حیرت ہوتی ہے کہ آزاد کشمیر کے
سیاستدان آزاد جموں و کشمیر کونسل کی ریاستی وسائل کی لوٹ مار پر خاموش
کیوں ہیں؟کبھی دوسروں کو دیکھتے ہوئے یا کبھی سیاسی ذائقہ تبدیل کرنے کے
لئے کشمیر کونسل سے اختیارات بھیک کے انداز میں طلب کئے جاتے ہیں۔نامعلوم
وفاقی وزارت امور کشمیر، کشمیر کونسل والوں کے پاس آزاد کشمیر کے
سیاستدانوں کی کیا کمزوریاں ہیں کہ وہ بغیر کسی خوف و خطر ریاستی وسائل سے
عیاشیاں کرتے ہوئے ریاستی وسائل کی بندر بانٹ کو اپنا قانونی حق قرار دیتے
ہیں۔جس طرح سابق آمر جنرل ایوب نے ایک قانون کے ذریعے وزارت امور کشمیر کو
پنجاب اور صوبہ کے پی کے میں موجود”کشمیر سٹیٹ پراپرٹی“ کا ” کرتا دھرتا“
بنا دیا۔یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کشمیر کو نسل کا
موضوع ہے لیکن وزارت امور کشمیر اس کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔واضح رہے کہ
وفاقی وزیر امور کشمیر ہی کشمیر کونسل کے بھی نگران وزیر ہوتے ہیں اور
وزارت امور کشمیر کا سیکرٹری ہی کونسل کا انچارج سیکرٹری ہوتا ہے۔ چند ہفتے
قبل میں نے پاکستان میں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی تفصیل کے بارے میں ایک
تحقیقاتی رپورٹ تیار کی تھی جس میں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی تمام جائیدادوں
کی تفصیلات دی گئی تھیں اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کتنی آراضی کب فروخت
کر دی گئی اوراب کتنی باقی بچی ہے۔ تاہم میرا آج کا موضوع آزاد کشمیر کے
مالیاتی امور ہیں جن پر کشمیر کونسل کے برتر اختیار اور وفاقی حکومت کی طرف
سے آزاد کشمیر حکومت کو اس کا اتفاق کردہ مالی حصہ نہ دینے کی وجہ سے آزاد
کشمیر ایک مستقل مالیاتی بحران میں مبتلا ہے اور اس سے پاکستان پر کشمیریوں
کے اعتماد کو بھی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
آزاد کشمیر کا رواں بجٹ تقریبا 49کروڑ70لاکھ روپے کا ہے۔ اس میں آزاد کشمیر
کے اپنے وسائل سے حاصل آمدن13ارب31کروڑ روپے ہے جو کل بجٹ کا27فیصد
ہے۔کشمیر کونسل کے جمع کردہ انکم ٹیکس کی رقم7ارب40کروڑ روپے ہے جو کل بجٹ
کا 15فیصد ہے۔وفاقی ٹیکس میں آزاد کشمیر کا حصہ 11ارب40کروڑ روپے ہے جو بجٹ
کا 23فیصد ہے۔منگلا واٹر یوز چارجز 84کروڑ روپے (بحساب 15پیسے فی یونٹ جبکہ
خیبر پختون خواہ کو42پیسے فی یونٹ ملتاہے ) ہے جو کل بجٹ کا 2فیصد ہے ۔بجٹ
کا خسارہ7ارب10کروڑ روپے ہے جو بجٹ کا14فیصد ہے(یہ حکومت پاکستان کے ذمے
ہے)۔کشمیر کونسل کی طرف سے جمع کی گئی انکم ٹیکس کی رقم (7ارب 40کروڑ
روپے)میں سے آزاد کشمیر حکومت کو بحساب80فیصد تقریبا5ارب روپے ملتے ہیں
جبکہ تقریبا 2ارب چالیس کروڑ روپے کشمیر کونسل کوبحساب20فیصدچلے جاتے ہیں۔
کشمیر کونسل سیکرٹریٹ کے اخراجات تنخواہوں،مراعات وغیرہ سمیت کل 75کروڑ
روپے سالانہ ہیں۔
1979ءتک انکم ٹیکس کی وصولی اور اکاﺅٹنٹ جنرل کا محکمہ آزاد کشمیر حکومت کے
ماتحت تھا ۔1979ءمیں اس وقت کے آزاد کشمیر کے صدر بریگیڈیئرحیات خان نے چیف
ایگزیکٹیو کی حیثیت سے آئین کی دفعہ19 کے تحت یہ محکمے کشمیر کونسل کو
تفویض کر دیئے۔اس کے مطابق انکم ٹیکس کشمیر کونسل اکٹھا کرے گی،80فیصد آزاد
کشمیر حکومت کو واپس کرے گی اور20فیصد کونسل سیکرٹریٹ اخراجات کے لئے رکھے
گی۔اس سے پہلے انکم ٹیکس کی سو فیصد رقم آزاد کشمیر حکومت کو ہی ملتی تھی
اور کونسل سیکرٹریٹ کے اخراجات کے لئے وفاقی حکومت کونسل کو خصوصی گرانٹ
دیتی تھی۔آزاد کشمیر کے انکم ٹیکس کی رقم میں سے20فیصد ملنے پر وفاقی حکومت
نے کشمیر کونسل کے لئے گرانٹ بند کر دی۔اس وقت کشمیر کونسل کے پاس بنکوں
میں تیس سے پینتیس ارب روپے موجود ہیں۔اگر آئین کے مطابق انکم ٹیکس کونسل
کا موضوع ہے تب بھی آئینی طور پر آزاد کشمیر میں قوانین پر عملدرآمد کے
لیئے آزاد کشمیر حکومت کی مشنری استعمال کرے گی ۔آئین کے مطابق کونسل
قوانین تو بنا سکتی ہے لیکن اس پر عملدرآمد آزاد کشمیر حکومت کا کام ہے۔جس
طرح وفاق صوبے سے متعلق کام متعلقہ صوبے کے ذریعے ہی کرتا ہے۔کشمیر کونسل
قانون ساز(مقننہ) ہے اور خود انتظامی کردار نہیں اپنا سکتی۔انکم ٹیکس کے
حجم میں اضافے سے اب 20فیصد کی رقم میں بہت اضافہ ہو چکا ہے جو کونسل کے
اخراجات سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔اس ضمن میں یہ بات بھی ہے کہ کشمیر کونسل کا
ترقیاتی منصوبوں پر کام کرانا بھی اس کی طرف سے آئینی اختیارات سے تجاوز
ہے۔کونسل کی اس رقم سے متعلق شور پڑنے پر کونسل نے آزاد کشمیر کے ارکان
کونسل کو بھی ترقیاتی منصوبے دینے شروع کر دیئے۔ پاکستانی صحافی رﺅف کلاسرا
نے ایک نجی ٹی وی پر ایک پروگرام میں انکشاف کیا کہ سینٹ کے چند ارکان نے
ترقیاتی منصوبے ٹھیکیداروں کو تیس ،پینتیس فیصد کمیشن پر بیچ دیئے اور یہ
بھی دیکھا گیا کہ کراچی کے سینٹر نے ویہاڑی میں ترقیاتی منصوبے کرائے۔اسی
طرح کا حال کشمیر کونسل ممبران کا بھی ہے۔
آزاد کشمیر حکومت کو منگلا ڈیم کی بجلی کی پیداوار کے خالص منافع میں15پیسے
فی یونٹ دیا جاتا ہے ۔جبکہ صوبہ ’کے پی کے‘ کو 42پیسے فی یونٹ ادائیگی کی
جاتی ہے ۔7ویں ’این ایف سی‘ ایوارڈ میں ’ کے پی کے‘ کو تربیلا ڈیم کی بجلی
کے خالص منافع میں سے ایک کھرب20ارب روپے دیئے گئے ۔کشمیری باشندوں کا یہ
جائز مطالبہ ہے کہ آزاد کشمیر کو کم از کم صوبہ ‘ کے پی کے‘ کی طرح 42پیسے
فی یونٹ اوراس کی ادائیگی1967ءسے کی جائے۔صوبہ’کے پی کے ‘ کے فارمولے کی
طرزپہ ہی آزاد کشمیر کو بھی نیٹ ہائیڈل پرافٹ دیا جائے۔آزاد کشمیر کو منگلا
ڈیم کی بجلی کا خالص منافع نہ دینے کے جواز میں وفاقی اداروں،محکموں کے
افراد کا یہ موقف ہے کہ آزاد کشمیر پاکستان کے آئین کا حصہ نہیں ہے،صوبہ کے
پی کے تو ایسا مطالبہ کر سکتا ہے لیکن آزاد کشمیر نہیں۔آزاد کشمیر کا اس
بارے میں کہنا ہے کہ پانی پہ کسی صوبے کا نام نہیں لکھا ہوتا۔اور1970-71ءکے
حکومت پاکستان کے نوٹیفیکیشن کے مطابق آزاد کشمیر کو پاکستان کی باقی صوبوں
کی طرح ”ٹریٹ“ کیا جائے گا۔منافع نہ دینے کے لئے آزاد کشمیر کو صوبہ نہ
ہونے کے جواز کی کوئی منطق نہیں بنتی۔میرے خیال میں اگر آزاد کشمیر کا شہری
پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاکستان کا پاسپورٹ استعمال کرتا ہے اور سرکاری
و حکومتی عہدہ حاصل کرنے سے پہلے پاکستان سے الحاق کا اقرار کرنا پڑتا ہے ،اس
کے باوجود آزاد کشمیر کا کوئی حق اس وجہ سے روک لینا،سلب کر لینا کہ آزاد
کشمیر آئین کا حصہ نہیں، بدنیتی پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔آزاد کشمیر حکومت
متنازعہ ریاست جموں کشمیر کے حق آزادی کی نمائندہ حکومت ہے ،لہذا ریاست
کشمیر کے تمام وسائل کا نگران بھی آزاد کشمیر حکومت کو ہی ہونا چاہئے۔
وفاقی حکومت اور آزاد کشمیر حکومت کے درمیان 1992ءمیں طے پائے مالیاتی
معاہدے کے مطابق آزاد کشمیر کے بجٹ میں ہر سال14فیصد اضافہ کیا جائے گا
لیکن1992ءسے اب تک یہ اضافہ صرف5فیصد کیا گیا ہے۔تین چار سال پہلے کے ایک
تخمینے کا مطابق 1992ءسے سالانہ بجٹ میں اضافے کی رقم 65ارب روپے بنتی ہے ۔آزاد
کشمیر حکومت کو بجلی کا خالص منافع اور کشمیر پراپرٹی کی رقم نہ دینے کے
جواز میں وفاقی افراد کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کے بجٹ کا خسارہ
وفاقی حکومت برداشت کرتی ہے،”آزاد کشمیر حکومت آم کھائے پیڑ نہ گنے“۔لیکن
وفاقی افراد کو یہ معلوم نہیں کہ اب متنازعہ ریاست کشمیر کے باشندے آزاد
کشمیر حکومت اور حکومتی و سیاسی نمائندوں سے سوال کر رہے ہیں کہ ” درخت تو
آپ کے پاس بیس ہیں لیکن ریاستی عوام کو آم صرف چھ درختوں کے دیئے جا رہے
ہیں؟“۔دوسری بات یہ کہ اپنا حق اپنا حق ہوتا ہے،خیرات کا پیسہ احسان کے طور
پر ہی دیا جاتا ہے اور یہ خیرات کسی بھی وقت رک جاتی ہے۔ اگر آزاد کشمیر
اور گلگت بلتستان کو ’این ایف سی‘ ایوارڈ میں اپنا حصہ ملے، آزاد کشمیر اور
گلگت بلتستان کی حکومتوں کے ساتھ معاہدے کی صورت فارمولہ طے اور اس پر مکمل
عملدرآمد کیا جائے تو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اپنی ”چادر“دیکھ کر ہی
فیصلے کریں گے۔آزاد کشمیر کا ترقیاتی بجٹ2008-09ءمیںتقریبا17ارب روپے تھا
۔2011-12ءمیں بڑہنے کے بجائے کم ہو کر تقریبا9ارب روپے رہ گیا ہے۔ترقیاتی
منصوبوں کی تاخیر سے لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔آزاد کشمیر کے ترقیاتی
پروگرام 67ارب روپے کے ہیں جبکہ بجٹ میں اس مد میں صرف 12ارب روپے رکھے گئے
ہیں۔یوں اگر چھ سال تک آزاد کشمیر میں کوئی نیا ترقیاتی منصوبہ نہ بنایا
جائے تو پھر بھی یہ منصوبے مکمل نہیں ہو سکتے ۔اس کے علاوہ کشمیر کونسل نے
موبائیل کمپنیوں کو آزاد کشمیر میں کام کرنے کے لئے جو لائیسنس جاری کئے
ہیں اس کے40ملین ڈالر یونیورسل فنڈ میں ڈال کر اس کا منافع اور اصل رقم بھی
کشمیر کونسل استعمال کر رہی ہے۔یہ انکم ٹیکس کا حصہ نہیں۔کشمیر کونسل ٹول
پلازہ اور ایکسائیز ٹیکس بھی آزادکشمیر حکومت کے ساتھ شیئر نہیں کرتی اور
آزاد کشمیر کو ہر ماہ رقم دینے کے بجائے سال میں دس ادائیگیاں ہی کرتی ہے۔
گلگت بلتستان کے 2009ءکے آئینی آڈر میںگلگت بلتستان کونسل کو آزاد کشمیر
کونسل سے بھی زیادہ مضبوط اور بااختیار بنایا گیا ہے۔کشمیری باشندوں کا یہ
منصفانہ مطالبہ ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کو بجلی کی پیداوار کا خالص منافع
مناسب ریٹس پر دیئے جائیں،سابق آمر جنرل ایوب خان کے کشمیر پراپرٹی سے
متعلق ”کالے قانون“ کو ختم کر کے کشمیر پراپرٹی کا انتظام اور منافع آزاد
کشمیر حکومت کو دیا جائے،آزاد کشمیر کے بجٹ میں سالانہ 14فیصد اضافے پر
عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر مسلط کونسلوں
کو ختم کر کے تمام اختیارات آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کو اسی
طرح منتقل کئے جائیں جس طرح پاکستان میں ّآئینی ترامیم کے بعداختیارات وفاق
سے صوبوں کو منتقل کئے گئے ہیں۔حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر و گلگت
بلتستان کے درمیان آئینی،انتظامی،مالیاتی امور انصاف کے تقاضوں کے مطابق طے
کرنا ضروری ہو گئے ہیں کیونکہ چند افراد کی مفاد پرستی ،چودھراہٹ پر مبنی
حاکمیت سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پاکستان کی نظریاتی اساس کو
نقصان پہنچ رہا ہے۔ |