انتخابی دنگل سج گیا

ملک میں الیکشن کا دنگل سج گیا ہے۔ بڑے بڑے ہیوی ویٹ سیاسی پہلوان اکھاڑے میں اتر گئے ہیں، اور ہر طر ف بلے بلے ، آوے ہی آوے کی للکار سنائی دے رہی ہے۔ جلسے ،جلو سوں ، ریلیوں کی بہا ر ہے۔ ایک دنگل ہر شام کو ٹی وی چینلز پر بھی سجتا ہے، جس میں بڑھکیں، للکار، چیلنج، جوش ولولے، کا اظہار زبانی ہوتا ہے۔ جلسوں میں بھی اوے جاگیردارا کی للکار سنائی دے رہی ہے۔ ٹی وی چینیل اپنی مہارت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیمرہ ٹرک، کرینیں، اسنارکل، جلسوں کی کوریج کے لئے استعمال کی جارہی ہے۔ گلی محلوں، میں انتخابی مہیم کے نعرے نہ سنائی دیں، لیکن شوشل میڈیا پر ہر طرح کا نعرہ اور تبصرہ موجود ہے۔ کارٹون میں ہر ایک پر پھبتی کسی جارہی ہے۔ ما ہرین ہر روز اخبارات میں نئے تجزیئے پیش کر رہے ہیں۔ پھر جمہوریت کے ایسے دشمن بھی ہیں جو ہر روز امیدواروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ جاری ہے، بم دھماکے ہورہے ہیں، انتخابی دفاتر کو نشانہ بنایا جارہا ہے، لیکن ہم پاکستانی ہیں ہم تو جیتیں گے۔کا نعرہ لگا کر نوجوان ہلے گلے میں بھی مصروف ہیں۔ موزانہ ہورہا ہے کہ کس کی ریلی کا میا ب ہے مقابلہ ہے کہ کون سب سے زیا دہ بلند و با نگ دعوے سے عوام کا دل جیت پا یا ہے اور بے چا رے عوام سوچ رہے ہیں کہ کس طرف جا ئیں اور کس طرف نہ جا ئیں۔پرکشش دعوے ، دل پر اثر کرنے والے نعرے، نئی نئی آفرز کا لا لچ عوام کو لبھا نے میں مصروف ہے۔ منشور کے نام پر پھر دلفریب وعدے ہیں۔ کو ئی دعوہ کر رہا ہے کہ ہما را ساتھ دیںفا ئدے میں رہیں گے ۔ کسی پا رٹی کا بیان ہے لو ڈ شیڈنگ کے خاتمے کے سا تھ روزگار فری ،کسی کا پیکج ہے کہ جو ہوگیا سو ہوگیا روٹی کپڑا مکان ہم ہی دیں گے۔ کوئی تعلیم ، صحت ،مکا ن اور مہنگا ئی سے بے فکر ہو جا نے کی دھائی دے رہا ہے۔ پیشہ ور سیاست دان چیخ چیخ کرجلسوں میں عوام کو اپنی صفا ئی و دیا نت کے قصے سنا رہے ہیں۔ کئی لیڈروں کو اپنی سیاسی صلا حیتوں پر بہت اعتماد اور غرور ہے قوم کا غم ابھیں ما رے ڈال رہا ہے جو حکو مت میں ہیںوہ تو عوام کو کو ئی ریلیف نہ دے سکیں اور جو اپو زیشن میںہیں وہ بھی لو ڈ شیڈنگ ، کر پشن ، دہشت گر د ی ، مہنگا ئی کے خلا ف ریلیاں نکا ل کر عوام کے سامنے مظلومیت کا نا ٹک کر رہی ہیں ایک کے بعد ایک سیا سی جلو س جلسے نکل رہے ہیں الیکشن سے پہلے ایک نئے سیاسی دنگل کا اہتما م ہے۔دوسری جا نب عوام منگائی سے بلبلہ رہے ہیں۔ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ کون دوست اور کون دشمن ہے۔ انقلاب سرخ اور سبز کے بجائے ، ایک نعرہ ہے ۔ جو سب لگا رہے ہیں لیکن کسی کو نہ اس کے معنی پتہ ہیں نہ اس کی روح سے واقف ہیں۔ نو جوانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر جب یہ نو جو ان نو کریوں کی تلا ش میں نکلتے ہیں تو نو ویکنسی کا بورڈ ان کا منہ چڑارہا ہو تا ہے قوم کے ان ہو نہا روں کی بے بسی افسو س نا ک ہے۔ پرچی سفارش نے ان کی امیدوں کے چراغ گل کر دیئے ہیں۔ نو جو اں گلو کا ر پا کستا ن کی منفی سیا ست اور معا شرے میں دن بد ن پھیلتی بر ائیوں ، محرومیوںاورمجبو ریوںسے بے زار عوام کے لیے گا نوں میں دل کی بھڑاس نکا ل رہے ہیں۔ سیا ست اور سیا ست دان سے عوامی بے زاری اب کوئی ڈھکی چھپی با ت نہیں لیکن پھر با ت وہیں پر اٹک جا تی ہے کہ جا ئیں کہا ں کس کا ساتھ دیں حکو مت سے نا لاں ہیں تو دوسری جا نب بھی تو وہی لو گ ہیں ایک چہرے پر کئی چہرے لگا ئے ہو ئے لوگ اب یہ مو من کیا کرئے کہ ایک با ر ڈسنے کے بعد بھی ڈسوانے کو دوسرا سو را خ نظر نہیں آتا کہا ں سے لا ئیں ایسا لیڈر جو قوم کو قا ئد اعظم ، مہا تیر یا طبیب اردگا ن بن کر ان مشکلوں سے خلا صی دلا سکیں ایسا لیڈر جوخوش نما لبا سوں اور شا ندار محلو ں میں رہنے کے بجا ئے عوام کی فکر کر ئے جو حرام ما ل کھا کر اپنی قوم کو بھی حرام ما ل کھا نے کی عا دت نہ ڈالے جو اپنی علم وذہا نت مکر و فریب اور سا زشوں کیلئے ،عقل و فکر کو شر ارت کیلئے ، دولت کو ایمان خریدنے کیلئے اور ھکومت کو ظلم و جبر کے لیے کیلئے استعما ل نہ کر ئے۔ جوعوام کیلئے ترقی کر نے کے تما م راستوں پر رشوت ، جھوٹ ، خو شامد اور سازش کے کا نٹے نہ بچھا دے۔ سڑکوں اور شاراہوں پر بڑے بڑے ہورڈنگ ، بینرز، وال چاکنگ، فیکسز کی صورت میں چہرہ شناسی اور اعتماد سازی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ کئی سیاسی و مذہبی جماعتیں میدان میں باقاعدہ ا ±تر چکی ہیں اور جلسوں کے ذریعے عوامی رابطہ مہم بھی شروع کرچکے ہیں،لیکن اب بھی عوام شکوک و شبہات کا شکار ہیں ، بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے سوال اٹھا دیا ہے کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں ایکشن کے التوا اور موجودہ سیٹ اپ جاری رکھنے کی باتیں بھی کئی زبانوں سے جاری ہیں۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مارچ میں حکومت کی مدت تمام ہونے کے بعد نگران سیٹ اپ لمبی مدت کیلئے ہو سکتا ہے۔

سیاست دان اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ الیکشن ہوجے چایئے اور شیڈول کے مطابق ہوں۔ اسی لئے الیکشن کی تیاریاں عروج پر ہیں، ملکی مخدوش امن و امان کی صورتحال، جنوبی پنجاب صوبہ کی مہم اور دیگر نئے نئے چیلنجز کو دیکھ کر کئی ایسی پیشن گوئی بھی کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ منظم طریقہ سے کیا جا رہا ہے اور اس کا واحد مقصد الیکشن کا التوا کروانا ہے۔ موجودہ حالات میں عوامی مہم کسی بھی جماعت کے لئے چلانا ممکن نہیں رہا۔ PPP کو جلسے کرنا مشکل ہے تو ان کے پاس شہید بھٹو خاندان کے تقریروں کے سوا کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے ناقدین موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر سخت نالاں ہیں۔ لیکن وہ بھی کوئی ایسی بھرپور مہم چلانے سے قاصر ہیں کہ عوام کو وہ آئینہ نہ دکھا سکیں جو دکھانا چاہتے ہیں۔ پنجاب میں نگراں سیٹ اپ کے بعد باقاعدہ طور پر انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے۔ اب کارنر میٹنگز سجیں گی۔ ووٹرز کی آؤ بھگت ہوگی۔ ناراض ووٹرز کی منتیں ترلے کیے جائیں گے اور جوں جوں پولنگ ڈے قریب آتا جائے گا فضاؤں میں ہر طرف آوے ہی آوے۔۔۔۔ جیتے گا بھئی جیتے گا۔۔۔ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو، اور سات ترازو تول کے ویکھو، ساڈا پلہ بھاری ہے، کے نعروں کی گونج سنائی دے گی۔

انتخابی مہم کی یہ گہماگہمی ہر ملک کے الیکشن میں ہوتی ہے۔ لیکن ایسی مارا ماری بھی کسی اور ملک میں نہیں ہوتی۔ جیسی یہاں جاری ہے۔ ووٹرز کو لبھانے، انہیں اپنے جلسوں میں لانے اور پولنگ ڈے پر اپنے حق میں ووٹ ڈلوانے کے نت نئے طریقے اور حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ جلسوں میں کرسیاں، کھانے ، اور لانے لے جانے کی سہولت مفت فراہم کی جارہی ہے۔

سیاسی جماعتیں اس مقصد کے لیے مختلف ترغیبات کا بھی سہارا لے رہی ہیں۔ انتخابی عمل میں نسلی، لسانی، قومیت، مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنا ہماری اقدار کا حصہ بن چکی ہیں جس نے انتخابی ماحول کو پراگندہ کر دیا ہے، وہیں ووٹرز کے انتخابی عمل پر اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔الیکش میں سرمائے کا بے دریغ استعمال، نسلی، گروہی، لسانی و فرقہ وارانہ نعرے، اسلحے کی کھلے عام نمائش الیکشن کمیشن کی ہدایات اور قوانین کا مذاق اڑا رہی ہے۔ ہمارا انتخابی عمل شفاف نہیں ہے، ماضی کی داستانیں ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی ، بھٹو کی دھاندلی سے لے کر مشرف کے ٹھپہ الیکشن تک سب اندیشوں کا شکار ہیں۔ 65 سالہ تاریخ میں بار بار کی فوجی مداخلت اور جمہوری حکم رانوں کے غیرجمہوری رویوں کے باعث جمہوریت صحیح معنوں میں پنپ نہیں سکی اور عام آدمی اس کے ثمرات سے محروم رہا۔

انتخابی عمل کے دوران سرمائے کی ریل پیل، برادری ازم، گروہی و لسانی تفریق اب بھی الیکشن جیتنے کے لیے اہم ہتھیار سمجھے جاتے ہیں۔ نظریاتی بنیادوں پر عوام میں جانا اور ان سے اپنی انتخابی مہم کے لیے ووٹ کی اپیل ایک خواب ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ٹکٹوں کی خرید و فروخت نے عام آدمی کے لیے انتخابی اکھاڑے میں اترنا ایک خواب بنا دیا ہے۔ عام آدمی ووٹ تو ڈال سکتا ہے، سیاسی جماعتوں کے نعرے اور پوسٹرز بھی لگا سکتا ہے لیکن امیدوار بننا اور ووٹ لینا اس کے بس کی بات نہیں۔ اس تمام تر صورت حال کا فائدہ معاشرے کی ان کالی بھیڑوں کو بھی ہوتا ہے جن کے پاس نہ کردار ہے اور نا ہی قابلیت، لیکن وہ اپنے سرمائے کی طاقت سے الیکشن جیت کر سیاست کو اپنے کاروبار کے فروغ کے لیے استعمال کر تے ہیں۔ اب سیاسی جماعتیں بھی نظریات اور جماعتی وابستگی سے قطع نظر ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دینا اولین ترجیح سمجھتی ہیں جو اپنی انتخابی مہم میں وافر سرمایہ لٹانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے رواں سالی جو انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے اس کے مطابق قومی اسمبلی کا امیدوار 15 لاکھ اور صوبائی اسمبلی کا امیدوار 10 لاکھ روپے تک رقم اپنی انتخابی مہم پر خرچ کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی شرط رکھی گئی ہے کہ ہر امیدوار بینک اکاؤنٹ کھلوا کر انتخابی اخراجات کی رقم اس میں جمع کرائے گا اور وہ انتخابی مہم کے اخراجات اسی اکاؤنٹ سے ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ لیکن عملی طور پر کیا ہورہا ہے، یہ سب کے سامنے ہے۔ الیکشن کمیشن کے یہ ضابطہ خوش آئند دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ان ضوابط پر عمل درآمد تسلی بخش دکھائی نہیں دیتا۔ ابھی سے ہی سیاسی جماعتوں نے اخراجات کی شق پر سوالات اٹھانا شروع کر دیے ہیں اور بعض جماعتوں نے تو ان شقوں کو زمینی حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ہمیں جاپان سے سبق سیکھنا چاہیئے جہاں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے نہ ہی بڑے بڑے اسٹیج بنائے جاتے ہیں اور نہ ہی کارکنوں کو ان جلسوں میں شرکت کا پابند کیا جاتا ہے۔ امیدوار اپنے ایک دو ساتھیوں کے ساتھ کسی چوراہے پر کھڑا ہوجاتا اور میگا فون کے ذریعے راہ چلتے لوگوں سے ووٹ کی درخواست کرتا ہے۔

دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ بھلا یہ کس طرح الیکشن جیت سکتا ہے؟ لیکن وہی شخص بعدازاں اقتدار کی کرسی پر براجمان نظر آتا ہے۔ الیکشن والے دن نہ ہی چھٹی ہوتی ہے اور نہ ہی دیگر معمولات زندگی متاثر ہو تے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں الیکشن میں بے دریغ دولت نہیں لٹا سکتیں اور نہ ہی کوئی امیدوار اپنا بینر کسی سرکاری عمارت یا سرکاری پول پر باندھ سکتا ہے، بلکہ اس قسم کے بینر آویزاں کرنے کی روایت ہی نہیں۔
جاپان میں خفیہ طور پر سیاسی فنڈ وصول کرنا غیرقانونی سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنی مہم کے اخراجات کے لیے فنڈریزنگ کرتی ہیں مگر جبراً نہیں بلکہ صرف پارٹی کے افراد سے یہ چندہ لیا جاتا ہے۔ البتہ بڑی بڑی ایسوسی ایشنز بھی چندہ دیتی ہیں، مگر ان کا ریکارڈ کسی طرح خفیہ نہیں ہوتا۔ ان ایسوسی ایشنز کے چندہ دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کی پسندیدہ جماعت برسراقتدار آکر ایسی معاشی پالیسیاں ترتیب دے جن سے ان کے کاروبار کو مزید وسعت حاصل ہو سکے۔

پاکستان میں گذشتہ ایک عشرے کے دوران ہونے والی ذرائع ابلاغ کی ترقی نے کسی حد تک لوگوں میں یہ شعور بیدار کرنے کی کوشش ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے استعمال میں سرمائے اور برادری ازم سے قطع نظر نظریے کو معیار بنائیں۔ ان لوگوں کو ووٹ دیں جو بھلے ہی غریب ہوں لیکن آپ کے مسائل کا نہ صرف ادراک رکھتے ہوں بلکہ انہیں حل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ماضی قریب میں کچھ ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں جب غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نے غربت اور تنگ دستی کے باوجود انتخابی عمل میں حصہ لیا اور بھرپور انتخابی مہم چلائی۔انتخابی مہم کی بات ہو اور اس میں جلسے جلوس اور ریلیوں کا ذکر نہ ہو تو بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے مخالفین پر اپنی طاقت کے اظہار کا فارمولا آج بھی اتنا ہی کارگر ہے جتنا ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ اگرچہ گذشتہ ایک عشرے سے جاری بدامنی کے باعث سیاسی جماعتوں نے خود کو عوام سے دور کرکے بڑی حد تک الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا تک محدود کر دیا ہے لیکن ان تمام خطرات کے باوجود کوئی بھی جماعت اپنی انتخابی مہم میں جلسوں کی اہمیت کو نظر اندازکرنے پر تیار نہیں۔ آج بھی پنڈال سج رہے ہیں۔ جلسوں میں لوگ شرکت بھی کر رہے ہیں اورہر سیاسی جماعت اپنے جلسے کو دوسروں کے جلسوں سے بڑا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔

ماضی میں سیاسی جلسوں میں ایک طرف سیاسی قوت کا اظہار ہوتے تو دوسری طرف ان میں عام آدمی کی تفریح کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ کوئی قیمے والے نان کھلا کر حمایت حاصل کرنا چاہتا، تو کسی نے فی بندہ وظیفہ مقرر کر رکھا ہوتا۔ کوئی پنڈال میں حقیقی شیر لا کر لوگوں کا دل بہلاتا تو کوئی ڈھول کی تھاپ اور ”بجاں تیر بجاں“ جیسے نغموں کی پرکیف موسیقی سے حاضرین کا لہو گرماتا رہا ہے۔ الغرض موسیقی انتخابی جلسوں کی جان ہوا کر تی ہے۔

سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کے لیے خصوصی گیت تیار کر واتی ہیں۔ موجودہ دور میں اس رجحان میں جدت آئی ہے۔ اب جلسوں میں سیاسی گیتوں کے بجائے انقلابی گیت گائے جاتے ہیں۔ ڈھول کی تھاپ سے زیادہ میوزیکل بینڈز اور ایکو ساؤنڈ کی مدد لی جا رہی ہے۔ وقت کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے مذہبی جماعتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ایک سیاسی جماعت نے تو جلسے میں کارکنوں کو محظوظ کرنے کے لیے خصوصی طور پر مزاحیہ شاعری کا بندوبست کیا تھا۔انتخابی مہم میں میڈیا کا کردار ماضی کے انتخابات سے قطع نظر اس مرتبہ رائے عامہ کی تشکیل کے لیے میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا اہم کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔ ملک کے طول وعرض تک اپنا پیغام بہ آسانی پہنچانے کے لیے یہ ایک اہم ہتھیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایک طرف جہاں اشتہاری مہم کے ذریعے سیاسی راہ نماؤں کی امیج بلڈنگ کی جا رہی ہے وہیں دوسری طرف سوشل میڈیا کے لیے نوجوان بھی بھرتی کیے جا رہے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے خصوصی طور میڈیا سیل قائم کیے گئے ہیں جو میڈیا پر اپنا پیغام زیادہ سے زیادہ پھیلانے اور مخالفین کو اپنی طرف راغب کرنے کی تگ ودو میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں۔ ماضی کے برعکس اس مرتبہ امیدواروں کو اپنی مہم میں بہت زیادہ احتیاط کر نا ہوگی، کیوں کہ ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر جملہ نہ صرف کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہو کر دنیا تک پہنچ رہا ہوگا بلکہ بالفرض اگر کبھی وہ اپنی بات سے مکر گئے تو ویڈیو ان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ہماری سیاست میں کارکنوں کی آپس کی لڑائیاں، کھانے پر جھپٹنا، اسلحے کی نمائش، سیاسی راہ نماؤں کے مخالف امیدواروں پر ذاتی حملے ہماری انتخابی سرگرمیوں کا معمول ہیں۔ہم سے اچھے تو بھارت والے ہیں جو انتخابی مہم لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بولی وڈ اور کرکٹ سپر اسٹارز کی خدمات حاصل کر تے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں لوگوں کو محظوظ کرنے کے لیے شاہ رخ خان کے دل کش ڈانس اور عامر خان کی جلسوں میں شرکت نے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ ہمارے یہا ں مسلم لیگ ق نے منشور کا اعلان کرتے ہوئے مجرا کرایا تھا ، جو چوہدری برادران کے گلے پڑ گیا۔ بھارت میں انتخابی نشان قرار دیے جانے والے جانوروں کو جلوسوں میں لے کر چلنے اور انھیں پنڈال میں لانے کا رواج بھی رہا ہے، مگر اب ایسا کرنے پر پابندی عاید کردی گئی ہے اس بار الیکشن میں نئی نئی اصطلاحیں استعمال ہو رہی ہیں۔ ان میں عمران خان کا سونامی اور ایک بال سے دو وکٹیں لینے کے دعوے شامل ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ کپتان اب تک کرکٹ کی دنیا سے باہر نہیں نکلا۔ پیپلز پارٹی نے لفظوں کے مفہوم کو ہی تبدیل کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے چور کی اصطلاح کو عام کیا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اسلام آباد کی ایک تقریب میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چور چور کے نعرے نے سب کو چور بنا دیا ہے۔ ان کی اس تقریر کے بعد ہر طرف چور کے محاوروں اور نغموں کی بہار آگئی ہے۔ اور”چور مچائے شور“ کا محاورہ بھی عام ہو گیا ہے۔ موجودہ حالات میں عوام خوف کا شکار ہیں ، خیال ہے کہ ووٹنگ کا تناسب کم رہے گا، اللہ یہ انتخابات خیریت سے کر ا دے ، تاکہ ملک کے عوام خوشیاں اور پرامن انداز میں تبدیلی لا سکیں۔ سیاسی جماعتوں نے ٹکٹوں کی بندر بانٹ جس انداز سے کی ہے اس نے لوگوں کو مایوس کیا ہے اور وہ تبدیلی سے مایوس ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ملک پر چند سو سرمایہ دار جاگیردار خاندانی الیکشن باز ہی مسلط رہیں گے۔ یورپی جمہوری ممالک میں ہر سیاسی جماعت کے ٹکٹ کا فیصلہ ہر حلقہ کے پارٹی کارکن کثرت رائے سے کرتے ہیں، بے شک وہ کوئی عام آدمی ہو۔ لیکن پاکستان میں ہر بڑی سیاسی و مذہبی سیاسی جماعت پر ایک ہی سیاسی خاندان کا آمرانہ قبضہ ہے۔ ان سیاسی آمروں نے ہر حلقہ پر ایک موروثی سیاسی الیکشن باز خاندان کا قبضہ کروایا ہوا ہے۔ ان کے علاوہ کسی عام کارکن کو ٹکٹ مل ہی نہیں سکتا۔ یہ کہاں کی جمہوریت ہے؟ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں اب بھی اسی جمہوریت سے سابقہ ہے، جس کا نعرہ ہے کہ جمہوریت عوام سے بدترین انتقام ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418717 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More