دو سیاسی خبریں اور تبصرئے یوسفی کے ساتھ

ہمیں بچپن سے ہی سیاست کا چسکا لگ گیا تھا، لہذا ہر بات میں سیاست کا دخل ہم اپنی طرف سے کردیتے ہیں۔ تاریخ اور سیاست پسندیدہ موضوع ہیں لیکن طنز مزاح بھی پڑھنے کا شوق ہے ۔ مشتاق احمد یوسفی پسندیدہ مصنف ہیں اسلیے سلسلہ یوسفیہ کے مریدوں میں اپنے آپ کو بھی شمار کرتے ہیں۔ حال ہی میں دو سیاسی خبریں سامنے آیں تو یوسفی صاب یاد آگے۔

پہلی سیاسی خبر
شیخ رشید کے خلاف کسی نے ایک درخواست داخل کی کہ شیخ صاحب نے جھوٹ لکھا ہے، وہ کنوارئے نہیں ہیں بلکہ انہوں نے 1996 میں شادی کی تھی۔ اب یہ تو پتہ نہیں کہ شیخ صاحب نے شادی کی تھی یا نہیں مگر مشتاق احمد یوسفی صاحب نے ضرور کی تھی لہذا اپنی کتاب "زرگزشت" میں ایک مضمون "کراچی کی برسات " میں وہ اپنی شادی کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں۔

بارش اور ایسی بارش ! ایسی بارش ہم نے صرف مسوری میں اپنی شادی کے دن دیکھی تھی کہ پلاؤ کی دیگوں میں بیٹھ کر دلہن والے آ جا رہے تھے خود ہمیں ایک کفگیر پر بیٹھا کر قاضی کے سامنے پیش کیا گیا - پھر نہ ہم نے ایسی حرکت کی ، نہ بادل ایسا ٹوٹ کے برسا ۔ عجب سماں تھا ۔ جدھر دیکھو پانی ہی پانی۔ اس دن سوائے دلہن کی آنکھ کے ہمیں کوئی چیز خشک نظر نہیں آئی۔ہم نے ٹہوکا دیا کہ رخصتی کے وقت دلہن کا رونا رسومات میں شامل ہے ۔ انھوں نے بہت پلکیں ٹپٹپائیں ، مگر ایک آنسو نہ نکلا ۔ پھر کار میں سوار کراتے وقت ہم نے سہرا اپنے چہرے سے ہٹایا ۔ خوب پھوٹ پھوٹ کر روئیں ۔

ہوسکتا ہے شیخ صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہو اگر وہ شادی کرچکے ہیں تو۔
__________________
دوسری سیاسی خبر
سابق صدر پرویز مشرف اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار ہونے کے بجائے اپنے گھر چلے گئے۔ شام کو انکے وکیل احمد رضا قصوری نے فرمایا کہ سابق صدر بہت آرام سے ہیں سگار اور کافی سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ یہ خبر دیکھ کر ہمیں پھر یوسفی صاحب یاد آگے وہ سگار اور کافی کے بارئے میں اپنی کتاب "چراغ تلے" میں ایک مضمون "کافی" میں کچھ یوں کہتے ہیں۔

میں‌نے سوال کیا “آپ کافی کیوں ‌پیتے ہیں؟“
انھوں نے جواب دیا “آپ کیوں‌ نہیں پیتے؟“
“مجھے اس میں‌ سگار کی سی بو آتی ہے۔“
“اگر آپ کا اشارہ اس کی سوندھی سوندھی خوشبو کی طرف ہے تو یہ آپ کی قوتٍ شامہ کی کوتاہی ہے۔“
گو کہ ان کا اشارہ صریحاً میری ناک کی طرف تھا، تاہم رفعٍ شر کی خاطر میں ‌نے کہا
“تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیتا ہوں کہ کافی میں سے واقعی بھینی بھینی خوشبو آتی ہے۔ مگر یہ کہاں کی منطق ہے کہ جو چیز ناک کو پسند ہو وہ حلق میں انڈیل لی جائے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کافی کا عطر کیوں نہ کشید کیا جائے تاکہ ادبی محفلوں میں ایک دوسرے کے لگایا کریں۔“

تڑپ کر بولے “صاحب! میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا، تاوقتیکہ اس گھپلے کی اصل وجہ تلفظ کی مجبوری نہ ہو-----کافی کی مہک سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک تربیت یافتہ ذوق کی ضرورت ہے۔ یہی سوندھا پن لگی ہوئی کھیر اور دُھنگارے ہوئے رائتہ میں ہوتا ہے۔“
میں نے معذرت کی “کُھرچن اور دُھنگار دونوں‌ سے مجھے متلی ہوتی ہے۔“
فرمایا “تعجب ہے! یوپی میں تو شرفا بڑی رغبت سے کھاتے ہیں“۔
“میں نے اسی بنا پر ہندوستان چھوڑا۔“

یہاں ‌مجھے کافی سے اپنی بیزاری کا اظہار مقصود ہے۔ لیکن اگر کسی صاحب کو یہ سطور شراب کا اشتہار معلوم ہوں تو اسے زبان و بیان کا عجز تصور فرمائیں۔ کافی کے طرفدار اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہ بے نشے کی پیالی ہے۔ بالفرضٍ محال یہ گزارشٍ احوال واقعی یا دعویٰ ہے تو مجھے ان سے دلی ہمدردی ہے۔ مگر اتنے کم داموں میں آخر وہ اور کیا چاہتے ہیں؟

عمدہ کافی بنانا بھی کیمیا گری سے کم نہیں۔ یہ اس لیے کہہ رہا ہوں‌کہ دونوں‌کے متعلق یہی سننے میں آیا ہے کہ بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔ ہر ایک کافی ہاؤس اور خاندان کا ایک مخصوص نسخہ ہوتاہے جو سینہ بہ سینہ، حلق بہ حلق منتقل ہوتا رہتا ہے۔ مشرقی افریقہ کے اس انگریز افسر کا نسخہ تو سبھی کو معلوم ہے جس کی کافی کی سارے ضلعے میں دھوم تھی۔ ایک دن اس نے ایک نہایت پر تکلف دعوت کی جس میں اس کے حبشی خانساماں نے بہت ہی خوش ذائقہ کافی بنائی۔ انگریز نے بہ نظر حوصلہ افزائی اس کو معزز مہمانوں‌کے سامنے طلب کیا اور کافی بنانے کی ترکیب دریافت پوچھی۔

حبشی نے جواب دیا “بہت ہی سہل طریقہ ہے۔ میں بہت سا کھولتا ہوا پانی اور دودھ لیتا ہوں۔ پھر اس میں‌کافی ملا کر دم کرتا ہوں۔“
“لیکن اسے حل کیسے کرتے ہو۔ بہت مہین چھنی ہوتی ہے۔“
“حضورکے موزے میں چھانتا ہوں۔“
“کیا مطلب؟ کیا تم میرے قیمتی ریشمی موزے استعمال کرتے ہو؟“ آقا نے غضب‌ ناک ہو کر پوچھا۔
خانساماں‌سہم گیا “نہیں سرکار! میں آپ کے صاف موزے کبھی استعمال نہیں کرتا۔“

کافی امریکہ کا قومی مشروب ہے۔ میں اب بحث میں‌ نہیں الجھنا چاہتا کہ امریکی کلچر کافی کے زور سے پھیلا، یا کافی کلچر کے زور سے رائج ہوئی۔ یہ بعینہ ایسا سوال ہے جیسے کوئی بے ادب یہ پوچھ بیٹھے کہ “غبارٍ خاطر“ چائے کی وجہ سے مقبول ہوئی یا چائے “غبارٍ خاطر“ کے باعث؟ ایک صاحب نے مجھے لاجواب کرنے کی خاطر یہ دلیل پیش کی امریکہ میں تو کافی اس قدر عام ہے کہ جیل میں‌بھی پلائی جاتی ہے۔ عرض کیا کہ جب خود قیدی اس پر احتجاج نہیں کرتے تو ہمیں‌کیا پڑی کہ وکالت کریں۔ پاکستانی جیلوں‌میں‌بھی قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جائے تو انسدادٍ جرائم میں کافی مدد ملے گی۔ پھر انھوں‌ نے بتایا کہ وہاں لا علاج مریضوں کو بشاش رکھنے کی غرض سے کافی پلائی جاتی ہے۔ کافی کے سریع التاثیر ہونے میں کیا کلام ہے۔ میرا خیال ہے کہ دمٍ نزع حلق میں پانی چوانے کی بجائے کافی کے دو چار قطرے ٹپکا دیے جائیں تو مریض کا دم آسانی سے نکل جائے۔ بخدا، مجھے تو اس تجویز پر بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ گناہ گاروں کی فاتحہ کافی پر دلائی جائے۔

آپ کے ذہن میں‌خدانخواستہ یہ شبہ نہ پیدا ہو گیا ہو کہ راقم السطور کافی کے مقابلے میں‌ چائے کا طرف دار ہے تو مضمون ختم کرنے سے پہلے اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا از بس ضروری سمجھتا ہوں‌۔ میں‌کافی سے اس لیے بیزار نہیں ہوں‌کہ مجھے چائے عزیز ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کافی کا جلا چائے بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں‌کہ جنہیں‌چائے کے ارماں‌ہوں‌گے

اب اگرسابق صدرپرویز مشرف تک کافی بنانے کی ترکیب پہنچ گی تو پھر وہ عدالت کی وجہ سے پریشان ہوں یا نہ ہوں مگر اپنے خانساماں سے ضرور پریشان ہونگے اور اپنے موزئے کبھی گندئے نہ ہونے دینگے۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485540 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More