ہمارے ہاں اکثر دانشور اور سیاست دان جمہوریت کے پرجوش حامی ہیں ان کےحلقے کے قلم
کار آئے روز بڑے زور وشور سے پرچار کرتے ہیں کہ بدترین جمہوریت ہی آمریت سے بہتر ہے
آمریت کے حولناک نتائج سے ڈراولے دینا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ انہیں طالبانائزیشن
اور دہشت گردی سمیت بڑے چھوٹے ملکی مسئلے نقصان یا خامی کی کڑیاں گزشتہ عکسری ادوار
سے ملانے میں ملکہ حاصل ہے۔گویا بزور قلم جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔بالکل
اسی طرح آمریت کے ڈسے سیاست دان اپنے نجی مفادات کےتحفظ کو مقدم رکھتے ہوئے جہموریت
کو پٹری سے نہ اتروانے کا عظم مصمم کیے ۔فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سنتے خاموش
تماشائی بنتے ہیں اگرچہ خود معترف بھی ہیں کہ موجودہ نام نہاد ،لولی لنگڑی جمہوریت
بھی پچھلے آمرانہ دور کی عکاس اور شخصی ہے وہ مثاق جمہوریت کے نام پر اقتدار کی
بندر بانٹ اور باہمی کمٹمنٹ کے پابند ہیں۔ خواہ ملک آئی ایم ایف ،امریکہ اور ورلڈ
بینک کی خیرات پر پلے ۔عدالتی احکامات کی دھجیاں بکھریں، کرپٹ وبدعنوان عناصر،
اربوں روپے بنا ڈکار لیے ہضم کر جائیں ٹیکس ناہندگان طبقہ اشرافیہ جونکوں کی ماند
نچلے طبقات کا لہو چوس چوس کر پھلے پھولیں ۔امریکی ڈرونز معصوم قبائیلوں کو تھوک کے
حساب سے شہید کریں ،روٹی کے چار حروف کو ترسی خلقت خود کشیاں کرے، مائیں اپنے بچوں
کو فروخت کریں ،بیرونی دوراندازیوں کے سسب حاکم بدلیں۔ قدرتی وسائل سےمالا مال
بلوچستان ہاتھ سے نکلتا جائے مگر یہ جمہوریت کے نام لیوا جمہوریت کا راگ الاپتے
رہیں گے۔علامہ اقبال نے نااہلوں پر مشتمل ایسے جمہوری ٹولے سے متعلق پہلے فرمایا
تھا کہ گریزاز جمہوری غلام پختہ کارشو۔۔۔۔۔کہ ازمغز دوصدخر فکر انسانے نمی آئد (جمہوریت
سے بچو دوسو گدھوں کے مغز سے ایک انسان کی سوچ پید انہیں ہو سکتی) ۔ حق تو یہ تھا
کہ عوام ماضی سے سبق سیکھے اور آزمودہ فتنوں سے نجات حاصل کر کے ایسی قیادت سامنے
لائے جو ملک میں انقلابی اقدامات کرکے اسے ترقی کی راہوں پرڈالے ۔دراصل تعلیم سے
محروم، جہالت کے اندھیروں میں گم ،روایات کی امین، یکیر کی فقیر، ذہنی غلاموں اور
مریدپن پر مشتمل اکژیتی عوام اپنی حالت بدلنا نہیں چاہیتی اور قران پاک کا فرمان ہے
کہ اللھ تعالی ایسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود بدلنا نہ چاہئے- |