مشرف صاحب کی دھلائی

جنرل مشرف صاحب انتظار بسیار کے بعد پاک سرزمین پر قدم رنجہ ہوئے تو عدلیہ نے انہیں آتے ہی آڑے ہاتھوں لیا اور اس طرح ایک عرصے تک مشرف صاحب کے ہاتھوں ستم ظریفی کا نشانہ بننے والے سینکڑوں متوالوں اور جیالوں نے خوشیاں منائیں۔ قلم و کالم کی دنیا کے بے تاج بادشاہوں سمیت سبھی نے مشرف صاحب کی مٹی پلید کرنے کی کوشش کی اور یہ سلسلہ ھنوز جاری ہے۔ (یاد رہے ہماری جانب سے کی جانے والی خامہ فرسائی اسی پلید مٹی کو دھونے کی کوشش نہیں ہے)

ایک سوال جس نے ہم جیسے طفلان مکتب کو قلم و کاغذ کے بجائے کی بورڈ اور مانیٹر تھامنے پر مجبور کیا یہ تھا کہ مشرف صاحب جیسا گرگ باران دیدہ جس نے خم ٹھونک کر نو سال تک ملت کی تقدیر کا فیصلہ ہمیشہ اپنی مٹھی میں رکھا، جس کے لیے پاکستانی اقتدار کی بھول بھلیاں ہتھیلی کی لکیروں کے طرح آشنا ہیں، جو پاکستان میں مداخلت کرنے والی طاقتوں کا نور نظر تھا اور پاکستان آنے سے پہلے ان کی آشیرباد بھی حاصل کرکے آیا ہے اور تو اور جو کسی سے ڈرتا ورتا بھی نہیں ہے۔ ان تمام خصوصیات کے حامل جنرل مشرف صاحب کے ساتھ ہونے والا یہ سلوک کچھ مشکوک سا لگ رہا ہے۔

معاملہ مزید مشکوک تب ہوجاتا ہے کہ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ امریکہ بہادر مشرف صاحب کے معاملے میں فرماتا ہے کہ کوئی تبصرہ نہیں کرے گا۔ دوسری طرف ایک عرصے پاکستانی کے تمام مسائل و مشکلات کی جڑ مشرف کو قرار دینے والے میاں نواز شریف صاحب بھی چپ سادھے ہوئے ہیں اور صرف نون لیگ کے دوجہ دوئم کے رہنما مشرف صاحب کے خلاف سزا کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ مشرف صاحب کے حمایتی خاص طور پر ایم کیو ایم بھی عجیب مخمصے میں مبتلا نظر آرہی ہے جو اے این پی سے کم دہشت گردی کا نشانہ بن رہی ہے لیکن شور ان سے کہیں زیادہ مچا رہی ہے۔ اہل علم ایم کیو ایم کی اس بے چینی کو دہشت گردی سے زیادہ عمران فاروق کے قتل کے نتیجہ میں جنم لینی والی مشکلات کو قرار دے رہے ہیں۔ اسی دوران بعض حلقوں کی جانب سے مشرف کے ٹرائل کو ایک مہاجر جرنیل کے ٹرائل کی عینک سے دکھائے جانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔

ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں نجانے کیوں یہ محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان میں مشرف صاحب کے ساتھ ہونے والا سلوک پاکستانی عوام یا آئین کا انتقام نہیں ہے بلکہ جنرل صاحب کے ساتھ وہی کچھ ہورہا ہے جو کیچڑ میں لت پت کسی کار کے ساتھ کارواش میں ہوتا ہے اور ہماری سادہ زبان میں جسے " دھلائی" کہا جاتا ہے۔
جواد احمد
About the Author: جواد احمد Read More Articles by جواد احمد: 10 Articles with 6837 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.