پاکستانی عوام پر پچھلے پانچ برس یقینا بہت گراں گزرے
ہیں۔بے لگام مہنگا ئی،بے روز گاری، بد امنی، بد انتظامی،بجلی،گیس کی لوڈ
شیڈنگ اورکرپشن کی و باءنے انہیں سخت مشکل میں ڈالے رکھا ۔ مگر انہیں یہ
امید تھی کہ اگلے عام انتخابات ہونگے تو انشاللہ حالات پلٹا کھا جائینگے
اور ان کی ابتر صورتِ حال میں بہتری آئیگی۔آ ئین کے آر ٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ
کا ذکرِ خیر ہوا ، تو عوام کے دلوں میں ایک نئی امیدکی کرن پیدا ہو ئی۔وہ
سمجھے کہ اس بار الیکشن کمیشن ان دفعات کی روشنی میں ایک ایسی چھا ننی کا ا
ستعمال کرے گی جس سے گزرنا ان لو گوں کے لئے ممکن نہیں ہوگا ،جنہوں نے قومی
خزانے کو لو ٹا ہو،کرپشن کی ہو یا بنک کا ڈیفا لٹرہو۔کا غذ ا تِ نا مزدگی
داخل کرانے کا مو قعہ آیا تو ریٹر نینگ آفسران نے کا غذاتِ نا مزدگی داخل
کرانے والوں سے وہ وہ سوالات پوچھے،جسے سن کر کمرہ عدالت کشتِ زعفران بن
جاتا۔ ہماری سادہ لوح عوام سمجھی ،شاید امیدواروں کو چھلنی میں سے گزارہ جا
رہا ہے۔لیکن جلد ہی یہ احساس ہوا کہ یہ سوالات وہ جوابات تو محض دکھاوا
تھا۔کیو نکہ بعد ازیں ان لوگوں کو بھی انتخا ب میں حصہ لینے کی اجازت مل
گئی جو جعلی ڈگری ہو لڈر تھے اور جنہیں عدالت نے با قا عدہ سزا سنائی
تھی۔عوام جو یہ امید لگائے بیٹھی تھی کہ الیکشن سے پہلے سیاست کے جو ہڑ کو
گندی مچھلیوں سے پاک کر دیا جا ئیگا،ان کی یہ امید پوری نہ ہو سکی۔اب آنے
والے انتخابات میں اکثریت ان چہروں کی ہو گی جو اپنے سکینڈ لز اور دوسرے کا
رناموں کی وجہ سے خا صے جانے پہچانے ہیں۔
عوام یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ مشرف دور کے کوئی چالیس پچاس ارکانِ اسمبلی
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔کل تک مشرف کے گیٹ گانے
والے اور اس کے کندھوں پر سواری کرنے والے آج مشرف کے حق میں دو بول بھی
نہیں بولتے۔آج وہ نواز شریف یا زرداری کے گن گا رہے ہیں اور آنے والے
الیکشن کے لئے ان سے ٹکٹیں لے کر پھر سے اسمبلیوں میں پہنچنے کے لئے بے چین
ہیں۔ان کے ضمیروں میں ذرہ بھر بھی خلش پیدا نہیں ہو تی کیو نکہ ان کے ضمیر
ان کے مفا دات کے اسیر ہیں۔کردار نام کی کوئی چیز عوام کو نظر نہیں آ رہی
ہے۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے الیکشن سے کچھ بھی نہیں بدلے گا۔بہت کم
تعداد میں چہرے بدلیںگے۔اکثریت انہی کی ہو گی جو پہلی تھی۔مو روثی سیاست
چلتی رہے گی کیو نکہ نظام میں ابھی تک کسی بہتری کے آ ثار عوام کو نظر نہیں
آئے ،یہ وجہ ہے کہ عوام میں ما یو سی پھیل رہی ہے۔شفاف انتخابات کے حوالے
سے ذ ہنوں میں شکوک و شبہات الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کے قیام سے ہی
پیدا ہو ئے ہیں۔یہ تا ثر پیدا ہوا ، کہ بہت کچھ اند رونِ خانہ ہی طے ہو چکا
تھا۔عوام کے ذہنوں میں
انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے بہت سارے سوالات جنم لے رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن ، نگران حکومت او ر عدالت عالیہ کے درمیان ایک کشمکش کی سی
کیفیت نظر آ رہی ہے۔یہ احساس ابھرتا جا رہا ہے کہ اندرونِ خانہ کو ئی نہ کو
ئی کچھڑی ضرور پک رہی ہے۔الیکشن کمیشن کے فیصلوں میں لڑ کڑا ہٹ نظر آ رہی
ہے اور اس کے بیشتر اقدامات وقت کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ایف بی آر، اسٹیٹ
بنک،نیب اور واپڈا وغیرہ کی طرف سے نا دہندہگان کی فہر ستیں مو صول نہیں ہو
ئیں۔
سکروٹنی کا عمل تشنہ کام رہا اور خاصی بڑی تعداد میں ٹیکس چوروں اور بنک سے
قرضے ہڑپ کرنے والوں کا کا غذاتِ نا مزدگی منظور کر لئے گئے ہیں۔
اندریں حالات ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت پو ری قوم عرصہ امتحان میں ہے ۔پرانے
کھلاڑی عوام سے ایک مر تبہ پھر داوءپیچ آ زما رہے ہیں۔انتخابات کی رت جوبن
پر ہے۔پرانے کھلا ڑیوں کے پاس لوٹ مار کا پیسہ اور حرام کی کمائی ہے۔لہذا
عوام کو چاہئے کہ اس مر تبہ بہت زیادہ سوچ سمجھ کر ووٹ کا استعمال
کریں۔مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔اپنے ذ ہنوں پر چھا جانے
والی ما یوسی کے کالے گھٹا وں سے مت گھبرائیں۔اگر آپ نے بغیر کسی لالچ، حرص
اور جانبداری کے اپنے ووٹ کا استعمال کیا تو مایوسی کے ان کا لی گھٹا وں
میں سے چمکتا ہوا ایک ایسا سورج طلوع ہوگا جو آپ کا اور پیارے پاکستان کے
مستقبل کو روشن کرے گا۔۔ |