال
ہمارے ضمیر کی فتح ہوگی۔۔۔آنے والے وقت میں ہم اپنے سامنے سرخ روح ہو سکیں
گے۔۔۔
اب یہ آخری معرکہ سمجھ کرفیصلہ کرناہے ۔۔۔کھوکھلے نعرے والوں کو انکے گھروں
میں قید کرنا ہوگا۔۔۔حقیقت پر مبنی بات کرنے والوں کو چن چن کر نکالنا ہوگا
اور انھیں یہ باور کرانا ہوگا۔۔۔اگر انہوں نے بھی ہمیں دھوکا دیا تو انکا
انجام یکسر مختلف ہوگا۔۔۔میری خواہش ہے کہ مورخین جب تاریخ رقم کریں تو
ہمارے عہد کو سنہری لفظوں سے لکھیں کہ اس کے نوجوانوں نے پاکستان کی تقدیر
کا فیصلہ صحیح ہاتھوں میں کو سونپا۔۔۔جسکی وجہ سے آج پاکستان دنیا کے چند
ترقی یافتہ ممالک میں کھڑا ہے (آمین، انشاء اﷲ)۔۔۔قدرت ہمیں وہ وقت دیکھائے
کہ کوئی نا دہندہ خود کہے مجھے ووٹ مت دینا ۔۔۔میں آپ جیسے باشعور و باوقار
لوگوں کی رہنمائی کا اہل نہیں ہوں۔۔۔ |