”سازش“ کا ہَوّا....ناکامی پر
ایک خوبصورت مگر مشرکانہ غلاف تو نہیں!
کہا جاتا ہے کہ مسلمانانِ عالم،جوکبھی بنیان ِ مرصوص ہوا کرتے تھے، باہمی
اختلافات کے شکار ہیں اور عالمی پیمانے پر اِن کی سبکی و رسوائی کے چرچے
عام ہیں۔ اسباب وعلل کی جستجو کیجیے گا تو سرفہرست جو سبب سب سے پہلے سامنے
آتاہے وہ یہ ہے کہ یہ اعدائے اِسلام کی” سازشوں“ کا شکار ہیں۔ اغیار کے
کاشانوں سے مسلمانوں کے خلاف کچھ ایسی” سازشیں“ رچی گئیں یا رچی جا رہی ہیں
کہ اب اِس قوم میں نہ صرف دراڑیں اُبھری ہیں، بلکہ اِس کے بعض حصے بنیادوں
سے اُکھڑ کر زمیں بوس ہو گئے ہیں۔جن ممالک میں یہ خود مختار اکثریت رکھتے
ہیں وہاں یہ دشمنانِ اِسلام ملکوں کی سازشوں کے نرغے میں ہیں۔اِس کا ردِّ
عمل یہ ہے کہ یہ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے گلے کاٹتے پھرتے
ہیں، ایک دوسرے پر خودکش بم باری کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مسجدوں کو
جلانے جیسے کارہائے ”ثواب“ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اور جہاں یہ اقلیت
میں ہیں ، تو ملک کی اکثریت اِن کے خلاف سر گرمِ سازش ہے۔اِس کا ردِّ عمل
یہ ہے کہ وہ زندگی بھر ایک برہمی اپنے اوپر طاری کر لیتے ہیں اور اپنے ملک
کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کرنے سے غافل نظر آتے ہیں ۔
ہم اِن چند سطور میں اِس حقیت کی جستجو کریں گے کہ اِن سازشوں کی حقیقت کیا
ہے اور کون ہے جس نے مسلمانوں کے لیے سازش کا جال بچھارکھا ہے اوراِنہیں
کمزور کر نے میں ہر لمحہ مصروف ہے؟وہ کون سی قوت ہے جو پردہ زنگاری میں چھپ
کر اِن کے خلاف سازشیں رچا رہی ہے۔لیکن ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے لفظ
”سازش “ پر ایک نگاہ ڈالی جائے کہ یہ کیا ہے اور کس طرح بروئے کار لائی
جاتی ہے یا لائی جا رہی ہے۔نیز ہم ابتداًبعض سازشوں کے تذکروں کے حوالے سے
اِس نظریہ سازش کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے ، تاکہ مسلمانوں کے خلاف ہونے
والی سازشوں کا پردہ فاش کرنے میں مدد ملے۔
سترویں صدی کے اواخر میں لفظ” سازش“ کا چلن عام ہوا۔ کبھی اشیاءکی قیمت کو
کنڑول کرنے کی غیر قانونی سرگرمیوں کو سازش کہا گیا،کسی کمپنی کے انتظام کو
اپنے ہاتھ میں لینے کی خفیہ کوشش کوسازش کہا گیا،حکومت پر کنٹرول حاصل کرنے
کے لیے فوج کے ایک مختصر مگر بااثرجنرلوں کے گروپ کی رازدارانہ مہم جوئی کو
سازش کا نام دیا گیا۔غرض کہ سازشوں کی نوعیتوں کے اعتبار سے اِن کے مختلف
نام تجویز کیے گیے ، جیسے”سازِ شِ خموشی“ ہے جس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ کسی
معاملہ میں کسی واقعہ پر خاموشی اختیار کی جائے۔یعنی اس کے بارے میں زبان
سے کوئی لفظ نہ نکالا جائے۔مثلاً پولس کے ظلم و ستم پر عوام کی خاموشی
دراصل ایک ”سازشِ خموشی “ ہے۔ دو تاجروں کے درمیان ایک ایسا زبانی یا
تحریری معاہدہ کہ جس کی رُو سے وہ ایک دوسرے کے تجارتی معاملات میں کوئی
مداخلت نہیں کریں گے۔ یا کسی Establishmentکے اِنتظامیہ اور اِس کے مزدوروں
کے مابین ہونے والا معاہدہ بھی ”سازشِ خموشی“ کے زمرے میں آتاہے۔ اِمتدادِ
زمانہ کے ساتھ اِس کے تصور میں مزید ترقی ہوئی اور ایک مخصوص نظریہ کے ساتھ
اِسے سمجھا جانے لگا،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد نفوس پر مشتمل
کسی برانگیختہ گروپ Angry Lot کی جانب سے کسی قوم یا ملک کے خلاف کسی غیر
قانونی یا Treacherous actیانقصان دہ کام یا Plot کو کسی رازدارانہ منصوبے
کے تحت کسی شیطانی مقصد کے لیے سر انجام دینے کا نام ”سازش“ ہے۔ایک ایسا
رازدارانہ پلان یا معاہدہ جو، خصوصاً کسی سیاسی محرک کے تحت انجام دیاجائے،
سازش کہلاتا ہے۔ سازشی منصوبوں میں رازداری شرطِ اوّل کا درجہ رکھتی ہے۔اگر
کسی سازش پر سے کچھ عرصہ بعد پردہ اُٹھ جاتا ہے تو ایسی سازش، سازش کے طور
پر باقی نہیں رہے گی، بلکہ تاریخ کاایک عبرت ناک باب بن جائے گی اور اگر
اِس پر پردہ پڑا رہ جاتا ہے تو ایسی سازش، سازشی تھیوری کی حیثیت سے ،
لوگوں کی بحث کا مرغوب موضوع بن جاتی ہے۔یہاں ہم ایسی ہی کچھ سازشوں کا
تذکرہ کریں گے جو عالمی و ہندوستانی سیاق و سباق میں مشہور ہوئیں اور اب تک
بھی زیر بحث رہی ہیں۔
گائے فاکس Guy Fawkesکی قیادت میں انگلستان میں کیتھولک فرقے پر توڑے گیے
ظلم کے خلاف1605ءمیں جیمس اول کو اور اِنگلستانی پارلیامنٹ کے دونوں ہاﺅزس
سمیت اُڑادینے کی سازش مشہور ہے۔ یہ گن پاﺅڈر پلاٹ کے نام سے جانی جاتی ہے،
جبکہ لفظ”سازش “مستعمل نہیں تھا۔نائن اِلیون کی واردات بھی اِسی زمرے میں
آتی ہے اور اِس کے بارے میں آئے دن کچھ نہ کچھ شائع ہوتا رہتا ہے اور آج تک
بھی کوئی فرد یا گروپ وثوق کے ساتھ یہ کہنے کی پوزیش میں نہیں کہ نیو یارک
کے عالمی تجارتی مرکز کی تباہی کے پیچھے کون ہے !!
خود ہمارے ملک میں ہر دور میں سازشوں کی متعدد تھیوریز جنم لیتی رہی
ہیں۔لوگوں میں اور خصوصاً مسلمانوں کو نئی نئی سازشی تھیوریزکو پیدا کرتے
رہنے کا شوق ہے کہ وہ اپنی ہر بے توفیقی کو بڑے زور و شورسے کسی سازش کی
کارستانی قرار دیتے رہتے ہیں۔لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ اُن ہی سازشی
تھیوریز کو معاشرے میں مقام ملتا ہے جنہیں عوام الناس میں مقبولیت حاصل ہو
جاتی ہے۔ ہندوستانی پس منظر میں ”دس نمایاں ہندوستانی سازشیں “ 10 Indian
Conspiracy Theories کے عنوان سے آج بھی کچھ نمایا ں سازشی تھیوریز عوام کی
گفتگو کا موضوع بنتے رہتے ہیں اور معاشروں میں بے چینی اور دلچسپی کی ملی
جلی کیفیت پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ہم یہاں اِن کا اِختصار کے ساتھ تذکرہ
کریں گے۔
۱....یہ عقدہ ابھی تک کھلا نہیں کہ کیا ہندوستان اب بھی انگلستان کی ملکہ
کی نوآبادی Colonyہے؟کیوں کہ 1947ءمیں جب اِقتدار کی منتقلی کا معاہدہ مرتب
ہوا تھاتو، گو کہ ہندوستان کو ایک آزاد ملک ڈکلیر کیا گیا، لیکن اِس حقیقت
کے ساتھ کہ یہ ایک” دولتِ مشترکہ ملک“ کے طور پررہے گا، جسے اِس سے قبل
”برٹش دولتِ مشترکہ ممالک“ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔اِس کا مطلب یہ تھا کہ
تمام” دولتِ مشترکہ ممالک“ ہمیشہ ملکہ کے کالونیز رہیں گے ۔یہاں تک کہا
جاتا ہے کہ اِس سازش کی رُو سے ہمارا قومی ترانہ”جن گن من“ اِبتداً ملکہ کی
تعریف بیان کرنے کے لیے لکھا گیا تھا، نیز یہ کہ اِس میں صرف اُن ہی علاقوں
کے نام شامل ہیں جو برطانیہ کے زیر تسلط تھے۔کہا جاتا ہے کہ انگلستان کی
ملکہ کے لیے اُن نو آبا د ممالک Colonies کا دورہ کرنے کے لیے ویزا کی کوئی
ضرورت نہیں ہوگی۔چنانچہ1997ءمیں جب ملکہ نے بلا ویزاہندوستان کا دورہ کیا
تھا تو ہندوستانی پارلیامنٹ میں ایک وبال سا مچ گیاتھا۔اِس سازش کا پردہ
مشہور سماجی کارکن راجیو ڈکشٹ نے فاش کیا تھاجو اس نوع کی آوازبلند کرنے
والوں کی علامت بن گیے تھے۔
۲....بھگت سنگھ کی سزائے موت؟ حقیقت کیا ہے:بھگت سنگھ کو ہندوستانی آزادی
کی جد و جہد میں ایک نہایت ہی با اثر اِنقلابی کی حیثیت سے یاد کیا جاتا
ہے۔اِنقلاب کے دوران بھگت سنگھ کے جاںبازانہ اِقدام میں دو کو بڑی شہرت
حاصل ہوئی۔ اولاً اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولس جان پی سانڈرس کا قتل اور
1929ءمیں مرکزی مقننہ عمارت کی بمباری۔بھگت سنگھ کو بعد میں گرفتار کیا گیا
اور اِقدامِ قتل کی فرد جرم عائد کی گئی اور موت کی سزا سنائی گئی۔اِس
سلسلے میں جو سازش بتائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ خود مہاتما گاندھی موت کی اِس
سزا کو روکنے کا آپشن رکھتے تھے، مگر اُنہوں نے ایسا کرنے سے خود کو باز
رکھا تھا۔!! کیونکہ بھگت سنگھ کی تحریک تشدد پر مبنی تھی اور گاندھی جی عدم
تشدد کے پرزور داعی تھے۔گو کہ گاندھی جی بھگت سنگھ کی حب الوطنی کے قائل
ضرور تھے لیکن وہ اُن کی پرتشدد سرگرمیوں سے متفق نہیں تھے۔
۳....اِسی طرح ہندوستان کی قدیم جوہری جنگ کے تذکرے اور مہابھارت میں موجود
اِشاروں کو لے کر بھی سازش کی ایک دلچسپ تفصیل ہمیں انٹر نیٹ پر ملتی ہے۔
۴....DRDOکی تزئین کردہ اگنی 5،کی 19 اپریل ،2012ءکو کامیاب اُڑان کے بعد
اِس کے رینج کے بارے میں بھی کئی سازشی تھیوریز عام ہیں کہ یہ کتنی دوری تک
مار کر سکتا ہے، 5000یا 5500کلو میٹر۔کوئی کچھ تو کوئی کچھ کہتا رہا ، یہاں
تک کہ چین نے اِس کے بارے میں کہا کہ یہ 8000کلو میٹر کی دور تک مار کر
سکتا ہے۔ کسی کو کچھ خبر نہیں کہ کس لیے اِس کی حقیقت چھپائی گئی۔
۵....اِسی طرح270قبل مسیح میں شہنشاہ اشوک کے زمانے میں قائم کی جانے والی
نو افراد پر مشتمل ایک پر اسرار سوسائٹی کا ذکر بھی ملتا ہے جس کے ذمہ یہ
کام تھا کہ وہ علم و حکمت کی نو سکریٹ کتابوں کو چھپائے رکھیں اور غلط
ہاتھوں میں نہ جانے دیں۔اِن میں نفسیاتی جنگ، فشیالوجی، مائکرو بایولوجی،
الکمیا، مواصلات،extraterrestrialsکے ساتھ مواصلاتی نظام، کششِ ثقل اور اِس
کے توڑنے والے آلات کا علم،علم فلکیات، وقت اورHyper Spaceکے علم،سفر،
روشنی اور سماجیات کے علم سے جڑی معلومات کا ذخیرہ تھا۔لیکن آج تک کسی کو
خبر نہ ہو سکی کہ حقیقت کیا تھی۔
۶....پروفیسر پی این اوک کی قیادت میں تاج محل یا تیجو مہالیہ کے شوا ٹمپل
ہونے کو لے کر ایک سازشی تھیوری چلائی گئی جسے2005میں اِلہٰ آباد ہائی کورٹ
میں اور2000میں سپریم کورٹ میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
۷....لال بہادر شاستری جی کی موت پر بھی سازشوں کے پردے پڑے رہے جو آج تک
نہیں اُٹھائے جاسکے۔تاشقندمیں سابق وزیر اعظم کی موت کو قدرتی موت نہیں
مانا گیا اور یہ تھیور ی آج بھی سازش کا حصہ ہے کہ اُنہیں زہر دے کر مارا
گیا۔مارنے والے کون تھے، کس نے مارا اِس پر حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا
سکا۔RTIکے ذریعہ بھی اِس کی تفصیلات کے حصول کی کوششیں ہوئیں ، لیکن ملکی
مفادات اور اُمورِ خارجہ کے حق میں اِسے ضرر رساں کہہ کر چھپایا گیا۔اور
حقیقت سازش کا لبادہ اوڑھے رہی۔
۸....ہومی بھابھا ایک جوہری توانائی کے ماہرین میں شمار ہوتے تھے۔اِنہیں”
بابائے ہندوستانی نیوکلیر پروگرام “ بھی کہا جاتا ہے۔ اِن کی موت بھی پُر
اسرارہوائی حادثے میں ہوئی تھی اور اِس پر سازش کے پردے پڑے رہے۔اِس میں
CIAکے ملوث ہونے کی تھیوری پیش کی گئی ، کیونکہ ہندوستان کے جوہری توانائی
کے پروگرام کو نقصان پہنچانا مقصود تھا۔
۹....سبھاش چندر بوس کی موت بھی آج تک پراسرار بنی ہوئی ہے اور سازشوں کے
تذکرے عام ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ 1945ءمیں وہ تائیوان میں ہوائی حادثے کا
شکار ہوئے۔کوئی کہتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعدUSSR نے اُنہیں جاپان کی
ہم نوائی کے شبہ میںپکڑ لیا اور اِن کو جنگی مجرم قرار دے کر قید میں ڈال
دیا اور وہ حالت ِ اسیری ہی میں سائبیریا میں انتقال کر گیے۔سازش کی اِس
تھیور ی میں آج بھی ہمارے دانشور و اخبار نویس اُلجھے ہوئے ہیں لیکن گتھی
ہے کہ سلجھتی نہیں۔
۰۱....لداخ کے قریب چین اور ہندوستان کی سرحدوں پر ہمالیہ میں ”کونگکالا
پاس“ پر کچھ یوایف او سرگرمِ عمل ہیںUnidentified flying Objects یہ ہر ملک
کے لیے ایک پراسرار علاقہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں یویف او کا اڈّا پایا
جاتا ہے۔ لیکن کسی کو کچھ خبر نہیں کہ اِس کی حقیقت کیا ہے۔ہندوستانی پس
منظر میں یہ بھی سازشی تھیوریزکا ایک نہایت ہی گرم موضوع ہے۔
یہ تو صرف ہندوستان سے متعلق معدودے چند سازشی تھیوریز کا تذکرہ ہے ، ورنہ
ایسے تذکرے اور بھی اور تقریباً ہر ملک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ظاہر ہے ایک
ایسے زمانے میں جب کہ سازشوں کو لے کر دنیا کا تقریباً ہر ملک کسی نہ کسی
حیثیت میں اپنی دلچسپی یا تشویش کا اِظہار کرتا رہتا ہے، مسلمان اور خاص کر
برّصغیر کا مسلمان کیسے بچا رہ سکتا ہے۔ چنانچہ آج تقریباً ہر مسلمان
سمجھتا ہے کہ اُ س کی پسماندگی، رسوائی، زبوں حالی میں اغیار کی یا دشمنانِ
اِسلام کی سازشیں کارفرما ہیں۔ چنانچہ اِس وقت وہ اِس خیال کو لے کر اغیار
کی مسلمانوں کے خلاف کی گئی سازشو ں کی کامیابی کا قائل ہوگیا ہے ،مگر بے
جا طور پر اِن سے خوف کھایا ہواہے۔اُسے اپنے خلاف جابجا سازشوں کے جال بچھے
دکھائی دیتے ہیں۔کبھی اُسے گجرات کے مودی سے ڈر لگتا ہے توکبھی وہ آر یس یس
کی سرگرمیوںمیں اپنے تباہی کے منصبو بے دیکھتا ہے۔کبھی وہ جارج بش سے خوف
کھا جاتا ہے، توکبھی اوباما کی ”سازشیں“ اُس کی راتوں کی نیند چھین لیتی
ہیں۔ کبھی وہ اِسرائیل کی سازشوں سے گھبرا جاتا ہے توکبھی اُسے روس کی
سازشوں کا ہوّا ڈراتا ہے۔یہ وہی مسلمان ہے جس کے پاس کتاب اللہ موجودتھی
اور ہے۔ کتاب اللہ سے بے خبر مسلمان آج خود کو سازشوں کا ہدف سمجھتا ہے اور
خوف کے سایے میں زندگی گزارتا ہے توکسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ ورنہ اگر
وہ کتاب اللہ سے کسبِ ہدایت کرنے والا ہوتا تو وہ سازش کی کسی بھی تھیوری
کو پائے حقارت سے ٹھکرا دینے میں لذت محسوس کرتا۔یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے
کہ سازش کی اس تھیوری پر مزید گہرا رنگ چڑھانے میں مذہبی افراد و جماعتوں
سے لے کرسیاسی افرادو جماعتوں کے رول کے علاوہ اُردو اور عربی میڈیا کا بھی
بہت بڑا کردار رہا ہے۔آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ لفظ سازش نے مسلمانوں کے قومی
کردار،ان کی شجاعت و دوراندیشی ، دانش مندی و سلیقہ شعاری پر من حیث القوم
کیسے کیسے اور کس گہرائی تک منفی اثرات ڈالے ہیں۔ پھر ہم ان کے تدارک پر
بھی غور کرتے ہیں۔
یہ ایک بہت بڑا لمیہ ہے کہ ہماری قوم مرض کا علاج خوداپنے پاس رکھنے کے
باوجود صدیوں تک نت نئے عارضوں میں مبتلا ہوتی رہی۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے
اور دنیا میں اُسی طبیب کی دوائی لی، جو خود اِس کے بقول اِن کے خلاف
سازشیں کرتا ہے اور اِن کی عزت و آبرو سے کھیلتا ہے۔قرآن میں سازش کے لیے
لفظ ”مکر“یا ”کید“ کا اِستعمال ہوا ہے۔
سورہ اعراف (۷) کی یہ دو آیتیں ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی
ہیں:”....اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم، اِ ن سے کہو کہ(اے سازشیو!!) اپنے
شریکوں کو دعوت دے لو،پھر تم (اپنی محفلوں میں) سب مل کر میرے خلاف سازشیں
رچاﺅ اور مجھے ہر گز مہلت نہ دو۔(پھر تم دیکھو گے کہ) میرا ولی، میرا
مددگاراللہ رب ذوالجلال ہے ، جس نے الکتا ب نازل فرمائی ہے اور وہ صالحین
کا ولی اور مددگار وہی ہوا کرتا ہے۔“(195196)۔
اگر اِس آیت پرمسلمانوں کی جانب سے عالمی سطح پر غور کیا جائے تو کسی سازش
میں کوئی دم باقی نہیں رہے گا، نہ اِس کی کوئی حقیقت ہی باقی رہ جائے
گی۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم میںسے کوئی مرد ِ مومن ایسا نہیں کہ جسے پورے
وثوق کے ساتھ صالحین میں شمار کیا جا سکے؟ہم میں سے اب کوئی ایسا دکھائی
نہیں دیتا جس نے اللہ کو اپنا ولی بنایا ہو۔کیا کوئی ہے جو اپنے دل پر ہاتھ
رکھ کر کہہ سکتا ہو کہ جس ”الکتاب “ کو اللہ نے نازل فرمایا ،کیا ہمارا اب
اِس سے عملاًکوئی تعلق باقی بھی رہ گیا ہے؟ساری دنیا مل کرہمارے خلاف
سازشیں رچائے، اپنے سارے دانشوروں کو لے کر ہمارے خلاف ہماری بربادی کے
منصوبے بنایے اور ہمیں کوئی مہلت بھی نہ دے توکیا وہ ایک ایسی قوم کے خلاف
کبھی کامیاب ہو سکے گی، جس کا ولی انتہائی قدرتوں اور طاقت کا مالک ”عالم
الغیب والشہادہ“ اللہ ہو؟ خرابی دراصل یہ ہے کہ ہم نے اللہ کو اپنا
ولیProtector ، ناصر اورحامی بنایا ہی نہیں۔ نہ اُس کی الکتاب سے ہمارا
کوئی واسطہ ہی ہے، نہ ہم صالحین کے گروہ میں شامل ہونے کے قابل ہی رہ گیے
ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہر نام نہاد سازش ہمیں برانگیختہ کردیتی ہے اور ہمارے
رہنما و رہبر، ہمارے ادیب و قلمکار ، ہمارے صحافی و اخبار نویس دن رات
سازشوں کی تھیوریاں پیش کر کر کے خود بھی پریشان رہتے ہیں اور پریشان حال
مسلم عوام کا چین و قرار بھی چھین لیتے ہیں۔کیوں کہ اُسوہ انبیاءکاایسا
کوئی نمونہ اُن کے پیشِ نظر نہیں رہتا،جن کواِن چند سطروں میں پیش کرنے کی
ہم سعادت حاصل کر رہے ہیں:
سورہ یونس (10)میں بھی ایسی ہی ایک Situationکے درمیان نوح علیہ السلام نے
سازشیوں کو چیلنج دیا تھا کہ تمہاری منصوبہ بندیاں میرے توکل علی اللہ کے
مقابلہ میںکوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ ملاحظہ ہو سورہ یونس(10) کی یہ
آیت:”اور(اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم)اِنہیں نوح علیہ السلام کی(وہ)
خبرسنادو:جب اپنی قوم ( کے افراد)سے( مخاطب ہو کراُنہوں نے) عرض کیا تھا کہ
اے میری قوم (کے لوگو....!) اگر(تمہارے درمیان ) میرا قیام اوراللہ کی آیات
سے میرا نصیحت کرنا (تم پر) گراں (گزرتا)ہے تو(سن لو کہ)میں نے اللہ پر
بھروسہ کیا ہے،چنانچہ اپنے شریکوں کو لے کر( اب میرے خلاف )تم
اپنے(جملہ)کام مقرر کرلو،اِس طرح کہ(تمہاری پلاننگ Perfectہواور) تمہارے
کام میں کوئی شبہ باقی نہ رہ جائے ،پھر تم(اپنے منصوبہ بند سازشوں کو)بروئے
کار لے آﺅاور مجھے مہلت بھی نہ دو۔ “(71)۔
اِس آیت کی ترجمانی کو ہم نے بہت سہل بنا دیا ہے، اِس لیے یہ بتانے کی
ضرورت باقی نہیں رہتی کہ سازشوں میں گھری قوم کا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے
اور ایسے کسی Crisisکو handleکرنے میں توکل علی اللہ کے طریقہ کار کا کیا
مقام ہے۔سازشوں سے دل برداشتہ ہو کر اپنی صفوں کو کمزور کرنے والی اقوام
دنیا میں سوکھے پتوں کی چرچراہٹ سے بھی ڈر جاتی ہیں۔دراصل سازش ا قوام کے
لیے ایک افیم کا درجہ رکھتی ہے اور اِن کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے،
اِن کے حوصلوں کو مسلسل پست کرتی رہتی ہے۔ اِن میں بزدلی کے جراثیم اور
احساسِ شکست پیدا کرتی ہے۔
سورہ آل عمران (۳) کی یہ آیت تو ہماری فکر کے رخ کو موڑنے میں بڑی مدد گار
ثابت ہوتی ہے:”جب (اپنی تمام تر برکتوں کے ساتھ )کوئی بھلائی تم سے آملتی
ہے تو (یہ صورتحال) انہیں بری لگتی ہے اور اگر تمہیں کوئی برائی پہنچتی ہے
تو اِس (صورتحال) سے اُنہیں فرحت محسوس ہوتی ہے۔اور اگر تم صبر سے کام لو
اور تقویٰ کی روش اِختیار کرو تو اُن کی سازش تمہیں کچھ بھی ضرر نہیں پہنچا
سکے گی ، بے شک اللہ اُن کی(سازشانہ ) سرگرمیوں کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے
ہے (اور اِن کی سازش کے اثرات کو کسی بھی وقت زائل کر سکتا ہے)۔(120)
اور سورئہ آل عمران میں ہی ایک مختصر مگر بڑی جامع بات ہمیں ملتی ہے: ” اور
(یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے خلاف زبردست) سازش کی، اور اللہ نے ان کی
سازشوں کا توڑ کیا ، اور اللہ (ہر سازش کا) بہترین توڑ کیا کرتا ہے۔“
اگر مندرجہ بالا چار آیتوں پر غور کیا جائے تو چند باتیں آنکھیں کھول دیتی
ہیں۔ کیادنیا میں کسی کے بھی خلاف کوئی بھی سازش اللہ کے علم سے باہر
ہوسکتی ہے؟ کیا سازشوں کو اللہ کامیاب نہ ہونے دینا چاہے توکیا وہ کبھی
کامیاب ہوسکتی ہیں؟ کیا ایسی سازشوں سے اللہ حق پرستوں کو بچا نہیں سکتا؟
ہم نے کل چار آیتوں کا سہل ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا۔ اور یہی چار
آیتیں سازش کی ہر تھیوری کو بے اثر کر دینے والی ہیں۔سازش کے توڑکا جوچھ
نکاتی فارمولا ہمیں اِن چارآیتوں سے ملتا ہے اِس کا خلاصہ یہ ہے:۱)اللہ کو
حامی و ناصر ، ولی یاProtectorمانا جائے ؛۲) الکتا ب سے تعلق اُستوار کیا
جائے ،جیسا کہ اِس کا حق ہے؛۳)صالحین میں شامل ہو کر اللہ کی حمایت کے
اُمید وار بنیں؛۴)توکل علی اللہ کو اپنا نظامِ زندگی بنائیں؛۵) صبرکواپنا
طریقہ کار بنائیں اور۶) تقویٰ کو اپنی سرگرمیوں کی روح بنالیں۔
اِن جلیل القدر پیغمبروں پر ایمان رکھنے والوں کو دور ِ حاضر کی یہ بے ثبات
سازشیں کیوں پریشان کرتی رہتی ہیں!! جب کہ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ
و سلم نے اِسی اِلٰہی فارمولے کو سازشوں کے خلاف ڈھال بنا یاتھا اوریہی
فارمولا تھا جونوح علیہ السلام کو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سازشوں سے
محفوظ رکھنے میں اُن کا ممد و معاون ثابت ہواتھا۔کیا اب ہمارا قرآن کے پیش
کردہ اِس فارمولے پر اعتقاد نہیں رہا؟کیا ہم نے اللہ کو اپنا حامی ، ناصر،
ولیProtector سمجھنا چھوڑ دیا ہے ؟کیا الکتاب سے ہمارا تعلق اُستوار نہیں
رہ گیا؟ کیا ہم اپنے اندر صالحیت کے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہے ؟کیا اللہ
پر توکل کی ہمارے ہاں کوئی قدر باقی نہیں رہی؟کیا صبر ہمارا شیوہ اور تقویٰ
ہماری سرگرمیوں کا محور نہیں رہا؟
جس دن ہم اِن سوالات کے معقول جوابات دینے کی پوزیشن میں آجائیں گے، اُس دن
اِس دُنیا کی کوئی بڑی سے بڑی سازش بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی!! کوئی
ہے.... جرات مندو باوقار مسلمان ....جو اِس فارمولے کو اپنی زندگی کا حصہ
بنا کرحضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت نوح علیہ السلام
سے.... خود اپنے مفاد کے لیے.... اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کرکے ثابت کرے
کہ وہ سازشوں سے نہیں، بلکہ اپنے رب سے ڈرنے والا ہے؟؟ آئیے :”اللہ خیر
الماکرین“ سے خلوصِ دل سے دُعا کرتے ہیں کہ :رَبَّنَا تَقَبَّل مِنَّا
اِنَّکَ اَ نتَ السَّمِیعُ العَلِیمُ وتُب عَلَینَااِنَّکَ اَنتَ
التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ۔ رَبَّنَا لَا تُزِ غ قُلُوبَنَا بَعدَ اِذ ھَدَ
یتَنَا وَھَب لَنَا مِن لَّدُنکَ رَحمَةً اِنَّکَ اَنتَ الوَھَّابُ ۔
وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیرِ خَلقِہ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہ
وَاَصحَابِہ اَجمَعِینَ بِرَحمَتِکَ یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔ |