لکھنے والے کس عذاب سے گزر
کر اپنے پڑھنے والوں کے لئے بہتر رائے اور صاف ستھرے الفاظ جمع کرتے ہیں یہ
بتانا بہت مشکل ہے ۔اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اہل قلم لکھنے میںتمام تر
محنت،توجہ کے ساتھ ساتھ اپنا وہ وقت صرف کرتے ہیںجسے اگر وہ اللہ کی یاد
میں گزاریں تو کم از کم اُن کی بخشش ضرور ہوجائے اور اگر اپنے روزگار پر
صَرف کریں تو اُس میں خاصی بہتر ی آجائے۔دماغ میں تو کچھ اور ہی گھوم رہا
تھالیکن لکھنے بیٹھا تو واصف علی واصف صاحب کا ایک قول یاد آگیا سوچاپڑھنے
والوں کی نظر کرتا چلوں ”غلام کو اگر غلامی پسند نہ ہو‘تو کوئی آقا پیدا
نہیں ہوسکتا“واصف صاحب کی بات میں اتنا وزن ہے کہ اُسے تولنے کے لیے بہت
بڑی عقل و دانش والے ترازو (تکڑی) کی ضرورت نہیں ،عام سے عام اور سادہ سے
سادہ لو انسان یہ بات آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اگر غلام غلامی نہ کرے گا
تو آقا کس پر آقائی کرے گا؟اگر واصف صاحب کی بات کے تناظر میں دیکھیں تو
محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم نسل در نسل غلامی پسند ہے ۔چلوبات کو آگے
بڑھاتے ہیں ۔ہم اگر غلامی کرنا چھوڑ ہی نہیں سکتے تو پھر اپنے لیے آقا ہی
اچھی نسل کے کیوں ڈھونڈ نہیں لیتے؟ ہم غلام ہی سہی لیکن آقا توایسے ہونے
چاہئے جن پر شرم کی بجائے فخر سے کہا جاسکے کہ یہ ہمارے آقا ہیں ۔آخر ہماری
عقل و دانش اور خودداری کو کیا بیماری ہے جو غلیظ ترین آقاﺅں کی غلامی کرتے
ہیں ؟واصف علی واصف صاحب نے فرمایا کہ ”غلام کو اگر غلامی پسند نہ ہو‘تو
کوئی آقا پیدا نہیں ہوسکتا“میں کہتا ہوں غلام اگر غلیظ آقاﺅں کی غلامی نہ
کریں تو ‘اچھے آقاﺅں کی کمی نہیں ہے زمانے میں “لیکن سب سے پہلے ہمیں اس
بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم واقع ہی غلام ہیں ؟اپنے حکمرانوں کی اصلیت
اور آقائی کودیکھیں تو صاف صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔اِن پڑھ ،جاہل لوگ
میرے وطن میںحکمران تو بن سکتے ہیں لیکن کم پڑھے لکھے لوگ چپڑاسی کی نوکری
کے اہل نہیں ہیں ۔جس ملک میں قانون ساز اسمبلی کے ممبر بننے کے لئے تعلیم
شرط نہ ہووہاں تعلیمی ایمرجنسی لگانے کی بات کرنا کتنا بڑامذاق لگتاہے۔ویسے
بھی اگر بندہ پڑھے لکھے بغیر MNA.MPAاور پھر وزیر ،سفیر اور وزیراعظم تک بن
سکتا ہے توپھر پڑھ لکھ کر 12.10ہزار کی نوکری کے لئے دھکے کھانے سے بہتر ہے
کہ بندہ سیاست دان بننے کی کوشش کرے ۔یہ سوچنا بھی بہت بڑا گناہ ہے کہ اِن
پڑھ لوگ اسمبلیوں میں بیٹھ کر تعلیمی بجٹ میں اضافہ کریں گے یا پھر تعلیمی
نظام میں بہتری کی کوشش کرنے کے قابل ہیں۔پچھلے دنوں ایک دوست نے کہا ہمارے
پرایﺅیٹ سکول میں ایک چوکیدار کی ضرورت ہے اگر کوئی بندہ چوکیدار کی نوکری
کرنا چاہتا ہوتوبتانا ۔میں نے اگلے دن ایک تیس سالہ شخص کو اُن کے سکول میں
بھیج دیا ،وہ جاتے ہوئے مجھ سے بار بار پوچھ رہا تھا کہ سر مجھے نوکری مل
جائے گی نا،میں نے اُسے بتایا کہ سکول والوںنے مجھے خود کہا ہے کہ چوکیدار
کی ضرورت ہے تم جاﺅ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تمہیں نوکری مل جائے گی ۔وہ چلا
گیا اور کوئی تین گھنٹے بعد افسردہ ،لٹکاہوا چہرہ لئے واپس آگیا کہنے لگا
سر آپ نے مجھے وہاں بھیج کر اور بھی دکھی کردیا ہے ۔آپ اُن سے پوچھ تو لیتے
کہ اُنہیں کتنا پڑھا لکھا چوکیدار چاہیے اور اُسے کتنی تنخواہ دیں گے ۔سکول
والے کہتے ہیں کہ تنخواہ 7ہزار دیں گے اور انہیں کم از کم 12جماعت (ایف
اے)پاس چوکیدار چاہیے جو کسی ٹیچر کی غیر حاضری کی صورت میں بچوں کوپڑھا
بھی سکے ۔سکول کی بلڈنگ کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرنا ،چائے پانی کے ساتھ ساتھ
سکول کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا بھی اُس کی ذمہ داری ہوگی اور اس کے
علاوہ بھی اگر سکول میں کوئی اور کام بھی کرنا پڑے توانکار نہ کرے ۔ہاں
24گھنٹے سکول میں رہناہوگاچاہئے اپنے بیوی بچوں سمیت سکول میں شفٹ ہوجائے
سکول میں رہنے کاکرایہ اور بجلی و گیس کا بل نہیں لیا جائے گا۔امتیاز صاحب
آپ تو جانتے ہیں کہ میں پرائمری پاس ہوں اور پھر مہنگائی کے دورمیں
10ہزارتنخواہ میں گزارا نہیں چلتا تو7ہزار میں کیسے گھر چلے گا؟میرے پاس
اُسے دینے کے لئے کوئی جواب نہ تھا صرف اتناکہہ پایا کہ چلو کوئی بات
نہیںہم کوئی اورکام ڈھونڈتے ہیں تم پریشان مت ہونا اللہ تعالیٰ بہتر کرے
گا۔بولا شکر ہے مالک کاجو غریب کا نظام چلاتا ہے ورنہ 12.10ہزار میں تو گھر
نہیں چلتے ۔وہ چہرہ لٹکائے آنکھوں سے درد کے آنسوں ٹپکاتا ہوا اپنی نشست سے
ایسے اُٹھا کہ میراجسم اور روح دونوں کانپ اُٹھے۔میں اپنی ہی سوچوں میں غرق
ہوگیا ،وہ کب چلا گیا مجھے کچھ علم نہ ہوا،چند لمحوں میں ،میںنے اپنے سے
لاکھوں سوالات کئے لیکن جواب کسی کا بھی نہ دے پایا۔قارئین محترم کتنے بے
حس ہیں ہم لوگ اِن پڑھ لوگوں کوممبر قانون سازاسمبلی بننے کی اجازت تو دیتے
ہیں لیکن پرائمری پاس بندے کو 7ہزار کی نوکری نہیں دیتے ؟اہل شعور کہتے ہیں
کے بغیر علم کے ترقی کرنا ممکن ہی نہیں۔کیا میرے وطن میںکوئی باشعور باقی
نہیں رہا ؟اگر بستے ہیں تو پھر خاموش کیوں ہیں ؟آمر پرویز مشرف کے دور میں
اِن پڑھ لوگوں کو الیکشن لڑنے سے منع کردیا گیاتو یہی اِن پڑھ ،جاہل لوگ
جعلی ڈگریاں لے آئے ۔جمہوری حکومت نے بڑی ایمانداری سے وہ قانون ہی ختم
کردیا جو جاہلوں کو الیکشن لڑنے سے روکتا تھا۔خود مختار الیکشن کمیشن نے
جعلی ڈگری والوں کونااہل کردیا تو عدالت نے پھر سے اہل قرار دے کر الیکشن
لڑنے کی اجازت دے دی ۔جمہوریت کے دعویدار حاجی نمازی لیڈروں نے بھی دھوکے
باز وں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرکے ثابت کردیا کہ اس ملک میں تعلیم کی کوئی قدر
ہے نہ ہی پڑھے لکھے افراد کی کوئی ضرورت ہے ۔اِن پڑھ جاہلوں کو ملک و قوم
کے مستقبل سے کھلواڑ کرنے سے روکنے والاآمر آج مجرم ٹھہرا اور قانون ساز
اسمبلی میں گدھوںکو بھرتی کرنے والے حاجی ۔اگرملک کو چلانے والی قانون
سازاسمبلی کا ممبر بننے کے لئے تعلیم شرط نہیں پھر بینک،پولیس،ریلوے،پی آئی
اے،فوج،ہسپتال اور دیگر سرکاری محکموں میں بھرتی ہونے کے لئے تعلیم شرط
کیوںہے؟پارلیمنٹ پاکستان کا سب سے بڑا سپریم ادارہ ہے جب اُس سپریم ادارے
میں بھرتی ہونے والوں پر پڑا لکھا ہونا لازم نہ ہے تو بند کر دو سارے
سکول،کالج ،یورنیوسٹیاں اور مدرسے ،کیا ضرورت پڑھنے لکھنے کی بن جائے ساری
قوم گدوں کی ٹیم ۔پھر کیوں میرے وطن کا پڑھا لکھا نوجوان کسی جاہل کے در
کاسوالی بنے ۔جاہل آقاﺅں کی غلامی کرنے والوں پر ڈگری یافتہ ہونا کیوں لازم
ہے ،جاہلوں کی جمہوریت کی خوبصورتی تو یہی ہونی چاہئے کہ جیسا جاہل آقاویسے
ہی جاہل غلام ہوں۔یہ کیسی جمہوریت ہے جوپڑھے لکھے باصلاحیت نوجوانوںکو اِن
پڑھ جاہلوں کاغلام بناتی ہے ؟بے شک جمہوریت میں عوام اپنے حکمرانوں
کاانتخاب خود کرتے ہیں لیکن ووٹر کس کو منتخب کرے جب جاہل بل مقابل جاہل
ہو´؟میرے وطن کے باسیواگر غلامی ہی کرنی ہے تو کم از کم اپنے لئے باشرم اور
باغیرت آقا ہی ڈھونڈ لو۔ |