جب کوئی بیمار بہت دیر تک ٹھیک
ناں ہو رہا ہوتو ،ہم پہلے اس کی بیماری تلاش کرتے ہیں پھر دوائی دیتے ہیں ،
اگر اس دوائی یا ڈاکڑ سے آرام ناں آرہا ہو تو ہم انتظار نہیں کرتے بلکہ کسی
اور ڈاکڑ سے علاج کرواتے ہیں ہر قسم کے ٹیسٹ کرواتے ہیں اور اصل بیماری تک
پہنچتے ہیں۔ لیکن افسوس ہم پچھلے 65 سال سے ایک ہی ڈاکٹر اور دوائی سے
پاکستان کا علاج کر رہے ہیں یعنی ہم اتنے ڈھیٹ ہیں کہ اسی انتخابی نظام کو
بار بار آزماتے جا رہے ہیں۔ دراصل یہ پارلیمانی انتخابی نظام ہی پاکستان کی
اصل بیماری ہے جس کا علاج ہم ان سیاستدانوں سے کرواتے ہیں اور سیاستدان
اسمبلیوں میں جا کر ناں اس نظام کو بدلتے ہیں اور ناں خود کو، اب بھی جیسے
جیسے 11مئی کا دن قریب آرہا ہے سیاسی گہماگہمی بڑھ رہی ہے ہر پارٹی کی طرف
سے جلسے جلوس اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں جس میں جھوٹے نعرے اور الزام
تراشیاں کی جارہی ہیں سب عوام کو بےوقوف بنانے میں لگے ہیں،ہر خطے اور
علاقے کی قوم کی اپنی اپنی فطرت ہوتی ہے اسی کے مطابق نظام بنائے جاتے ہیں
جیسے سعودی عرب میں بادشاہت برطانیہ میں پارلیمانی نظام امریکہ ایران میں
صدارتی نظام کامیابی سے چل رہے ہیں مگر پاکستان میں پارلیمانی نظام بری طرح
ناکام ہو چکا ہے جو اور سوسال بھی چلے نتیجہ صفر ہی رہے گا۔کیونکہ ا یک ہی
عمل سو بار بھی دہرائیں حاصل کچھ بھی نہیںہوتاپاکستان میں چند سو لوگ ہی
سیاست میں حصہ لیتے آئے ہیں جوپارٹیاں بدلتے ہیں اور گھوم پھر کر اسمبلیوں
میں آ جاتے ہیں۔اسکے بعد وزیرآعظم اور صدر کے انتخاب کے لئے انکی بولیاں
لگائی جاتی ہیں ہر کسی کو اسکی حیثیت کے مطابق حصہ ملتا ہے اور عوام روتی
مظاہرے کرتی اور اگلے الیکشن کا انتظار کرتی رہ جاتی ہے۔ اس لئے جب تک
پاکستان میں صدر ےا وزیر آعظم کا انتخاب ڈائریکٹ عوام کے ووٹ سے نہیں ہو گا
۔ ناں پاکستان بدل سکتا ہے ،ناں نیا پاکستان بن سکتا ہے۔۔۔ |